تحقیقی کام کے لحاظ سے فہرست شاید طویل ہو لیکن جن زبانوں اور ٹیکنالوجیز سے باقاعدہ لڑ جھگڑ چکا ہوں ان کے نام لکھ دیتا ہوں۔
جاوا،گرووی، سی شارپ، سی، پی ایچ پی، ایس کیو ایل
ڈاٹ نیٹ، سپرنگ، سپرنگ انٹیگریشن، سپرنگ بوٹ، گیریلز، اپاچی کیمل، آئی بی ایم میسیج بروکر، آریکل او ایس ایم، آریکل سیبل، آریکل اوپن یو آئی، اینگولر2 ،آریکل بی آر ایم، لائف رے
آج کل مینیجمنٹ کےکہنے پر ڈی ایکس پی اور اومنی چینل جیسی ٹرمینالوجیز کو کپمنی میں متعارف کروانے کی کوشش کررہا ہوں۔ اس سلسلے میں مختلف پروڈکٹس اور اوپن سورس ٹولز اور ٹیکنالوجیز کو دیکھ رہا ہوں۔ مثلا کمپنی میں پہلے سے کونی فیبرک موجود ہے۔ پارس، اپاچی یوزر گرڈ وغیرہ پر ہاتھ صاف کررہا ہوں۔ اے پی آئی مینیجمنٹ کے لیے کونغ، ٹائک، ڈبلیوایس او2 وغیرہ۔
ہمیشہ سے پروجیکٹس میں ٹائم لائن سے۔ اسی لیے زیادہ تر تحقیقی کام کرنے پر مطمئن رہتا ہوں۔ جہاں بزنس ایز یوزول کی بات آئے تو میری جان جاتی ہے۔ ابھی تک الحمدللہ تقریبا 15 سالہ کیرئیر میں کوئی ڈیڈ لائن چھوٹی نہیں لیکن طبیعت کے لحاظ سے بلاوجہ کا پریشر خود پر سوار کر لیتا ہوں اس لیے پروجیکٹ مینجرز سے کبھی نہیں بنی۔
ڈاٹ نیٹ نے اپنی مارکیٹ خود خراب کی۔ جب پہلا ورژن ریلیز کیا تھا تو کہا تھا کہ یہ فریم ورک ونڈوز کے علاوہ بھی مہیا کیا جائے گا۔ لیکن بہت دیر بعد ان کو ڈاٹ نیٹ کور ریلیز کرنے کا خیال آیا۔ میرے خیال میں اس دوران جاوا نے اچھا خاصا مارکیٹ شئیر حاصل کر لیا ہے۔ ابھی بھی جہاں جلدی کسی پروگرام (ڈیسک ٹاپ یا ویب) کو بنانے کی بات ہو تو عام طور پر لوگوں کو ڈاٹ نیٹ ہی استعمال کرتے دیکھا ہے۔
مائیکروسافٹ اپنی پروڈکٹس اینڈ یوزر کے لیے بناتا ہے۔ یہی کام اس نے پروگرامنگ فریم ورک بناتے ہوئے کیا۔ یعنی بہت ساری ایسی تفصیل جو کم از کم پروگرامرز یا ایڈوانس یوزرز کو معلوم ہونی چاہیے یا ڈاکومینٹیشن میں موجود ہونی چاہیے وہ آفیشل لنکس پر موجود ہی نہیں۔ اس کے لیے تھوڑا بہت دھکے کھانے پڑتے ہیں۔
ابتدا میں ایسا ہی ہوا تھا۔ شوق پروگرامنگ کا تھا لیکن بدقمستی سے پہلی جاب ویب ڈیزائنگ کی کرنی پڑی۔ فوٹو شاپ، کورل ڈرا، سی ایس ایس، ایچ ٹی ایم ایل کے ساتھ خوب گھلنے کا موقع ملا۔ پھر پی ایچ پی، پھر ڈاٹ نیٹ، پھر سی ، سی پلس پلس اور پھر جاوا کے دامن میں پناہ لی۔
پروگرامنگ سے ہی دلچسپی تھی اور ابھی تک برقرار ہے۔ یونیورسٹی میں بھی ایررز دیکھ کر خوش ہوتا تھا اب بھی (اگر پروجیکٹ کی ڈیڈ لائن نزدیک نہ ہو
) ایررز دیکھ کر آستینیں چڑھا کر کیڑے مارنے لگ جاتا ہوں۔
