آب حیات - مولانا محمد حسین آزاد (مرحوم)

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۳۴۲

بلاغت کو زبانِ اردو میں لائے ہیں۔ یہ مرزا قتل کی تصنیف ہے مگر اس حمام میں سب ننگے تھے۔ ان کے ہاں بھی سوائے شہدپن کے دوسری بات نہیں پھر بھی حق یہی ہے کہ کہ جو کچھ ہے لطف سے خالی نہیں ہے۔عروض میں ان کے اصول اور قواعد لکھے ہیں مگر تقطیع میں مفاعیلن، مفاعیلن کی جگہ کہتے ہیں۔ پری خانم، پری خانم، پری خانم، اور فاعلن، فاعلن فاعلن، چت لگن، چت لگن، چت لگن، چت لگن اور

مفعول، مفاعیلن، مفعول، مفاعیلن
بی جان پری خانم، بی جان پری خانم

اور فائلن، مفاعیلن، فاعلن مفاعیلن
چت لگن پری خانم، چت لگن پری خانم​

اصطلاحیں بھی نئی نئی رکھی ہیں۔ چنانچہ نظم کی قسموں میں مثلث کا نام ٹکڑا اور مُربعّ کا نام چوکڑا رکھا ہے وغیرہ وغیرہ۔ منطق میں بھی اپنی اصلاحیں الگ نکالی ہیں، چنانچہ :

علم --- گیان
نسبت ثبوتہ --- مان لینا
علم حصول --- پر دھیان
نسبت سلبی --- پورا توڑ
علم حضوری --- آپ گیان
بدیہی --- پرگھٹ
قصور --- دھیان
نظری --- گپت
تصدیق --- جون کا توں
تسلسل --- الجھا سُوت
موضوع --- بول
دور --- ہیر پھیر
محمول --- بھرپور
مطابقت --- ٹھیک ٹھیک
رابطہ --- جوڑ
تضمنی --- کہسر
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۳۴۳

نسبت --- ملاپ
التزامی --- اوپری لگاؤ
قضیہ --- بات

اسی طرح معانی بیان وغیرہ میں۔

ہندی اور ملکی خصوصیتوں کے مضامین کو سوداؔ نے بہت اچھی طرح سے باندھا ہے مگر سید انشاء نے بھی اچھلتے کودتے خوب قدم مارے ہیں اور یہ بات لطف سے خالی نہیں کیونکہ اپنے ملک کے ہوتے، عرب سے نجد، ایران سے بے ستون اور قصر شیریں توران سے جیجون یحون کو ہندوستان میں لانا کیا ضرور ہے۔ ایسی باتوں سے فصاحت میں دشواری اور اشکال پیدا ہوتے ہیں۔ چنانچہ سید موصوف کہتے ہیں :

لیا گر عقل نے منھ میں دل بیتاب کا گٹکا
تو جوگی جی دھرا رہ جائیگا سیماب کا گٹکا

صنم خانہ میں جب دیکھا بہت و ناقوس کا جوڑا
لگا ٹھاکر کے آگے ناچنے طاؤس کا جوڑا

لے پارے سے جو ہڑتال کر کے راکھ کا جوڑا
تو نابنے سُرجی اگلیں کوئی نّوے لاکھ کا جوڑا

نہیں کچھ بھید سے خالی یہ تلسی داس جی صاحب
لگایا ہے جو اک بھونرے سے تمنے آنکھ کا جوڑا

لپٹکر کرشن جی سے رادھکا ہنسکر لگیں کہنے
ملا ہے چاند سے اے لو اندھیرے ماگھ کا جوڑا

یہ سچ سمجھو کہ انشاء ہے جگت سیٹھ اس زمانہ کا
نہیں شعر و سخن میں کوئی اس کے راکھ کا جوڑا

اے عشق اجی آؤ مہاراجوں کے راجہ ڈنڈوت ہے تم کو!
کر بیٹھے ہو تم لاکھوں کروڑوں ہے کے سر چٹ اک آن میں چٹ پٹ

یہ جو مہنت بیٹھے ہیں رادھا کے کنڈ پر
اوتار بن کے گرتے ہیں پریوں کے جھنڈ پر
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۳۴۴

ہے نور بصر مردمک دیدہ میں پنہاں مانند کنہیا
سو اشک کے قطروں سے پڑا کھیلے ہے جھرمٹ اور انکھیں ہیں پنگھٹ

دل ستم زدہ بیتابیوں نے لوٹ لیا
ہمارے قبلہ کو وہابیوں نے لوٹ لیا

سُنایا رات کو قصہ جو ہیر رانجھے کا
تو اہل درد کو پنجابیوں نے لوٹ لیا

یوں چلے مژگاں سے اشک خونفشاں کی میدنی
جیسے بہرائچ چلے بالے میاں کی میدنی

اور مقطع کی اکڑ تکڑ دیکھنے کے قابل ہے۔

رسّمانہ دیکھ انشاء کو قشوں شاہ میں
سب یہ کہتے ہیں کہ آئی سیستاں کی میدنی

پھبن، اکڑ، چھب، نگاہ، سج دھج، جمال و طرز خرام آٹھوں
نہ ہوویں اس بُت کے گر پجاری تو کیوں ہو میلے کا نام آٹھوں​

