کیونکر کرے نہ اپنی نموداری شب برات
چلپک چپاتی حلوے سے ہے بھاری شب برات
زندوں کی ہے زباں کی مزیداری شب برات
مُردوں کی رُوح کی ہے مددگاری شب برات
نظیر اکبر آبادی
حدِّ برداشت سے جب درد فزوں ہوتا ہے
آس بندھتی ہے کہ اب دِل کو سُکوں ہوتا ہے
وقت ہر غم کا مداوا ہے مگر رہ رہ کر
دِل میں اِک درد جو اُٹھتا ہے یہ کیوں ہوتا ہے
رابعہ خاتون نہاؔں