یہ وحشت طبیعت کی ایجاد ہے
مِرا درد ، دردِ خُدا داد ہے
گریبانِ غُنچہ ہو اِس کا ثبوت
تبسّم بھی اِک شکل فریاد ہے
ستائے گا کیا ، ہم کو تیرا فراق
مُلاقات صبحِ ازل یاد ہے
ذرا دیکھنا اُس کی تصویر کو
خموشی بھی اُسلوب رُوداد ہے
عجب نوع کے آدمی ہیں یہ شیخ
محبّت کو کہتے ہیں الحاد ہے
تمھاری پریشان...