نتائج تلاش

  1. م

    ایک غزل ،'' بُرا کیا تھا مجھے، جو ہجر تھوڑا مختصر ہوتا ''

    محترم اُستاد ایک سوال کہ کیا دو مقطع ہو سکتے ہیں؟ اور مجوزہ تبدیلیاں بُرا کیا تھا مجھے، جو ہجر تھوڑا مختصر ہوتا مرا کوئی ، کسی کا کاش میں بھی منتظر ہوتا وفاوں کو مری جیسے اُڑا کر لے گئی پروا اثر اُس کی جفاوں کا بھی کچھ تو منتشر ہوتا تجھے پھولوں سا رکھتا میں، بہاریں روک گر...
  2. م

    ایک غزل ،'' بُرا کیا تھا مجھے، جو ہجر تھوڑا مختصر ہوتا ''

    بُرا کیا تھا مجھے، جو ہجر تھوڑا مختصر ہوتا کنارے سے میں جب لگتا، تو کوئی منتظر ہوتا وفاوں کو مری جیسے اُڑا کر لے گئی پروا اثر اُس کی جفاوں کا بھی کچھ تو منتشر ہوتا مرا جو شخص ہے، وہ میرے جیسا نرم دل ہی تھا اگر وہ سنگدل ہوتا ، تو شائد جانبر ہوتا تجھے پھولوں سا رکھتا میں، بہاریں روک گر سکتا...
  3. م

    ایک غزل ،'' بُرا کیا تھا مجھے، جو ہجر تھوڑا مختصر ہوتا ''

    بُرا کیا تھا مجھے، جو ہجر تھوڑا مختصر ہوتا کنارے سے میں جب لگتا، تو کوئی منتظر ہوتا وفاوں کو مری جیسے اُڑا کر لے گئی پروا اثر اُس کی جفاوں کا بھی کچھ تو منتشر ہوتا مرا جو شخص ہے، وہ میرے جیسا نرم دل ہی تھا اگر وہ سنگدل ہوتا ، تو شائد جانبر ہوتا تجھے پھولوں سا رکھتا میں، بہاریں روک گر...
  4. م

    ایک غزل،'' وہ یہاں تھا، نہیں بھی تھا ویسے''

    تھوڑی سی تبدیلی مزید سات پردوں میں بھی مبیں گویا وہ یہاں تھا بھی اور نہیں گویا اور کوئی نہ مل سکا مجھ کو دل میں تھا ایک ہی مکیں گویا اُس کی خوشبو حصار میں رکھتی دور رہ کے بھی تھا قریں گویا اُس کی نسبت گمان دب جاتے اُس پہ کامل ہی تھا یقیں گویا اُس نے یادوں کے بیج بوئے ہوں پاس...
  5. م

    ایک غزل،'' وہ یہاں تھا، نہیں بھی تھا ویسے''

    کچھ تبدیلیاں سات پردوں میں بھی مبیں گویا وہ یہاں تھا بھی اور نہیں گویا اور کوئی نہ مل سکا مجھ کو دل میں تھا ایک ہی مکیں گویا اُس کی خوشبو حصار میں رکھتی دور رہ کے بھی تھا قریں گویا اُس کی نسبت گمان ہوتا تھا بس میں کرتا تھا پھر یقیں گویا اُس نے قربت کی فصل بوئی ہو پاس میرے یہیں...
  6. م

    ایک غزل،'' وہ یہاں تھا، نہیں بھی تھا ویسے''

    اس شعر کو یوں بھی دیکھیے گا ازراہ کرم اُس کی بابت گمان تھے میرے اور کامل بھی تھا یقیں گویا
  7. م

    ایک غزل،'' وہ یہاں تھا، نہیں بھی تھا ویسے''

    اگر اس طرح سے لکھا جائے تو ٹھیک رہے گا کیا؟ سات پردوں میں بھی مبیں گویا وہ یہاں تھا بھی اور نہیں گویا اور کوئی وہاں ملا نہ مجھے دل کا واحد ہی تھا مکیں گویا دور مجھ سے نظر بھی آتا تھا ہو مگر سب سے ہی قریں گویا اُس کی بابت گمان تھے میرے اور اُس پر کہ ہو یقیں گویا جب پکارا تو دوڑ...
  8. م

    ایک غزل،'' وہ یہاں تھا، نہیں بھی تھا ویسے''

    محترم جناب وارث صاحب، بے حد شکر گزار ہوں ،اتنا مفصل اور تشفی بخش جواب دینے پر شاد و آباد رہیے جناب
  9. م

    ایک غزل،'' وہ یہاں تھا، نہیں بھی تھا ویسے''

    بہت شکریہ اُستاد محترم ایک سوال ایک محترم نے کیا ہے وہ یہ کہ''قوافی کہیں، نہیں ، وہیں، یہیں، کے ساتھ زمیں، قریں اور یقیں وغیرہ نہیں آ سکتا،'' کیا یہ صحیح ہے؟
  10. م

