سپنے تو کجا ، دیکھیے کیا سو بھی سکیں گے؟
مانوس جدائی سے تری ہو بھی سکیں گے؟
کم مائیگیٔ حرفِ تشکر! مجھے بتلا
یہ قرض محبت کے ادا ہو بھی سکیں گے؟
جڑ سے تو اکھاڑیں گے چلو ، بوڑھے شجر کو
ننھا سا نہال اس کی جگہ بو بھی سکیں گے؟
ڈر تھا کہ وہ بچھڑا تو تبسم سے گئے ہم
کیا جانیے اس ہجر میں اب رو بھی سکیں...