اس ملک میں تقریر و تحریر پر ایسی قدغن ہے کہ منہ سے الفاظ نکالنے یا کچھ لکھ دینے کی سخت سزا بھگتنی پڑتی ہے، غداری کے مقدمے بھگتنے پڑتے ہیں، کبھی ویگو ڈالا اٹھا لے جاتا ہے لیکن قاتل، خونی، ڈاکو اور آئین کو توڑنے والوں کو عزت دی جاتی ہے۔
ہاہاہا۔ نیازی کو اقتدار چھوڑنا ہی تو قبول نہیں۔ اس کے لیے کٹھ پتلی بننا ہی مقدر ہے۔ پچھلے کمرے میں چھپ کر بیٹھ کر اپوزیشن اور جنرل صاحب کو قومی سلامتی کے امور پر فیصلہ سازی کرتے دیکھ کر۔
فیصلہ سازوں کے لیے خود فیصلہ کرنا دشوار ہے۔ مارشل لاء کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ بین الاقوامی حالات ہی کچھ ایسے ہیں۔ امریکہ بہادر اس مرتبہ سپورٹ کے لیے نہیں ہے، نہ سعودی عرب ساتھ ہے۔ سوکھے سوکھے ہائیبرڈ نظام سے ہی کام چلایا جاسکتا ہے ایک سیلیکٹڈ کٹھ پتلی کو فرنٹ پر رکھ کر۔
بہت خوب! ایک جانب جمہوریت پسند کھڑے ہیں تو دوسری جانب جمہوریت کے دشمن.
نثار میں تری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے
جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے
نظر چرا کے چلے جسم و جاں بچا کے چلے
ہے اہل دل کے لیے اب یہ نظم بست و کشاد
کہ سنگ و خشت مقید ہیں اور سگ آزاد
بہت ہے...