سبھی خیالوں پہ چھا گیا ہے ، خیال تیرا جو آ رہا ہے
خیال تیرا حسیں ہے اتنا ، کہ دل کو میرے لبھا رہا ہے
-------------دوسرے مصرع میں 'خیال' کے دوہرائے جانے سے بچیں۔
سنا رہا ہے وفا کی باتیں ، کبھی جو ہم میں یہ سلسلے تھے
جو حسرتیں سو گئی تھیں دل میں ، انہیں یہ پھر سے جگا رہا ہے
-------------'ہم...