یونہی بے سبب نہ پھرا کرو کوئی شام گھر بھی رہا کرو ،،،،،،،،،،، بشیر بدر
یونہی بے سبب نہ پھرا کرو کوئی شام گھر بھی رہا کرو
وہ غزل کی سچی کتاب ھے اسے چپکے چپکے پڑھا کرو
کوئی ہاتھ بھی نہ ملائے گا جو گلے ملو گے تپاک سے
یہ نئے مزاج کا شہر ھے ذرا فاصلے سے ملا کرو
ابھی راہ میں کئی موڑ ھیں کوئیآئے گا...
لہروں میں ڈوبتے رھے دریا نہیں ملا
اس سے بچھڑ کے پھر کوئی ویسا نہیں ملا
وہ بھی بہت اکیلا ھے شاید مری طرح
اس کو بھی کوئی چاہنے والا نہیں ملا
ساحل پہ کتنے لوگ مرے ساتھ ساتھ تھے
طوفاں کی زد میںآیا تو تنکا نہیں ملا
دو چار دن تو کتنے سکوں سے گزر گئے
سب خیریت رہی کوئی اپنا نہیں ملا
جی جناب ، یہاًں کون سا پھل ہوتا ھے نہ کیلا نہ مالٹا ، نہ آم نہ فالسا نہ لوکاٹ نہ امرود نہ تربوز نہ جامن نہ کنوں نہ انار کس کس کا نام لوں
ویسے مل سارے جاتے ھیں