آب حیات - مولانا محمد حسین آزاد (مرحوم)

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۳۰۲

آنکھوں کی راہ نکلے ہے کیا حسرتوں سے جی
وہ روبرو جو اپنے دمِ واپسیں نہیں

طوفانِ گریہ کیا کہیں کس وقت ہم نشیں
موج سر شک، تا فلک ہفتمیں نہیں

حیرت ہے مجکو کیونکہ وہ جرات ہے چین سے
جس بن قرار جی کو ہمارے کہیں نہیں
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

امشب کسی کاکل کی حکایات ہے واللہ
کیا رات ہے، کیا رات ہے، کیا رات ہے واللہ

دل چھین لیا اس نے کہا دستِ حنائی
کیا بات ہے، کیا بات ہے، کیا بات ہے واللہ

عالم ہے جوانی کا جو اُبھرا ہوا سینہ
کیا گات ہے، کیا گات ہے، کیا گات ہے واللہ

دشنام کا پایا جو مزہ اس کے لبوں سے
صلٰوت ہے، صلٰوت ہے، صلٰوت ہے واللہ

جراءتؔ کی غزل جس نے سُنی اس نے کہا واہ
کیا بات ہے، کیا بات ہے، کیا بات ہے واللہ
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*​

طرح مشاعرہ کی مستزاد ہے، مصحفی اور سید انشاء نے بھی طبع آزمائی کی ہے۔ ہر ایک کے حال میں دیکھ کر مقابلہ کرو، انھوں نے سراپا باندھا ہے۔

جادو ہے نگہ، چھب ہے غضب، قہر ہے مکھڑا
اور قد ہے قیامت

غارت گر دیں وہ بت کافر ہے سراپا
اللہ کی قدرت

اٹھکھیلی ہے رفتار میں، گفتار کی کیا بات
ہر بات جگت ہے

اور رنگِ رخ یار ہے گویا کہ بَھبُھوکا
پھر تس پہ ملاحت

ہیں بال یہ بکھرے ہوئے مکھڑے دھواں دھار
جوں دود بہ شعلہ

حُسنِ بُتِ کافر ہے خدائی کا جھمکڑا
ٹک دیکھیو صورت

ابرو فنِ خونریزی میں اس کے ہیں غضب طاق
شمشیر برہنہ
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۳۰۳

آنکھوں کا یہ عالم ہے کہ آنکھوں سے نہ دیکھا
افسوں ے اشارت

کان ایسے کہ کانوں سے سُنے ویسے نہ ابتک
نے آنکھوں سے دیکھے

بالے کے تصور میں مجھے گھیرے ہے گویا
اک حلقہ حیرت

بینی یہ خوش اسلوب کہ نتھنوں کی پھڑک دیکھ
تڑپے ہے دو عالم

ہے اس کو لب یار کے بوسہ کی تمنا
ارمان ہے حسرت

دانتوں کی صفا کیا کہوں موتی کی لڑی ہے
لب لعل کے ٹکڑے

مِسّی ہے بلا تسپہ رکھے پان کا بیڑا
سو شوخی کی رنگت

دل خون کرے وہ دستِ حنا بستہ پھر اسمیں
سمرن کی پھبن ہائے

ہے وضع تو سادی سی پہ کیا کیا نہیں پیدا
شوخی و شرارت

اس اُبھرے ہوئے گات کی کیا بات جسے دیکھ
سب ہاتھ ملے ہیں

اور ہائے رے ہر بات میں گردن کا وہ ڈورا
ہے دامِ محبت

گلشن میں پھرے ٹک تو وہیں آتشِ گل کی
گرمی سے عرق آئے

ہر گام پہ چلنے میں کمر کھائے ہے لچکا
اللہ رے نزاکت

ہیں قہر سریں گول وہ اور ہائے کہوں کیا
رانوں کی گدازی

فرق اس میں نہیں فرق سے لے تا بہ کفِ پا
ہے طرفہ لطافت

ہے عشوہ و انداز و ادا ناز و کرشمہ
اور گرمی و شوخی

ہر عضو پہ آنکھ اٹکے وہ کافر ہے سراپا
ایک موہنی مورت

بُھولے سے جو ہم نام لیں تو رک کے کہے یوں
اس نام کو کم لو

پھر اس میں جو رک جائیے تو جھٹ سے یہ کہنا
بس دیکھ لی چاہت
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۳۰۴

جراءت یہ غزل گرچہ کہی ایسی ہے تو نے
ہے خوب سراپا

پر کہہ کے وہ اشعار کر اب اس کو دو غزلہ
ہو جس سے کہ وحشت

جز بےکسی و یاس نہیں ہے کوئی جس جا
ہے اپنی وہ تربت

افسوس کرے کون بجز دستِ تمنا
ہوں کشتہ حیرت

جو میں نے کہا اس سے دکھا مجھ کو رُخ اپنا
بس دے نہ اذّیت

تو کیا کہوں کس شکل سے جھنجھلا کے وہ بولا
تو دیکھے گا صورت

یہ راہ تکی اس کی کہ بس چھا گئی اک بار
آنکھوں میں سپیدی

پیمان گسل آیا نہ وہ دے وعدہ فردا
تا صبح قیامت

سودائے محبت جو نہیں ہے تجھے اے دل
تو پھر مجھے بتلا

کیوں چاک کئے اپنے گریباں کو ہے پھرتا
آنکھوں پہ ہے وحشت

سو بار زباں گرچہ مری کٹ گئی جوں شمع
اور پھر ہوئی پیدا

پر محفل قاتل میں مرے منھ سے نہ نکلا
یک حرف شکایت

اب گھر میں بلانے سے اگر آتی ہیں سو سوچ
بدنام سمجھ کر

آواز ہی تو در پہ مجھے آ کے سُنا جا
ازراہ مروّت

آلودہ ہوا خون سے دلا دامن قاتل
بسمل ہو جو تڑپا

افسوس صد افسوس کہ یہ تو نے کیا کیا؟
اے ننگِ محبت

جو ولولہ شوق سے ہو مضطر وہ بیتاب
نکلا ہی پڑے دل

کیا قہر ہے، کیا ظلم ہے مھبوب گر اس کا
ہو صاحب عصمت

کیا خاک رہیں چین سے بیچینی کے مارے
بس ہے یہ پریکھا
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۳۰۵