غرض کل تصنیفات کی ہیئت مجموعی دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ نئے نئے تصرف اور ایجادوں کے لحاظ سے سید انشاء فن انشاء کی قلمرو میں بادشاہ علی الاطلاق تھے اور اس اعتبار سے انھیں اردو کا امیر خسرو کہیں تو بے نہیں بلکہ قصیدہ طور الکلام میں جہا صنائع مختلفہ کی ذیل میں انھوں نے ایک مصرع لکھا ہے کہ تین زبانوں میں پڑھا جاتا ہے، وہاں فخر کی مونچھوں پر خوب تاؤ دیئے ہیں اور کہا ہے کہ امیر خسرو نے تین لفظ کا ایک جملہ ایسا لکھا تھا اور فخر کیا تھا۔ مجھے ایسا پورا مصرع ہاتھ آیا، یہ فقط ممدوح کی مدح کی برکت ہے۔ اگرچہ آج یہ صنعتیں بے کار ہیں۔ مگر اس احسان کا شکریہ کس زبان سے ہو کہ ہمارے زبان میں نئی نئی تشبیہیں، شگفتہ استعماروں کے رستے کھولے۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ ان میں فارسی اضافت کی گرہ کو نہایت خوبصورتی کے ساتھ کھولا ہے۔ غزلوں میں اس کے اشارے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۳۴۵

معلوم ہوں گے۔

اس میں کچھ کلام نہیں کہ جو جو تصرف یا ایجاد کئے ان میں بعض جگہ سینہ زوری بھی ہے۔ مگر خوش نمائی اور خوش ادائی میں کچھ شبہ نہیں۔ درحقیقت ان کی تیزی طبع نے عالمِ وجود میں آنے کے لئے بھی تیزی دکھائی۔ اگر وہ سو برس بعد پیدا ہوتے تو ہمارے زبان کا فیشن نہایت خوبصورتی سے بدلتے۔ دیکھو وہ قصیدہ جو انھوں نے جارج سوم کی تہنیت جشن میں کہا ہے۔

قصیدہ در تہنیت جشن

بگیاں پھولوں کی تیار کرائے بوئے سمن
کہ ہوا کھانے کو نکلیں گے جوانانِ چمن

عالم اطفال نباتات پہ ہو گا کچھ اور
گورے کالے سبھی بیٹھیں گے نئے کپڑے پہن

کوئی شبنم سے چھڑک بالوں پہ اپنے پوڈر
کُرسی ناز پہ جلوہ کی دکھا دے گا پھبن

شاخِ نازک سے کوئی ہاتھ میں لیکر اک گیت
ہو الگ سب سے نکالے گا نرالا جو بن

نسترن بھی نئی صورت کا دکھا دیگا رنگ
کوچ پر ناز کی جب پاؤں رکھے گا بن ٹھن

اپنے گیلاس شگوفہ بھی کریں گے حاضر
آ کے جب غنچہ گل کھولیں گے بوتل کے دہن

اہلِ نظارہ کی آنکھوں میں نظر آویں گے
باغ میں نرگش شہلا کے ہوائے چتون

اور ہی جلوے نگاہوں کے لگیں گے دینے
اودی بانات کی کُرسی سے شکوہِ سوسن

پتے مِل مِل کے بجاویں گے فرنگی طنبور
لالہ لاویگا سلامی کو بنا کر پلٹن

کھینچ کر تار رگِ ابر بہاری سے کئی
خود نسیم سحر آوے گی بجاتی ارگن !

اپنی سنگینیں چمکتی ہوئی دکھلا دیں گے
آ پرے گی جو کہیں نہر پہ سورج کی کرن
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۳۴۶

نے نوازی کے لئے کھول کر اپنی منقار
آ کے دکھلا دے گی بلبل بھی جو ہے اس کا فن

اردلی کے جو گراں ڈیل ہیں سب ہونگے جمع
آن کر اپنا بگل پھونکے گا جب سکھدرشن

آئیگا نذر کو شیشہ کی گھڑی لے کے حباب
یاسمیں پتوں کی سپنیں میں چلے گی بن ٹھن

نکہت آوے گی نِکل کھول کلی کا کمرا
ساتھ ہوئیگی نزاکت بھی جو ہے اسکی بہن

حوض صندوق فرنگی سے مشابہ ہونگے
اس میں ہوویں گے پریزاد بھی سب عکس فگن​

ایک جگہ گھوڑے کی تعریف میں کہتے ہیں۔

ہے اس آفت کا سبک سیر کہ راکب اسکا
حاضری کھائے جو کلکتہ تو لنڈن میں ٹفن​

ان کا پڑھنا بھی ایک انداز خاص رکھتا تھا۔ جس سے شعر کی شان اور لطفِ کلام دوبالا ہو جاتا تھا۔ یہاں تک کہ اکثر اشخاص مشاعرہ میں اپنی غزل اُن سے پڑھوایا کرتے تھے۔ کیوں کہ اُن کی زبان آتش تاثیر کی چقماق تھی۔ اس سے نکل کر گرمی سخن ایک سے دو چند بلکہ وہ چند ہو جاتی تھی۔ بے شک انھیں میر و مرزا کے صاف کئے ہوئے رستے ہاتھ آئے مگر ان رستوں میں اُچھلتے کودتے ایسے بے باک اور بے لاگ جاتے ہیں، جیسے کوئی اچھا پھکیت منجھے ہوئے ہاتھ تلوار کے پھینکتا جاتا ہے۔

دیوان دیکھنے سے اِن کے حالات و عادات کی تصویر سامنے کھینچ جاتی ہے۔ جبکہ وہ مشاعرہ میں آتے تھے، یا دربار کو جاتے تھے، ایک طرف آداب معقولیت سے سلام کیا۔ ایک طرف مسکرا دیا۔ ایک طرف منھ کو چڑھا دیا۔ کبھی مقطّع مرد معقول، کبھی دلی کے بانکے، کبھی آدھی داڑھی اڑا دی۔کبھی چار ابرو کی صفائی بنا دی۔

