غرض کہ کاٹ دیے زندگی کے دن، اے دوست !
وہ تیری یاد میں ہُوں ، یا تجھے بُھلانے میں
فراق گورکھپوری
I have, in short, spent my life, somehow, dear friend
Be it in remembering you, or trying to forget
firaaq gorakhpuri
ہرایک کے ہاتھ ، فقط غفلتیں تھیں ہوش نُما
کہ سب کو ، اپنے سے بیگانہ وار جینا تھا
فراق گورکھپوری
Everyone was self-oblivious, though he looked awake
Everyone led a life shorn of self-concern
firaaq gorakhpuri
ژَرْف نِگاہی سے ترجمہ دیکھنے کے بعد صرف شیرینی تقسیم کرکے، نگاہیں نیچی کیئے مت بیٹھ جائیے گا
کیونکہ ہم دیگی بریانی کی آس لگائے بیٹھے ہیں ۔۔ یہی تو ہیں جو مرا دل ۔۔۔۔۔۔۔ بیٹھے ہیں
یہ تو کچھ اور نہیں ہو گیا ۔۔ خیر، بریانی پر ذہن مرکوز رکھیں
اجنبی رنگ
سرفراز آرش
اجنبی رنگ ، چشمِ ِتمازت میں محصُور بے نُور خوابوں کی رنگت کو روتے رہے
میں پہاڑی کے ٹیلے پہ موجود تھا
برف گرتی رہی، خون جمتا رہا
ایک عریانی عریاں بدن کو چھپانے لگی تھی
"حرارت دعاؤں کی داسی نہیں"
کڑوے پانی کی چھاگل سے اسباب ٹپکائےتھے
آگ بھڑکائی تھی
بند رستوں میں حدت گزر گہ...
لمس ، مرہم کا کام کرتا ہے
تیرے چُھونے سے زخم بھرتا ہے
میں وہ رستے کی دُھول ہُوں ، جس کو
قافلہ چُوم کر گزُرتا ہے
نیم تیراک ہے ابھی سورج !
ڈوبتا ہے کبھی اُبھرتا ہے
علی زیرک
دِیا جلایا ، تن سے دُھول اُتاری ہے
یہ سب تم سے ملنے کی تیاری ہے
گزُر رہے ہیں لہو کی دھار سے رات اور دن
رات اور دن کے پیچھے اپنی باری ہے
ہم دونوں کے خواب کہاں مِل سکتے ہیں
تم نے رات اور ہم نے عمر گزُاری ہے
سر پر جو گٹھڑی ہے اُس کا بَوجھ نہیں
گٹھڑی میں جو سپنا ہے ، وہ بھاری ہے
نذیر قیصر
شفیق خلش
غزل
آنکھوں کی طرح میری چمکتے رہو تارو
تم دل کی طرح دِید کی اُمید نہ ہارو
ہے ہجر کا موسم یہ مِرے دل کے سہارو
قائم رہے کچھ وصل کی اُمّید تو پیارو
غالب رہے ضو باری بچھی تِیرہ شبی پر
چہرے نہ لگیں یاس کی تصویر سی تارو
اے چاند ، اُسے میری تسلّی ہی کی خاطر
آجائے وہ تم میں نظر ایسا...
فراق گورکھپوری
غزل
زیر و بم سے سازِ خلقت کے جہاں بنتا گیا
یہ زمیں بنتی گئی ، یہ آسماں بنتا گیا
داستانِ جورِ بیحد خُون سے لکھتا رہا
قطرہ قطرہ اشکِ غم کا، بیکراں بنتا گیا
عشقِ تنہا سے ہُوئیں ، آباد کتنی منزلیں
اِک مُسافر کارواں در کارواں بنتا گیا
ہم کو ہے معلوُم سب رودادِ علم و فلسفہ...