یہ دروازہ کیسے کھُلا؟
یہ دروازہ کیسے کھُلا، کس نے کھولا؟
وہ کتبہ جو پتھر کی دیوار پر بے زباں سوچتا تھا
ابھی جاگ اٹھا ہے،
وہ دیوار بھولے ہوئے نقش گر کی کہانی
سنانے لگی ہے؛
نکیلے ستوں پر وہ صندوق، جس پر
سیہ رنگ ریشم میں لپٹا ہوا ایک کتے کا بت،
جس کی آنکھیں سنہری،
ابھی بھونک اُٹھا ہے؛
وہ لکڑی کی...