کلیات کو دیکھو تو یہی حالت اشعار کی ہے اور اس میں شک نہیں کہ
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۳۴۷

تفریح و تضحیک کے اعتبار سے کسی جلسہ میں ان کا آنا بھانڈ کے آنے سے کم نہ تھا۔ پس مصحفی نے ان کی ہجویات کے ضمن میں کچھ جھوٹ نہیں کہا۔

مصرعہ : واللہ کہ شاعر نہیں تو بھانڈ ہے بھڑوے​

اگرچہ جس محدود دائرہ میں ہمارے فارس و ہند کے شعراء پابہ زنجیر پھر رہے ہیں، یہ بے چارے بھی دوڑتے پھرتے ہیں۔ پھر بھی وہ شعرائے رائج الوقت کے اصول مفروضہ میں عاشقانہ مضامین کے پابند نہیں۔ اس کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ اوّل تو اکثر غزلیں اور قصائد ان کے سنگلاخ زمین میں ہوتے تھے۔ پھر اس میں قافئے ایسے کڈھب لیتے تھے کہ عاشقانہ مضمون کم آ سکتے تھے۔ اسی واسطے قانون کلام یہ رکھا تھا کہ کیسا ہی قافیہ ہو اور کیسا ہی مضمون جس برجستہ پہلو سے بندھ جائے چھوڑنا نہیں چاہیے۔ ساتھ اس کے یہ ہے کہ شاعر کو زیادہ تر کام عوام سے ہوتا ہے جنھیں مضامین عشقیہ کے بعد کچھ لطف ہے تو ظرافت میں ہے۔ اس لئے ان کی طبیعت جو اسی آسمان کی زہر ہ ہےہر آن نیا جلوہ دیتی ہے۔ چنانچہ پابند اُن رسوم و قیود کے اپنے گھر بیٹھ کر جا چاہیں سو کہیں۔ وہ جب یاروں کے جلسہ میں یا مشاعرہ کے معرکے میں آ کر فانوس جادو روشن کرتے تھے تو تحسین اور واہ وا سے دھواں دھار ہو کر محفل بے لون ہو جاتی تھی۔ حق یہ ہے کہ وہ اپنی طرز کے آپ بانی تھے۔ اور آپ ہی اس کا خاتمہ کر گئے۔

لوگ کہتے ہیں کہ سیّد انشاء کا کلام ہر ایک مقام پر قابل سند نہیں۔ یہ
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۳۴۸

بات درست ہے مگر ان کی بے اعتدالیاں کچھ جہالت کے سبب سے نہ تھیں۔ بلکہ عمداً تھیں۔ یا بے پروائی کے سبب سے تھیں کہ اپنی طبع وقار اور جامعیتِ استعداد کے سامنے تو قواعد اور اہلِ قواعد کو خاطر میں نہ لاتے تھے۔ سچ ہے کہ ان کے جوش کمال نے تیز کے تیزآب سے اصول اور قواعد کو پانی پانی کر دیا۔ الفاظ اور محاورات میں بہت سے تصّرت کئے۔ یہ تصّرف اگر صرف محدود مقاموں میں ہوتے تو شکایتیں نہ ہوتیں۔ کیوں کہ اس زبان آور سے زیادہ قادر زبان اور زبان داں کون ہے۔ خصوصاً جب کہ استعداد علمی سے مسلح ہو۔ لیکن افراط نے ہمیں بھی خاموش کر دیا ہے، اور وہ نشہ کمال کا مست کسی کے کہنے کی پرواہ بھی نہ کرتا تھا۔ بلکہ جب کوئی شامت کا مارا اگر گرفت کر بیٹھتا تھا تو کبھی سند سے کبھی دلائل جا و بے جا سے اور ساتھ ہجوؤں کے توپ خانوں سے چاند ماری کا نشانہ بن جاتا تھا۔ بہر حال ان کے کلام سے واقف ھال اور طالبِ کمال بہت کچھ فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ اکثر اچھوتے ایجاد ہیں کہ گل نو بہار کی طرح سر پر رکھنے کے قابل ہیں۔ بہت سی تھوڑی تبدیلی یا تراش سے انوکھے ہو جاتے ہیں، بہت سے وہ ہیں جن پر سوا اس کے کچھ نہیں کہہ سکتے کہ