ہم ہو گئے جس کے وہ ہوا ہائے نہ اپنا
کیا کیجیئے قسمت

چپ ان دنوں رہتا ہے جو وہ صورتِ تصویر
کچھ اور ہے خفقان

لگ جائے پھر اس سے مرے کیوں دل کو نہ دھڑکن
ہے موجب حیرت

دل دے کے عجب ہم تو مصیبت میں پھنسے ہیں
اک پردہ نشین کو

نے جانے کا گھر اس کے ہے مقدور ہمارا
نے رہنے کی طاقت

یا مجھ کو بلاتا تھا وہ یا آئے تھا مجھ پاس
صحبت کی تھی گرمی

اب اس کو خدا جانے دیا کس نے یہ بھڑکا
جو ایسی ہے نفرت

لے نام مرا کوئی تو دے سینکڑوں دشنام
گِن گِن کے وہ قاتل

بے رحمی و بے دردی سے پروا ہو نہ اصلا
سُن مرگ کی حالت

آنا مرا سُن در پہ کہیں گھر سے چلا جائے
دیکھوں تو نہ دیکھے

اور کوئی سفارش جو کرے میری تو کیا کیا
کھینچے وہ ندامت

گر خواب میں دیکھے مجھے تو چونک اتھے اور
پھر موندے نہ آنکھیں

آواز جو میری سی سُنے تو وہیں گھبرا
کھانے لگے دہشت

افسوس کہ گردوں نے عجب رنگ دکھایا
نقشہ ہی وہ بدلا

لے جان مری! خانہ تن سے تو نِکل جا
ہو جائے فراغت

کس منھ سے کروں عشوہ گری اسکی بیاں میں
اللہ رےادائیں

مل بیٹھے ہیں ہم اور وہ قسمت سے جو یا جا
طرفہ ہوئی صحبت

بیتاب ہو لگ چلنے کا جو میں کیا عزم
دے بیٹھے وہ گالی

کچھ اور کیا قصد تو ناز سے بولا
بل بے تری جراتؔ
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۳۰۶

اجل گر اپنی خیال جمال یار میں آئے
تو پھر بجائے فرشتہ پری مزار میں آئے

بھلا پھر اسکے اٹھانے میں کیوں نہ دیر لگے
کسی کی موت کسی کے جو انتظار میں آئے

بیک کرشمہ جو بے اختیار کر ڈالے
وہ عشوہ ساز کسی کے کب اختیار میں آئے

پس از فنا جو ترے دل جلے کی خاک اڑے
تو مضطرب سا دھواں اک نظر غیار میں آئے

خراب کیونکہ نہ ہو شہر دل کی آبادی
ہمیشہ لوٹنے والے ہی اس دیار میں آئے

فغاں پھر اس کی ہو لبریز یاس کیونکہ نہ آہ
بہ زیر دام جو مرغِ چمن بہار میں آئے

بلائیں لے لے جو ہونے لگوں نثار تو بس
کہے ہے ہنس کے وہ ایسے جی اب پیار میں آئے

نہ پوچھ مجھ سے وہ عالم کہ صبح نیند سے اُٹھ
جب انکھڑیوں کو وہ ملتے ہوئے خمار میں آئے

نہ کیونکہ حد سے فزوں تر ہو رتبہ گریا
کہ اب تو حضرتِ دل چشم اشکبار میں آئے

ٹلیں نہ واں سے اگر ہم کو گالیاں لاکھوں
وہ دینے غیرتِ گل ایک کیا ہزار میں آئے۔

مگر نہ کہیے کہ مضطر ہو تو نہ کیونکہ بھلا
وہ دوڑ دوڑ تمھارے نہ رہگزار میں آئے

اٹھے جہان سے جراءت اٹھا کے درد فراق
الہٰی موت بھی آئے تو وصل یار میں آئے
(کس دھوم دھام کی غزل تھی مگر "آئے" کہیں واحد ہے کہیں جمع ہو گیا ہے۔)
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

یاد آتا ہے تو کیا پھرتا ہوں گھبرایا ہوا
چنپئی رنگ اس کا اور جوبن وہ گدرایا ہوا

بات ہی اول تو وہ کرتا نہیں مجھ سے کبھی
اور جو بولے بھی ہے کچھ منھ سے تو شرمایا ہوا

جا کے پھر آؤں نہ جاؤں اس گلی میں دوڑ دوڑ
پر کروں کیا میں نہیں پھرتا ہے دل آیا ہوا

بے سبب جو مجھ سے ہے وہ شعلہ خو سر گرم جنگ
میں تو ہوں حیراں کہ یہ کس کا ہے بھڑکایا ہوا

وہ کرے عزم سفر تو کیجیئے دنیا سے کوچ
ہے ارادہ دل میں مُدّت سے یہ ٹھہرایا ہوا
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۳۰۷

نوکِ مژگاں پر دل مژمردہ ہے یوں سرنگوں
شاخ پر جھک آے ہے جوں پھول مرجھایا ہوا

جاؤں جاؤں کیا لگایا ہے اجی بیٹھے رہو
ہوں میں اپنی زیست سے آگے ہی اکتایا ہوا

تیری دُوری سے یہ حالت ہو گئی اپنی کہ آہ
عنقریب مرگ ہر ایک اپنا ہمسایا ہوا

کیا کہیں اب عشق کیا کیا ہم سے کرتا ہے سلوک
دل پہ بیتابی کا اک پُتلا ہے بٹھلایا ہوا

