شمشاد
لائبریرین
صفحہ ۲۶۲
بعض جگہ قادر الکلامی کے تصرف کر کے اپنے زور زبان کا جوہر دکھایا ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں :
ردیف تاءسثناۃ فوقانی کی غزل میں یہ شعر واقع ہوا ہے۔ ایسے تصرفوں سے نہیں کہہ سکتے کہ انھیں اس لفظ کی صحت کی خبر نہ تھی۔ سمجھنا چاہیے کہ زبان کے مالک تھے اور محاورہ کو اصلیت پر مقدم سمجھتے تھے۔
بعض جگہ قادر الکلامی کے تصرف کر کے اپنے زور زبان کا جوہر دکھایا ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں :
ہر چند ناتواں ہوں پر آ گیا جو دل میں
دیں گے ملازمیں سے تیرا فلک قلابا (*)
(*) اصل قلابہ ہے۔
داغ ہے تاباں علیہ الرحمۃ کا چھاتی پہ میر
ہو نجات اس کی بچارا ہم سے بھی تھا آشنا
(بیچارہ کا مخفف ہے اور ہم سے آشنا تھا۔ بعینہ ترجمہ کا محاورہ ہے کہ بابا ہم آشنا بود، اردو میں ہمارا کہتے ہیں)
ہزار شانہ و مسواک و غسل شیخ کرے
ہمارے عندیہ میں تو ہے وہ پلیت و خبیث
دیں گے ملازمیں سے تیرا فلک قلابا (*)
(*) اصل قلابہ ہے۔
داغ ہے تاباں علیہ الرحمۃ کا چھاتی پہ میر
ہو نجات اس کی بچارا ہم سے بھی تھا آشنا
(بیچارہ کا مخفف ہے اور ہم سے آشنا تھا۔ بعینہ ترجمہ کا محاورہ ہے کہ بابا ہم آشنا بود، اردو میں ہمارا کہتے ہیں)
ہزار شانہ و مسواک و غسل شیخ کرے
ہمارے عندیہ میں تو ہے وہ پلیت و خبیث
ردیف تاءسثناۃ فوقانی کی غزل میں یہ شعر واقع ہوا ہے۔ ایسے تصرفوں سے نہیں کہہ سکتے کہ انھیں اس لفظ کی صحت کی خبر نہ تھی۔ سمجھنا چاہیے کہ زبان کے مالک تھے اور محاورہ کو اصلیت پر مقدم سمجھتے تھے۔
اے خوشا حال اس کا جس کو وہ
حال عمداً تباہ کرتے تھے
ہے تہ دل بتوں کو کیا معلوم
نکلے پردہ سے کیا، خدا معلوم
میں بیقرار خاک میں کبتک ملا کروں
کچھ ملنے یا نہ ملنے کا تو بھی قرار کر
رہوں جا کے مر حضرت یار میں
یہی قصد ہے بندہ درگاہ کا
کُھلا نشے میں جو پگڑی کا پیچ اسکی میرؔ
سمند ناز کو اک اور تازیانہ ہوا
آواز ہماری سے نہ رک ہم ہیں دُعا یار
آوے گی بہت ہم سے فقیروں کی صدا یاد
سب غلطی رہی بازی طفلانہ کی یک سُو
وہ یاد فراموش تھے ہم کو نہ کیا یاد
جُز و مرتبہ کل کو حاصل کرے ہے آخر
اک قطرہ نہ دیکھا جو دریا نہ ہوا ہو گا
ابر اٹھا تھا کعبہ سے اور جھوم پڑا میخانہ پر
بادہ کشوں کا جھرمٹ ہیگا شیشہ اور پیمانہ پر
حال عمداً تباہ کرتے تھے
ہے تہ دل بتوں کو کیا معلوم
نکلے پردہ سے کیا، خدا معلوم
میں بیقرار خاک میں کبتک ملا کروں
کچھ ملنے یا نہ ملنے کا تو بھی قرار کر
رہوں جا کے مر حضرت یار میں
یہی قصد ہے بندہ درگاہ کا
کُھلا نشے میں جو پگڑی کا پیچ اسکی میرؔ
سمند ناز کو اک اور تازیانہ ہوا
آواز ہماری سے نہ رک ہم ہیں دُعا یار
آوے گی بہت ہم سے فقیروں کی صدا یاد
سب غلطی رہی بازی طفلانہ کی یک سُو
وہ یاد فراموش تھے ہم کو نہ کیا یاد
جُز و مرتبہ کل کو حاصل کرے ہے آخر
اک قطرہ نہ دیکھا جو دریا نہ ہوا ہو گا
ابر اٹھا تھا کعبہ سے اور جھوم پڑا میخانہ پر
بادہ کشوں کا جھرمٹ ہیگا شیشہ اور پیمانہ پر