آب حیات - مولانا محمد حسین آزاد (مرحوم)

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۶۲

بعض جگہ قادر الکلامی کے تصرف کر کے اپنے زور زبان کا جوہر دکھایا ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں :

ہر چند ناتواں ہوں پر آ گیا جو دل میں
دیں گے ملازمیں سے تیرا فلک قلابا (*)
(*) اصل قلابہ ہے۔

داغ ہے تاباں علیہ الرحمۃ کا چھاتی پہ میر
ہو نجات اس کی بچارا ہم سے بھی تھا آشنا
(بیچارہ کا مخفف ہے اور ہم سے آشنا تھا۔ بعینہ ترجمہ کا محاورہ ہے کہ بابا ہم آشنا بود، اردو میں ہمارا کہتے ہیں)

ہزار شانہ و مسواک و غسل شیخ کرے
ہمارے عندیہ میں تو ہے وہ پلیت و خبیث​

ردیف تاءسثناۃ فوقانی کی غزل میں یہ شعر واقع ہوا ہے۔ ایسے تصرفوں سے نہیں کہہ سکتے کہ انھیں اس لفظ کی صحت کی خبر نہ تھی۔ سمجھنا چاہیے کہ زبان کے مالک تھے اور محاورہ کو اصلیت پر مقدم سمجھتے تھے۔

اے خوشا حال اس کا جس کو وہ
حال عمداً تباہ کرتے تھے

ہے تہ دل بتوں کو کیا معلوم
نکلے پردہ سے کیا، خدا معلوم

میں بیقرار خاک میں کبتک ملا کروں
کچھ ملنے یا نہ ملنے کا تو بھی قرار کر

رہوں جا کے مر حضرت یار میں
یہی قصد ہے بندہ درگاہ کا

کُھلا نشے میں جو پگڑی کا پیچ اسکی میرؔ
سمند ناز کو اک اور تازیانہ ہوا

آواز ہماری سے نہ رک ہم ہیں دُعا یار
آوے گی بہت ہم سے فقیروں کی صدا یاد

سب غلطی رہی بازی طفلانہ کی یک سُو
وہ یاد فراموش تھے ہم کو نہ کیا یاد

جُز و مرتبہ کل کو حاصل کرے ہے آخر
اک قطرہ نہ دیکھا جو دریا نہ ہوا ہو گا

ابر اٹھا تھا کعبہ سے اور جھوم پڑا میخانہ پر
بادہ کشوں کا جھرمٹ ہیگا شیشہ اور پیمانہ پر​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۶۳

کسی شخص نے کہا کہ حضرت، اصل محاورہ فارسی کا ہے، اہل زبان نے ابر قبلہ کہا ہے۔ ابر کعبہ نہیں کہا، میر صاحب نے کہا کہ ہاں قبلہ کا لفظ بھی آ سکتا ہے مگر کعبہ سے ذرا مصرعہ کی ترکیب گرم ہو جاتی ہے۔ اور یہ سچ فرمایا جنھیں زبان کا مزا ہے، وہی اس لطف کو سمجھتے ہیں۔ خیال کے لفظ میں جو تصرف میر صاحب نے فرمایا ہے، عنقریب واضح ہو گا۔ اکثر الفاظ ہیں جو کہ مؤنث ہیں۔ میر صاحب نے انھیں مذکر باندھا ہے۔

ملائے خاک میں کس کس طرح کے عالم یاں
نِکل کے شہر سے ٹک سیر کر مزاروں کا

کل جس کی جان کنی پہ سارا جہان ٹوٹا
آج اُس مریض غم کی ہچکی میں جان ٹوٹا

احوال خوش انھوں کا ہم بزم ہیں جو تیرے
افسوس ہے کہ ہم نے واں کا نہ بار پایا​

بعض جگہ مذکرّ کو مؤنث بھی کہہ جاتے ہیں۔

کیا ظلم ہے اس خوبی عالم کی گلی میں
جب ہم گئے دو چار نئی دیکھیں مزاریں

مثنوی شعلہ عشق میں کہتے ہیں۔

خلق یک جا ہوئی کنارے پر
حشر برپا ہوئی کنارے پر​

(ان کے علاوہ دیکھو صفحہ ۲۱۲)
میر صاحب میانہ قد، لاغر اندام، گندمی رنگ تھے، ہر کام متانت اور آہستگی کے ساتھ، بات بہت کم، وہ بھی آہستہ آواز میں، نرمی اور ملائمت، ضعیفی نے ان سب صفتوں کو اور بھی قوی کیا تھا، کیونکہ سو برس کی عمر آخر ایک اثر رکھتی ہے۔ مرزا قتیلؔ مشاعرے سے آ کر کسی دوست کو خط تحریر کرتے ہیں۔ اس میں جلسہ کے حالات بھی لکھتے ہیں۔ "حنجرہ میر صاحب باوصف خوش گوئی
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۶۴

بدستور بودہ، تمام جسم مبارک ایشان رعشہ داشت، آواز ہم کس نمے شنید، مگر من و خدا کہ غزلہا خوب گفتہ بودند" عادات و اطوار نہایت سنجیدہ اور متین اور صلاحیت اور پرہیز گاری نے اسے عظمت دی تھی۔ ساتھ اس کے قناعت اور غیرت حد سے بڑھی ہوئی تھی۔ اس کا نتیجہ ہے کہ اطاعت تو درکنار نوکری کے نام کی برداشت نہ رکھتے تھے۔ لیکن زمانہ جسکی حکومت سے کوئی سر نہیں اکسا سکتا، اس کا قانون اس کے بالکل برخلاف ہے۔ نتیجہ یہ کہ فاقے کرتے تھے۔ دکھ بھرتے تھے اور اپنی بددماغی کے سائے میں دنیا اور اہل دُنیا سے بیزار گھر میں بیٹھے رہتے تھے۔ ان شکایتوں کے جو لوگوں میں چرچے تھے۔ وہ خود بھی اس سے واقف تھے، چنانچہ ایک مخمس شہر آشوب کے مقطع میں کہتے ہیں۔

