نتائج تلاش

  1. نوید صادق

    انتخابِ محبوب خزاں

    دام ہزاروں دل کے لئے کون چلا منزل کے لئے دل لے کر اب جائیں کہاں دنیا چھوڑی دل کے لئے
  2. نوید صادق

    انتخابِ محبوب خزاں

    ایک محبت کافی ہے باقی عمر اضافی ہے کہتا ہے چپکے سے یہ کون " جینا وعدہ خلافی ہے"
  3. نوید صادق

    انتخابِ محبوب خزاں

    یہ دلنواز اداسی، بھری بھری پلکیں ارے، ان آنکھوں میں کیا ہے، سنو، دکھاؤ مجھے
  4. نوید صادق

    انتخابِ محبوب خزاں

    دیکھو، دنیا ہے، دل ہے اپنی اپنی منزل ہے
  5. نوید صادق

    انتخابِ محبوب خزاں

    چاہی تھی دل نے تجھ سے وفا کم بہت ہی کم شائد اسی لئے ہے گلہ کم بہت ہی کم تھے دوسرے بھی تیری محبت کے آس پاس دل کو مگر سکون ملا، کم، بہت ہی کم جلتے سنا چراغ سے دامن ہزار بار دامن سے کب چراغ جلا، کم بہت ہی کم یوں مت کہو، خزاں کہ بہت دیر ہو گئ ہیں آج کل وہ تم سے خفا کم، بہت ہی کم
  6. نوید صادق

    انتخابِ محبوب خزاں

    حال ایسا نہیں کہ تم سے کہیں ایک جھگڑا نہیں کہ تم سے کہیں زیرِ لب آہ بھی محال ہوئی درد اتنا نہیں کہ تم سے کہیں سب سمجھتے ہیں اور سب چُپ ہیں کوئی کہتا نہیں کہ تم سے کہیں کس سے پوچھیں کہ وصل میں کیا ہے ہجر میں کیا نہیں کہ تم سے کہیں اب خزاں یہ بھی کہہ نہیں سکتے تم نے پوچھا نہیں کہ...
  7. نوید صادق

    انتخابِ محبوب خزاں

    تم بہت دور ہو، ہم بھی کوئی نزدیک نہیں دل کا کیا ٹھیک ہے، کم بخت ٹھہر جائے کہاں رخِ صحرا ہے خزاں گھر کی طرف مدت سے ہم جو صحرا کی طرف جائیں تو گھر جائے کہاں
  8. نوید صادق

    انتخابِ محبوب خزاں

    حسرتِ آب و گِل دوبارہ نہیں دیکھ، دنیا نہیں، ہمیشہ نہیں سادہ کاری، کئ پرت، کئ رنگ سادگی اک ادائے سادہ نہیں حالِ دل اتنے پیار سے مت پوچھ حال آئندہ ہے، گزشتہ نہیں میں کہیں اور کس طرح جاؤں تو کسی اور کے علاوہ نہیں اے ستارو! کسے پکارتے ہو اس خرابے میں کوئی زندہ نہیں کبھی ہر سانس...
  9. نوید صادق

    متاعِ حاصلِ یک لحظہء وصالِ دوست ----- نوید صادق

    یہ غزل غالبا" 2001ء کی ہے۔ سببِ نزول بھی کبھی ملنے پر بتا دوں گا۔ :) ًً
  10. نوید صادق

    متاعِ حاصلِ یک لحظہء وصالِ دوست ----- نوید صادق

    آپ نے صحیح پکڑا۔ پائمالِ دوست ہی ہے۔ جلدی میں لکھا گیا۔اوپر غزل میں درست کر چھوڑا ہے۔ شکریہ
  11. نوید صادق

    یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں

    بہت خوب اعجاز بھائی۔
  12. نوید صادق

    متاعِ حاصلِ یک لحظہء وصالِ دوست ----- نوید صادق

    غزل متاعِ حاصلِ یک لحظہء وصالِ دوست دہانِ زخمِ طلب، سربسر جمالِ دوست عجیب رنگ ---- سرِ طاسِ خوئے بے خبری عجیب حال ---- سرِ راہِ پائمالِ دوست میں دھڑکنوں میں سمیٹوں کہ نذرِ خواب کروں یہ رنگ رنگ جھلک، موجِ مستِ حالِ دوست شعورِ صبحِ قیامت کسی کو ہو تو ہو ہمیں عزیز شب و روز و ماہ و...
  13. نوید صادق

    انتخابِ محبوب خزاں

    جنوں سے کھیلتے ہیں، آگہی سے کھیلتے ہیں یہاں تو اہلِ سخن آدمی سے کھیلتے ہیں تمام عمر یہ افسردگانِ محفلِ گُل کلی کو چھیڑتے ہیں، بے کلی سے کھیلتے ہیں جو کھیل جانتے ہیں اُن کے اور ہیں انداز بڑے سکون، بڑی سادگی سے کھیلتے ہیں خزاں کبھی تو لکھو ایک اس طرح کی غزل کہ جیسے راہ میں بچے خوشی سے...
  14. نوید صادق

    انتخابِ محبوب خزاں

    تیری ہی طرح اب یہ ترے ہجر کے دن بھی جاتے نظر آتے ہیں مگر کیوں نہیں جاتے اب یاد کبھی آئے تو آئینے سے پوچھو محبوب خزاں شام کو گھر کیوں نہیں جاتے
  15. نوید صادق

    انتخابِ محبوب خزاں

    سنبھالنے سے طبیعت کہاں سنبھلتی ہے وہ بے کسی ہے کہ دنیا رگوں میں چلتی ہے تمام آنکھوں میں آنسو ہیں، کیسے ہوتے ہیں وہ لوگ جن کے لئے زندگی بدلتی ہے تمہیں خیال نہیں، کس طرح بتائیں تمہیں کہ سانس چلتی ہے، لیکن اداس چلتی ہے
  16. نوید صادق

    انتخابِ محبوب خزاں

    دنیا کے روگ جھیلئے کمرے میں بیٹھ کر کھڑکی کے پاس جائیے، حسرت خریدئیے
  17. نوید صادق

    انتخابِ محبوب خزاں

    آئینے کہتے ہیں اس خواب کو رسوا نہ کرو ایسے کھوئے ہوئے انداز سے دیکھا نہ کرو کیسے آ جاتی ہے کونپل پہ یہ جادو کی لکیر دن گزر جاتے ہیں، محسوس کرو یا نہ کرو
  18. نوید صادق

    انتخابِ محبوب خزاں

    محبت کو گلے کا ہار بھی کرتے نہیں بنتا کچھ ایسی بات ہے، انکار بھی کرتے نہیں بنتا بھنور سے جی بھی گھبراتا ہے، لیکن کیا کیا جائے طوافِ موجِ کم رفتار بھی کرتے نہیں بنتا اسی دل کو بھری دنیا کے جھگڑے جھیلنے ٹھہرے یہی دل جس کو دنیا دار بھی کرتے بھی نہیں بنتا جلاتی ہے دلوں کو سردمہری بھی...
  19. نوید صادق

    انتخابِ محبوب خزاں

    پھر وہی انتظار کی زنجیر رات آئی، دئے جلانے لگے حال، احوال کیا سنائیں تمہیں سب ارادے گئے، ٹھکانے لگے منزلِ صبح آ گئی شائد راستے ہر طرف کو جانے لگے
  20. نوید صادق

    انتخابِ محبوب خزاں

    پلکوں پر حسرت کی گھٹائیں، ہم بھی پاگل تم بھی جی نہ سکیں اور مرتے جائیں، ہم بھی پاگل تم بھی خواب میں جیسے جان چھڑا کر بھاگ نہ سکنے والے بھاگیں اور وہیں رہ جائیں، ہم بھی پاگل تم بھی
Top