شمشاد
لائبریرین
صفحہ ۲۰۲
اور فارسی کے صاحبِ کمال ہیں۔ انھوں نے جو کچھ کیا ہو گا سمجھ کر کیا ہو گا۔ آپ کو اصلاح منظور ہے تو شیخ علی حزیںؔ مرحوم کے شاگرد شیخ آیت اللہ ثناؔ، میر شمس الدین فقیر کے شاگرد مرزا بھچو ذرہؔ تخلص موجود ہیں، حکیم بو علی خاں ہاتف بنگالہ میں، نظام الدین صانعؔ بلگرامی فرخ آباد میں، شاہ نور العین واقفؔ شاہجہاں آباد میں ہیں۔ یہ اُن لوگوں کے کام ہیں۔
جب مرزا نے اِن نامور فارسی دانوں کے نام لئے تو اشرف علی خاں نے کہا کہ ان لوگوں کو تو مرزا فاخر خاطر میں بھی نہیں لاتے، غرضیکہ ان کے اصرار سے مرزا نے انتخاب مذکور کو رکھ لیا، دیکھا تو معلوم ہوا کہ جو جو باکمال سلف سے آجتک مسلم الثبوت چلے آتے ہیں اُن کے اشعار تمام زخمی تڑپتے ہیں۔ یہ حال دیکھ کر مرزا کو بھی رنج ہوا۔ بموجب صورتِ حال کے رسالہ عبرت الغافلین لکھا اور مرزا فاخر کی غلط فہمیوں کو اصول انشاء پردازی کے بموجب کماحقہ ظاہر کیا۔ ساتھ ان کے دیوان پر نظر ڈال کر اس کی غلط فہمیاں بھی بیان کیں اور جہاں ہو سکا اصلاح مناسب دی۔
مرزا فاخر کو بھی خبر ہوئی، بہت گھبرائے اور چاہا کہ زبانی پیاموں سے ان داغوں کو دھوئیں، چنانچہ بقاء اللہ خاں بقاؔ کو گفتگو کے لئے بھیجا، وہ مرزا فاخر کے شاگرد تھے، بڑے مشاق اور باخبر شاعر تھے، مرزا اور ان سے خوب خوب گفتگوئیں رہیں، اور مرزا فاخر کے بعض اشعار جن کے اعتراضوں کی خبر اُڑتے اُڑتے اِن تک بھی پہنچ گئی تھی، ان پر رد و قدح بھی ہوئی، چنانچہ ایک شعر ان کا تھا :
اور فارسی کے صاحبِ کمال ہیں۔ انھوں نے جو کچھ کیا ہو گا سمجھ کر کیا ہو گا۔ آپ کو اصلاح منظور ہے تو شیخ علی حزیںؔ مرحوم کے شاگرد شیخ آیت اللہ ثناؔ، میر شمس الدین فقیر کے شاگرد مرزا بھچو ذرہؔ تخلص موجود ہیں، حکیم بو علی خاں ہاتف بنگالہ میں، نظام الدین صانعؔ بلگرامی فرخ آباد میں، شاہ نور العین واقفؔ شاہجہاں آباد میں ہیں۔ یہ اُن لوگوں کے کام ہیں۔
جب مرزا نے اِن نامور فارسی دانوں کے نام لئے تو اشرف علی خاں نے کہا کہ ان لوگوں کو تو مرزا فاخر خاطر میں بھی نہیں لاتے، غرضیکہ ان کے اصرار سے مرزا نے انتخاب مذکور کو رکھ لیا، دیکھا تو معلوم ہوا کہ جو جو باکمال سلف سے آجتک مسلم الثبوت چلے آتے ہیں اُن کے اشعار تمام زخمی تڑپتے ہیں۔ یہ حال دیکھ کر مرزا کو بھی رنج ہوا۔ بموجب صورتِ حال کے رسالہ عبرت الغافلین لکھا اور مرزا فاخر کی غلط فہمیوں کو اصول انشاء پردازی کے بموجب کماحقہ ظاہر کیا۔ ساتھ ان کے دیوان پر نظر ڈال کر اس کی غلط فہمیاں بھی بیان کیں اور جہاں ہو سکا اصلاح مناسب دی۔
مرزا فاخر کو بھی خبر ہوئی، بہت گھبرائے اور چاہا کہ زبانی پیاموں سے ان داغوں کو دھوئیں، چنانچہ بقاء اللہ خاں بقاؔ کو گفتگو کے لئے بھیجا، وہ مرزا فاخر کے شاگرد تھے، بڑے مشاق اور باخبر شاعر تھے، مرزا اور ان سے خوب خوب گفتگوئیں رہیں، اور مرزا فاخر کے بعض اشعار جن کے اعتراضوں کی خبر اُڑتے اُڑتے اِن تک بھی پہنچ گئی تھی، ان پر رد و قدح بھی ہوئی، چنانچہ ایک شعر ان کا تھا :