حالت تو یہ کہ مجھ کو غموں سے نہیں فراغ
دل سوزش دردنی سے جلتا ہے جوں چراغ

سینہ تمام چاک ہے سارا جگر ہے داغ
ہے نام مجلسوں میں میرا میرؔ بے دماغ

از بسکہ کم دماغی نے پایا ہے اشتہار​

باوجود اس کے اپنے سرمایہ فصاحت کو دولت لازوال سمجھ کر امیر غریب کسی کی پرواہ نہ کرتے تھے۔ بلکہ فقر کو دین کی نعمت تصور کرتے تھے اور اسی عالم میں معرفت الٰہی پر دل لگاتے تھے۔ چنانچہ ان کی اس ثابت قدمی کا وصف کسی زبان سے نہیں ادا ہو سکتا کہ اپنی بے نیازی اور بے پروائی کے ساتھ دنیائے فانی کی مصیبتیں جھیلیں، اور جو اپنی آن بان تھی اُسے لئے دنیا سے چلے گئے۔ اور
(*) دیکھو رقعات قتیل میں رقعہ نمبر ۹۳
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۶۵

جس گردن کو خدا نے بلند کیا تھا سیدھا خدا کے ہاں لے گئے۔ چند روز عیش کے لالچ سے یا مفلسی کے دکھ سے اسے دنیا کے نااہلوں کے سامنے ہرگز نہ جھکایا۔ ان کا کلام کہے دیتا ہے کہ دل کی کلی اور تیوری کی گرہ کبھی کھلی نہیں، باوجود اسکے اپنے ملک خیال کے ایک بلند نظر بادشاہ تھے اور جتنی دنیا کی سختی زیادہ ہوتی اسی قدر بلند نظری دماغ زیادہ بلند ہوتا تھا، سب تذکرے نالاں ہیں کہ اگر یہ غرور اور بے دماغی فقط امراء کے ساتھ ہوتی تو معیوب نہ تھی، افسوس یہ ہے کہ اوروں کے کمال بھی انھیں دکھائی نہ دیتے تھے۔ اور یہ امر ایسے شخص کے دامن پر نہایت بدنما دھبہ ہے، جو کمال کے ساتھ صلاحیت اور نیکو کاری کا غلعت پہنے ہو۔ بزرگوں کی تحریری روائتیں اور تقریری حکائتیں ثابت کرتی ہیں کہ کواجہ حافظ شیرازی اور شیخ سعدی کی غزل پڑھی جائے تو وہ سر ہلانا گناہ سمجھتے تھے۔ کسی اور کی کیا حقیقت ہے۔ جو اشخاص اس زمانہ میں قدردانی کے خزانچی تھے، ان کے خیالات عالی اور حوصلے بڑے تھے۔ اس لئے یہ بے دماغیاں ان کے جوہر کمال پر زیور معلوم ہوتی تھیں۔ خوش نصیب تھے کہ آج کا زمانہ نہ دیکھا۔ میر قمر الدین مِنت (دیکھو تذکرہ حکیم قدرت اللہ) دلی میں ایک شاعر گذرے ہیں، کہ علوم رسمی کی قابلیت سے عمائد دربار شاہی میں تھے، وہ میر صاحب کے زمانہ میں مبتدی تھے، شعر کا شوق بہت تھا۔ اصلاح کے لئے اردو کی غزل لے گئے۔ میر صاحب نے وطن پوچھا۔ انھوں نے سونی پت
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۶۶

علاقہ پانی پت بتلایا۔ آپ نے فرمایا کہ سید صاحب اردوئے معلٰے خاص دلّی کی زبان ہے۔ آپ اس میں تکلیف نہ کیجیے۔ اپنی فارسی وارسی کہہ لیا کیجیے۔

سعادت یار خاں رنگینؔ نواب طہاسپ بیگ خاں قلعدار شاہی کے بیٹے تھے۔ ۱۴، ۱۵ برس کی عمر تھی۔ بڑی شان و شوکت سے گئے اور غزل اصلاح کے لئے پیش کی۔ سن کر کہا کہ صاحبزادے! آپ خود امیر ہیں اور امیر زادے ہیں، نیزہ بازی، تیر اندازی کی کسرت کیجیے، شہسواری کی مشق فرمائیے۔ شاعری دل کراشی و جگر سوزی کا کام ہے۔ آپ اس کے درپے نہ ہوں۔ جب انھوں نے بہت اصرار کیا تو فرمایا کہ آپ کی طبیعت اس فن کے مناسب نہیں۔ یہ آپ کو نہیں آنے کا۔ خواہ مخواہ میری اور اپنی اوقات ضائع کرنی کیا ضرور ہے۔ یہی معاملہ شیخ ناسخ کے ساتھ گذرا۔ (میر نظام الدین ممنوں ان کے بیٹے بڑے صاحب کمال اور نامور شاعر تھے، دیکھو صفحہ ۳۰۴)۔

