آج! تنہائی کسی ہمدمِ دیریں کی طرح
کرنے آئی ہے مِری ساقی گری شام ڈھلے
منتظر بیٹھے ہیں ہم دونوں، کہ مہتاب اُبھرے
اور تِرا عکس جَھلکنے لگے ہر سائے تلے
.
فیض احمد فیضؔ
غزل
طوُر تھا، کعبہ تھا، دِل تھا ، جلوہ زارِ یار تھا
عِشق سب کچھ تھا مگر پھر عالَمِ اسرار تھا
نشۂ صد جام کیفِ انتظارِ یار تھا
ہجر میں ٹھہرا ہُوا دِل ساغرِ سرشار تھا
دِل دُکھے روئے ہیں شاید اِس جگہ، اے کوئے دوست!
خاک کا اِتنا چمک جانا ذرا دُشوار تھا
الوِداع اے بزمِ انجم، ہجر کی شب الفراق...
ساتواں رنگ
بال کالے، سفید برف سے گال
چاند سا جسم، کوٹ بادل کا
لہریا آستین، سُرخ بٹن
کُچھ بَھلا سا تھا رنگ آنچل کا
اب کے آئے تو یہ اِرادہ ہے !
دونوں آنکھوں سے اُس کو دیکھوں گا
ناصؔر کاظمی
ناصؔر ! یہ شعر کیوں نہ ہوں موتی سے آبدار
اِس فن میں کی ہے مَیں نے بہت دیر جانکنی
ہر لفظ ایک شخص ہے، ہر مصرع آدمی
دیکھو مِری غزل میں مِرے دِل کی روشنی
ناصؔر کاظمی