مصرعہ :خطائے بزرگاں گرفتن خطا است​

لوگ کہتے ہیں کہ سید انشاء کا کلام رندانہ (اس کا سبب یہ تھا کہ ان کے بزرگوں کو سرکار سے شہدوں کی تقسیم و وظائف کی خدمت سپرد تھی۔ ان کے بھائی صاحب دلّی میں آئے تو وہ بھی ایک پارے کا کنٹھا گلے میں پہنتے تھے اور وضع بھی اسی قسم کی رکھتے تھے، چنانچہ میر انشاء اللہ خاں نے آزادوں کے انداز میں ایک مستزاد کہہ کر دادِ زباندانی کی دی ہے اور غزلوں میں اسی طرز کا پرتو دکھایا ہے۔ دریائے لطافت میں شہدے کی تحقیق سید انشاء خود فرماتے ہیں۔ شہدہ شخصے راگویند کہ از برہنگی سروپا کشیدہ بر دیگر بر دوش و سر خطاب ہائے او ابے اوبے، بچا۔ ایسے تیسے چند الفاظ فحش لکھے ہیں وغیرہ وغیرہ عارنداشتہ باشدد، گر لک روپیہ یا اشرفی یا قطعہ ہائے جواہر در مکانے گذاشتہ باشد و شہدہ دراں تنہا بر دو نگہبانے ہم بناشد ہرگز دست بہیچ چیز نخواہد بردو انبوہ ایں فرقہ متصل مسجد جامع دارالخلافہ خصوصاً چاوڑی یافتہ می شود۔ بلکہ کمال شہدہ ہمیں است کہ اور اشہدہ جما مسجدگویند برائے شہدہ ہانا مہائے عجیب و لہجہ غریب بود ۔۔۔ گرگنج جّما بدھوا ملوا۔ روسن، چراگ و ہموا، راجے خاں، نہال بیگ میر آسوری عینی میر عاشوری۔ بڑے خوجی شیخ رانجھے ابو المالی یعنی ابو المعالی دھول حمد کیئو خاں، ایں است اسما کے متبرک حالا طرز گفتار باید شنید" چونکہ انکی گفتگو فحش تھی اسلئے احتراز کیا گیا۔ غرض شہدے بھی عجیب چیز ہیں، ذرا ان کا نام آ گیا تھا، دیکھئے ۵ صفحے خراب ہو گئے۔)ہے اور جو اس میں ہزل ہے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۳۴۹

نہ بقدر نمک ہے بلکہ غذا کی مقدار سے بڑھی ہوئی ہے۔ یہ بات بھی درست ہے۔ مگر اس کا سبب یہ ہے کہ وقت حاکم جابر ہے اور پسند عام اس کا واضح قانون ہے۔ اس وقت شاہ و امراء سے لے کر گدا اور غرباتک انھیں باتوں سے خوش ہوتے تھے اور قدر دانی یہ کہ ادنٰی ادنٰی (ایک شعر پر سیّد انشاء اور شیخ مصحفی میں شکر رنجی ہو گئی اور طبیعتوں کی شوخی نے زبانوں کی بیباکی کے ساتھ ملکر بڑے بڑے معرکے کئے۔ اسوقت آصف الدولہ شکار میں تھے چنانچہ انھوں نے اپنے لکھنؤ میں نہ ہونے پر ہزاروں افسوس کئے اور بڑے اشتیاق سے ان ہجوؤں کو منگا کر سُنا اور انعام بھیجے۔ فی الحقیقۃ ایک ایک مصرع انکا ہنسی اور قہقہوں کی منتر ہے لیکن آج اگر انھیں کوئی لکھ بھی دے تو عدالت یا انصاف میں مجرم ہو کر جوابدہی کرنا پڑتی ہے۔) نظموں پر وہ کچھ دیتے تھے۔ جو آجکل کے مصنفوں
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۳۵۰

کی کتابوں پر نصیب نہیں ہوتا۔ سید انشاء اگر یہ نہ کرتے تو کیا کرتے۔ پیٹ کو کاٹ کر کہاں پھینک دیتے۔ ہنگامہ ہستی کے جوانمرد اسے بھی ایک قسم کا کمال سمجھتے ہیں کہ کسی رستہ میں درماندہ نہ رہیں۔ جو پتھر سدّ راہ ہو اسے ٹھوکر مار کر ہٹائیں۔ اور آگے نکل جائیں۔ انصاف کی آنکھیں دیکھ رہی ہیں کہ جو کچھ اکمل ہزار فن کر گیا ہے۔ ہر ایک کا کام نہ تھا۔ نواب مصطفٰے خاں شیفتہ کا گلشن بے خار جب دیکھتا ہوں تو خار نہیں۔ کٹار کا زخم دل پر لگتا ہے۔ سید موصوف کے حال میں لکھتے ہیں "ہیچ صنف رابطریقہ راسخہ شعرانہ گفتہ" یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ انھوں نے اس رستوں میں قدم کیوں رکھا۔ جو ایسے کیچڑ میں دامن آلودہ ہوئے لیکن شہرستان تجارب کے سیر کرنے والے جانتے ہیں کہ جب رواج عام کا راجہ ہولی کھیلتا ہے تو بڑے بڑے معقول وضعدار اشخاص اس کی چھینٹیں فخر سمجھ کر سر و دستار پر لیتے ہیں۔ پس وہ اور ان کے معاصر ملک چھوڑ کر کہاں نکل جاتے؟ یہیں رہنا تھا اور انھیں لوگوں سے لے کر گزران کرنی تھی اور لطف یہ تھا کہ اس میں بھی آن بان اور عظمت خاندان قائم تھی۔ اُن کے آقا بھی اُن سے اپنایت کے طریقے سے پیش آتے تھے اور انہی چہیتے چاہنے والوں کی فرمائشیں ہوتی تھیں، جو نہ دھری جاتی تھیں اور نہ اُٹھائی جاتی تھیں۔ اور وہ کچھ چھوٹے لوگ نہ تھے جو سمجھائے سے سمجھ جائیں یا ٹالے سے ٹل جائیں۔ کبھی تو شاہ عالم بادشاہ دہلی تھے۔ کبھی مرزا سلیمان شکوہ تھے۔ کبھی سعادت علی خاں والیِ اودھ وغیرہ وغیرہ چنانچہ اکثر غزلیں ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی عالم میں سعادت علی خاں کی زبان سے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۳۵۱

ایک مصرع نکل گیا، اس کی غزل کا پورا کرنا ان کا کام تھا۔ ایک دفعہ کسی شخص کی پگڑی بے ڈھنگی بندھی تھی، سعادت علی خاں نے کہا کہ

مصرعہ : پگڑی تو نہیں ہے یہ فراسیس کی ٹوپی​

(تمام غزل دیکھو ان کی غزلوں میں)