دلی میں میر صاحب نے ایک مثنوی کہی۔ اپنے تئیں اژدہا قرار دیا اور شعرائے عصر میں سے کسی کو چوہا، کسی کو سانپ، کسی کو بچھو، کسی کو کنکھجورا وغیرہ وغیرہ ٹھہرایا۔ ساتھ اس کے ایک حکایت لکھی کہ دامن کوہ میں ایک خونخوار اژدہا رہتا تھا۔ جنگل کے حشرات الارض جمع ہو کر اس سے لڑنے گئے۔ جب سامنا ہوا تو اژدھے نے ایک ایسا دم بھرا کہ سب
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۶۷

فنا ہو گئے۔ اس قصیدے کا نام اجگر نامہ قرار دیا اور مشاعرہ میں لا کر پڑھا۔ محمد امان نثار (سعادت اللہ معمار کے بیٹے اور میاں استاد معمار کی اولاد میں تھے جنھوں نے دہلی کی جامع مسجد بنائی تھی۔ نثارؔ کے بزرگ اور وہ خود عمارت میں کمال رکھتے تھے۔ نثارؔ شعر بھی خوب کہتے تھے۔ چنانچہ زمین سخن میں ریختہ کا دیوان ضخیم یادگار چھوڑا ہے۔ دلّی آباد تھی، تو امرائے شہر کے مکانات اپنے کمال سے مضبوط کرتے تھے اور عزت سے گزران کرتے تھے۔ دلّی تباہ ہوئی تو یہ بھی لکھنؤ چلے گئے۔ وہاں بھی فن آبائی سے عزت پائی اور ہمیشہ امراء روساء کی مصاحبت میں زندگی بسر کی۔ شاہ حاتم کے نامی شاگردوں میں تھے۔ میاں رنگین نے بھی مجالس رنگین میں ان کا ذکر کیا ہے۔ صاحب دیوان ہیں۔ مگر اب دیوان کمیاب ہے۔ میر صاحب اور ان کی اکثر چھیڑ چھاڑ رہتی تھی۔) شاہ حاتم کے شاگردوں میں ایک مشاق موزوں طبع تھے۔ انھوں نے وہیں ایک گوشہ میں بیٹھ کر چند شعر کا قطعہ لکھا اور اسی وقت سرمشاعرہ پڑھا۔ چونکہ میر صاحب کی یہ بات کسی کو پسند نہ آئی تھی، اس لئے اس قطعہ پر خوب قہقہے اڑے اور بڑی واہ واہ ہوئی اور میر صاحب پر جو گذرتی تھی سو گزری، چنانچہ مقطع قطعہ مذکور کا یہ ہے۔

حیدر کرار نے وہ زور بخشا ہے نثارؔ
ایک دم میں دو کروں اژدر کے کلے چیر کر​

لکھنؤ میں کسی نے پوچھا کیوں حضرت آج کل شاعر کون ہے؟ کہا ایک تو سوداؔ دوسرا یہ خاکسار ہے اور تامل کر کے کہا، آدھے خواجہ میر دردؔ۔ کوئی شخص بولا کہ حضرت اور میر سوزؔ صاحب؟ چیں بچیں ہو کر کہا کہ میر سوزؔ صاحب بھی شاعر ہیں؟ انھوں
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۶۸

نے کہا کہ آخر استاد نواب آصف الدولہ کے ہیں۔ کہا کہ خیر یہ ہے تو پونے تین سہی، مگر شرفاء میں ایسے تخلص ہم نے کبھی نہیں سُنے۔ میر صاحب کے سامنے مجال کس کی تھی جو کہے کہ ان بچارے نے میر تخلص کیا تھا وہ آپ نے چھین لیا۔ ناچار اب انھوں نے ایسا تخلص اختیار کیا کہ نہ آپ کو پسند آئے نہ آپ اسے چھینیں۔ دیکھو صفحہ ۲۴۲۔

لکھنؤ کے چند عمائد و اراکین جمع ہو کر ایک دن آئے کہ میر صاحب سے ملاقات کریں۔ اور اشعار سنیں۔ دروازہ پر آ کر آواز دی۔لونڈی یا ماما نکلی، حال پوچھ کر اندر گئی۔ ایک بوریا لا کر ڈیوڑھی میں بچھایا، انھیں بٹھایا اور ایک پرانا سا حقہ تازہ کر کے سامنے رکھ گئی۔ میر صاحب اندر سے تشریف لائے۔ مزاج پُرسی وغیرہ کے بعد انھوں نے فرمائش اشعار کی، میر صاحب نے اَوّل کچھ ٹالا، پھر صاف جواب دیا کہ صاحب قبلہ میرے اشعار آپ کی سمجھ میں نہیں آنے کے۔ اگرچہ ناگوار ہوا مگر بنظر آداب و اخلاق انھوں نے اپنی نارسائی طبع کا اقرار کیا۔ اور پھر درخواست کی۔ انھوں نے پھر انکار کیا، آخر ان لوگوں نے گراں خاطر ہو کر کہا، حضرت انوری و خاقانی کا کلام سمجھتے ہیں، آپ کا ارشاد کیوں نہ سمجھیں گے، میر صاحب نے کہا کہ یہ درست ہے۔ مگر ان کی شرحیں مصطلحات اور فرہنگیں موجود ہیں۔ اور میرے کلام کے لئے فقط محاورہ اہل اردو ہے، یا جامع مسجد کی سیڑھیاں اور اس سے آپ محروم، یہ کہہ کر ایک شعر پڑھا :

عشق بُرے ہی خیال پڑا ہے چین گیا آرام گیا
دِل کا جانا ٹھہر گیا ہے صبح گیا یا شام گیا​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۶۹