ہے قلق سے دل کی یہ حالت مری اب تو کہ میں
چار سو پھرتا ہوں اپنے گھر میں گھبرایا ہوا

حکم بارِ مجلس اب جرات کو بھی ہو جائے جی
یہ بچارا کب سے دروازہ پہ ہے آیا ہوا
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

نہ جواب لے کے قاصد جو پھر اشتاب اُلٹا
میں زمیں پہ ہاتھ مارا بصد اضطراب اُلٹا

دمِ وصل اس نے رخ سے جو نہ ٹک نقاب اُلٹا
ہمیں لگ گیا دم اُسدم بصد اضطراب اُلٹا

ترے دَور میں ہو میکش کوئی کیا فلک کہ تیری
وہ ہے شکل جوں دھرا ہو قدح شراب اُلٹا

یہ وفا کی میں نے تسپر مجھے کہتے بے وفا ہو
مری بندگی ہے صاحب یہ ملا خطاب اُلٹا

مرے بخت ہیں وہ روکش کہ وہ دے جو وعدہ شب
تو پہنچ کے تا بہ مغرب پھرے آفتاب اُلٹا

کسی نسخہ میں پڑھے تھا وہ مقام دل نوازی
مجھے آتے جو ہی دیکھا ورقِ کتاب اُلٹا

وہ بہا کے کاسہ سر میرے خوں مین شکل کشی
کہے ہے کہ دیکھو نِکلا یہ موا حباب اُلٹا

مرے دل نے داغ کھایا جو یہ بوئے سوختہ سے
یہ جلا بس ایک پہلو نہ کیا کباب اُلٹا

غزل اور پڑھ تو جراءتؔ کہ گیا جو یاں سے گھر کو
تو کلام سُنتے تیرا میں پھرا شتاب اُلٹا

میں تڑپ کے سنگِ تربت بصد اضطراب اُلٹا
مری قبر پر وہ آ کر جو پھرا شتاب اُلٹا

مرے سو سوال سنکر وہ رہا خموش بیٹھا
نہیں یہ بھی کہنے کی جا کہ ملا جواب اُلٹا
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۳۰۸

جو رکھے ہے بخت واژوں وہ ٹنی سے مل ہو مفلس
کہ رہے یہ آب دریا قدح حباب اُلٹا

شب وصل یہ قلق تھا پہ وہ سو گیا تو منھ سے
نہ ذرہ بھی میں (*) دوپٹہ زرہِ حجاب اُلٹا
(* دیکھو یہاں بھی علامتِ فاعلیت ہے محذوف ہے اور یہ پرانا جوہر ہے۔)

ہمیں ہے خیال اسکا کہ جو آیا خواب میں وہ
تو زباں پہ اسکی ڈر سے نہ وہ ہمنے خواب اُلٹا

اسی در تک آؤنگا میں کہ نہیں ہے دل کہے میں
پجھے پھیرتے عبث ہو زرہِ عتاب اُلٹا

طلب اس سے کل جو مے کی تو بھرا ہوا زمن پر
مجھے شوخ نے دکھا کر قدحِ شراب اُلٹا

جو کنار مقصد اپنی لگے بہہ کے ناؤ گاہے
تو ہوا تھپڑ مارے لگے بہنے آب اُلٹا

کسی تذکرہ میں پڑھنے مرے شعر جو لگا وہ
تو ہوا نے ودں ہی جراءتؔ ورق کتاب اُلٹا
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

اس ڈھب سے کیا کیجیئے ملاقات کہیں اور
دن کو تو ملو ہم سے رہو رات کہیں اور

کیا بات کوئی اس بُتِ عیّار کی سمجھے
بولے ہے جو ہم سے تو اشارات کہیں اور

اس ابر میں پاؤں میں کہاں دختر رز کو
رہتی ہے مدام ابتو وہ بدذات کہیں اور

جس رنگ مری چشم سے برے ہے پڑا خوں
اس رنگ کی دیکھی نہیں برسات کہیں اور

گھر اُس کو بلا نذر کیا دل تو وہ جراءتؔ
بولا کہ یہ بس کیجئے مدارات کہیں اور
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

جب یہ سنتے ہیں کہ ہمسایہ میں آپ آئے ہوئے
کیا در و بام پہ ہم پھرتے ہیں گھبرائے ہوئے

آپ سے میں تو نہ جاؤں پر کروں کیا کہ وہیں
دل بیتاب لئے جائے ہے دوڑائے ہوئے

گھر میں بے یار ہے شکل اپنی یہ دل کے ہمراہ
دہ گنہگار ہوں جوں قید میں بٹھلائے ہوئے

آئے جب دست بقبضہ ہو تو پھر دیر ہے کیا
سر تسلیم کو ہم بیٹھے ہیں نہڑائے ہوئے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۳۰۹

آج بھی اس کے جو آنے کہ نہ ٹھہری تو بس آہ
ہم وہ کر بیٹھیں گے جو دلمیں ہیں ٹھہرائے ہوئے

پیرہن چاک ترے در پہ جو کل کرتا تھا
آج لوگ اس کو لئے جاتے ہیں کفنائے ہوئے

مُردنی بھر گئی منھ پر مرے جن کی خاطر
رنگ و رو کیا وہ پڑے پھرتے ہیں چمکائے ہوئے

ابر تصویر کی مانند ہم اس محفل میں
رد نہیں سکتے پہ آنکھوں میں ہیں اشک آئے ہوئے

لوگ گر ہم سے یہ کہتے ہیں کہ چلتے ہو جی واں
اپنے بیگانے سب اس بزم میں ہیں آئے ہوئے

دل میں تب سوچ کے اس بات کو رو دیتے ہیں
کیا کہیں اُن سے کہ ہیں ہم تو نکلوائے ہوئے

کر کے موزوں انھیں جراءتؔ غزل اک اور بھی پڑھ
دل میں جو تازہ مضامین ہوں ٹھہرائے ہوئے
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

