نتائج تلاش

  1. م

    ایک غزل برائے تنقید، اصلاح، تبصرہ،'' حسن اُس کا کمال، شب، توبہ''

    آپ پکی میں ہیں ، میں تو کچی میں ہوں ابھی تک نا :)
  2. م

    ایک غزل برائے تنقید، اصلاح، تبصرہ،'' حسن اُس کا کمال، شب، توبہ''

    ویسے اگر کچھ نشاندہی آپ بھی فرما دیتے تو مضایقہ نہیں تھا
  3. م

    ایک غزل برائے تنقید، اصلاح، تبصرہ،'' حسن اُس کا کمال، شب، توبہ''

    اُستاد محترم، بھول جاتا ہوں پر تعنت کیوں گویا کہ میں بھول جاتا ہوں لیکن اس پر تعنہ مارنے کی ضرورت نہیں سوچتے کب یہ عمر ہو گزرے سوچتے سوچتے یہ عمر گزر جاٴے گی ’شب توبہ‘، اصل میں﴿ شب، توبہ ﴾ہے
  4. م

    ایک غزل برائے تنقید، اصلاح، تبصرہ،'' حسن اُس کا کمال، شب، توبہ''

    حسن اُس کا کمال، شب، توبہ وصل، عشوہ، وصال، سب توبہ زلف کھولی، نہا کے جب نکلے توبہ توبہ، ہوا غضب، توبہ ناز، چتوں ، جمال چہرے کا تھے بہکنے کے سب سبب، توبہ بھول جاتا ہوں پر تعنت کیوں آخری بار کی تھی کب توبہ سوچتے کب یہ عمر ہو گزرے تب کروں گا، کروں گا اب توبہ میں نے اک بار پھر...
  5. م

    ہمارے حال سے وہ بے خبر ہے کیا کہیے

    ہمارے حال سے وہ بے خبر ہے کیا کہیے تمام شہر شناسا مگر ہے کیا کہیے نہ صحنِ گل نہ دریچے کہ وا ہوں گلشن میں یہ ریگ زار ہمارا ہی گھر ہے کیا کہیے میں کائنات کی پہنائیوں میں گم ہوں خلیلؔ سفر کہیں کا، کہیں پرحضر ہے کیا کہیے واہ واہ واہ بہت خوب جناب
  6. م

    حسین ابن علی ّ کیا مقام ہے تیرا! ۔۔ ایک منقبت بغرض تنقید

    مثال بن گئی قبرِ یزید عبرت کی ترا ہے نام، زمانہ غلام ہے تیرا سبحان اللہ، بہت خوب اصل میں ذہنوں کی بات ہے ، لوگ سمجھتے ہیں کہ تیرا کہنا عیب ہے جبکہ میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ جہاں جہاں رشتہ پیار کا ہو وہاں تیرا زیادہ بہتر ہے۔۔ قربت کا احساس ہوتا ہے اور امام عالی مقام سے قربت تو ہم مسلمانوں...
  7. م

    ایک غزل تنقید و راہ نمائی کے لیے،'' تُم یا تُو نہیں بولا، بات آپ ہی تک ہے ''

    بلکہ اگر مطلع یوں کہیں تو کیسا رہے گا جناب راستہ محبت کا، چل کہ آپ ہی تک ہے اور جو ہے سب جاناں، صرف دل لگی تک ہے خوف کیا دلاتے ہو، رات کے اندھیروں سے رات کیا بگاڑے گی، وہ تو روشنی تک ہے کیوں تُو ظلم سہتا ہے، اور چپ ہی رہتا ہے ظالموں کا بس تجھ پر ، تیری خامشی تک ہے وقت ہے جو ہاتھوں...
  8. م

    ایک پاکستانی - نظم برائے اصلاح

    مرے ابا کمر جن کی وزن سے جهک چکی تهی وہ مری اماں کو اپنے خان کی جهوٹن تهماتے تهے.. وہ اسکو گهول کر پانی میں ترکاری بناتی تهیں.. مری بہنا وہ کهاتی تهی..
  9. م

    کسی صورت نہیں رکتا ہے یہ دل - برائے اصلاح

    اگر یہ تھوڑی سی مشق ہے تو ؟؟؟؟؟ بہت چنگی ہے جی
  10. م

    ایک غزل تنقید و راہ نمائی کے لیے،'' تُم یا تُو نہیں بولا، بات آپ ہی تک ہے ''