اور کہا آپ بموجب اپنی کتابوں کے کہیں گے کہ خیال کی ی کو ظاہر کرو پھر کہیں گے کہ ی تقطیع میں گرتی ہے۔ مگر یہاں اس کے سوا جواب نہیں کہ محاورہ یہی ہے۔

جب نواب آصف الدولہ مر گئے، سعادت خاں کا دور ہوا تو یہ دربار جانا چھوڑ چکے تھے۔ وہاں کسی نے طلب نہ کیا۔ ایک دن نواب کی سواری جاتی تھی۔ یہ تحسین کی مسجد پر سرراہ بیٹھے تھے۔ سواری سامنے آئی۔ سب اٹھ کھڑے ہوئے، میر صاحب اسی طرح بیٹھے رہے، سید انشاء خواص میں تھے۔ نواب نے پوچھا کہ انشاء یہ کون شخص ہے؟ جس کی تمکنت نے اُسے اٹھنے بھی نہ دیا۔ عرض کی جناب عالی یہ وہی گدائے متکبر جس کا ذکر حضور میں اکثر آیا ہے۔ گزارے کا وہ حال اور مزاج کا یہ عالم، آج بھی فاقہ ہی سے ہو گا۔ سعادت علی خاں نے آ کر خلعت بحالی اور ایک ہزار روپیہ دعوت کا بھجوایا۔ جب چوبدار لے کر گیا، میر صاحب نے واپس کر دیا اور کہا کہ مسجد میں بھجوائیے۔ یہ گنہگار اتنا محتاج نہیں۔ سعادت علی خاں جواب سن کر متعجب ہوئے۔ مصاحبوں نے پھر سمجھایا۔ غرض نواب کے حکم سے سید انشاء خلعت لے کر گئے اور اپنے طرز پر سمجھایا کہ نہ اپنے حال پر بلکہ عیال پر رحم کیجیے۔ اور بادشاہ وقت کا ہدیہ ہے اسے قبول فرمائیے۔ میر صاحب نے کہا کہ صاحب! وہ اپنے ملک کے بادشاہ ہیں، میں اپنے ملک کا بادشاہ ہوں، کوئی ناواقف اس طرح پیش آتا، تو مجھے شکایت نہ تھی۔ وہ مجھ سے واقف، میرے حال سے واقف، اس پر اتنے دنوں کے بعد ایک دس روپے کے خدمت گار
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۷۰

کے ہاتھ خلعت بھیجا۔ مجھے اپنا فقر و فاقہ قبول ہے، مگر یہ ذلت نہیں اٹھائی جاتی۔ سید انشاء کی لسانی اور لفاظی کے سامنے کس کی پیش جا سکتی۔ میر صاحب نے قبول فرمایا، اور دربار میں بھی کبھی کبھی جانے لگے۔ نواب سعادت علی خاں مرحوم ان کی ایسی خاطر کرتے تھے کہ اپنے سامنے بیٹھنے کی اجازت دیتے تھے اور اپنا پیچوان پینے کو عنایت فرماتے تھے۔

میر صاحب کو بہت تکلیف میں دیکھ کر لکھنؤ کے ایک نواب انھیں مع عیال اپنے گھر لے گئے اور محل سرا کے پاس ایک معقول مکان رہنے کو دیا کہ نشست کے مکان میں کھڑکیاں باغ کی طرف تھیں۔ مطلب اس سے یہی تھی کہ ہر طرح ان کی طبیعت خوش اور شگفتہ رہے۔ یہ جس دن وہاں آ کر رہے، کھڑکیاں بند پڑی تھیں، کئی برس گذر گئے۔ اسی طرح بند پڑی رہیں۔ کبھی کھول کر باغ کی طرف نہ دیکھا۔ ایک دن کوئی دوست آئے، انھوں نے کہا کہ ادھر باغ ہے۔ آپ کھڑکیاں کھول کر کیوں نہیں بیٹھتے۔ میر صاحب بولے، کیا ادھر باغ بھی ہے۔ انھوں نے کہا کہ اسی لئے نواب آپ کو یہاں لائے ہیں کہ جی بہلتا رہے۔ اور دل شگفتہ ہو۔ میر صاحب کے پھےی پرانے مسودے غزلوں کے پڑے تھے، ان کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ میں تو اس باغ کی فکر میں ایسا لگا ہوں کہ اس باغ کی خبر بھی نہیں۔ یہ کہہ کر چپکے ہو رہے۔

کیا محویت ہے! کئی برس گذر جائیں، پہلو میں باغ ہو اور کھڑکی تک نہ کھولیں۔ خیر ثمرہ اس کا یہ ہوا کہ انھوں نے دنیا کے باغ کی طرف نہ دیکھا
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۷۱

خدا نے ان کے کلام کو وہ بہار دی کہ سالہا سال گزر گئے۔ آج تک لوگ ورقے الٹتے ہیں اور گلزار سے زیادہ خوش ہوتے ہیں۔

استاد مرحوم ایک دیرینہ سال شخص کی زبانی بیان کرتے تھے کہ ایک دن میر صاحب کے پاس گئے۔ نکلتے جاڑے تھے۔ بہار کی آمد تھی۔ دیکھا کہ ٹہل رہے ہیں۔ چہرہ پر افسردگی کا عالم ہے۔ اور وہ رہ رہ کر یہ مصرع پڑہتے تھے۔