خوف کچھ کھاتے ہی بیدار ہم اے وائے ہوئے
شب کو تم خواب میں پھر آئے تو گھبرائے ہوئے

بے خودی پر نہ ہماری متحیر ہو کوئی
آئیں کیا آپ میں جی ہم ہیں کہیں آئے ہوئے

رنگ اور اسمیں نظر آئے ہے کچھ حضرتِ دل
اشک سُرخ آنکھوں میں پھرتے ہو چمکائے ہوئے

رشک کی جا ہے غرض شہر خموشاں بھی کہ واں
سوتے کیا چین سے ہم پاؤں کو پھیلائے ہوئے

دیکھو شوخی کہ کوچے میں دِل عاشق کو
کیسی اٹکھیلی سے جاتا ہے وہ ٹھکرائے ہوئے

جوشِ وحشت سے گریبان کو کر چاک ہم آہ
سُرخ آنکھیں کئے کیا بیٹھے ہیں جھنجھلائے ہوئے

جام دیتے نہیں مجھ کو جو دمِ بادہ کشی
یہ تو فرماؤ کہ تم کس کے ہو بہکائے ہوئے

حسرت اے ہم نفساں سیر چمن مفت گئی
نخل بستاں سے قفس ہیں کئی لٹکائے ہوئے

دور چھوڑا ہمیں گلشن سے یہ رونے کی ہے جا
کہ سزاوارِ اسیری بھی نہ ہم ہائے ہوئے

دم رخصت کہے جراءتؔ کوئی اس کافر سے
اک مسلمان کو کیوں جاتے ہو تڑپائے ہوئے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۳۱۰

میر حسنؔ

حسن تخلص میر غلام حسن نام خاص دہلوی تھے۔ پرانی دلّی میں سّید واڑہ ایک محلہ تھا، وہاں پیدا ہوئے تھے۔ عالم شباب میں والد کے ساتھ فیض آباد (پلے فیض آباد حاکم نشین شہر تھا۔ لکھنؤ ایک قصبہ تھا۔ آصف الدولہ مرحوم کو اسکے آباد کرنیکا شوق ہوا۔ زیادہ تر یہاں رہنے لگے۔ ان کے سبب سے امراء کو بھی یہاں رہنا پڑا۔ اور عمارات کا تعمیر کرنا واجب ہوا۔ مگر دو گھرے تھے ایک قدم یہاں رہتا تھااور ایک قدم وہاں۔) گئے۔اور نواب سرفراز جنگ خلف نواب سالار جنگ کی سرکار میں ملازم ہوئے۔ کچھ مُدت مقام مذکور میں رہے۔ پھر لکھنؤ میں آ گئے۔ خندہ جبیں، شگفتہ مزاج ظریف طبع تھے اور اس میں تہذیب و شائستگی کو کبھی ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے، میانہ قد، خوش اندام، گورا رنگ، جملہ قوانین شرافت اور آئین خاندان میں اپنے والد کے پابند تھے، اتنا تھا کہ ڈاڑھی منڈاتے تھے۔ اللہ اللہ عہد جوانی بھی ایک عالم رکھتا ہے۔ مصرعہ :

جوانی کجائی کہ یادت بخیر​

سر پر بانکی ٹوپی، تن میں تن زیب کا انگرکھا، پھنسی ہوئی آستینیں، کمر سے دوپٹہ بندھا :

رہے اک بانکپن بھی بے دماغی میں تو زیبا ہے​
بڑھا دو چین ابرو پر ادائے کج کلاہی کا
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۳۱۱

جب تک دلّی میں رہے، پہلے اپنے والد سے پھر خواجہ میر درد سے اصلاح لیتے رہے، اودھ میں جا کر میر ضیاء الدین ضیاؔ کے شاگرد ہوئے۔ اور مرزا رفیع سودا کو بھی غزل دکھائی، لکھنؤ میں آ کر ان کے کلام نے شہرت کا رنگ اڑایا۔ اِن کے اشعار غزل کے اصول میں گلاب کے پھول ہیں اور محاورات کی خوش بیانی مضامین عاشقانہ کے رنگ میں ڈوبی ہوئی ہے۔ میر سوزؔ کا انداز بہت ملتا ہے۔ اہل تذکرہ کہتے ہیں کہ قصیدہ اس رتبہ پر نہ تھا اور کچھ اس کا تعجب نہیں، کیوں کہ دونوں کوچوں میں مسافت بعید کا فاصلہ ہے۔

حقیقت میں سحر البیان بے نظیر اور بدر منیر کا قصہ بے نظیر لکھا اور اس مثنوی کا نام سحر البیان رکھا ہے۔ زمانہ نے اس کی سحر البیانی پر تمام شعراء اور تذکرہ نویسوں سے محضر شہادت لکھوایا۔ اس کی صفائی بیان اور لطافت محاورہ اور شوخی مضمون طرز ادا اور ادا کی نزاکت اور جواب سوال کی نوک جھونک حدِ توصیف سے باہر ہے۔ اسکی فصاحت کے کانوں میں قدرت نے کیسی سناوٹ رکھی تھی کہ اُسے سو برس آگے والوں کی باتیں سنائی دیتی تھیں؟ کہ جو کچھ اس وقت کہا صاف وہی محاورا اور وہی گفتگو ہے، جو آج ہین تم بول رہے ہیں۔ اس عہد کے شعراء کا کلام دیکھو! ہر صفحہ میں بہت سے الفاظ اور ترکیبیں ایسی ہیں کہ آج متروک اور مکروہ سمجھی جاتی ہیں۔ اس کا کلام (سوا چند الفاظ کے) جیسا جب تھا، ویسا ہی آج دلپذیر و دل کش ہے۔ کہا کہتا ہوں؟ آج کس کا منھ ہے جو ان خوبیوں کے ساتھ پانچ شعر بھی موزوں کر سکے، خصوصاً ضرب المثل، کہاوت، کو اس خوبصورتی سے شعر میں مسلسل کر جاتے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۳۱۲

