حَسِیں ایسی، زبانِ خلق کے قصّے میں رہتی ہے
تجسّس ہے سبھی کو کِس کے وہ حصّے میں رہتی ہے
جسارت ماہ بینی کی خلؔش اُس پر نہیں کرنا
مُسَلسَل خود پہ نظروں سے ہی وہ غصّے میں رہتی ہے
شفیق خلؔش
غزل
۔
ہو حشر صُبح لازم اگر شام کو نہیں
تھا رحم دِل میں لوگوں کے، اب نام کو نہیں
شُرفا کی سرزَنِش ہو تو، سب لوگ پیش پیش
پُو چھیں بُرے عمل پہ بھی بدنام کو نہیں
غافل ہُوئے ہیں سب ہی حقوق العباد سے
رُحجانِ قوم ،کیا زبُوں انجام کو نہیں؟
تحرِیر اُن پہ کیسے ہو بارآور آپ کی
دَیں اہمیت ذرا بھی...
اے پاسبانِ گُلشن تجھ کو خبر نہیں ہے
شُعلے بھڑک رہے ہیں پُھولوں کی انجمن میں
ہر آن ڈس رہی ہیں ماضی کی تلخ یادیں
محسُوس کر رہا ہُوں بیچارگی وطن میں
ساغؔر صدیقی
غزل
چِھن گئی درد کی دولت کیسے
ہوگئی دِل کی یہ حالت کیسے
پُوچھ اُن سے جو بِچھڑ جاتے ہیں
ٹوُٹ پڑتی ہے قیامت کیسے
تیری خاطر ہی یہ آنکھیں پائیں
میں بُھلا دُوں تِری صُورت کیسے
اب رہا کیا ہے مِر ے دامن میں
اب اُسے میری ضرورت کیسے
کاش مجھ کو یہ بتا د ے کوئی !
لوگ کرتے ہیں محبّت کیسے
عدیم ہاشمی
تجھ کو یہ ڈر ہے کہ، ناموس گہِ عالَم میں
عِشق کے ہاتھوں نہ ہوجائے تُو بدنام کہیں
یہ تِری شرطِ وَفا ہے، کہ وَفا کاقِصّہ
دیکھ ، سُن پائے نہ گردِشِ ایّام کہیں
مجید امجدؔ
اب لبِ رنگیں پہ نُوریں مُسکراہٹ، کیا کہوں
بجلیاں گویا شفق زاروں میں رقصاں ہوگئیں
پیار کی میٹھی نظر سے ، تُو نے جب دیکھا مجھے
تلخیاں سب زندگی کی لُطف ساماں ہوگئیں
مجید امجدؔ
وہ لوگ جن کو میسّر نہ آئے مرہمِ وقت!
وہ لوگ تلخیِ تقدیر بانٹ لیتے ہیں
وہ ہاتھ جن پہ ہو نفرت کا زنگ صدیوں سے
وہ ہاتھ لوہے کی دیوار کاٹ دیتے ہیں
کیا کہنے !
:)
ہموار کھینچ کر، کبھی دُشوار کھینچ کر
تنگ آچکا ہُوں سانس لگاتار کھینچ کر
اُکتا چُکا یہ دل بھی، نظر بھی، میں آپ بھی !
مُدّت سے تیری حسرتِ دیدار کھینچ کر
کیفؔ بھوپالی