ع : اب کی بھی دن بہار کے یوں ہی گذر گئے​

یہ سلام کر کے بیٹھ گئے۔ تھوڑی دیر کے بعد اٹھے اور سلام کر کے چلے آئے۔ میر صاحب کو خبر بھی نہ ہوئی۔ خدا جانے دوسرے مصرع کے فکر میں تھے، یا اس مصرعہ کی کیفیت میں تھے۔

گورنر جنرل اور اکثر صاحبان عالیشان جب لکھنؤ میں جاتے تو اپنی قدردانی سے یا اس سبب سے کہ ان کے میر منشی اپنے علو حوصلہ سے ایک صاحب کمال کی تقریب واجب سمجھتے تھے۔ میر صاحب کو ملاقات کے لئے بلاتے مگر یہ پہلوتہی کرتے اور کہتے کہ مجھ سے جو کوئی ملتا ہے تو یا مجھ فقیر کے خاندان کے خیال سے یا میرے کلام کے سبب سے ملتا ہے۔ صاحب کو خاندان سے غرض نہیں۔ میرا کلام سمجھتے نہیں۔ البتہ انعام دیں گے۔ ایسی ملاقات سے ذلّت کے سوا کیا حاصل!

محلہ کے بازار میں عطار کی دکان تھی، آپ بھی کبھی اس کی دوکان پر جا بیٹھتے تھے۔ اس کا نوجوان لڑکا بہت بناؤ سنگار کرتا رہتا تھا، میر صاحب کو بُرا معلوم ہوتا تھا۔ اس پر فرماتے ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۷۲

کیفیتیں عطار کی لونڈے میں بہت ہیں
اس نسخہ کی کوئی نہ رہی ہم کو دوا یاد

کسی وقت طبیعت شگفتہ ہو گئی تو فرماتے ہیں۔

میرؔ کیا سادے ہیں بیمار ہوئے جسکے سبب
اُسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں​

اِسی عہد میں بقا اللہ خاں بقا (دیکھو بقا کا حال صفحہ ۱۸۹ میں) نے دو شعر کہے۔

ان آنکھوں کا نتِ گریہ دستور ہے
دوآبہ جہاں میں یہ مشہور ہے

سیلاب سے آنکھوں کے رہتے ہیں خرابے میں
ٹکڑے جو میرے دل کے بستے ہیں دوآبے میں​

میر صاحب نے خدا جانے سن کر کہا یا توارد ہوا۔

دے دن گئے کہ آنکھیں دریا سی بہتیاں تھیں
سُوکھا پڑا ہے اب تو مدت سے یہ دوآبہ​

اس پر بقا نے بگڑ کر یہ قطعہ کہا۔

میر نے گر ترا مضمون دوآبے کا لیا
اے بقا تو بھی دعا دے جو دعا دینی ہو

یا خدا میر کی آنکھوں کو دوآبہ کر دے
اور بینی کا یہ عالم ہو کہ تربینی ہو​

لیکن میر صاحب نے اسی کوچہ میں ایک مضمون اور نکالا ہے۔ وہ سب سے الگ ہے۔

میں راہِ عشق میں تو آگے ہی دو دِلا تھا
پُر پیچ پیش آیا قسمت سے یہ دوراہا​

بقا نے اور مضامین بھی میر صاحب کے باب میں صرف کئے ہیں۔

ان میں سے ایک قطعہ ہے۔

میر صاحب پھر اس سے کیا بہتر
اس میں ہووے جو نام شاعر کا

لے کے دیوان پکارتے پھرئیے
ہر گلی کوچہ کام شاعر کا​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۷۳

توبہ زاہد کی توبہ تلی ہے
چلے بیٹھے تو شیخ چلی ہے

پگڑی اپنی سنبھالئے گا میرؔ
اور بستی نہیں یہ دِلی ہے​

کسی استاد کا شعر فارسی ہے۔

بہ گرد تر تم امشب ہجوم بلبل بود
مگر چراغ مزارم ز روغنِ گل بود​

میر صاحب کے شعر میں بھی اس رنگ کا مضمون ہے مگر خوب بندھا ہے۔

ہمائے روغن دیا کرے ہے عشق
خونِ بلبل چراغ میں گل کے​

شیخ سعدیؔ کا شعر ہے۔

دوستاں منع کندم کر چرا دل بتو دادم
باید اوّل بہ تو گفتن کہ چنیں خوب چرائی
(سعدی)

چاہنے کا ہم پہ یہ خوباں جو دھرتے ہیں گناہ
اُن سے بھی پوچھو کوئی تم اتنے کیوں پیارے ہوئے
(میر)

دست خواہم زد بدامانِ سکندر روزِ حشر
شوخِ لیلٰی زا دہ ام را رشکر مجنوں کردہ است
(ناصر علی)

دیکھ آئینہ کو یار ہوا محو ناز کا
خانہ خراب ہو جیو آئینہ ساز کا
(میر)

زندگی بر گردنم افتاد بیدل چارہ نیست
شاد با ید زیستن ناشاد باید زیستن
(بیدل)

گوشہ گیری اپنے بس میں ہی نہ ہے آوارگی
کیا کریں اے میر صاحب بندگی بیچارگی
(میر)​

محمد امان نثارؔ میر صاحب کے شعروں پر ہمیشہ شعر کہا کرتے تھے (دیکھو صفحہ ۲۷۰)۔ ان کا شعر ہے۔

بھووں (*) تئیں تم جس دن سج نکلے تھے ایک چیرا
اس دن ہی تمھیں دیکھے ماتھا مرا ٹھنکا تھا
(میر)
* یعنی جس دن تم بھوؤں تک جھکا ہوا بانکا چیرا باندھ کر نکلے تھے، اُسی دن ہم سمجھ گئے کہ اب دلوں کی خیر نہیں۔​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۷۴