ہیں کہ زبان چٹخارے بھرتی ہے اور نہیں کہہ سکتی کہ کیا میوہ ہے۔ عالم سخن کے جگت گرد مرزا رفیع سودا اور شاعروں کے سرتاج میر تقی میر نے بھی کئی کئی مثنویاں لکھیں۔ فصاحت کے کتب خانہ میں اس کی الماری پر جگہ نہ پائی۔ کتاب مذکور ہر گھر ہر دوکان بلکہ اس کے اشعار ہر زبان پر جاری ہیں، اس لئے یہاں درج کرنے کی ضرورت نہیں۔

ہمارے ملک سخن میں سیکڑوں مثنویاں لکھی گئیں۔ مگر ان میں فقط دو نسخے ایسے نکلے جنھوں نے طبیعت کی موافقت سے قبول عام کی سند پائی۔ ایک سحر البیان دوسرے گلزار نسیم اور تعجب یہ کے دونوں کے رستے بالکل الگ ہیں۔ اس واسطے آزاد کو واجب ہے کہ کچھ لکھے اور اہل سخن سے اپنی رائے کی صحت و سقم کا حال پوچھے۔ مثنوی حقیقت میں ایک سرگذشت یا بیان ماجرا ہے جسے تاریخ کا شعبہ سمجھنا چاہیے، اس واسطے اس کے اصول میں لکھا ہے کہ چاہیے نہایت سلیس گفتگو میں ہو جس طرح ہم تم باتیں کرتے ہیں۔

میر حسن مرحوم نے اُسے لکھا اور ایسی صاف زبان فصیح محاورے اور میٹھی گفتگو میں، اور اس کیفیت کے ساتھ ادا کیا، جیسے آبِ رواں اصل واقعہ کا نقشہ آنکھوں میں کھنچ گیا۔ اور اُن ہی باتوں کی آوازیں کانوں میں آنے لگیں، جو اس وقت وہاں ہو رہی تھیں، باوجود اس کے اُصول فن سے بال بھر اِدھر یا اُدھر نہ گرے قبول عام نے اسے ہاتھوں میں لیکر آنکھوں پر رکھا اور آنکھوں نے دل و زبان کے حوالے کیا۔ اس نے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۳۱۳

خواص اہل سخن کی تعریف پر قناعت نہ کی بلکہ عوام جو حروف تہجی بھی نہ پہچانتے تھے وظیفوں کی طرح حفظ کرنے لگے۔ ارباب نشاط نے محفلوں میں اسکی نغمہ سرائی کر کے لوگوں کو لٹایا اور رُلایا۔

پنڈت دیا شنکر نے گلزار نسیم لکھی۔ اور بہت خوب لکھی۔ اس کا رستہ اس سے بالکل الگ تھا۔ کیونکہ پنڈت صاحب نے ہر مضمون کو تشبیہ کے پردہ اور استعارہ کے پیچ میں ادا کیا۔ اور وہ ادا معشوقانہ خود ادائی نظر آئی۔ اس کے پیچ وہی بانکپن کی ٹرو رہیں۔ جو پری زادیں بانکا دوپٹا اوڑھ کر دکھاتی ہیں اور اکثر مطالب کو بھی اشاروں اور کنایوں کے رنگ میں دکھایا۔ باوجود اس کے زبان فصیح، کلام شستہ اور پاک ہے۔ اختصار بھی اس مثنوی کا ایک خاص وصف ہے جس کا ذکر کرنا واجب ہے۔ کیونکہ ہر معاملہ کو اس قدر مختصر کر کے ادا کیا ہے جس سے زیادہ ہو نہیں سکتا اور ایک شعر بیچ میں سے نکال لو، داستان برہم ہو جاتی ہے۔ ان باتوں کے لحاظ سے واجب تھا کہ کتاب خاص پسند ہوتی، باوجود اس کے عام و خاص سب میں شہرت پائی۔ اس کے نکتوں اور باریکیوں کو سمجھیں یا نہ سمجھیں، مگر سب لیتے ہیں اور پڑھتے ہیں، جتنی سمجھ میں آتی ہے، اسی پر خوش ہوتے ہیں اور لوٹے جاتے ہیں۔ مثنوی مذکور جب پہلے انھوں نے لکھی تو بہت بڑی تھی۔ خواجہ آتش اپنے استاد کے پاس اصلاح کو لے گئے۔ انھوں نے کہا، بھیا اتنی بڑی کتاب کو دیکھے گا کون؟ وہ اپنا وہ یک کا قانون یہاں بھی جاری کرو (اس کنایہ میں اشارہ تھا کہ پنڈت صاحب فوج شاہی میں منشی تھے۔ اور بموجب
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۳۱۴

حکومت کے سب کی تنخواہوں میں سے وہ یکی کاٹ لیتے تھے۔ گھر گھر میں اس شکایت کا چرچا تھا۔ یہ مثنوی مذکور لے گئے اور اختصار کیا تو ایسا نچوڑا کہ عطر نکال لیا۔) ای موقع پر میرننؔ مرحوم کا سفر شاہ مدار کی چھڑیوں کے ساتھ مطابق پڑا۔ چنانچہ سفر مذکعر کا حال ایک مثنوی کے قالب میں ڈھالا ہے۔ اس میں فیض آباد کی تعریف اور لکھنؤ کی ہجو کی ہے۔ (فی الحقیقت اس وقت لکھنؤ ایسی ہی حالت میں تھا۔) اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس عورتوں کی پوشاک وہاں کیا تھی اور چھڑیوں کے اور جانے والوں کی جزئیات رسوم کیا کیا تھے۔ میں نے یہ مثنوی دلّی کی تباہی سے پہلے دیکھی تھی، اب نہیں ملتی۔ لوگ بہت تعریف لکھتے ہیں۔ مگر حق یہ ہے کہ بدر منیر کو نہیں پہنچتی۔ تیسری مثنوی اور بھی تھی مگر مشہور نہ ہوئی۔

