بطونِ خاک سے باتیں!
شبستانِ حیاتِ آدمی کی
شکستہ حال دیواروں کے نیچے
جہاں ہیں بس پکاریں جھینگروں کی
میں دیوانہ یہاں کیا کر رہا ہوں!
اٹھو!جاگو!
مرے ناگفتنی حالات کی تم
ذرا فریاد سن لو
سبھی کہہ دینے والی خامشی کی
ذرا آواز سن لو
مجھے دیکھو!
میں پھر اک بار ملنے کی ہوس میں
یہاں تک آ گیا ہوں...