غم و غصہ بجا ہے۔ سو سے زائد معصوم بچوں کی شہادت کوئی معمولی بات نہیں۔ اور نہ ہی اسکا کوئی جواز پیش کیا جا سکتا ہے۔ البتہ جو لوگ اس سانحہ کو طالبان کی حمایت کیلئے استعمال کر رہے ہیں وہ محض پروپگنڈہ ہے۔ عوامی غم و غصے کو طالبنائز کرنا انکا پرانا وطیرہ ہے۔ ایک طرف سے ہوئی انسانیت سوزی کو دوسری طرف...
یہ تو تفتیش کے بعد پتا چلے گا کہ آیا افغان فورسز کو معلوم تھا کہ وہاں سو سے زائد بچے موجود ہیں یا نہیں۔ خود ہی سوچ لینا کہ ان کو معلوم تھا اور جان بوجھ کر بچے شہید کر دئیے محض پروپیگنڈہ ہے۔
اپنی تاریخ درست کر لیں۔ طالبان افغان خانہ جنگی جو ۱۹۹۲ سے ۱۹۹۶ کے دوران ہوئی میں افغانستان پر قابض ہوئے تھے۔ اسوقت وہاں نہ امریکہ تھا نہ روس۔ اپنے ہی مسلمان بھائیوں کی گردنیں کاٹ کر ۹۰ فیصد افغانستان پر قابض ہوئے تھے اور ۲۰۰۱ تک حکومت کی تھی۔
یہ حملہ حفاظ پر نہیں طالبان پر کیا گیا تھا۔ ملک میں سینکڑوں مدرسے موجود ہیں، صرف اسی کو کیوں نشانہ بنایا گیا جہاں طالبان موجود تھے؟ دوسری طرف انٹیلیجنس اداروں کی ذمہ داری ہے کہ طالبان سے جنگ کیساتھ ساتھ دیگر عوام کا تحفظ بھی یقینی بنائے۔
ان بچوں کا قصور کیا بد قسمتی تھی کہ وہ غلط وقت پر غلط جگہ موجود تھے۔ باقی ان مدرسوں کے مالکان کو بھی ہوش عقل کے ناخن لینے چاہیے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ طالبان نشانے پر ہیں وہ انہیں مدرسوں میں کیوں آنے دیتے ہیں۔
یہ حملے جیسا کہ دیگر رپورٹس میں بتایا گیا ہے دسمبر ۲۰۱۷ سے ہو رہے ہیں۔ افغان فورسز کو امریکہ کی پشت پناہی حاصل ہے اور عین ممکن ہے اس حملے کی انٹیلیجنس خود امریکہ نے افغان فورسز کو دی ہو۔
یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ جب کئی ماہ سے طالبان کیخلاف کاروائیاں جاری ہیں تو اس حملے پر اتنا شور شرابا کیوں؟...
1996 سے 2001 تک افغان طالبان کس کے خلاف مزاحمت اور تحریک آزادی چلا رہے تھے؟ روس تو 1990 تک افغانستان سے جا چکا تھا اور امریکہ کا وہاں کوئی وجود نہیں تھا۔
معصوم بچوں کی شہادت کی آڑ میں یہ طالبانی بلی بار بار تھیلے سے باہر کیوں آجاتی ہے؟ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ افغانی فورسز کا مدرسے پر حملہ انسانیت سوز تھا، جس نے سو سے زائد معصوموں کی جان لی۔ لیکن اسکا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اس سانحہ کو طالبان کی حمایت کیلئے استعمال کیا جائے۔ طالبان نے 1996 سے...
مہرے کوئی مریخ سے تو نہیں اترے اپنے ہی مسلمان بہن بھائی ہیں۔ عموما اس قسم کے واقعات کے بعد ایک پروپیگنڈہ لہر چلتی ہے جس میں ان امریکی نوازوں کیخلاف جہاد و قتال پر اکسایا جاتا ہے۔ اور ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ جن کے خلاف کاروائی کر رہے ہیں وہ پچھلے ۳۰ سال سے نہتے افغانیوں کیساتھ کیا کرتے آئے ہیں۔...
یہ انکی پرانی پالیسی ہے جو اوبامہ دور سے چل رہی ہے کہ جہاں کہیں طالبان دیکھے، وہاں حملہ کر دو۔ ارد گرد اور معصوم جانیں بھی ہیں انکی پرواہ نہیں کرتے۔ نتیجتا شہدا کے گھر والوں سے مزید جہادی پیدا ہو جاتے ہیں۔