سید عاطف علی
لائبریرین
اچھا کیا ۔نہیں تو کتنی زہریلی باتیں کرتی ۔ اب دیکھو کتنے پھول جھڑتے ہیں باتوں سے کیوں بھئیمارا ضرور ہے مگر کھایا نہیں
اچھا کیا ۔نہیں تو کتنی زہریلی باتیں کرتی ۔ اب دیکھو کتنے پھول جھڑتے ہیں باتوں سے کیوں بھئیمارا ضرور ہے مگر کھایا نہیں
اچھا کیا ۔نہیں تو کتنی زہریلی باتیں کرتی ۔ اب دیکھو کتنے پھول جھڑتے ہیں باتوں سے کیوں بھئی
70-80 فیصد تو معصوم ہی ہوتے ہیں ۔سانپ جیسے معصوم جانور کو مارنے کی تک؟
3000 سے زیادہ قسمیں ہیں سانپوں کی۔ 600 کے قریب زہریلے ہوتے ہیں لیکن ان میں بھی اکثریت ایسی زہریلی نہیں کہ انسان کو کوئی خاص نقصان پہنچا سکیں۔ وہ صرف 200 کے قریب ہی ہیں۔ یعنی کوئی 7 فیصد70-80 فیصد تو معصوم ہی ہوتے ہیں ۔
البتہ کچھ ہوتے ہیں جو مسوڑھوں میں ایک چنی منی سے تھیلی دانتوں سے لگا رکھتے ہیں ۔
بیری والا گھر مینوں اج تکڑ یاد اےاب معلوم نہیں کس استاد کا ذکر کر رہے آپ۔۔۔ ہمیں لڑی لگانی ہی پڑے گی
اس تحقیق کو من و عن تسلیم بھی کر لیا جائے تو 200 اقسام کے متعلق علم رکھنا ہم جیسے کسی عامی کے لیے تو ناممکنات کے درجے میں ہے، عام طور پر سانپ کا خوف ہی ایسا ہے کہ دیکھتے ہی مار دیا جاتا ہے3000 سے زیادہ قسمیں ہیں سانپوں کی۔ 600 کے قریب زہریلے ہوتے ہیں لیکن ان میں بھی اکثریت ایسی زہریلی نہیں کہ انسان کو کوئی خاص نقصان پہنچا سکیں۔ وہ صرف 200 کے قریب ہی ہیں۔ یعنی کوئی 7 فیصد
لاعلمی میں سانپوں سے بچاؤ کا تو یہی حل رہ جاتا ہےہم پاکستان میں لاعلمی کے سبب تقریباََ سو فیصد سانپوں کو مار کر دیکھتے ہیں کہ یہ کونسا والا تھا ۔
ہر کوئی پہچان نہیں سکتا البتہ مار ہر کوئی سکتا ہے ۔
لیکن 200 اقسام ایک ہی علاقے میں موجود نہ ہوں گی۔ کسی ایک علاقے میں چند ہی زہریلے سانپ ہوتے ہیں اور انہیں پہچاننا مشکل نہیں۔ اب تو ایپس بھی ہیں جو تصویر اور آپ کی لوکیشن سے جانور یا پودے کا بتا دیتی ہیں۔اس تحقیق کو من و عن تسلیم بھی کر لیا جائے تو 200 اقسام کے متعلق علم رکھنا ہم جیسے کسی عامی کے لیے تو ناممکنات کے درجے میں ہے، عام طور پر سانپ کا خوف ہی ایسا ہے کہ دیکھتے ہی مار دیا جاتا ہے
ہر مسئلے کا حل قتل عام!ہم پاکستان میں لاعلمی کے سبب تقریباََ سو فیصد سانپوں کو مار کر دیکھتے ہیں کہ یہ کونسا والا تھا ۔
ہر کوئی پہچان نہیں سکتا البتہ مار ہر کوئی سکتا ہے ۔
ہزار سانپ رہ زندگی میں ملتے ہیں!!!سانپ جیسے معصوم جانور کو مارنے کی تک؟
پھر اس میں سب سے بڑے قصوروار تو ماہرین ہوئے نا جنہوں نے اس کے متعلق معلومات عام نہیں کیںہر مسئلے کا حل قتل عام!
اس تحقیق کو من و عن تسلیم بھی کر لیا جائے تو 200 اقسام کے متعلق علم رکھنا ہم جیسے کسی عامی کے لیے تو ناممکنات کے درجے میں ہے، عام طور پر سانپ کا خوف ہی ایسا ہے کہ دیکھتے ہی مار دیا جاتا ہے
اس میں زیادہ کردار قدرتی حیات کے اداروں کی نا اہلی ( اس کا سبب ) ہے ۔میدانی علاقوں میں سپیکٹکلڈ کوبرا اور کامن کریٹ (اور شاید کچھ وائپرز جوہیمو اور سائٹو ٹاسک ہوں) سب سے زیادہ پائے جانے والے اور خطرناک ہیں جو نیورو ٹاکسک ہیں ۔ لیکن علاقائی ہسپتالوں مین اینٹی وینم کی موجودگی کا کچھ پتہ نہیں ہوتا ۔ سنیک بائٹ (کوبرا اور کریٹ ) میں آپ کے پاس 45 منٹ سے زیادہ ٹائم نہیں ہوتا ورنہ موت یقینی ہے ۔3000 سے زیادہ قسمیں ہیں سانپوں کی۔ 600 کے قریب زہریلے ہوتے ہیں لیکن ان میں بھی اکثریت ایسی زہریلی نہیں کہ انسان کو کوئی خاص نقصان پہنچا سکیں۔ وہ صرف 200 کے قریب ہی ہیں۔ یعنی کوئی 7 فیصد
مقید کر دیا یہ کہہ کر سانپوں کو سپیروں نے !!!!!لاعلمی میں سانپوں سے بچاؤ کا تو یہی حل رہ جاتا ہے
کہاں کے؟ یہاں تو ایسا کوئی مسئلہ نہیںاس میں زیادہ کردار قدرتی حیات کے اداروں کی نا اہلی ( اس کا سبب ) ہے ۔
پاکستان کے اداروں کی بات کر رہا ہوں ۔جنگلی حیات ، ماحولیات وغیرہکہاں کے؟ یہاں تو ایسا کوئی مسئلہ نہیں
کونسے ماہرین؟ کہاں کے ماہرین؟ معلومات آپ کے ہاتھ میں ہیں فون پر۔ اس سے زیادہ آسانی کیا ہو گیپھر اس میں سب سے بڑے قصوروار تو ماہرین ہوئے نا جنہوں نے اس کے متعلق معلومات عام نہیں کیں
پرمزاحپاکستان کے اداروں
کیا کروشیا میں بھی سانپ ہوتے ہیں؟ کیا وہ بوسنیا کے سانپوں جیسے ہیں؟اب ماہرینِ سانپ مصروف ہیں۔