نتائج تلاش

  1. W

    شبِ عاشور سکینہ اپنے والد سے

    بنے گا رنج کا کوئی سبب کبھی نہ کبھی تمام ہو گا بالآخر یہ سب کبھی نہ کبھی ذرا سی دیر ہے باقی سحر کے ہونے میں گزر تو جائے گی آخر یہ شب کبھی نہ کبھی اگرچہ قفل لگے ہوں گے لب کی جنبش پر تمہارا نام پکاریں گے لب کبھی نہ کبھی یہ سوچ سوچ کے دل غم سے پھٹ رہا ہے مرا یہ خواب ختم تو ہونا ہے اب کبھی نہ...
  2. W

    غزل

    جمالِ نو تبسّم سے ترے ایجاد پائے گا قدم کی خاک پر تازہ جہاں بنیاد پائے گا مجاور بت کدے دیکھ لے تجھ کو تو پھر دل میں طریقِ بت پرستی کی جگہ الحاد پائے گا نہیں ہے لَوٹنا مجھ کو تری آنکھوں کے ساحل سے کوئی اب ریت پر مٹتی مری رُوداد پائے گا جدا ہوتے ہوئے یہ سوچ کر تکلیف کم ہوگی بہت سے چاہنے...
  3. W

    غزل یکم جنوری 2019 کو لکھی

    ابھی ابھی میری ایک نامور شاعر سے اس موضوع پر بات ہوئی۔ انہوں کے کہا کہ اس غزل کے قافیوں میں "نے" سے پہلے جو حرف آتا ہے وہ ساکن ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ حرف کی حرکت یا سکون بھی قافیہ ہو سکتا ہے۔ دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے آخر اس مرض کی دوا کیا ہے ۔۔۔ ماجرا کیا ہے اس غزل کے قافیے میں الف سے پہلے...
  4. W

    غزل

    میں خوش نصیب ہوں کتنا کہ میرے پاس ہو تم یہی تھی ایک تمّنا کہ میرے پاس ہو تم بِتا دیا جو تمہارے بغیر یاد نہیں خلش ہے اب، نہ تڑپنا کہ میرے پاس ہو تم اگر سکوں ہے فقط اب تمہاری قربت میں تو کیا جہان سے ڈرنا کہ میرے پاس ہو تم ملے ہو مدّتوں کے بعد، اب یقین نہیں یہ سچ ہے یا کوئی سپنا کہ میرے پاس...
  5. W

    غزل یکم جنوری 2019 کو لکھی

    مہربانی آپ نے مری کاوش کو پڑھا۔ میں نے سہ حرفی قافیہ باندھا تھا جس کا پہلا حرف ساکن ہو اور الف، واو ،یہ وغیرہ نہ ہو۔ آخری دو حرف 'نے' ہوں۔ جیسے سلگنے، جلنے، لکھنے۔
  6. W

    غزل یکم جنوری 2019 کو لکھی

    جناب وضاحت فرمائیے۔
  7. W

    غزل یکم جنوری 2019 کو لکھی

    کاش رہ جائے مری راکھ سلگنے کے لئے عمر تھوڑی ہے ترے عشق میں جلنے کے لئے دل مرا چُھو لے تبسم سے کہ تیّار ہے اب تیشۂِ حُسن سے یہ سنگ ترشنے کے لئے چُن رہا ہے تری آنکھوں سے ستاروں کو فلک کہکشاؤں کی حسیں مانگ میں بھرنے کے لئے مئے لالہ میں شرابور مچلتا ہے سخن قطرہ قطرہ ترے ہونٹوں سے ٹپکنے کے لئے...
  8. W

    نظم برائے اصلاح اور تنقید

    زیارتِ کربلا جذبات کے سیلاب کو اشکوں سے بڑھاتا ہوں میں وارفتگی کے تیز ریلے میں بہا جاتا ہوں میں ہلچل مچائی قلب نے کیسی ہے سینے میں مرے اندر اٹھے طوفان کی شدت سے تھرّاتا ہوں میں سارے دلائل ریت کی دیوار ثابت ہو گئے مجبور اتنا دل کے ہاتھوں خود کو اب پاتا ہوں میں کیسے نگاہوں سے چھپا رکھّوں گا دل...
  9. W

    برائے تنقید

    مہربانی جناب۔ اسے اب کچھ تبدیل کیا ہے۔ ایک دوست کے نام 'ہو نہ جائے کچھ' یہ کیسا خوف ہے چھایا ہوا اس مسلسل فکر سے ہے ذہن پتھرایا ہوا گھُل رہی ہے جان میری سوچ کر باتیں کئی پھر الجھ جاتا ہے کوئی وہم سلجھایا ہوا مجھ کو ہر 'شاید' کے اندیشے لگے ہیں رات دن وسوسوں نے ہر طرف ہے جال پھیلایا ہوا خیر...
  10. W

    برائے تنقید

    ایک دوست کے نام 'ہو نہ جائے کچھ' یہ کیسا خوف ہے چھایا ہوا اس مسلسل فکر سے ہے ذہن پتھرایا ہوا گھُل رہی ہے جان میری سوچ کر باتیں کئی پھر الجھ جاتا ہے کوئی وہم سلجھایا ہوا مجھ کو ہر 'شاید' کے اندیشے لگے ہیں رات دن وسوسوں نے ہر طرف ہے جال پھیلایا ہوا خیر کی امّید تو ہوتی ہے لیکن ساتھ ہی پھر ابھر...
  11. W

