شمشاد
لائبریرین
صفحہ ۳۰۲
طرح مشاعرہ کی مستزاد ہے، مصحفی اور سید انشاء نے بھی طبع آزمائی کی ہے۔ ہر ایک کے حال میں دیکھ کر مقابلہ کرو، انھوں نے سراپا باندھا ہے۔
آنکھوں کی راہ نکلے ہے کیا حسرتوں سے جی
وہ روبرو جو اپنے دمِ واپسیں نہیں
طوفانِ گریہ کیا کہیں کس وقت ہم نشیں
موج سر شک، تا فلک ہفتمیں نہیں
حیرت ہے مجکو کیونکہ وہ جرات ہے چین سے
جس بن قرار جی کو ہمارے کہیں نہیں
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*
امشب کسی کاکل کی حکایات ہے واللہ
کیا رات ہے، کیا رات ہے، کیا رات ہے واللہ
دل چھین لیا اس نے کہا دستِ حنائی
کیا بات ہے، کیا بات ہے، کیا بات ہے واللہ
عالم ہے جوانی کا جو اُبھرا ہوا سینہ
کیا گات ہے، کیا گات ہے، کیا گات ہے واللہ
دشنام کا پایا جو مزہ اس کے لبوں سے
صلٰوت ہے، صلٰوت ہے، صلٰوت ہے واللہ
جراءتؔ کی غزل جس نے سُنی اس نے کہا واہ
کیا بات ہے، کیا بات ہے، کیا بات ہے واللہ
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*
وہ روبرو جو اپنے دمِ واپسیں نہیں
طوفانِ گریہ کیا کہیں کس وقت ہم نشیں
موج سر شک، تا فلک ہفتمیں نہیں
حیرت ہے مجکو کیونکہ وہ جرات ہے چین سے
جس بن قرار جی کو ہمارے کہیں نہیں
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*
امشب کسی کاکل کی حکایات ہے واللہ
کیا رات ہے، کیا رات ہے، کیا رات ہے واللہ
دل چھین لیا اس نے کہا دستِ حنائی
کیا بات ہے، کیا بات ہے، کیا بات ہے واللہ
عالم ہے جوانی کا جو اُبھرا ہوا سینہ
کیا گات ہے، کیا گات ہے، کیا گات ہے واللہ
دشنام کا پایا جو مزہ اس کے لبوں سے
صلٰوت ہے، صلٰوت ہے، صلٰوت ہے واللہ
جراءتؔ کی غزل جس نے سُنی اس نے کہا واہ
کیا بات ہے، کیا بات ہے، کیا بات ہے واللہ
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*
طرح مشاعرہ کی مستزاد ہے، مصحفی اور سید انشاء نے بھی طبع آزمائی کی ہے۔ ہر ایک کے حال میں دیکھ کر مقابلہ کرو، انھوں نے سراپا باندھا ہے۔
جادو ہے نگہ، چھب ہے غضب، قہر ہے مکھڑا
اور قد ہے قیامت
غارت گر دیں وہ بت کافر ہے سراپا
اللہ کی قدرت
اٹھکھیلی ہے رفتار میں، گفتار کی کیا بات
ہر بات جگت ہے
اور رنگِ رخ یار ہے گویا کہ بَھبُھوکا
پھر تس پہ ملاحت
ہیں بال یہ بکھرے ہوئے مکھڑے دھواں دھار
جوں دود بہ شعلہ
حُسنِ بُتِ کافر ہے خدائی کا جھمکڑا
ٹک دیکھیو صورت
ابرو فنِ خونریزی میں اس کے ہیں غضب طاق
شمشیر برہنہ
اور قد ہے قیامت
غارت گر دیں وہ بت کافر ہے سراپا
اللہ کی قدرت
اٹھکھیلی ہے رفتار میں، گفتار کی کیا بات
ہر بات جگت ہے
اور رنگِ رخ یار ہے گویا کہ بَھبُھوکا
پھر تس پہ ملاحت
ہیں بال یہ بکھرے ہوئے مکھڑے دھواں دھار
جوں دود بہ شعلہ
حُسنِ بُتِ کافر ہے خدائی کا جھمکڑا
ٹک دیکھیو صورت
ابرو فنِ خونریزی میں اس کے ہیں غضب طاق
شمشیر برہنہ