سعودی عرب میں پہلا پروجیکٹ ہی بہت دلچسپ تھا۔ میں ڈاٹ نیٹ پر کام کرنے کا عادی تھا یہاں آتے ہی مجھے سولیرس پر وائی ایڈیٹر تھما دیا گیا جس پر ایرو کیز اس طرح کام نہیں کرتیں جیسے ونڈوز کے ٹیکسٹ ایڈیٹر میں کرتی ہیں۔ پھر کوڈ سی زبان میں لکھنا تھا۔ چند دن میں ہی سمجھ گیا تھا کہ یا تو کمپنی والے خود نکال دیں گے یا پھر میں خود چھوڑ جاؤں گا۔ لیکن آفرین ہے میرے استاد میرے سینئیر (نوید لطیف انصاری) پر۔ جنھوں نے نہ صرف مجھے برداشت کیا بلکہ بہت کچھ سکھایا۔ ہم لوگ آئی بی ایم ایم کیو کے مقابلے کی ان ہاؤس پروڈکٹ بنانا چاہ رہے تھے۔ الحمدللہ تکنیکی لحاظ سے پروڈکٹ تو تیار ہوگئی لیکن کیونکہ آئی بی ایم سے مقابلہ کرنا درست نہیں تھا اس لیے پروجیکٹ مکمل فنکشنل ہونے سے پہلے ہی مینیجمنٹ تبدیل ہوگئی اور پروجیکٹ کو ردی کرنا پڑا۔ لیکن پروجیکٹ کے دوران ہم نے سی زبان میں اپنا کیمیونیکیشن پروٹوکول لکھا اور اپنا ہی ایچ ٹی ٹی پی سرور۔ اس کی وجہ سے بہت کچھ سیکھنے اور سمجھنے کو ملا۔
گوگل زندہ باد، ویسے اکثر اپنے استاد سے مشورہ کرتا ہوں۔ کبھی کبھار گارٹنر وغیرہ کے آرٹیکلز بھی دیکھ لیتا ہوں۔ کچھ دن پہلے میرے مینیجر نے مجھے
ٹیکنالوجی رڈار کے بارے میں بتایا تھا وہ کافی دلچسپ رہا۔ والیم 19 پڑھ چکا ہوں اور آئندہ کے لیے سبسکرائب کر لیا ہے۔
خیال بھی آیا تھا اور عملی جامہ بھی پہنایا تھا۔ پھر سب کچھ حالات اور وقت کی نظر ہو گیا۔ اب تو ایڈریس بھی یاد نہیں (غالبا شئیر نالج کے نام سے کچھ شروع کیا تھا)۔ وقت نکالنا مشکل ہوگیا ہے۔ لیکن ارادہ ہے، جب موقع ملا دوبارہ شروع کروں گا۔ ان شاءاللہ
عام طور پر ڈاکومنٹس کا علیحدہ فولڈر اور اپلیکیشن کا علیحدہ۔ مزید فولڈرز پھر پروجیکٹ کی نوعیت کے لحاظ سے بنتے جاتے ہیں۔
میرا زیادہ تر تجربہ ٹیلی کام آئی ٹی میں کام کرنے کا ہے۔ جہاں ٹائم ٹو مارکیٹ زیادہ اہم فیکٹر ہوتا ہے۔ اس لیے پہلی ترجیح (تحقیقی کام سے ہٹ کر) یہ ہوتی تھی کہ جو زبان یا ٹیکنالوجی زیادہ اچھے سے آتی ہے اور کام کی نوعیت کے لحاظ سے بہت سے کام خودکار طریقے سے ہوسکتے ہیں تو اس کو ہی منتخب کرتا تھا۔ مثلا ڈیسک ٹاپ کے لیے ڈاٹ نیٹ، انٹیگریشن کا کوئی کام ہو تو سپرنگ یا اپاچی کیمل وغیرہ۔ لیکن یہ منحصر ہوتا ہے کہ پروجیکٹ کی نوعیت اور تفصیل کیا ہے۔
لوکل پر۔ معلوم نہیں مجھے کلاؤڈ سے کچھ الرجی ہے۔ بس ایسے ہی۔ آج کل بہت شور ہے لیکن میرے طبیعت مائل نہیں ہوئی ابھی تک۔
مختلف جگہ پر مختلف استعمال کیے۔ سب ورژن، آئی بی ایم کلئیر کیس اور گٹ۔ آج کل تو گٹ ہی استمعال ہورہا ہے۔ میں گٹ آن پریمیسس کو زیادہ پسند کرتا ہون۔
شوق سے آیا تھا۔ پھر عشق ہوگیا۔
تقریبا 15 سال۔ زیادہ تر تجربہ مڈل وئیر ٹیکنالوجیز کا ہے۔ ویب فرنٹ اینڈ پر تفصیلی کام کیے کافی وقت ہوگیا ہے لیکن اب حالیہ پروجیکٹ میں دوبارہ فرنٹ اینڈ ٹیکنالوجیز پر کام کرنا پڑ رہا ہے جو ذرا کمفرٹ زون سے باہر لگ رہا ہے۔
۔ اس لیے کہ اس عمر میں بھی پڑھائی کرنی پڑ رہی ہے۔