سعادت علی خاں نواڑے میں لیٹے ہوئے میر انشاء اللہ خاں کی گود میں سر دھرا ہوا سرور کے عالم میں دریا کی سیر کرتے چلے جاتے تھے۔ لبِ دریا ایک حویلی پر لکھا دیکھا۔ حویلی علی نقی بہادر کی۔ کہا کہ انشاء دیکھو۔ کسی نے تاریخ کہی مگر نظم نہ کر سکا۔ بھئی تم نے دیکھا بہت خوب مادہ ہے۔ اسے رُباعی کر دو۔ اسی وقت عرض کی۔

نہ عربی نہ فارسی نہ ترکی
نہ سم کی نہ تال کی نہ سُر کی

یہ تاریخ کہی ہے کسی لُر کی
حویلی علی نقی خاں بہادر کی​

تائید اس کی اس روایت سے ہوتی ہے کہ جب شاہ نصیر دہلوی لکھنؤ میں گئے۔ اور زمین سنگلاخ میں گلزار لگا کر مشاعروں کو رونق دی تو سید انشاء سے بھی ملے جو کہ دلّی والوں کے رواج کار کا بیڑا اُٹھائے بیٹھے تھے اور کہا کہ بھئی انشاء اللہ خاں میں فقط تمہارے خیال سے یہاں آیا ہوں ورنہ لکھنؤ میں میرا کون بیٹھا ہے جس کے پاس میں آتا۔ اس وقت بہت رات گئی تھی۔ میر انشاء اللہ خاں نے کہا کہ شاہ صاحب یہاں کے دربار کا عالم کچھ اور ہے کیا کہوں لوگ جانتے ہیں کہ میں شاعری کر کے نوکری بجا لاتا ہوں مگر میں خود نہیں جانتا کہ کیا کر رہا ہوں؟ دیکھو صبح
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۳۵۲

کا گیا گیا شام کو آیا تھا، کمر کھول رہا تھا، جو چوبدار آیا کہ جناب عالی پھر یاد فرماتے ہیں۔ گیا تو دیکھتا ہوں کہ کوتھے پر فرش ہے چاندنی رات ہے۔پہیئے دار چھپر کھٹ میں آپ بیٹھے ہیں، پھولوں کا گہنا سامنے دھرا ہے۔ ایک گجرا ہاتھ میں ہے اسے اچھالتے ہیں اور پاؤں کے اشارے سے چھپرکٹ آگے بڑھتا جاتا ہے، میں نے سلام کیا۔ حکم ہوا کہ انشاء کوئی شعر تو پڑھو۔ اب فرمائیے ایسی حالت میں کہ اپنا ہی قافیہ تنگ ہو۔ شعر کیا خاک یاد آئے۔ خیر اس وقت یہی سمجھ میں آیا، وہیں کہہ کر پڑھ دیا۔

لگا چھپرکٹ میں چار پہیّے اُچھالا تو نے جو لے کے گجرا
تو موج دریائے چاندنی میں وہ ایسا چلتا تھا جیسے بجرا​

یہی مطلع سُن کر خوش ہو گئے۔ فرمائیے اسے شاعری کہتے ہیں؟ اسی طرح کی اور تقریبیں انھیں پیش آتی تھیں کہ بیان آئندہ سے واضح ہو گا۔ غرض اس معاملہ میں میاں بے تاب کا قول لکھ رکھنے کے قابل ہے۔ کہ سیّد انشاء کے فضل و کمال کو شاعری نے کھویا۔ اور شاعری کو سعادت علی خاں کی مصاحبت نے ڈبویا۔

ایک دن نواب صاحب کے ساتھ بیٹھے کھانا کھا رہے تھے۔ اور گرمی سے گھبرا کر دستار سر سے رکھ دی تھی۔ منڈا ہوا سر دیکھ کر نواب کی طبیعت میں چہل آئی۔ ہاتھ بڑھا کر پیچھے سے ایک دھول ماری ۔۔۔۔۔۔۔ آپ نے جلدی سے ٹوپی سر پر رکھ لی۔ اور کہا، سبحان اللہ، بچپن میں بزرگ سمجھایا کرتے تھے وہ بات سچ ہے کہ ننگے سر کھانا کھاتے ہیں تو
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۳۵۳

شیطان دھولیں مارا کرتا ہے۔

سعادت علی خاں کہ ہر امر میں سلیقہ اور صفائی کا پابند تھا اس نے حکم دیا کہ اہلِ دفتر خوش خط لکھیں۔ اور فی غلطی ایک روپیہ جُرمانہ۔ اتفاقاً اعلٰی درجے کے اہل انشاء میں ایک مولوی صاحب تھے۔ انھوں نے فرد حساب میں اجناس کو اجنا لکھ دیا۔ سعادت علی خاں تو ہر شے پر خود نظر رکھتے تھے۔ ان کی بھی نگاہ پڑ گئی۔ مولویوں کو جواب دینے میں کمال ہوتا ہے۔ انھوں نے کچھ قاموس، کچھ صراح سے اجنا کے معنی بتائے، کچھ قواعد نحو سے ترخیم میں لے گئے۔ نواب نے انھیں اشارہ کیا۔ انھوں نے مارے رباعیوں اور قطعوں کے اُتّو کر دیا۔

