You are using an out of date browser. It may not display this or other websites correctly.
You should upgrade or use an
alternative browser.
-
کیا وہ خواہش کہ جسے دل بھی سمجھتا ہو حقیر
آرزو وہ ہے ، جو سینے میں رہے ناز کے ساتھ
اکبرالہٰ آبادی
-
رو رو کے کِس طرح سے کٹی رات ، کیا کہیں !
مر مر کے کیسے کی ہے سَحَر کُچھ نہ پُوچھیے
اخترشیرانی
-
فراق آئینہ در آئینہ ہے حُسنِ نِگار
صباحتِ چمن اندر چمن کی آنچ نہ پُوچھ
فراق گورکھپوری
-
یہ سوزوساز نہ جنّت میں ہے ، نہ دوزخ میں !
دِلوں میں کیا ہے نِشاط و محن کی آنچ ، نہ پُوچھ
فراق گورکھپوری
-
فضا ہے دہکی ہُوئی، رقص میں ہیں شعلۂ گُل
جہاں وہ شوخ ہے اُس انجمن کی آنچ نہ پُوچھ
فراق گورکھپوری
-
آپ ، بیٹھیں تو سہی آ کے مِرے پاس کبھی !
کہ میں ، فرصت میں حدیثِ دلِ دیوانہ کہوں
حسرت موہانی
-
ثابت ہُوا ہے گردنِ مِینا پہ خُونِ خلْق
لرزے ہے موجِ مے ، تِری رفتار دیکھ کر
مرزا اسداللہ خاں غالب
-
دِیدنی آج ہے اس بزم میں دُنیا کا جمال
دَم بخُود بیٹھے ہیں عقبیٰ سے ڈرانے والے
اکبرالہٰ آبادی
-
اُڑتی پِھرتی ہے گو ہماری خاک
چھوڑ کر وہ گلی نہیں جاتی
داغ دہلوی
-
غم کِھلاتے ہیں وہ مہمان بُلا کر مجھ کو
یہ ضیافت ، یہ مدارات ہُوا کرتی ہے
داغ دہلوی
-
دامِ عاشق ہے دِل دہی نہ سِتم
دِل کو چھينا تو دِل رہائی کی
مومن خان مومن
-
بہت میر پھر ہم جہاں میں رہیں گے
اگر رہ گئے آج شب کی سحر تک
میر تقی میر
-
کہیئے، جہاں کرتا ہو تاثیرِسُخن کچھ بھی !
وہ بات نہیں سُنتا ، کیا اُس سے کہا جاوے
میر تقی میر
-
اندھیری گور سے بد تر فراق میں گھر ہے !
مرے پڑے ہیں ، کوئی زندگی کی آس نہیں
حبیب
-
رہے خیال نہ کیوں ایسی ماہِ طلعت کا
اندھیرے گھر کا ہمارے تو وہ اُجالا ہے
میر تقی میر
-
ہمیں بھی رات دن اِس تاک میں گُزرتی ہے
کبھی اندھیرے اُجالے وہ مِل ہی جائیں گے
داغ دہلوی
-
بن تِرے پیشِ نظر تھی یہ اندھیری چھا گئی
جائیں آنکھیں پُھوٹ اگر دیکھیں ہوں اختر رات کو
مومن خاں مومن
-
اندھیرا چھا گیا اے ماہِ کامِل تیرے چُھپنے سے
منوّر کر زمانے کو نِکل غیبت کے پردے سے
رشک
-
اے شبِ فُرقت عجب اندھیر کی یہ بات ہے
ساری دنیا میں تو دن اِک میرے گھر میں رات ہے
امیرمینائی
-
مجھے بہت پہلے کی بات یاد آئی کہ کس طرح سیٹی بجانے پر مار پڑی تھی
کیا ریل کو بھی سیٹی بجانے پر ۔۔۔۔۔۔۔۔ چلیں چھوڑیں جی ۔۔