اکثر اشعار میں میر اور مرزا کے مضمون لڑ گئے ہیں۔ اس رتبہ کے شاعروں کو کون کہہ سکتا ہے کہ سرقی کیا، دوسرے ایک عہد تھا، ایک شہر تھا، اسی وقت غل مچتا۔ دیکھو صفحہ ۲۵۱ – ۲۵۲، ان دونوں بزرگوں کے کلام میں چشمکیں ہوتی تھیں۔ چنانچہ مرزا فرماتے ہیں۔

نہ پڑھیو یہ غزل سودا تو ہر گز میر کے آگے
وہ ان طرزوں سے کیا واقف وہ یہ انداز کیا جانے

سودا تو اس غزل کو غزل در غزل ہی لکھ
ہونا ہے تجھ کو میرؔ سے استاد کی طرف​

میر صاحب فرماتے ہیں۔

طرف ہونا مرا مشکل ہے میرؔ اس شعر کے فن میں
یونہی سودا کبھی ہوتا ہے سو جاہل ہے کیا جانے​

مرزا رفیع سودا، خواجہ میر دردؔ، مرزا جانجاناں مظہرؔ قائم، یقین وغیرہ ان کے ہم عصر تھے۔ اور مصحفیؔ، جراءتؔ، اور میر انشاء اللہ خاں نے آخر عہد میں ظٖہور کیا۔

میر صاحب کے بیٹے لکھنؤ میں ملے تھے۔ باپ کے برابر نہ تھے۔ مگر بدنصیبی میں فرزندِ خلف تھے۔ ایک پیر مرد بے پروا مستغنی المزاج تھے۔ میر عسکریؔ نام میر کلو مشہور تھے۔ عرشؔ تخلص تھا۔ خود شاعر صاحب دیوان تھے اور چند شاگرد بھی تھے۔ ایک شعر ان کی غزل کا لکھنؤ میں زبان زد خاص و عام ہے :

آسیا کہتی ہے ہر صبح بآواز بلند
رزق سے بھرتا ہے رزاق دہن پتھر کا​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۷۵

میر صاحب کی غزلیں

برقع کو اٹھا چہرہ سے وہ بُت اگر آوے
اللہ کی قدرت کا تماشہ نظر آوے

اے ناقہ لیلٰے دو قدم راہ غلط کر
مجنوں ز خود رفتہ کبھو راہ پر آوے

ٹک بعد مرے میرے طرفداروں کنے تو
بھیجو کوئی ظالم کہ تسلی تو کر آوے

کیا ظرف ہے گردون تنک حوصلہ کا جو
آشوبِ فغاں کے مرے عہدے سے بر آوے

ممکن نہیں آرام دے بیتابی جگر کی
جب تک نہ پلک پر کوئی ٹکڑا نظر آوے

مت ممتحن باغ ہواے غیرتِ گلزار
گل کیاکہ جسے آگے ترے بات کر آوے

کھلنے میں ترے منھ کی کلی پھاڑے گریباں
ہلنے میں ترے ہونٹوں کے گلبرگ تر آوے

ہم آپ سے جاتے رہے ہیں ذوق خبر میں
اے جانِ بلب آمدہ رہ تا خبر آوے

کہتے ہیں ترے کوچہ سے میر آنے کہے ہے
جب جانئے وہ خانہ خراب اپنے گھر آوے

ہے جی میں غزل در غزل اے طبع یہ کہیے
شاید کہ نظیری کے بھی عہدے سے بر آوے

جب نام ترا لیجئے تب چشم بھر آوے
اِس زندگی کرنے کوکہاں سے جگر آوے

تلوار کا بھی مارا خدا رکھے ہے ظالم
یہ تو ہو کوئی گورِ غریباں میں در آوے

مے خانہ وہ منظر ہے کہ ہر صبح جہاں شیخ
دیوار پہ خورشید کا مستی سے سر آوے

کیا جانیں وہ مرغان گرفتار چمن کو
جن تک کہ بصد ناز نسیم سحر آوے

تو صبح قدم رنگہ کرے ٹک تو ہے ورنہ
کس واسطے عاشق کی شب غم بسر آوے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۷۶

ہر سو تسلیم رکھے صید حرم میں
وہ صید فگن تیغ بکف تا کدھر (*) آوے

* امیر خسرو کا شعر ہے :
ہمہ آہواں صحرا سر خود نہادہ برکف
بامیدایں کہ روزے بہ شکار خواہی آمد

دیواروں سے سر مارتے پھرنے کا گیا وقت
اب تو ہی مگر آپ کبھو در سے در آوے

واعظ نہیں کیفیتِ مے خانہ سے آگاہ
یک جرعہ بدل ورنہ یہ مندیل دھر آوے

صناع ہیں سب خوا رازانجملہ ہوں میں بھی
ہے عیب بڑا اس میں جسے کچھ ہنر آوے

اے وہ کہ تو بیٹھا ہے سرِ راہ پہ زنہار
کہیو جو کبھو میرؔ بلاکش ادھر آوے

مت دشتِ مھبت میں قدم رکھ کہ خضر کو
ہر گام پہ اس رہ میں سفر سے حذر آوے
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