اجناس کی فرد پہ اجنا کیسا؟
یاں ابرِ لغات کا گرجنا کیسا؟

گو ہوں اجنا کے معنے جو چیز اُگے
لیکن یہ نئی اُپچ اپجنا کیسا؟​

اُن مولوی صاحب کا نام مولوی سجن تھا۔ چنانچہ اس کا اشارہ کرتے ہیں۔

ترخیم کے قاعدے سے سجنا لکھیئے
اور لفظ خر و جنا کو خجنا لکھیئے

گر ہم کو اجی نہ لکھئے ہووے لکھنا
تو کر کے مرخم اس کو اجنا لکھئے

اجناس کے بدلے لکھئے اجنا کیا خوب
قاموس کی رعد کا گرجنا کیا خوب

ازروئے لغت نئی اپج کی لی ہے
اس تان کے بیج کا اپجنا کیا خوب​

پوربی لہجہ میں

اجناس کا موقعن میں اجنا آیا
سلمائے علوم کا یہ سجنا آیا

اجنا چیزیست کاں برویدز زمیں
یہ تخم لغت کا لوُ اپجنا آیا
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۳۵۴

رات بہت گئی تھی۔ اور ان کے لطائف و ظرافت کی آتشبازی چھٹ رہی تھی۔ یہ رخصت چاہتے تھے۔ اور موقع نہ پاتے تھے۔ نواب کے ایک مصاحب باہرے کے رہنے والے اکثر اہلِ شہر کی باتوں پر طعن کیا کرتے تھے اور نواب صاحب سے کہا کرتے تھے کہ آپ خواہ مخواہ سید انشاء کے کمال کر بڑھاتے چڑھاتے ہیں، حقیقت میں وہ اتنے نہیں۔ اس وقت انھوں نے بقاؔ کا یہ مطلع نہایت تعریف کے ساتھ پڑھا :-

دیکھ آئینہ جو کہتا ہے کہ اللہ رے میں
اس کا میں دیکھنے والا ہوں بقاؔ واہ رے میں​

سب نے تعریف کی۔ نواب نے بھی پسند کیا۔ انھوں نے کہا کہ حضور سید انشاء سے اس مطلع کو کہوائیں۔ نواب نے ان کی طرف دیکھا۔ مطلع حقیقت میں لاجواب تھا۔ انھوں نے بھی ذہن لڑایا، فکر نہ کام نہ کیا۔ انھوں نے پھر تقاضا کیا۔ سید موصوف نے فوراً عرض کی کہ جناب عالی مطلع تو نہیں ہوا، مگر شعر حسب حال ہو گیا ہے، حکم ہو تو عرض کروں۔

ایک ملکی کھڑا دروازہ پہ کہتا تھا یہ رات
آپ تو بہتیرے جا پاڑہ رہے باہرے میں​

بہت سے لطائف اِن کے بباعث شدت بے اعتدالی کے قلم انداز کرنے پڑے جو کچھ کہ لکھتا ہوں، یہ بھی لائق تحریر نہیں سمجھتا۔ لیکن اس نظر سے بے جا نہیں کہ جو لوگ خار حنظل سے گلِ عبرت چنتے ہیں۔ انھیں اس میں سے ایک مشہور مصنف کی شوخیِ طبع کا نمونہ معلوم ہو گا۔ اور دیکھیں گے کہ اس
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۳۵۵

صاحبِ کمال کو زمانہ شناسی اور اہل زمانہ سے مطلب برآری کا کیسا ڈھب تھا۔ ایک دن نواب نے روزہ رکھا اور حکم دیا، کوئی آنے نہ پائے۔ سید انشاء کو ضروری کام تھا۔ یہ پہنچے، پہرہ دار نے کہا کہ آج حکم نہیں، آگے آپ مالک ہیں۔ باوجود انتہائے مرحمت کے یہ بھی مزاج سے ہشیار رہتے تھے۔ تھوڑی دیر تامل کیا، آخر کمر کھول دستار سر سے بڑھا قُبا اتار ڈالی اور دوپٹہ عورتوں کی طرح سے اوڑھ کر ایک ناز و انداز کے ساتھ سامنے جا کھڑے ہوئے۔ جونہی اُن کی نظر پڑی، آپ انگلی ناک پر دھر کر بولے۔

میں ترے صدقے نہ رکھ اے مری پیاری روزہ
بندی رکھ لے گی ترے بدلے ہزاری روزہ​

نواب بے اختیار ہنس پڑے، جو کچھ کہنا سننا تھا وہ کہا اور ہنستے چلے آئے۔

اِن کے حالات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے عامہ خلائق خصوصاً اہل دہلی کی رفاقت اور رواج کار کا بیڑا اٹھا رکھا تھا۔ چنانچہ لکھنؤ میں میر علی صاحب ایک مرثیہ خوان تھے کہ علم موسیقی میں انھوں نے حکماء کا مرتبہ حاصل کیا تھا۔ مگر اپنے گھر ہی میں مجلس کر کے پڑھتے تھے۔ کہیں جا کر نہ پڑھتے تھے۔ نواب نے ان کے شہرہ کمال سے مشتاق ہو کر طلب کیا۔ انھوں نے انکار کیا اور کئی بار پیغام سلام کے بعد یہ بھی کہا کہ اگر وہ حاکم وقت ہیں تو میں بھی سیادت کے اعتبار سے شہزادہ ہوں۔ انھیں میرے ہاں آنے سے عذر کیا ہے؟ نواب نے کہا کہ سیَّد میرے ہاں
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۳۵۶

