نتائج تلاش

  1. نوید ناظم

    برائے اصلاح (مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن)

    محترم سر الف عین صاحب محترم راحیل فاروق صاحب محترم محمد ریحان قریشی صاحب
  2. نوید ناظم

    برائے اصلاح (مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن)

    یہ بات اور ہے کہ کسی سے کہا نہیں ہے کون سا وہ عقدہ جو ہم پر کھلا نہیں کب' کون اس کے دل سے اتر جائے کیا پتہ "بیگانگی سے اس کی کوئی آشنا نہیں" اللہ لوگ مجھ پہ اٹھاتے ہیں سنگ کیوں مدت ہوئی کہ ہاتھ میں اب آئینہ نہیں وہ کیوں بھلا کہے گا میں خط اور مت لکھوں اس نامہ بر نے ٹھیک سے شاید سنا نہیں آتے...
  3. نوید ناظم

    برائے اصلاح (مفاعیلن مفاعیلن فعولن)

    سر بہت شکریہ۔۔۔۔!!!:) اگر اس شعر کو یوں کر دوں تو کیا گرانی میں کچھ کمی واقع ہو سکتی ہے ؟ مجھے ہونا ہی تھا اس کا کسی دن تجھے کیا اس سے' چل جا کیوں نہ ہوتا ترے کاندھوں پہ سر رکھ کر جو روتے سر بالکل اضافہ ہے۔۔۔ اور اب یہی مصرعہ غزل کا حصہ ہے!!!
  4. نوید ناظم

    برائے اصلاح (مفاعیلن مفاعیلن فعولن)

    ترے آنے سے ایسا کیوں نہ ہوتا دلِ بیمار اچھا کیوں نہ ہوتا مجھے ہونا ہی تھا اس کا کسی دن تجھے کیا اس سے' جا جا کیوں نہ ہوتا ترے کندھوں پہ جو سر رکھ کے روتے تو دل کا بوجھ ہلکا کیوں نہ ہوتا دھکیلا ہے مجھے اُس نے یہاں تک بھلا در' درد کا وا کیوں نہ ہوتا ارے ہم سے نہ ہوتی بے وفائی یہ فن بھی گرچہ...
  5. نوید ناظم

    اختصاریہ (9)

    ہر انسان کے پاس کچھ ایسا ہے جو کسی اور کے پاس نہیں...ایک جیسے نظر آنے والے انسان اصل میں ایک جیسے نہیں ہیں۔ قدرت کا کمال یہ ہے کہ بظاہر ایک جیسے اشکال رکھنے والا انسان بھی ایک جیسی شکل نہیں رکھتا...لطف یہ ہے کہ سب کے پاس وہی رخسار ہیں' وہی پیشانی ہے وہی چہرہ ہے ...مگر صورت پھر بھی مختلف...نین سے...
  6. نوید ناظم

    برائے اصلاح (فعولن فعولن فعولن فعولن)

    جی سر یہ ٹھیک ہے۔۔۔ اسی کو غزل کا حصہ بناتا ہوں۔۔۔ آپ کی شفقت کمال ہے!!!
  7. نوید ناظم

    برائے اصلاح (فعولن فعولن فعولن فعولن)

    واقعی سر یہ پتھر تو بڑا بھاری ہو گیا :) ۔۔۔۔ اب دیکھیے اگر چل سکے۔۔۔ دعا دے رہا ہوں کہ جس نے بھی مارا یہ پتھر تو لگتا ہے اس کی گلی کا
  8. نوید ناظم

    برائے اصلاح (فعولن فعولن فعولن فعولن)

    سر بے حد شکریہ۔۔۔۔۔حکم کے مطابق مشق کی ہے' اشعار کو دیکھیے گا۔۔۔ گلہ پھر کریں کس سے تِیرہ شبی کا اگر دوست سورج ہو اس تیرگی کا گزر ہی گئی خیر جیسی بھی گزری چلیں جی بہت شکریہ زندگی کا نہ جانے وہ کیسے مِرا ہو گیا ہے ستم گر بھی ورنہ ہوا ہے کسی کا لگا سر پہ تو زخم دل پہ دیا ہے یہ پتھر بھی لگتا ہے...
  9. نوید ناظم