کوفت سے جان لب پہ آئی ہے
ہم نے کیا چوٹ دل پہ کھائی ہے

لکھتے رقعہ لکھے گئے دفتر
شوق نے بات کیا بڑھائی ہے

آرزو اس بلند و بالا کی
کیا بلا میرے سر پہ لائی ہے

دیدنی ہے شکستگی دل کی
کیا عمارت غموں نے ڈھائی ہے

ہے تصنع کہ لعل ہیں وہ لب
یعنی اک بات سی بنائی ہے

دل سے نزدیک اور اتنا دُور
کسے اس کو کچھ آسنائی ہے

بے ستون کیا ہے کوہ کن کیسا
عشق کی زور آزمائی ہے

جس مرض میں کہ جان جاتی ہے
دلبروں ہی کی وہ جدائی ہے

یاں ہوئے خاک سے برابر ہم
واں وہی ناز خود نمائی ہے

ایسا ہوتا ہے زندہ جاوید
رفتہ یار تھا جب آئی ہے

مرگِ مجنوں سے عقل گم ہے میرؔ
کیا دوانے نے موت پائی ہے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۷۷

کعبے میں جاں بلب تھے ہم دوری بتاں سے
آئے ہیں پھر کے یارو اب کے خدا کے یاں سے

تصویر کے سے طائر خاموش رہتے ہیں ہم
جی کچھ اچٹ گیا ہے اب نالہ و فغاں سے

جب کوندتی ہے بجلی تب جانب گلستاں
رکھتی ہے چھیڑ میری خاشاک آشیاں سے

کیا خوبی اسکے منہ کی اے غنچے نقل کرئیے
تُو تُو نہ بول ظالم بو آتی ہے وہاں سے

آنکھوں ہی میں رہے ہو دل سے نہیں گئے ہو
حیران ہوں یہ شوخی آئی تمھیں کہاں سے

سبزانِ باغ سارے دیکھے ہوئے ہیں اپنے
دلچسپ کاہے کو ہیں اس بیوفا جواں سے

کی شِست و شو بدن کی جسدن بہت سی انے
دھوئے ہیں ہاتھ میں نے اسدن سے اپنی جاں سے

خاموشی ہی میں ہم نے دیکھی ہے مصلحت اب
ہر اک سے حال دل کا مدت کہا زباں سے

اتنی بھی بدمزاجی ہر لحظہ میرؔ تم کو
الجھاؤ ہے زمیں سے جھگڑا ہے آسماں سے
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

اے نوکیلے یہ تھی کہاں کی ادا
کھب گئی جی میں تیری بانکی ادا

جادو کرتے ہیں اک نگاہ کے بیچ
ہائے رے چشم دلبراں کی ادا

بات کہنے میں گالیاں دے ہے
سنتے ہو میرے بدزباں کی ادا

دل چلے جائے ہیں خرام کے ساتھ
دیکھی چلنے میں ان بتاں کی ادا

خاک میں مل کے میر ہم سمجھے
بے ادائی تھی آسماں کی ادا
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*​

میر سوزؔ مرحوم نے بھی یہ مضمون خوب باندھا ہے۔

دعوی کیا تھا گل نے اس رخ سے رنگ و بو کا
ماریں صبا نے دھو لیں شبنم نے منہ پہ تھوکا​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۷۸

سخن مشتاق ہے عالم ہمارا
بہت عالم کرے گا غم ہمارا

پڑھیں گے شعر رو رو لوگ بیٹھے
رہے گا دیر تک ماتم ہمارا

نہیں ہے مرجعِ آدم اگر خاک
کدھر جاتا ہے قد خم ہمارا

زمین و آسماں زیر و زبر ہیں
نہیں کم حشر سے اودھم ہمارا

کسو کے بال و پر ہم دیکھتے میرؔ
ہوا ہے کام دل برہم ہمارا
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

جان (*) اپنا جو ہم نے مارا تھا
کچھ ہمارا اسی میں وارا تھا
* اس زمانے میں اکثر استاد جان کو مذکر باندھتے تھے۔

کون لیتا تھا نام مجنوں کا
جب کہ عہد جنوں ہمارا تھا

کوہ و فرہاد سے کہیں آگے
سر مرا اور سنگ خارا تھا

ہم تو تھے محو دوستی اُس کے
گو کہ دشمن جہاں ہمارا تھا

لطف سے پوچھتا تھا ہر کوئی
جب تلک لطف کچھ ہمارا تھا

آستاں کی کسو کے خاک ہوا
آسماں کا بھی کیا ستارا تھا

پاؤں چھاتی پہ میرے رکھ چلنا
یاں کبھی اس کا یوں گذرا تھا

موسم گل میں ہم نہ چھوٹے حیف
گشت تھا دید تھا نظارا تھا

اس کے ابرو جو ٹک جھکے اِیدھر
قتل کا تیغ سے اشارا تھا

عشق بازی میں کیا موئے ہیں میرؔ
آگے ہی جی انھوں نے مارا تھا
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۷۹

آیا ہے ابر جب کا قبلہ سے تیرا تیرا
مستی کے ذوق میں ہیں آنکھیں بہت سی خیرا

خبلت سے ان لبوں کی پانی ہو یہ چلے ہیں
قند و نبات کا بھی نکلا ہے خوب شیرا

مجنوں نے حوسلے سے دیوانگی نہیں کی
جاگہ سے اپنی جانا اپنا نہیں وطیرا

اس راہزن سے ملکر دل کیونکہ کھو نہ بیٹھیں
انداز و ناز اُچکے غمزہ اٹھائی گیرا

کیا کم ہے ہولناکی صحرائے عاشقی کی
شعروں کو اس جگہ پر ہوتا ہے قشعریرا

آئینہ کو بھی دیکھو پر ٹک ادھر بھی دیکھو
حیران چشم عاشق دمکے ہے جیسے ہیرا

نیت پہ سب بنا ہے یا مسجد اک پڑی تھی
پیر مغاں موا سو اس کا بنا خطیرا

ہمراہ خوں تلک ہو ٹک پاؤں کے چھوئے سے
ایسا گناہ مجھ سے وہ کیا ہوا کبیرا

غیرت سے میر صاحب سب جذب ہو گئے تھے
نکلا نہ بوند لوہو سینہ جو ان کا چیرا
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

