دم بھر کو چلتے چلتے ہم کیا ٹھہر گئے ہیں
لہرا اُٹھے ہیں دریا، صحرا ٹھہر گئے ہیں
تھا جانے کب سے جاری رقصِ نگارِ ہستی
ہم آئے ہیں تو سارے اعضاء ٹھہر گئے ہیں
ماحول کہ سایہ ہمراہ چل رہا ہے
اے شوق چل رہے ہیں ہم یا ٹھہر گئے ہیں
یہ کائنات ساری، تصنیف ہے ہماری
اک مسئلہ محب ہم جس کا ٹھہر گئے ہیں