تم آئے ہو نہ شبِ اِنتظار گُزری ہے
تلاش میں ہے سحر، بار بار گُزری ہے
جنوُں میں جتنی بھی گُزری، بکار گُزری ہے
اگرچہ دل پہ خرابی ہزار گُزری ہے
ہُوئی ہے حضرتِ ناصح سے گفتگو جس شب !
وہ شب ضرُور سرِ کوُئے یار گُزری ہے
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات اُن کو بہت ناگوار گُزری ہے
نہ...