دیوان اب نہیں ملتا۔ حکیم قدرت اللہ خاں قاسم فرماتے ہیں کہ انواع سخن سے لبریز ہے۔ صاحب گلزار ابراہیمی ۱۱۹۶ھ میں کہتے ہیں کہ سیّد صاحب موصوف نے کلام مجھے بھیجا ہے اور جو خط لکھا ہے، اس کی اصل عبارت یہ ہے۔ "از سائر اقسام اشعار ابیات مّدد نہ من ہشت ہزار بیت است تذکرہ و ریختہ ہم نوشتہ و اصلاح سخن از میر صبا گرفتہ ام۔ مُد تسیت کہ از دہلی دارد لکھنؤ گشتہ بانواب سالار جنگ و خلف ایشاں ملقب بہ نوازش علیخاں سرفراز جنگ بہادر میگذراتم۔" افسوس خدا نے رشید اولاد دی۔ مگر کسی نے اپنے بزرگ کے نام کو روشن کرنے کا خیال نہ کیا۔ اس کے کئی سبب ہوئے۔ بیٹوں کو نہ زمانے نے وسعت دی، نہ حصول ثواب نے فرصت دی۔ اور اس وقت چھاپہ بھی
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۳۱۵

کلکتہ سے اس طرف نہ آیا تھا۔ پوتے میر انیسؔ وغیرہ ہوئے، انھیں ان کے پاک اعتقاد اور حسنِ نیّت نے مبارک زمانہ دیا اور زمانے نے ایسے بلند درجہ پر بٹھایا، جہاں سے دادا کا کمال بہت چھوٹا نظر آیا۔ وہ یہ بھی سمجھتے تھے کہ ہمارا ذاتی کمال دادا کی شہرت اور تعریف سے بے نیاز ہے۔ یہ سب درست لیکن موجودہ نسل چند روز کے بعد، اور آئندہ نسلیں مدت تک افسوس کریں گی۔ زمانہ بدل گیا اور بدلتا جاتا ہے۔ وقت تو گیا، پھر یہ وقت بھی نہ پائیں گے۔ آج یہ نوبت ہے کہ پانچ غزلیں تھی پوری نہ ملیں، جو اس کتاب میں درج کرتا۔ خلاصہ کلام کا یہ کہ ۱۳۰۰ھ اول محرم کو دار فانی سے رحلت کی۔ مفتی گنج میں نواب قاسم علی خاں کے باغ کے پچھواڑے دفن ہوئے۔ عمر کا حال نہ کھلا۔ لکھتے ہیں کہ ۵۰ برس سے زیادہ عمر پائی۔ دو صاحبزادوں نے نام پایا۔ میر خلیقؔ۔ میر خلقؔ۔ شیخ مصحفی نے تاریخ کہہ کر حق آشنائی ادا کیا۔

چوں حسن آں بلبل خوش داستاں
روز ازیں گلزارِ رنگ و بو بتافت

بسکہ شیریں بود نطقش مصحفی
شاعرِ شیریں بیاں تاریخ یافت
۱۴۱۱ ھ

غزل

جو چاہے آپ کو تو اُسے کیا نہ چاہیے
انصاف کر تو چاہیے پھر یا نہ چاہیے

مجھ ایسا تجھ کو چاہے نہ چاہے عجب نہیں
تجھ سا جو چاہے مجھ کو تو پھر کیا نہ چاہیے

کس کو سنا کے کہتے ہو میں چاہتا نہیں
اب کیوں جی ہم برے ہوئے اچھا نہ چاہیے

گر پاس تیرے بیٹھوں تو معذور رکھ مجھے
جس جا پہ شمع ہوئے تو پروانہ چاہیے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۳۱۶

عیش و وصال و صحبت یاراں فراغ دل
اِسی ایک جان کے لئے کیا کیا نہ چاہیے

دیتے ہو تم دکھائی جو ہمراہ غیر کے
اس طرح سے غرض تمھیں دیکھا نہ چاہیے

اب جیسے اک حسنؔ سے ہنسے تھے تو ہنس لئے
پر اس طرح ہر ایک سے ٹھٹھا نہ چاہیے
*-*-*-*-*-*-*-*-*

یہ طرفہ ترکہ تیرے سنبھلتی نہیں زباں
اور تیرے سامنے مری چلتی نہیں زباں

میرا تو دل جلا تری باتوں سے شمع رُو
تو بھی تو دیکھ کیا تری چلتی نہیں زباں

کل عہد کچھ کیا تھا، دیا قول آج کچھ
پھر کہیو تو کہ میری بدلتی نہیں زباں

سرگرم سوزِ عشق رہے ہے یہ مثل شمع
تن گھل گیا ہے اور پگھلتی نہیں زباں

سو سو طرح سے کرتا ہوں تقریر میں حسنؔ
عہدہ سے حال دل کے نکلتی نہیں زباں
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

وہ جب تک کہ زلفیں سنورا کیا
کھڑا اس پہ میں جان وارا کیا

ابھی دل کو لے کر گیا میرے آہ
وہ چلتا رہا میں پکارا کیا

قمارِ محبت میں بازی سدا
وہ جیتا کیا اور میں ہارا کیا

کیا قتل اور جان بخشی بھی کی
حسن اس نے احسان دوبارا کیا
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۳۱۷