ہزاروں سے زیادہ ہیں، میر صاحب نے اگر فخر پیدا کیا تو یہی کہ سید تھے اب ڈوم بھی ہو گئے خیر انھیں اختیار ہے۔ میر علی صاحب نے یہ سُن کر خیالات چند در چند سے فوراً دکن کا ارادہ کیا۔ سید انشاء جو شام کو گھر آئے تو دیکھا کچھ سامانِ سفر ہو رہا ہے۔ سبب پوچھا تو معلوم ہوا کہ میر علی صاحب لکھنؤ سے جاتے ہیں۔ چونکہ اپ کے بھتیجے بھانجے بھی ان کے شاگرد ہیں وہ بھی استاد کی رفاقت کرتے ہیں۔ میر علی صاحب کے جانے کا سبب پوچھا تو یہ معلوم ہوا۔ اسی وقت کمر باندھ کر پہنچے۔ سعادت علی خاں نے متحیر ہو کر پوچھا کہ خیر باشد! پھر کیوں آئے؟ انھوں نے ایک غزل پڑھی جس کا ایک شعر یہ ہے۔

دولت بنی ہے اور سعادت علی بنا
یارب بنا بنی میں ہمیشہ بنی رہے​

پھر کہا حضور! غلام جو اس وقت رخصت ہو کر چلا تو دل نے کہا کہ اپنے دولھا کی دلھن (عروس سلطنت) کو ذرا دیکھوں! حضور! واقعی کہ بارہ ابھرن سولہ سنگار سے سجی تھی۔ سر پر جُھومر۔ وہ کون؟ مولوی دلدار علی صاحب ، کانوں میں جھمکے۔ وہ کون؟ دونوں صاحبزادے، گلے میں نولکھا ہار، وہ کون؟ خان علامہ، غرض اسی طرح چند زیوروں کے نام لے کر کہا کہ حضور غور جو کرتا ہوں تو ناک میں نتھ نہیں دل دھک سے ہو گیا کہ اللہ سہاگ کو قائم رکھے، یہ کیا نواب نے پوچھا کہ پھر وہ کون؟ کہا حضور نتھ امیر علی صاحب! بعد اس کے کیفیت مفصل بیان کی۔ نواب نے ہنس کر کہا کہ ان کی دُور اندیشیاں بے جا ہیں۔ میں ایسے صاحبِ کمال کو فخر لکھنؤ سمجھتا ہوں، غرض اس شہرت
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۳۵۷

بے اصل کے لئے ترقی کا پروانہ اور ۵۰۰ روپیہ کا خلعت لے کر وہاں سے پھرے۔

جان بیلی صاحب کہ اس عہد میں ریزیڈنٹ اودھ تھے۔ اگرچہ سیّد انشاء کا نام اور شہرہ عام سنتے تھے۔ مگر دیکھا نہ تھا۔ جب سید انشاء نواب سعادت علی خاں کے پاس ملازم ہوئے تو ایک دن صاحب کے آنے کی خبر ہوئی۔ نواب نے کہا انشاء آج تمہیں بھی صاحب سے ملائیں گے۔ عرض کی حضور کی ہر طرح پرورش ہے مگر فدوی کے باب میں کچھ تقریب ملاقات کی ضرورت نہیں۔ غرض جس وقت صاحب ممدوح آئے، نواب اور وہ آمنے سامنے کرسیوں پر بیٹھے، سیّد انشاء نواب کے پیچھے کھڑے ہو کر رومال ہلاتے تھے۔ باتیں کرتے کرتے صاحب نے ان کی طرف دیکھا۔ انھوں نے ایک چہرہ کی لی۔ انھوں نے آنکھیں نیچی کر لیں۔ مگر دل میں حیران ہوئے کہ اس آدمی کی کیسی صورت ہے؟ یہ خیال کرتے ہیں پھر نظر پری۔ اب کی دفعہ انھوں نے ایسا چہرہ بدلا کہ اس سے بھی عجیب وہ شرما کر اور طرف دیکھنے لگے، پھر جو دیکھا تو انھوں نے ایسا منھ بنایا کہ اس سے بھی الگ تھا۔ آخر نواب سے پوچھا کہ یہ مصاحب آپ کے پاس کب ملازمت میں آئے، میں نے آج ہی انھیں دیکھا ہے۔ نواب نے کہا کہ ہاں آپ نے نہیں دیکھا۔ سید انشاء اللہ خاں یہی ہیں۔ جان بیلی صاحب بہت ہنسے۔ ان سے ملاقات کی۔ پھر ان کی جادوبیانی نے ایسا تسخیر کیا کہ جب آتے پہلے پوچھتے کہ سیّد انشاء کجا است؟ جان بیلی صاحب کے ساتھ علی نقی خاں
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۳۵۸

میر منشی ریذیڈنسی بھی آیا کرتے تھے۔ ان کی عجیب لطف کی چوٹیں ہوتی تھیں۔ ایک دن اثنائے گفتگو میں کسی کی زبان سے نکلا۔

مصرعہ : شاید کہ پلنگ خفیہ باشد​

انھوں نے کہا کہ گلستاں کے ہر شعر میں مختلف روائتیں ہیں، اور لطف یہ ہے کہ کوئی کیفیت سے خالی نہیں، چنانچہ ہو سکتا ہے۔

مصرعہ : شاید کہ پلنگ خفیہ باشد​

سعادت علی خاں نے سیّد انشاء کی طرف دیکھا۔ انھوں نے ہاتھ باندھ کر عرض کی کہ حضور! میر منشی صاحب بجا فرماتے ہیں۔ غلام نے بھی ایک نسخہ گلستاں میں یہی دیکھا تھا۔