    ایک غزل،'' وہ یہاں تھا، نہیں بھی تھا ویسے''

    وہ یہاں تھا، نہیں بھی تھا ویسے دل میں رہتا کہیں بھی تھا ویسے میں نے ڈھونڈا جہاں جہاں اُسکو تھا وہاں بھی، یہں بھی تھا ویسے دور مجھ سے نظر بھی آتا تھا وہ ہی سب سے قریں بھی تھا ویسے اُس کی بابت گمان تھے میرے اور اُس پر یقیں بھی تھا ویسے وہ تھا پنہاں ہزار پردوں میں کیا کہوں وہ مبیں...
  11. م

    ایک غزل ،'' جلے وہ رات مرے سنگ، تجھ کو یاد کیا'' اور اک سوال

    تھوڑی تبدیلی مزید، استاد محترم اب آپ فرمائیے جلا بھی رات مرے سنگ، تجھ کو یاد کیا چراغ شب کی رفاقت نے دل کو شاد کیا جلن کے مارے گلوں نے کیا تھا ہنگامہ حسد تھا تجھ سے تو خوشبو نے بھی فساد کیا چمن سےمجھ کو عداوت جو تھی،تری خاطر ترے لئے ہی ہواوں سے بھی عناد کیا کسی زیاں کو کبھی میں نہ...
  12. م

    ایک غزل ،'' جلے وہ رات مرے سنگ، تجھ کو یاد کیا'' اور اک سوال

    جلا بھی رات مرے سنگ، تجھ کو یاد کیا چراغ شب کی رفاقت نے دل کو شاد کیا جلن کے مارے گلوں نے کیا تھا ہنگامہ حسد تھا تجھ سے تو خوشبو نے بھی فساد کیا چمن سےمجھ کو عداوت جو تھی،تری خاطر ترے لئے ہی ہواوں سے بھی عناد کیا نظر میں بس تھے مفادات جان جاں تیرے اُنہی پہ اپنا تو قربان ہر مفاد کیا...
  13. م

    ایک غزل ،'' جلے وہ رات مرے سنگ، تجھ کو یاد کیا'' اور اک سوال

    کچھ تبدیلیاں جلے وہ رات، مرے ساتھ ، دل کو شاد کیا جدا تھے تُم، تو چراغوں نے بھی تھا یاد کیا جلن کے مارے، گلوں نے کیا جو ہنگامہ حسد تھا تجھ سے تو خوشبو نے بھی فساد کیا چمن سے مول عداوت بھی لی تری خاطر ترے لئے ہی ہواوں سے بھی عناد کیا چلے فراق کی راہوں میں ، پر رہے قائم ترے وصال کی منزل...
  14. م

    ایک غزل ،'' جلے وہ رات مرے سنگ، تجھ کو یاد کیا'' اور اک سوال

    ایک تبدیلی اُستاد محترم آپ کے ارشاد کی روشنی میں جلے وہ رات مرے سنگ، تجھ کو یاد کیا ترا فراق، چراغوں نے ایسے شاد کیا ترے ہی ہجر میں جلتے رہے قدم ثابت ترے وصال کی منزل کو ہی مُراد کیا جلا جو گُل تیری صورت سے اور سیرت سے تری وجہ سے ہی خوشبو نے بھی فساد کیا نظر پڑی جو مفادات پر ترے جاناں...
  15. م

    ایک غزل ،'' جلے وہ رات مرے سنگ، تجھ کو یاد کیا'' اور اک سوال

    اساتذہ کرام ذیل میں دی گئی غزل بحر محتث میں موزوں ہوئی ہے، سوال مطلع کے مصرع ثانی سے متعلق ہے، میں نے اس کی تقطیع یوں کی ہے مفاعلن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فعلاتن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مفاعلن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فعلن”فعلان'مفعول؛ فعلن پ رُس کے بع۔۔۔۔۔۔۔۔ د چ را غو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ن خی ر بع۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ د ک یا کیا یہ تقطیع...
  16. م

    برائے اصلاح : ایک غزل،'' میں تو پاگل ہوں ، ذرا دیر گوارا کرنا '' محمد اظہر نذیر

    کچھ تبدیلیاں میں تو پاگل ہوں ، ذرا دیر گوارا کرنا ضبط جب حد سے گزر جائے، اشارا کرنا اس سے پہلے بھی سہے میں نے جدائی کے ستم جب بھی چاہو مری جاناں تو کنارا کرنا لمس ہاتھوں کا مرے بھول ہی جائے گی یہ زلف اب جو بکھرے تو اسے خود ہی سنوارا کرنا یہ تمنا ہے ذرا آنکھ سے اوجھل ہو لیں پھر رقیبوں...
Top