ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مُختاری کی
چاہتے ہیں سو آپ کریں ہیں ہم کو عبث بدنام کِیا
یاں کے سپید و سیہ میں ہم کو دخل جو ہے تو اِتنا ہے
رات کو رو رو صبح کیا یا دن کو جُوں تُوں شام کِیا
میر تقی میر
آج کچھ سِینے میں دل ہے خُود بخُود بیتاب سا
کر رہا ہے بیقراری پارۂ سیماب سا
میں ہُوں اور خلوت ہے اورپیش نظرمعشوق ہے
ہے تو بیداری ولے کچھ دیکھتا ہُوں خواب سا
غلام ہمدانی مصحفی
میں تو سمجھا تھا ، کہ جب رات کٹے گی عاجز !
میرے آنگن میں بھی گُل رنگ سویرے ہونگے
گھر سے نِکلا تھے، اُجالوں کے قدم لینے کو
کیا خبر تھی، کہ تعاقب میں اندھیرے ہونگے
مشتاق عاجز