جناب تصویر تو بہت عمدہ تھی لیکن آپ کی پابندیوں نے اس کو اس حال تک پہنچایا ہے۔ اور آپ کے مطب میں سرجری بھی ہوتی ھے یا محض ٹونے ٹوٹکوں سے علاج کیا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن پہلے یہ بتائیں کہ فیس کتنی ہو گی۔
نیند کی باتیں ہو رہی ہیں تو مجھے منیر اسلم کی اسی مو ضوع پر نظم یاد آئی ہے
ماں جب بھي بند کرتا ہوں آنکھيں
تيري صورت نظر آتي ہے مجھے نيند نہيں آتي
جب بھي آبھٹکيں وہ تيرے پيار بھرے جذبات
آنکھيں روتي ہيں بس مجھے نيند نہيں آتي
ماں تيري آواز ميں جانے کيا کشش تھي
جب سے سني نہيں لوري مجھے نيند...
ہم کوتو میسر نہیں مٹی کا دیا بھی
گھر پیر کا بجلی کے چراغوں سے ہے روشن
شہری ہو، دہاتی ہو، مسلمان ہے سادہ
مانند بتاں پجتے ہیں کعبے کے برہمن
نذرانہ نہیں، سود ہے پیران حرم کا
ہر خرقہء سالوس کے اندر ہے مہاجن
میراث میں آئی ہے انھیں مسند ارشاد
زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن!
(علامہ...
ماشاءاللہ
جناب ہمیں آپ کے ایجنڈے سے کوئی اختلاف نہیں۔ آپ نے اتنی اچھی باتیں کی ہیں کہ دل خوش کردیا ہے۔
آپ نے جن حضرات کا ذکر کیا ہے۔ یہ لوگ بہت ھی مثبت سوچ رکھنے والے اور معاشرے کو کچھ دینے والے، اسلام کی اقدار کو زندہ کرنے میں ان کی خدمات سنہرے حروف سے لکھی جایئں گی۔ اب دیکھیں کہ یہ لوگ...
افرنگ زدہ
ترا وجود سراپا تجلی افرنگ
کہ تو وہاں کے عمارت گروں کی ہے تعمیر
مگر یہ پیکر خاکی خودی سے خالی
فقط نیام ہے تو، زرنگار و بے شمشیر!
تری نگاہ میں ثابت نہیں خدا کا وجود
مری نگاہ میں ثابت نہیں وجود ترا
وجود کیا ہے، فقط جوہرِ خودی کی نمود
کر اپنی فکر کہ جوہر ہے بے نمود ترا...
سلطانی
کسے خبر کے ہزاروں مقام رکھتا ہے
وہ فقر جس میں ہے بے پردہ روحِ قرآنی
خودی کو جب نظر آتی ہے قاہری اپنی
یہی مقام ہے کہتے ہیں جس کو سلطانی
یہی مقام ہے مومن کی قوتوں کا عیار
اسی مقام سے آدم ہے ظل سبحانی
یہ جبر و قہر نہیں ہے، یہ عشق و مستی ہے
کہ جبر و قہر سے ممکن نہیں جہاں بانی...
حیات ابدی
زندگانی ہے صدف، قرہء نیساں ہے خودی
وہ صدف کیا کہ جو قطرے کو گہر کر نہ سکے
ہو اگر خود نگر و خودگر و خودگیر خودی
یہ بھی ممکن ہے کہ تو موت سے بھی مر نہ سکے
آج نہ جانے علامہ اقبال کیوں یاد آرہے ہیں۔ ان کا ایک کلام آپ سب کی نظر
روح اسلام کی ہے نورِ خودی، نارِ خودی
زندگانی کے لئے نارِ خودی نور و حضور
یہی ہر چیز کی تقویم، یہی اصلِ نمود
گرچہ اس روح کو فطرت نے رکھا ہے مستور
لفظِ “اسلام“ سے یورپ کو اگر کد ہے تو خیر
دوسرا نام اسی دین کا ہے “فقرِ غیور!“