    یوں دیکھ لیجیے جناب تُم یا تُو نہیں کہتے، بات آپ ہی تک ہے کیا معاملہ سارا۔ صرف دل لگی تک ہے خوف کیا دلاتے ہو، رات کے اندھیروں سے رات کیا بگاڑے گی، وہ تو روشنی تک ہے کیوں تُو ظلم سہتا ہے، اور چپ ہی رہتا ہے ظالموں کا بس تجھ پر ، تیری خامشی تک ہے وقت ہے جو ہاتھوں میں، اُس کو مت نکلنے...
  11. م

    ایک غزل اصلاح، تنقید اور رہنُماءی کی غرض سے ،'' محبت میں دغا کرنے کا سوچو ، تو بتا دینا ''

    یوں کہیں تو اُستاد محترم؟ محبت میں دغا کرنے کی سوچو ، تو بتا دینا ہمیں خود سے جدا کرنے کی سوچو ، تو بتا دینا بہت ہیں سنگ دل، کافر ادا چہروں کے یہ مالک کسی بت کو خدا کرنے کی سوچو، تو بتا دینا کروں میں کیا، دلِ ناداں، اسیری پر ہی مائل ہے جو زلفوں سے رہا کرنے کی سوچو، تو بتا دینا مصیبت ہے،...
  12. م

    ہلکی پھلکی سی ایک غزل، تنقید و راہنمائی کے لیے،'' ذرا فراغ ملے، میری داستاں لکھنا''

    ایک تبدیلی ذرا فراغ ملے، میری داستاں لکھنا لگے ہیں زخم نہ جانے کہاں کہاں لکھنا بچا نہ کچھ بھی مرے پاس ، میں نے لکھا تھا بکھر گئے ہیں وہ پنے یہاں وہاں لکھنا وہی ہے میری محبت، مرا سکوں لکھ کر اُسی کو جان بھی لکھنا مرا جہاں لکھنا وہی تھا در بھی تو دیوار بھی وہی لیکن کہاں گیا جو بنایا تھا...
  13. م

    ایک غزل تنقید و راہ نمائی کے لیے،'' تُم یا تُو نہیں بولا، بات آپ ہی تک ہے ''

    تُم یا تُو نہیں کہتے، بات آپ ہی تک ہے پھر بھی اپنے ناتے میں، کچھ تو عاشقی تک ہے خوف کیا دلاتے ہو، رات کے اندھیروں سے رات کیا بگاڑے گی، وہ تو روشنی تک ہے کیوں تُو ظلم سہتا ہے، اور چپ ہی رہتا ہے ظالموں کا بس تجھ پر ، تیری خامشی تک ہے وقت ہے جو ہاتھوں میں، فائدہ اُٹھا لیجیے زندگی کا کیا...
  14. م

    ایک غزل تنقید و راہ نمائی کے لیے،'' تُم یا تُو نہیں بولا، بات آپ ہی تک ہے ''

    جی تبدیل کیے دیتا ہوں، ایسے دیکھیے تو تُم یا تُو نہیں کہتے، بات آپ ہی تک ہے پھر بھی اپنے ناتے میں، کچھ تو عاشقی تک ہے خوف کیا دلاتے ہو، رات کے اندھیروں سے رات کیا بگاڑے گی، وہ تو روشنی تک ہے کیوں تُو ظلم سہتا ہے، اور چپ ہی رہتا ہے ظالموں کا تجھ پر بس، تیری خامشی تک ہے وقت ہے جو...
  15. م

    ایک غزل تنقید و راہ نمائی کے لیے،'' تُم یا تُو نہیں بولا، بات آپ ہی تک ہے ''

    بہت شکر گزار ہوں جناب اس قدر تفصیل سے روشنی ڈالی آپ نے، کچھ تبدیلیاں کی ہیں ، دیکھیے تو تُم یا تُو نہیں کہتے، بات آپ ہی تک ہے پھر بھی اپنے ناتے میں، کچھ تو عاشقی تک ہے خوف کیا دلاتے ہو، رات کے اندھیروں سے کیا بگاڑ لے گی وہ، رات روشنی تک ہے ظلم جو بھی سہتے ہیں، پھر بھی کچھ نہیں کہتے...
Top