شمشاد
لائبریرین
صفحہ ۲۴۲
سب نے تعریف کی اور مرزائے موصوف نے بھی تحسین و آفریں کے ساتھ پسند کیا۔ اسی پر ایک اور مطلع یاد آیا ہے۔ چاہے ظفرؔ کا کہو چاہے ذوقؔ کا سمجھو :
نقل – کسی شخص نے اُس سے آ کر کہا کہ حضرت ایک شخص آپ کے تخلص پر آج ہنستے تھے۔ اور کہتے تھے کہ سوزگوز کیا تخلص رکھا ہے۔ ہمیں پسند نہیں۔ انھوں نے کہنے والے کا نام پوچھا۔ اس نے بعد بہت سے انکار اور اصرار کے بتایا۔ معلوم ہوا کہ شخص موصوف بھی مشاعرہ میں ہمیشہ آتے ہیں۔ میر سوزؔ مرحوم نے کہا، خیر کوئی مضائقہ نہیں۔ اب کے صحبت کے مشاعرہ میں تم مجھ سے برسر جلسہ یہی سوال کرنا۔ چنانچہ انھوں نے ایسا ہی کیا اور بآواز بلند پوچھا، حضرت اپ کا تخلص کیا ہے؟ انھوں نے فرمایا کہ صاھب قبلہ فقیر نے تخلص تو میر کیا تھا۔ مگر میر تقی صاحب نے پسند فرمایا۔ فقیر نے خیال کیا کہ ان کے کمال کے سامنے میرا نام نہ روشن ہو سکے گا۔ ناچار سوزؔ تخلص کیا، (شخص مذکور کی طرف اشارہ کر کے کہا)، سنتا ہوں یہ صاحب گوز کرتے ہیں۔ مشاعرہ میں عجیب قہقہہ اڑا۔ لکھنؤ میں ہزاروں آدمی مشاعرہ میں جمع ہوتے تھے، سب کے کان تک آواز نہ گئی تھی، کئی کئی دفعہ کہلوا کر سُنا۔ ادھر شخص موصوف اُدھر میر تقی صاحب، دونوں چپ بیٹھے سُنا کئے۔
انھوں نے علاوہ شاعری کے شعر خوانی کا ایسا طریقہ ایجاد کیا تھا کہ
سب نے تعریف کی اور مرزائے موصوف نے بھی تحسین و آفریں کے ساتھ پسند کیا۔ اسی پر ایک اور مطلع یاد آیا ہے۔ چاہے ظفرؔ کا کہو چاہے ذوقؔ کا سمجھو :
اس طرف بھی تمھیں لازم ہے نگاہے نگاہے
دمبدم لحظہ بہ لحظہ نہیں گاہے گاہے
دمبدم لحظہ بہ لحظہ نہیں گاہے گاہے
نقل – کسی شخص نے اُس سے آ کر کہا کہ حضرت ایک شخص آپ کے تخلص پر آج ہنستے تھے۔ اور کہتے تھے کہ سوزگوز کیا تخلص رکھا ہے۔ ہمیں پسند نہیں۔ انھوں نے کہنے والے کا نام پوچھا۔ اس نے بعد بہت سے انکار اور اصرار کے بتایا۔ معلوم ہوا کہ شخص موصوف بھی مشاعرہ میں ہمیشہ آتے ہیں۔ میر سوزؔ مرحوم نے کہا، خیر کوئی مضائقہ نہیں۔ اب کے صحبت کے مشاعرہ میں تم مجھ سے برسر جلسہ یہی سوال کرنا۔ چنانچہ انھوں نے ایسا ہی کیا اور بآواز بلند پوچھا، حضرت اپ کا تخلص کیا ہے؟ انھوں نے فرمایا کہ صاھب قبلہ فقیر نے تخلص تو میر کیا تھا۔ مگر میر تقی صاحب نے پسند فرمایا۔ فقیر نے خیال کیا کہ ان کے کمال کے سامنے میرا نام نہ روشن ہو سکے گا۔ ناچار سوزؔ تخلص کیا، (شخص مذکور کی طرف اشارہ کر کے کہا)، سنتا ہوں یہ صاحب گوز کرتے ہیں۔ مشاعرہ میں عجیب قہقہہ اڑا۔ لکھنؤ میں ہزاروں آدمی مشاعرہ میں جمع ہوتے تھے، سب کے کان تک آواز نہ گئی تھی، کئی کئی دفعہ کہلوا کر سُنا۔ ادھر شخص موصوف اُدھر میر تقی صاحب، دونوں چپ بیٹھے سُنا کئے۔
انھوں نے علاوہ شاعری کے شعر خوانی کا ایسا طریقہ ایجاد کیا تھا کہ