    برائے اصلاح (فعولن فعولن فعولن فعولن)

    محترم سر الف عین صاحب محترم راحیل فاروق صاحب محترم محمد ریحان قریشی صاحب
  10. نوید ناظم

    برائے اصلاح (فعولن فعولن فعولن فعولن)

    گلہ اب کریں کس سے تِیرہ شبی کا ہو جو شمس ہی دوست اس تِیرگی کا یہ تو بس یوں ہی جی گئے چار دن ہم چلیں جی بہت شکریہ زندگی کا سنا ہے اندھیرے اسے لے گئے تھے کسی نے پتہ پھر کیا روشنی کا؟ ہمارا نہیں ہے تو پھر کیا ہے اس میں ارے یہ بہت بن گیا وہ کسی کا جبیں روزِ محشر ملی تیرے در سے بھئی واہ! لطف آ...
  11. نوید ناظم

    سُنتا جا مسافر۔۔۔۔

    انسانوں کی دنیا میں انسانوں سے بے نیاز ہو کر نہیں رہا جا سکتا' زندگی گزارنے کے لیے ہمیں ایک دوسرے کے دکھ سانجھے کرنے پڑتے ہیں' ایک دوسرے کی خوشیاں بانٹنی پڑتی ہے۔ یہ انسان کی وہ مجبوری ہے' جو ضروری ہے۔ ہم سب ایک دوسرے کے دم سے ہیں اور ایک دوسرے کے لیے ہیں۔ فطرت نے ہمیں مہربان بنایا اور ہم نے خود...
  12. نوید ناظم

    برائے اصلاح (بحرِخفیف)

    سر بہت شکریہ۔۔۔ ملاحظہ کیجیے۔۔۔ تم محبت بھی کر نہ پاؤ گے یہ بھی کارِ زیاں ہے' رہنے دو دشت سے کیوں نوید آئے گا چھوڑ دو بس' جہاں ہے رہنے دو سر دو اشعار اور ہوئے ہیں ان پر بھی نظر فرمایئے گا۔۔۔ داغِ الفت ہے اس کو دھونا کیا یہ جو دل پر نشاں ہے' رہنے دو اس میں آبا کی خوشبو شامل ہے یہ جو کچا مکاں...
  13. نوید ناظم

    برائے اصلاح (بحرِخفیف)

    محترم سر الف عین صاحب محترم راحیل فاروق صاحب محترم محمد ریحان قریشی صاحب
  14. نوید ناظم

    برائے اصلاح (بحرِخفیف)

    درد دل میں کہاں ہے' رہنے دو دکھ بھری داستاں ہے' رہنے دو بے وفائی پہ اب دلیلیں کیوں ہم پہ سب کچھ عیاں ہے' رہنے دو اس میں کردار تو نہیں شامل بس بیاں ہی بیاں ہے' رہنے دو یہ محبت نہ کر سکو گے تم اس میں بھی تو زیاں ہے' رہنے دو بیچ کر جو ضمیر ملتی ہے وہ بھی کوئی اماں ہے' رہنے دو دشت اس کو بھی راس...
  15. نوید ناظم

    برائے اصلاح (مفعول مفاعلن فعولن)

    جی سر بہتر، کر دیا !
  16. نوید ناظم

    برائے اصلاح (مفعول مفاعلن فعولن)

    محترم سر الف عین صاحب محترم راحیل فاروق صاحب محترم محمد ریحان قریشی صاحب
  17. نوید ناظم

    برائے اصلاح (مفعول مفاعلن فعولن)

    اس دل میں مکیں کوئی نہیں ہے سچ کہہ دوں' نہیں کوئی نہیں ہے تُو بھی تو ہے باسی اِس جہاں کا تجھ پر بھی یقیں کوئی نہیں ہے دیکھے ہے کیا کہ دور تک بھی اے جانِ حزیں کوئی نہیں ہے وہ چھوڑ گیا محل یہ دل کا اب تخت نشیں کوئی نہیں ہے یہ ٹھیک ہے' ہوں گے حُسن والے تجھ سا تو حسیں کوئی نہیں ہے کرتا ہے تُو...
Top