عاشقوں کے جمگھٹے میں تیری بزمِ ناز تک
شمع بجھتے ہی بدل جاتا ہے پروانوں کا رُخ
کیا ہوا ہم کو اگر دو چار موجیں چھو گئیں
ہم نے بدلا ہے نہ جانے کتنے طوفانوں کا رخ
ہونٹوں پہ ہنسی آنکھ میں تاروں کی لڑی ہے
وحشت بڑے دلچسپ دوراہے پہ کھڑی ہے
آداب تری بزم کے جینے نہیں دیتے
دیوانوں کو جینے کی تمنا تو بڑی ہے
دل رسم و رہِ شوق سے مانوس تو ہو لے
تکمیلِ تمنا کے لئے عمر پڑی ہے
اب یہ عالم ہے کہ غم کی بھی خبر ہوتی نہیں
اشک بہہ جاتے ہیں لیکن آنکھ تر ہوتی نہیں
پھر کوئی کم بخت کشتی نذرِ طوفاں ہو گئی
ورنہ ساحل پر اداسی اس قدر ہوتی نہیں
لذتِ گردشِ ایام وہی جانتے ہیں
جو کسی بات پہ اٹھ آئے ہیں میخانے سے
لوگ لے آتے ہیں کعبہ سے ہزاروں تحفے
ہم سے اک بت بھی نہ لایا گیا بت خانے سے
ظلمتِ دیر و حرم سے کوئی مایوس نہ ہو
اک نئی صبح ابھرنے کو ہے میخانے سے
اعجاز بھائی!
السلام و علیکم
جو کلام آپ نے بارِ حروف کا محفوظ کر رکھا ہے۔ اسے اپ لوڈ نہ کریں۔ میں بارِ حروف کو مکمل ٹائپ کر لوں تو وہ بعد میں اپ لوڈ کر دیں گے۔میں انشائاللہ ایک آدھ دن میں اجنبی سہی کو اپلوڈ کرنا شروع کر دوں گا۔