اندھیری شب میں اُسی کے اشاروں جیسے ہیں
وہ اُسکے نین چمکتے ستاروں جیسے ہیں
بچھڑ کے ہم سے بظاہر وہ مطمئن ہے بہت
پیام اُس کے مگر بے قراروں جیسے ہیں
چلو کہ پار لگیں ڈوب کر محبت میں
کہ اس ندی کے بھنور بھی کناروں جیسے ہیں
لبوں پہ لفظ رُکے ہیں جو ضبط کے ہاتھوں
نہ روکیے تو یہی آبشاروں جیسے ہیں
کبھی جو...