    نظم برائے تنقید و اصلاح

    آپ کی رائے کی روشنی میں کچھ اور تبدیلیاں کی ہیں۔ اگر آپ فرمائیں کہ 'کبھی' زائد نہیں تو پھر پرانا مصرع لے آؤں گا۔ بِیت جائے گی بہت جلد یہ مدت اک دن دیکھتے دیکھتے آ جائے گی رخصت اک دن آئینہ کان میں کرتا ہے مرے سرگوشی منہدم ہو گی بدن کی یہ عمارت اک دن مختصر وقت ہے، دنیا میں ہیں اسرار بہت جان...
  12. W

    نظم برائے تنقید و اصلاح

    محبت مہربانی۔ میں دیکھتا ہوں کہ آپ نہایت عرق ریزی سے سب کے سوالوں کے جواب دیتے ہیں۔ میں آپ کا بہت مشکور ہوں۔ ایک دوست نے بتایا کہ 'کیا کبھی جان سکوں گا میں حقیقت اک دن؟ ' اس میں کبھی زائد ہے۔
  13. W

    نظم برائے تنقید و اصلاح

    ایک دوست نے رائے دی کہ کچھ اشعار میں ردیف 'اک دن' کچھ بیٹھ نہیں رہا۔ لہذا اب اس نظم کو کچھ تبدیل کر دیا ہے۔ علم اور مذہب بِیت جائے گی بہت جلد یہ مدت اک دن دیکھتے دیکھتے آ جائے گی رخصت اک دن آئینہ کان میں کرتا ہے مرے سرگوشی منہدم ہو گی بدن کی یہ عمارت اک دن مختصر وقت ہے، دنیا میں ہیں اسرار...
  14. W

    ایسی بحریں جن کے ارکان متغیر ہو سکیں

    آپ کے جواب کا شکریہ۔ میرے پیشِ نظر یہ مضمون تھا۔ اس میں فاعلاتن اور فعلن کو اس بحر کی ایک شکل میں بدلا جا سکتا ہے۔ یہ ارشاد فرمائیے کہ کیا اس طرح کی اور مثالیں بھی موجود ہیں؟ آپ مضمون یہاں ملاحظہ فرمائیے۔ صریرِ خامۂ وارث: ایک خوبصورت بحر - بحرِ خفیف
  15. W

    ایسی بحریں جن کے ارکان متغیر ہو سکیں

    جیسا کہ بحر خفیف کی ایک مقطوع شکل میں ارکان کے ہجے بدلے جا سکتے ہیں جیسے فاعِلاتن کی جگہ فعلاتن لایا جا سکتا ہے اور اسی طرح بحر رمل کی بھی ایک مقطوع شکل میں فاعلاتن کی بجائے فعلاتن استعمال کیا جا سکتا ہے۔ کیا اس طرح کی اور بحریں بھی پائی جاتی ہیں؟ کیا فاعلاتن، فعلاتن کی طرح کے اور ارکان بھی...
  16. W

    برائے اصلاح

    واہ۔ داد قبول کیجئے۔
  17. W

    نظم برائے تنقید و اصلاح

    علم اور مذہب بِیت جائے گی بہت جلد یہ مدت اک دن دیکھتے دیکھتے آ جائے گی رخصت اک دن آئینہ کان میں کرتا ہے مرے سرگوشی منہدم ہوگی بدن کی یہ عمارت اک دن مختصر وقت ہے، دنیا میں ہیں اسرار بہت کیا کبھی جان سکوں گا میں حقیقت اک دن؟ زندگانی کا مری کچھ تو نتیجہ نکلے پا سکے کچھ تو معانی یہ مسافت اک دن...
  18. W

    برائے تنقید و اصلاح

    شکریہ۔
  19. W

    برائے تنقید و اصلاح

    مہربانی جناب۔ یہ فرمائیے کہ کیا 1 ہاتھوں میں ہوئی لعل کی جب قطع رگِ جاں - تسلیم و رضا لب پہ کئے شاہ نے دوراں اس شعر کا مطلب ادا ہو رہا ہے؟ 2 اگر قوافی کے 'نون' نہ گرائیں جائیں تو بہتر ہوگا یا نون غنہ کے ساتھ ہی زیادہ مناسب ہے۔ جیسے ہاتھوں میں ہوئی لعل کی جب قطع رگِ جان - تسلیم و رضا لب پہ کئے...
  20. W

    برائے تنقید و اصلاح

    اس کو کچھ تبدیل کردیا ہے۔ اب شاید معانی کچھ بہتر انداز سے بیاں ہو رہے ہیں۔ جناب علی اصغر صحرا کو کیا جس نے تبسم سے گلستاں آغوش میں وہ پھول اٹھا لائے تھے ذیشاں چہرہ وہ حسیں پیاس کی شدت سے تھا ویراں لب خشک تھے اتنے کہ اٹھے قلب میں طوفاں اک آنکھ مگر نم نہ ہوئی، دل نہ تھا لرزاں اُس فوج کے...
Top