نتائج تلاش

  1. نوید صادق

    انتخابِ محب عارفی

    ہم ہیں اسیرِ حلقہ تدبیر یا بھنور اس دھن میں ہیں کہ وسعتِ دریا سمیٹ لیں
  2. نوید صادق

    انتخابِ محب عارفی

    چن دیا ہے ہوسِ دید کو پس منظر میں جب کہیں شکل کوئی مجھ کو نظر آئی ہے میں چلا ہوں تو مرے ساتھ چلی ہے منزل اور قدموں سے لگی راہ گزر آئی ہے ہیں محب خاک کے ذرے جو چمک اٹھتے ہیں کیا کہیں کوئی کرن خود بھی نظر آئی ہے
  3. نوید صادق

    انتخابِ محب عارفی

    دم بھر کو چلتے چلتے ہم کیا ٹھہر گئے ہیں لہرا اُٹھے ہیں دریا، صحرا ٹھہر گئے ہیں تھا جانے کب سے جاری رقصِ نگارِ ہستی ہم آئے ہیں تو سارے اعضاء ٹھہر گئے ہیں ماحول کہ سایہ ہمراہ چل رہا ہے اے شوق چل رہے ہیں ہم یا ٹھہر گئے ہیں یہ کائنات ساری، تصنیف ہے ہماری اک مسئلہ محب ہم جس کا ٹھہر گئے ہیں
  4. نوید صادق

    انتخابِ محب عارفی

    اک لہر سی دیکھی گئی پائے نہ گئے ہم حالانکہ یہیں تھے کہیں آئے نہ گئے ہم
  5. نوید صادق

    انتخابِ محب عارفی

    ہے ہے وہ شیریں جھلکیاں کب تک مگر سر پھوڑئے دیوار پھر دیوار ہے حالانکہ شیشے کی تو ہے ہوتی کہاں تک مسترد بے باکئ دستِ صبا کھلنے لگا بندِ حیا آخر شگوفہ ہی تو ہے اب صلح کر بھی لیں محب تنہائیوں سے وحشتیں وہ میرا سایہ ہی سہی اک شے نظر آئی تو ہے
  6. نوید صادق

    انتخابِ محب عارفی

    خوش ہے کہ جو ٹوٹی ہے آخر کوئی شے ہو گی خود میں نظر آتا ہے شیشے کو جو بال اپنا پردے نے بُنا مجھ کو، پردے نے سنا مجھ کو نغمہ ہوں سمجھتا ہوں اتنا ہی کمال اپنا اے ہم نظرو ! ٹھہرو ، کیا ہو جو برآمد ہو ہر گوشہ خلوت سے اک نقشِ خیال اپنا
  7. نوید صادق

    انتخابِ محب عارفی

    شعلہ شوق کی آغوش میں کیوں کر آؤں اک تمنا ہوں کہ مٹ جاؤں اگر بر آؤں ایک نغمہ ہوں اگر ان کے لبوں پر کھیلوں ایک حسرت ہوں اگر خود کو میسر آؤں ایک عالم ہوں جسے بس کوئی محسوس کرے کوئی معنی ہوں کہ الفاظ کے اندر آؤں نقش بر آب سہی، کچھ بھی سہی، ہوں تو سہی ریت کی قید میں کیا خود سے بچھڑ کر...
  8. نوید صادق

    انتخابِ محب عارفی

    گرد ہیں کاروانِ گذشتہ کی ہم کیا اب آنکھوں پہ کوئی بٹھائے ہمیں دھوپ میں زندگی کی جلے ہیں بہت لے چلو دوستو! سائے سائے ہمیں اک نوا تھی فضاؤں میں گم ہو گئی ہم یہیں تھے مگر کون پائے ہمیں
  9. نوید صادق

    انتخابِ محب عارفی

    جب آئینے کا مکیں تھا دُھن تھی حقیقت تک راہ پاؤں کیسے سو آئینے پر وہ پردہ آیا کہ اپنے گھر میں اب آؤں کیسے
  10. نوید صادق

    انتخابِ محب عارفی

    تہہ کشائی کا محب کس کو دماغ کر کے تہہ اپنے کنائے رکھئے اب یہی فن ہے کہ پایابی کو گدلے پانی سے چھپائے رکھئے
  11. نوید صادق

    انتخابِ محب عارفی

    شاعر: محب عارفی کتاب: چھلنی کی پیاس انتخاب: نوید صادق
  12. نوید صادق

    بیت بازی سے لطف اٹھائیں

    ذرا سی تاخیر اور بس! خیر یاد تھیں ہم کو بھی رنگا رنگ بزم آرائیاں لیکن اب نقش و نگارِ طاقِ نسیاں ہو گئیں شاعر: غالب
  13. نوید صادق

    بیت بازی سے لطف اٹھائیں

    تھیں بنات النعشِ گردوں دن کے پردے میں نہاں شب کو ان کے جی میں کیا آئی کہ عریاں ہو گئیں شاعر: غالب
  14. نوید صادق

    بیت بازی سے لطف اٹھائیں

    اس موسم کا نام ہے کیا دل میں ساون، منہ پر چیت شاعر: باقی صدیقی
  15. نوید صادق

    بیت بازی سے لطف اٹھائیں

    ندی کے اس پار کھڑا اک پیڑ اکیلا دیکھ رہا ہے ان جانے لوگوں کا ریلا شاعر: باقی صدیقی
  16. نوید صادق

    انتخابِ باقی صدیقی

    قدموں پہ بار ہوتے ہیں سنسان راستے لمبا سفر ہے ہم سفراں بولتے رہو
  17. نوید صادق

    انتخابِ باقی صدیقی

    زندگی جرم بنی جاتی ہے جرم کی کوئی سزا ہے کہ نہیں دوست ہر عیب چھپا لیتے ہیں کوئی دشمن بھی ترا ہے کہ نہیں
  18. نوید صادق

    انتخابِ باقی صدیقی

    وفا کا زخم ہے گہرا تو کوئی بات نہیں لگاؤ بھی تو ہمیں ان سے انتہا کا تھا
  19. نوید صادق

    انتخابِ باقی صدیقی

    کشتیاں ٹوٹ گئی ہیں ساری اب لئے پھرتا ہے دریا ہم کو گھر کو یوں دیکھ رہے ہیں جیسے آج ہی گھر نظر آیا ہم کو یاد آئی ہیں برہنہ شاخیں تھام لے اے گلِ تازہ ہم کو لے گیا ساتھ اُڑا کر باقی ایک سوکھا ہوا پتا ہم کو
  20. نوید صادق

    انتخابِ باقی صدیقی

    گھر میں تھا دشت نوردی کا خیال دشت میں آئے تو گھر یاد آیا گر پڑے ہاتھ سے کاغذ باقی اپنی محنت کا ثمر یاد آیا
Top