دہکتا ہے کوئی آتش فشاں سا میرے اندر بھی
جسے صدیوں سے سینے میں دبائے پھرتا رہتا ہوں
کوئی دیوار حائل ہے ہمارے درمیاں راجا !
پسِ دیوار کربِ دل چھپائے پھرتا رہتا ہوں
ایم اے راجہ صاحب
بہت پیاری غزل عنایت کی ہے آپ نے
داد پیشِ خدمت ہے ۔ ۔ ۔ ۔
اداسی کے عالم میں دل ، دماغ اور ہونٹوں پہ جیسے تالا لگ جاتا ہے
غنودگی سی طاری ہوجاتی ہے پورے وجود پہ ۔۔
اور میں ایسے خاموش ہوجاتی ہوں جیسے کبھی بولنا سیکھا ہی نہ تھا ،جیسے اب کبھی بول ہی نہ پاؤں گی۔۔۔۔