مت صبح و شام تو پئے ایذائے میر ہو
ایسا نہ ہو کہ کام ہی اس کا اخیر ہو

ہو کوئی بادشاہ، کوئی یاں وزیر ہو
اپنی بلا سے بیٹھ رہے جب فقیر ہو

جنت کی منٹ انکے دماغوں سے کب اٹھے
خاک راہ اس کی جن کے کفن کا عبیر ہو

کیا (*) لو آب و تاب سے ہو بیٹھیں کار عشق
سُوکھے جگر کا خوں تو رواں جوئے شیر ہو

* یہ اور کئی شعر مندرجہ ان کے دیوانوں میں دیکھے اس طرح لکھے تھے اس لیے حرف بحرف لکھے گئے۔

چھاتی قفس میں داغ سے ہو کیوں نہ رشک باغ
جوش بہار تھا کہ ہم آئے اسیر ہو

یاں برگ گل اڑاتے ہیں پرکالہ جگر
جا عندلیب تو نہ مری ہمصفیر ہو

اس کے خیال خط میں کسے یاں دماغ حرف
کرتی ہے بے مزہ جو قلم کی ضریر ہو

زنہار اپنی آنکھ میں آتا نہیں وہ صید
پھوٹا دو سار جس کے جگر کا نہ تیر ہو
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۸۰

ہوتے ہیں میکدے کے جواں شیخ جی بُرے
پھر درگذر یہ کرتے نہیں گو کہ پیر ہو

کس طرح آہ خاکِ مذلت سے میں اُٹھوں
افتادہ تر جو مجھ سے مرا دستگیر ہو

حد سے زیادہ جور و ستم خوش نما نہیں
ایسا سلوک کر کہ تدارک پذیر ہو

دم بھر نہ ٹھہرے دل میں نہ آنکھوں میں ایک پل
اتنے سے قد پہ تم بھی قیامت شریر ہو

ایسا ہی اس کے گھر کو بھی آباد دیکھیو
جس خانماں خراب کا یہ دل مشیر ہو

تسکین دل کیواسطے ہم کم ب۔۔۔ کے پاس
انصاف کرئیے کب تئیں مخلص حقیر ہو

اک وقت خاص حق میں مرے کچھ دعا کرو
تم بھی تو میر صاحب قبلہ فقیر ہو
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

دلِ پُر خوں کی اک گلابی سے
عمر بھر ہم رہے شرابی سے

جی ڈھہا جائے ہے سحر سے آج
رات گزرے گی کس خرابی سے

کھلنا کم کم کلی نے سیکھا ہے
اس کی آنکھوں کی نیم خوابی سے

برقع اٹھتے ہی چاند سے نکلا
داغ ہوں اس کی بے حجابی سے

کام تھے عشق میں بہت پر میرؔ
ہم ہی فارغ ہوئے شتابی سے
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

دل عجب شہر تھا خیالوں کا
لوٹا مارا ہے حسن والوں کا

جی کو جنجال دل کو ہے الجھاؤ
یار کے حلقہ حلقہ بالوں کا

موئے دلبر سے مشک بو ہے نسیم
حال خوش اس کے خستہ حالوں کا

نہ کہا کچھ نہ آ پھر نہ ملا (اس مصرعے میں کچھ گڑبڑ لگتی ہے)
کیاجواب ان مرے سوالوں کا

دم نہ لے اس کی زلفوں کا مارا
میرؔ کاٹا جئے نہ کالوں کا
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۸۱

ہے غزل میرؔ یہ شفائی کی
ہم نے بھی طبع آزمائی کی

اُس کے ایفائے عہد تک نہ جئے
عمر نے ہم سے بے وفائی کی

وصل کے دن کی آرزو ہی رہی
شب نہ آخر ہوئی جدائی کی

اسی تقریب اس گلی میں رہے
منتیں ہیں شکستہ پائی کی

دل میں اس شوخ کے نہ کی تاثیر
آہ نے آہ نارسائی کی

کاسئہ چشم لے کے جوں نرگس (*)
ہم نے دیدار کی گدائی کی
*************************************
* آتش نے بھی خوب کہا ہے :

آنکھیں نہیں ہیں چہرہ پہ تیرے فقیر کے
دو ٹھیکرے ہیں بھیک کے دیدار کے لئے
****************************************

زور و زر کچھ نہ تھا تو بارے میرؔ
کس بھروسے پہ آشنائی کی
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

ہو گئی شہر شہر رسوائی
اے مری موت تو بھلی آئی

یک بیاباں برنگ صورت جرس
مجھ پہ ہے بے کسی و تنہائی

نہ کھنچے تجھ سے ایک جانقاش
اس کی تصویر وہ ہے ہرجائی

سر رکھوں اس کے پاؤں پر لیکن
دستِ قدرت یہ میں کہاں پائی

میرؔ جب سے گیا ہے دل تب سے
میں تو کچھ ہو گیا ہوں سودائی​

اہلی شیرازی کے شعر پر مصرع لگا کر مثلث کا ایجاد اپنی زبان میں دکھاتے ہیں :

کل تک تو فرینبدہ ملاقات تھی پہلی​
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top