شمشاد
لائبریرین
صفحہ ۲۲۲
میانہ قد، رنگ گورا۔
دیوان : دیوان اب تک نظر سے نہیں گذرا، جس پر کچھ رائے ظاہر کی جائے۔ خواص میں جو کچھ شہرت ہے، ان ہجوؤں کی بدولت ہے جو سوداؔ نے ان کے حق میں کہیں۔ سلطنت کی تباہی نے ان سے بھی دلی چھڑوائی اور فیض آباد کو آباد کیا۔
سوداؔ نے جو ان کے حق میں گستاخی کی ہے۔ اس کا سبب یہ ہوا کہ اول کسی موقع پر انھوں نے سودا کے حق میں کچھ فرمایا، سوداؔ ان کے پاس گئے اور کہا کہ اپ بزرگ میں خورد، آپ سید، میں آپ کے جد کا غلام، عاصی اس قابل نہیں کہ آپ اس کے حق میں کچھ ارشاد فرمائیں، ایسا نہ کیجیے کہ مجھ گنہگار کے منہ سے کچھ نکل جائے۔ اور قیامت کے دن آپ کے جد کے سامنے روسیاہ ہوں۔ تلامیذ الہٰی کے دماغ عالی ہوتے ہیں۔ ان کی زبان سے نکلا کہ نہیں بھئی یہ شاعری ہے، اس میں خوردی و بزرگی کیا، سودا آئیں تو کہا جائیں، پھر جو کچھ انھوں نے کہا، خدا نہ سنوائے، یہ بھی بزرگوں سے سُنا کہ مرزا نے جو کچھ ان کی جناب میں یاوہ گوئی کی ہے، میر موصوف نے اس سے زیادہ خراب و خوار کیا تھا۔ لیکن وہ کلام عجیب طرح سے فنا ہوا۔
میر حسن مرحوم ان کے صاحبزادے سودا کے شاگرد تھے۔ میر ضاحک کا انتقال ہوا تو سوداؔ فاتحہ کے لئے گئے اور دیوان اپنا ساتھ لیتے گئے۔ بعد رسم عزا پُرسی کے اپنی یاوہ گوئی پر جو کہ اس مرحوم کے حق میں کی تھی۔ بہت سے عذر ککئے اور کہا کہ سید مرحوم نے دنیا سے انتقال فرمایا، تم فرزند ہو جو کچھ اس روسیاہ سے گستاخی ہوئی معاف کرو۔ بعد اس کے نوکر سے دیوان منگا کر جو ہجوئیں ان کی کہی تھیں
میانہ قد، رنگ گورا۔
دیوان : دیوان اب تک نظر سے نہیں گذرا، جس پر کچھ رائے ظاہر کی جائے۔ خواص میں جو کچھ شہرت ہے، ان ہجوؤں کی بدولت ہے جو سوداؔ نے ان کے حق میں کہیں۔ سلطنت کی تباہی نے ان سے بھی دلی چھڑوائی اور فیض آباد کو آباد کیا۔
سوداؔ نے جو ان کے حق میں گستاخی کی ہے۔ اس کا سبب یہ ہوا کہ اول کسی موقع پر انھوں نے سودا کے حق میں کچھ فرمایا، سوداؔ ان کے پاس گئے اور کہا کہ اپ بزرگ میں خورد، آپ سید، میں آپ کے جد کا غلام، عاصی اس قابل نہیں کہ آپ اس کے حق میں کچھ ارشاد فرمائیں، ایسا نہ کیجیے کہ مجھ گنہگار کے منہ سے کچھ نکل جائے۔ اور قیامت کے دن آپ کے جد کے سامنے روسیاہ ہوں۔ تلامیذ الہٰی کے دماغ عالی ہوتے ہیں۔ ان کی زبان سے نکلا کہ نہیں بھئی یہ شاعری ہے، اس میں خوردی و بزرگی کیا، سودا آئیں تو کہا جائیں، پھر جو کچھ انھوں نے کہا، خدا نہ سنوائے، یہ بھی بزرگوں سے سُنا کہ مرزا نے جو کچھ ان کی جناب میں یاوہ گوئی کی ہے، میر موصوف نے اس سے زیادہ خراب و خوار کیا تھا۔ لیکن وہ کلام عجیب طرح سے فنا ہوا۔
میر حسن مرحوم ان کے صاحبزادے سودا کے شاگرد تھے۔ میر ضاحک کا انتقال ہوا تو سوداؔ فاتحہ کے لئے گئے اور دیوان اپنا ساتھ لیتے گئے۔ بعد رسم عزا پُرسی کے اپنی یاوہ گوئی پر جو کہ اس مرحوم کے حق میں کی تھی۔ بہت سے عذر ککئے اور کہا کہ سید مرحوم نے دنیا سے انتقال فرمایا، تم فرزند ہو جو کچھ اس روسیاہ سے گستاخی ہوئی معاف کرو۔ بعد اس کے نوکر سے دیوان منگا کر جو ہجوئیں ان کی کہی تھیں