سیّد انشاء اللہ خاں

انشاءؔؔ تخلص سید انشاء اللہ خاں نام، بیٹے حکیم میر ماشاء اللہ خاں کے تھے۔ اگرچہ خاندان کے اعتبار سے بھی نامی گرامی شخص تھے، مگر ان کی اپنی ناموری نے باپ کے نام کو بلکہ تمام خاندان کو نئی شہرت سے جلوہ دیا۔ (مصدر تخلص کرتے تھے۔ مصدر اور انشاء کی مناسبت قدرتی واقع ہوئی۔ مصدر بدیہہ گوئی میں مشہور تھے۔ ایک شعر ان کا بھی یاد رکھنا چاہیے۔

خدا کرے کہ مِرا مجھ سے مہرباں نہ پھرے
جہاں پھرے تو پھرے پر وہ جانِ جان نہ پھرے​

اخلاق، مروت، سخاوت میں آشنا و بیگانہ کے ساتھ برابر تھے۔ امیر الامراء نواب ذوالفقار خاں کے عہد میں دلّی آئے تھے۔ اس وقت سامان امارت کے ساتھ دو ہاتھی بھی تھے۔ مرشد آباد میں نواب سراج الدولہ کی رفاقت میں تھے تو ۱۸ ہاتھی دروازے پر جھومتے تھے۔ سید انشاء وہیں پیدا ہوئے تھے۔) بزرگ ان کے نجف اشرف سے آئے تھے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ خطہ کشمیر کے سادات صحیح النسب سے ہیں۔ وہ کسی زمانہ میں سمرقند سے آئے تھے۔ پھر دلی میں آ کر رفتہ رفتہ امرائے شاہی میں داخل ہوئے۔ اور بعض ان میں طبل و نقارہ سے بلند آواز ہوئے۔ بموجب پیشہ خاندانی کے میر ماشاء اللہ خاں دربار شاہی میں طبیب تھے۔ اور زمرہ امراء میں داخل تھے۔ ان کے خاندان کی خوبیوں اور گھر کے چال چلن کو دلی اور لکھنؤ کے شرفاء سب مانتے تھے۔ ادنی نمونہ یہ ہے کہ ان کی
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۳۱۸

عورتوں کے پوشاک گھر میں دھلتے تھے۔ یا جلا دیتے تھے کہ نامحرم کے ہاتھ میں عورتوں کا لباس نہ جائے۔

غرض سلطنت چغتائیہ کے صنف میں میر ماشاء اللہ خاں کو مرشد آباد جانا پڑا۔ وہاں بھی اعزاز و اکرام سے رہے اور جس طرح اگلے وقتوں میں خاندانی امیر زادے تعلیم پاتے تھے، اسی طرح سید انشاء کو سب ضروری علوم و فنون سے ماہر کیا۔ باپ کے لیے مثال دے سکتے ہیں، کہ عزیز بیٹے کو اس خوبصورتی سے تعلیم کیا مگر جو جوہر دار طبیعت اپنے ساتھ لایا تھا، اس کی کوئی مثال نہیں ہے۔ سبب یہ ہونہار نونہال تعلم کے چمن سے نکلا تو ہر ریشہ میں کونپل، پتے، پھول پھل کی قوائے مختلفہ موجود تھیں۔ اس طرح کہ جس زمین پر لگے وہیں کی آب و ہوا کے بموجب بہار دکھلانے لگے۔ ایسا طباع اور عالی دماغ آدمی ہندوستان میں کم پیدا ہو گا۔ وہ اگر علوم میں سے کسی ایک فن کی طرف متوجہ ہوتے تو صدہا سال تک وحید عصر گنے جاتے۔ طبیعت ایک ہیولے تھی کہ ہر قسم کی صورت پکڑ سکتی تھی۔ باوجود اس کے شوخی (لڑکپن میں طالب علمی کرتے تھے مگر ساتھ ہی گانے کا بھی شوق تھا۔ کافیہ حفظ کرتے تھے اور ستار خوب بجاتے تھے۔ انکَلِمتہُ لَفظُ کَلِمتہ لَفظُ وضع لمعنی مفردادوُ) اس قدر کہ سیماب کی طرح ایک جا قرار ہ تھا چنانچہ کلیات ان سب مراتب کے لیے محضر شہادت ہے۔ ان کی طبیعت جو شیر کی طرح کسی کا جھوٹا شکار نہ کھاتی تھی، پیشہ آبائی پر مائل نہ ہوئی۔ لیکن چونکہ ایسے رنگا رنگ خیالات کا سوائے شاعری کے اور جن میں گذارہ نہیں، اس لئے شاعری کی
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۳۱۹

طرف جھکے جس سے انھیں ربط خداداد تھا، اس کوچہ میں بھی اپنا راستہ سب سے جُدا نکال کر داخل ہوئے۔

انھوں نے کسی سے اصلاح نہیں لی۔ والد کو ابتدا میں کلام دکھایا۔ حق یہ ہے کہ شعر شاعری کا کوچہ جہاں سے نرالا ہے۔ جو لوگ ذہن کے بھدے ہیں ان کے لئے تو استاد کی محنت ہی برباد ہے۔ مگر یاد رہے کہ جس قدر مبتدی زیادہ تیز و طباع ہو اتنا ہی زیادہ استاد کا محتاج ہے جیسے ہونہار بچھیرا کہ اچھے چابک سوار کے کوڑے تلے نکلتا ہے۔ جب ہی جوہر نکلتا ہے۔ نہیں تو بے ڈھنگے ہاتھ پاؤں مارتا ہے بلکہ بد ہو جاتا ہے۔ اسی طرح تیز اور نوجوان طبیعت زبردست استاد کے قلم کے نیچے نہ نکلے تو گمراہ ہو جاتی ہے۔ چنانچہ پرکھنے والوں نے عرفی کے کلام میں یہی کھوٹ نکالی ہے۔ الغرض جب ہندوستان میں تباہی عام ہوئی تو سید انشاء مرشد آباد سے دلّی آئے۔ اس دلّی کا دربار ایک ٹوٹی پھوٹی درگاہ اور سجادہ نشین اس کے شاہ عالم بادشاہ تھے۔ شاہ موصوف نے کہ خود بھی شاعر تھے خواہ قدردانی شاعرانہ سے خواہ اس نظر شفقت سے جو بادشاہوں کو اپنے خانہ زادوں سے چاہیے (اور یہ خاندان تیموریہ کا خاصہ تھا) اِس نوجوان پر خلعت عزّت کے ساتھ شفقت کا دامن اڑھایا، سیّد انشاء اہل دربار میں داخل ہوئے، چنانچہ اپنے اشعار کے ساتھ لطائف و ظرائف سے کہ ایک چمن زعفران تھا، گل افشانی کر کے محفل کو لٹا لٹا دیتے تھے اور یہ عالم ہوا کہ شاہ عالم کو ایکدم کی جدائی ان کی ناگوار ہو گئی۔

