شمشاد
لائبریرین
صفحہ ۱۶۲
ا س عہد میں استمراری جمع مؤنث میں دونوں فعل جمع لاتے تھے، مثلاً عورتیں آئیاں تھیں اور گاتیاں تھیں، اب پہلے فعل کو واحد لاتے ہیں، مثلاً عورتیں آتی تھیں اور گاتی بجاتی تھیں۔
اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت ہلنا بالفتح بولتے تھے، چنانچہ سودا بھی ایک غزل میں کہتے ہیں جس کا قافیہ ردیف ہے چلتے دیکھا، نکلتے دیکھا :
اسی طرح اکثر اشعار مرزا رفیع کے ہیں باجود محاورہ قدیمانہ، آج کل کے ہزار محاورے اِن پر قربان ہیں، چنانچہ فرماتے ہیں :
ا س عہد میں استمراری جمع مؤنث میں دونوں فعل جمع لاتے تھے، مثلاً عورتیں آئیاں تھیں اور گاتیاں تھیں، اب پہلے فعل کو واحد لاتے ہیں، مثلاً عورتیں آتی تھیں اور گاتی بجاتی تھیں۔
بارہو وعدوں کی راتیں آئیاں
طالعوں نے صبح کر دکھلائیاں
جنوں میرے کی باتیں دشتِ گلشن میں جہاں چلیاں
نہ چوبِ گِل نے دم مارا نہ چھڑیاں پرند کی ہلیاں
طالعوں نے صبح کر دکھلائیاں
جنوں میرے کی باتیں دشتِ گلشن میں جہاں چلیاں
نہ چوبِ گِل نے دم مارا نہ چھڑیاں پرند کی ہلیاں
اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت ہلنا بالفتح بولتے تھے، چنانچہ سودا بھی ایک غزل میں کہتے ہیں جس کا قافیہ ردیف ہے چلتے دیکھا، نکلتے دیکھا :
تیغ تیرے کا سدا شُکر ادا کرتے ہیں
لبوں کو زخم کے دن رات میں بنتے دیکھا
لبوں کو زخم کے دن رات میں بنتے دیکھا
اسی طرح اکثر اشعار مرزا رفیع کے ہیں باجود محاورہ قدیمانہ، آج کل کے ہزار محاورے اِن پر قربان ہیں، چنانچہ فرماتے ہیں :
آ خدا کے واسطے اس بانکپن سے درگزر
کل میں سودا یوں کہا دامان کھگریار کا
بیوفائی کیا کہوں دل ساتھ تجھکو محبوب کی
تیری نسبت تو میاں بلبل سے گل نے خوب کی
جسکے دلکو تری زلفوں سے یہاں لاگ لگے
اس کی آنکھوں میں جو رسی بھی ہو تو ناگ لگے
تجھ عشق میں پیارے وہ زیرِ چوب گل ہیں
نے پھول کی کسی نے جن کو چھڑی لگائی
خبر شتاب لے سودا کے حال کی پیارے
نہیں ہے وقت مری جان یہ تامل کا
نجانے حال کس ساقی کو یاد آتا ہے شیشہ کا
کہ لے لے ہچکیاں جیوڑا نکل جاتا ہے شیشہ کا
نہ جانے یاد کر روتا ہے کس کے دلکے صدمہ کو
کہیں ٹکڑا جو سودا کو نظرا آتا ہے شیشہ کا
بیہودہ اس قدر نہیں آتا ہے کم نا
مکھ پر خط آ چکا نہ کرو صبح و شام ناز
عالم کو مار رکھا ہے تیں باقدووتا
زاہد یہ کاٹ ہے تری تیغِ دونیم کا
کل میں سودا یوں کہا دامان کھگریار کا
بیوفائی کیا کہوں دل ساتھ تجھکو محبوب کی
تیری نسبت تو میاں بلبل سے گل نے خوب کی
جسکے دلکو تری زلفوں سے یہاں لاگ لگے
اس کی آنکھوں میں جو رسی بھی ہو تو ناگ لگے
تجھ عشق میں پیارے وہ زیرِ چوب گل ہیں
نے پھول کی کسی نے جن کو چھڑی لگائی
خبر شتاب لے سودا کے حال کی پیارے
نہیں ہے وقت مری جان یہ تامل کا
نجانے حال کس ساقی کو یاد آتا ہے شیشہ کا
کہ لے لے ہچکیاں جیوڑا نکل جاتا ہے شیشہ کا
نہ جانے یاد کر روتا ہے کس کے دلکے صدمہ کو
کہیں ٹکڑا جو سودا کو نظرا آتا ہے شیشہ کا
بیہودہ اس قدر نہیں آتا ہے کم نا
مکھ پر خط آ چکا نہ کرو صبح و شام ناز
عالم کو مار رکھا ہے تیں باقدووتا
زاہد یہ کاٹ ہے تری تیغِ دونیم کا