یہ تو عام سی بات ہے۔ کافی لوگوں سے ایسا سن چکا ہوں۔ اکثر اوقات ایسا ہوتا ہے کہ میرے ہی آیئڈیاز میرے سامنے دہرائے جا رہے ہوتے ہیں اور میں سر ہلا کر کہتا ہوں: "بہت اچھا آئیڈیا ہے"
ایک واقعہ یاد دلا دیا آپ نے۔ ایک مرتبہ ایک ارجنٹ ایڈہاک قسم کا پروجیکٹ میرے پاس آیا۔ پروجیکٹ گورنمنٹ کی پالیسی سے متعلق تھا اس لیے سینئیر مینیجمنٹ اس کو مانیٹر کررہی تھی۔ میرا مینیجر چھٹی پر گیا ہوا تھا (عام طور پر جس کام میں میڈل (شاباش) ملنے کا خدشہ ہو اس کو اکثر (سارے نہیں) لوگ اپنی ذات تک محدود رکھنے کی کوشش کرتے ہیں)۔ اس لیے 2۔ 3 دن ایسے ہی نکل گئے۔ مینیجر چھٹی سے واپس آیا تو مجھے کہنے لگا کہ یہ کام آج شام تک مکمل کرنا ہے (وہ شاید پہلے خود اس کو کرنے کی کوشش کر رہا تھا) کیونکہ کل سے بل سائیکل اسٹارٹ ہورہا ہے اور اس میں یہ استعمال ہونا ہے۔ ساتھ ہی ڈائریکشن بھی دے دی کہ ایک سمپمل جاوا کی کلاس بنا لو اور اسی میں سارا کوڈ لکھ دو (اس نے کچھ بنیادی کوڈ سیمپل کے طور پر بھی دیا) ، زیادہ لمبے چوڑے کسی فریم ورک میں کام کرنے کی ضرورت نہیں ہمارے پاس وقت نہیں ہے۔ میں نے گذارش کی کہ ایسا کرنے سے ایک تو فلیکسیبلیٹی نہیں رہے گی (کیونکہ مجھے یقین تھا کہ ایڈ ہاک قسم کے کام میں تبدیلیاں بہت آتی ہیں)۔ دوسرا یہ کہ 20 ملین ایکس ایم ایل کو پرسیسنگ کرنے میں بہت وقت لگے گا، پروگرام بہت آہستہ کام کرے گا۔ اس کے لیے ملٹی تھریڈڈ ایپلیکیشن درست رہے گی۔ لیکن مینیجر صاحب کو تمغہ لینے کی جلدی تھی، لہذا نوکر کیا اور نخرا کیا۔ میں نے بھی مکھی پر مکھی مار کر شام سے پہلے کوڈ لکھ کر، ٹیسٹ کرکے مینیجر کے حوالے کردیا۔ جس کی بنیاد پر اس نے شاید مینیجمنٹ سے تمغہ لینا تھا۔
مجھے معلوم تھا کہ یہ کام پلٹ کر میرے پاس ہی آئے گا۔ لہذا میں نے اپنے تئیں سپرنگ انٹیگریشن پر ایک فریم ورک اگلے دن تک لکھ دیا۔ جو ایکس ایم ایل پارسنگ اور پروسیسنگ کے لحاظ سے بہت بہتر تھا۔ ملٹی تھریڈڈ ہونے کی وجہ سے فاسٹ بھی تھا۔ اگلے دن وہی ہوا جس کا ڈر تھا (میں اپنا فریم ورک ابھی مکمل نہیں کر پایا تھا) تقریبا 10 بجے مینیجر کی کال آئی، میری بدقسمتی کے میں نے سپیکر آن کردیا۔ وہ پوچھنے لگا کہ یہ اتنا آہستہ کیوں چل رہا ہے؟ میں نے کہا کہ یہ بات تو میں نے کل ہی آپ کو کہی تھی، لیکن میری اس بات کو وہ نظر انداز کر کے مجھے کہنے لگا کہ اس کا کچھ کرو اس کی سپیڈ بڑھاؤ۔ میں نے کہا کہ اگر کچھ وقت کل مل جاتا تو میں اس سے کہیں بہتر پروگرام بنا دیتا۔ اس پر مینیجر کا پارہ چڑھ گیا وہ غصے میں بولا کہ تم کتنے عرصے سے اس کمپنی میں ہو، تمہیں نہیں معلوم یہاں کام کیسے ہوتا ہے۔ سپیکر آن ہونے کی وجہ سے سے آس پر سارے لوگوں نے وہ ڈانٹ سن لی۔ غصہ تو مجھے بہت آیا لیکن پی گیا۔ خیر اس سنگل فائل والے جاوا کے پروگرام میں تبدیلی کر کے اس کے 2 سے 3 انسٹنس چلا دیے پھر بھی سپیڈ بہت آہستہ تھی۔
دوپہر تک میں نے اپنا فریم ورک مکمل کر لیا۔ پھر میرا مینیجر بلنگ (billing) ٹیم کے مینیجر کے ساتھ گھومتا پھرتا میرے ڈیسک پر آیا تو میں نے اس کو کہا کہ یہ فریم ورک میں نے مکمل کرلیا ہے۔ اس کی سپیڈ پہلے والے سے 6، 7 گنا زیادہ ہے۔ اور تبدیلی کرنا انتہائی آسان ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ روپورٹنگ کے لیے علیحدہ سے ڈیٹا بیس میں معلومات بھی جمع کرتا ہے۔ یہ بات سن کر اس نے فورا بلنگ مینیجر سے کہا کہ سنو بھائی "
ہم" نے یہ پروگرام تشکیل دے دیا ہے، یہ آپ کی مشکل بہتر طریقے سے حل کردے گا۔ اگلے 2، 3 مہینوں میں جب تک مسئلے کا مستقل حل نہیں نکلتا یہ پروگرام استعمال کیا جاسکتا ہے۔ میں خاموش کھڑا سر ہلا رہا تھا۔
تفصیل کے لیے معذرت۔ ویسے میری ذاتی رائے یہ ہے کہ آئیڈیا کوئی ایسی چیز نہیں کہ کسی اور کے ذہن میں آ ہی نہیں سکتا۔ اور آئیڈیا ہی فقط کامیابی کی گارنٹی نہیں ہوتا۔ کچھ لوگوں کو دیکھا کہ وہ آئیڈیا بھی کسی کے ساتھ شئیر نہیں کرتے کہ کہیں دوسرا کامیاب نہ ہوجائے، میرے نزدیک یہ بخل ہے۔ میں نہ صرف معلومات بلکہ جو بھی آئیڈیا ذہن میں ہو وہ اپنے دوستوں اور کام سے جڑے دوسرے لوگوں سے بےخوف و خطر شئیر کرتا ہوں۔ کیونکہ میرے نزدیک اگر کسی کام کی بنیاد پر کامیابی اللہ پاک نے میرے نصیب میں لکھی ہے تو کوئی کچھ بھی کر کے اس کو حاصل نہیں کرسکتا۔ اور اگر میرے نصیب میں نہیں ہے تو میں کچھ بھی کر کے اس کو حاصل نہیں کرسکتا۔ ہاں انسان ہونے کے ناطے برا ضرور لگتا ہے جب آپ کی پروڈکٹ کو کوئی دوسرا آپ کے سامنے، کسی تیسرے کو اپنا کہہ کر بیچ رہا ہو