دلّی میں اس وقت سوداؔ اور میرؔ جیسے لوگ نہ تھے۔ مگر بڈھے بڈھے شوقین
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۳۲۰

تھے کہ ان ہی بزرگوں کے نام لینے والے تھے۔ مثلاً حکیم ثناء اللہ خاں فراقؔ شاگرد میر دردؔ، حکیم قدرت اللہ خاں قاسم شاگرد خواجہ میر درد، شاہ ہدایت میاں شکیبا شاگرد میرؔ، مرزا عظیم بیت شاگرد سودا، میر قمر الدین منّت والد میر ممنون سونی پت، شیخ ولی اللہ محب (سودا کے شاگرد تھے اقسام سخن سے دیوان آراستہ کیا تھا۔ مرزا سلیمان شکوہ کی غزل بنایا کرتے تھے، وہ لکھنؤ گئے تو چند روز بعد یہ بھی گئے اور وہیں دُنیا سے گئے۔)وغیرہ حضرات تھے کہ دربار شاہی سے خاندانی اعزاز رکھتے تھے۔ اور خاص و عام انھیں چشم ادب سے دیکھتے تھے۔ اگرچہ یہ لوگ نوشت و خواند میں پختہ اور بعض ان میں سے اپنے اپنے فن میں بھی کامل ہوں، مگروہ جامعیت کہاں، اور جامعیت بھی ہو تو وہ بے چارے بڈھے پراتم پرانی لکیروں کے فقیر، یہ طبیعت کی شوخی، زبان کی طراری، تراشوں کی نئی پھبن، ایجادوں کا بانکپن کہاں سے لائیں، غرض رشک تلامیذحمانی کا خاصہ ہے یا غریب الوطن نوجوان کو بے رفیق و بے یار سمجھ کر کہن سال کا مشاقوں نے کچھ تعریفیں کیں، یا یہ کہ مشاعرہ میں اس بلند نظر کے حسب دلخواہ اس کلام کی عزت نہ ہوئی بہت حال سید انشاؔ کو شبہ ہوا کہ میری مخالفت پر سب دلی والے موافق ہو گئے۔

اگرچہ یہ بزرگ بھی پرانے مشاق تھے۔ مگر وہ نوجوان شہباز جس کے سینہ میں علوم و فنون کے زور بھرے تھے، طراری اور براقی کے بازو اڑائے لئے جاتے تھے۔ کسی کو خاطر میں کب لاتا تھا۔ خدا جانے طرفین نے زبان سے کیا کچھ کہا ہو گا۔ مگر غزلوں کے مقطع میں فخریہ چشمکیں ہونے لگیں اور
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۳۲۱

ساتھ ہی نکتہ چینی کی عینکیں لگ گئیں۔ ان میں مرزا عظیم بیگ تھے کہ سودا کے دعوی شاگردی اور پرانی مشق کے گھمنڈ نے ان کا دماغ بہت بلند کر دیا تھا۔ وہ فقط شد بود کا علم رکھتے تھے، مگر اپنے تئیں ہندوستان کا صائب کہتے تھے۔ اور خصوصاً ان معرکوں میں سب سے بڑھ کر قدم مارتے تھے۔ چنانچہ وہ ایک دن میر ماشاء اللہ خاں کے پاس آئے اور غزل سنائی کہ بحر رجز میں تھی، مگر ناواقفیت سےکچھ شعر رمل میں جا پڑے تھے، سید انشاء بھی موجود تھے، تاڑ گئے۔ حد سے زیادہ تعریف کی اور اصرار سے کہا کہ میرزا صاحب اسے آپ مشاعرہ (نواب امین الدولہ معین الملک ناصر جنگ عرف مرزا میڈھو میر تخلص خلف وزیر الممالک نواب شجاع الدولہ چند روز دلّی میں آ کر رہے تھے، اخلاق، مروت، سخاوت میں ایسے تھے جیسا کہ وزیروں کو ہانا چاہیے۔ مشاعرہ میں شعراء اور اکثر امراء و شرفاء کی ضیافت بھی کیا کرتے تھے، ان ہی کے ہاں یہ معرکہ ہوا تھا۔) میں ضرور پڑھیں، مدعی کمال کہ مخز سخن سے بے خبر تھا، اس نے مشاعرہ عام میں غزل پڑھ دی۔ سید انشاء نے وہیں تقطیع کی فرمائش کی۔ اس وقت اس غریب پر جو کچھ گذری سو گذری، مگر سید انشاؔء نے اس کے ساتھ سب کو لے ڈالا اور کوئی دم نہ مارا۔ بلکہ ایک مخمس بھی پڑھا جس کا مطلع یہ ہے۔

گر تو مشاعرہ میں صبا آج کل چلے
کہیو عظیم سے کہ ذرا وہ سنبھل چلے

اتنا بھی حد سے اپنی نہ باہر نکل چلے
پڑھنے کو شب جو یار غزل در غزل چلے

بحر رجز میں ڈال کے بحر رمل چلے​

اگرچہ مرزا عظیم بیگ نے بھی گھر جا کر اسی مخمس کی طرح میں اپنی بساط بموجب
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top