تامرد سخن نگفیہ باشد
عیب و ہنرش نہفیہ باشد

در بیشہ گمال مبر کہ خالی ست
شاید کہ پلنگ خفیہ باشد​

بلکہ وہ نسخہ بہت صحیح اور محشی تھا اور اس میں گفیہ اور نہفیہ کے کچھ معنے بھی لکھے تھے میر منشی صاحب! اپ کو یاد ہیں؟ وہ نہایت شرمندہ ہوئے۔ جب وہ رخصت ہوتے تو سیّد انشاء کہا کرتے، میر منشی صاحب کا اللہ بیلی۔

ایک دن اسی جلسہ میں کچھ ایسا تذکرہ آیا۔ سعادت علی خاں نے کہا، ہجر بافتح بھی درست ہے۔ جان بیلی صاحب نے کہا کہ خلاف محاورہ ہے۔ سعادت علی خاں بولے کہ خیر لغت کے اعتبار سے جب درست ہے تو استعمال میں کیا مضائقہ، اتنے میں سید انشاء آ گئے۔ جان بیلی صاحب نے کہا کہ کیوں سید انشاء ہجر اور ہجر میں تم کیا کہتے ہو۔ انھیں یہاں
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۳۵۹

کی کبر نہ تھی، بے ساختہ کہہ بیٹھے کہ ہجر بالکسر! مگر سعادت علی خاں کی تیوری تاڑ گئے۔ اور فوراً بولے کہ حضور جب ہی تو جامی فرماتے ہیں۔

شب وصل است و طے شد نامہ ہجر
سَلَامُ ھِیٰی حَتّے مَطلعِ الفَجر​

یہ سنتے ہی سعادت علی خاں شگفتہ ہو گئے اور اہلِ دربار ہنس پڑے۔ مرزا سلیمان شکوہ کا مکان لب دریا تھا، معلوم ہوا کہ کل یہاں ایک اشنان کا میلہ ہے۔ سید انشاء نے کہ رنگت کے گورے، بدن کے فربہ، صورت کے جامہ زیب تھے۔ پنڈتان کشمیر کا لباس درست کر کے سب سامان پوجا پاٹ کا تیار کیا۔ صبح کو سب سے پہلے دریا کے کنارے ایک مہنت دھرم مورت بن کر جا بیٹھے اور خوب زور شور سے اشلوک پڑھنے اور منتر چلنے شروع کر دیئے۔ لوگ اشنان کے لئے آنے لگے۔ مگر عورت مرد، بچہ، بوڑھا جو آتا، الفربہ کواہ مخواہ مرد آدمی دیکھ کر انھیں کی طرف جھکتا۔ یہ انھیں پوجا کرواتے تھے۔ تلک لگاتے تھے۔ جن دوستوں سے یہ راز کہہ رکھا تھا۔ انھوں نے مرزا سلیمان شکوہ کو خبر کی۔ وہ مع جلسہ اسی وقت لبِ بام آئے دیکھا تو فی الحقیقت اناج، آٹا، پیسے، کوڑیوں کے ڈھیر لگے ہیں۔ وہ بھی اس قدر کہ سب سے زیادہ۔ اس میں تفریح طبع یا لیاقت ہر فن کے اظہار کے ساتھ یہ نکتہ تھا کہ حضور خانہ زاد کو وبال دوش نہ سمجھیں، نہ اس شاعری کا پابند جانیں، جس کوچہ میں جائے گا۔ اوروں سے کچھ اچھا ہی نکلے گا۔ فائق تخلص ایک فلک زدہ شاعر تھا۔ خدا جانے کس بات پر خفا ہوا کہ ان کی ہجو کہی اور خود لا کر سنائی۔ انھوں نے بہت تعریف کی، بہت اُچھلے،
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۳۶۰

بہت کودے اور پانچ روپے بھی دئے۔ جب وہ چلا تو بولے ذرا ٹھہرئے گا۔ ابھی آپ کا حق باقی ہے۔ قلم اُٹھا کر یہ قطعہ لکھا اور حوالہ کیا۔

فائق بے حیا چو ہجوم گفت
دل من سوخت سوخت سوختہ بہ

سلہ اش پنچ روپیہ دادم
دہن سگ بہ لقمہ دوختہ بہ​

دلّی میں حافظ احمد یارؔ ایک معقول صحبت یافتہ نامور حافظ تھے اور سرکار شاہی میں حافظان قرآن میں نوکر تھے۔ اگرچہ دنیا میں ایسا کون تھا جسے سے سید انشاء یارانہ نہ برتیں، مگر حافظ احمد یار کے بڑے یار تھے۔ ان کا سجع کہا تھا۔ مصرعہ "اللہ حافظ احمد یار" حافظ صاحب ایک دن ملنے گئے۔ رستہ میں مینھ آ گیا اور وہاں پہنچتے تک موسلا دھار برسنے لگا، یہ جا کر بیٹھے ہی تھے جو حرم سرا سے ننگے مننگے ایک کھاروے کی لنگی باندھے آپ دوڑے آئے۔ انھیں دیکھتے ہی اُچھلنے لگے۔ ہاتھ پھیلا کر گرد پھرتے تھے اور کہتے جاتے تھے۔

بھر بھرچھاجوں برست نُور
رد بَلیَّاں دُسمن دور​

حافظ مذکور جب رخصت ہوتے تھے تو ہمیشہ کہا کرتے تھے۔ مصرعہ "اللہ حافظ احمد یار"۔ ایسے ایسے معاملے ہزاروں تھے کہ دن رات بات بات میں ہوتے رہتے تھے۔

نہایت افسوس کے قابل یہ بات ہے کہ سعادت علی خاں کے ہاتھوں سید انشاء کا انجام اچھا نہ ہوا۔ اس کے مختلف سبب ہیں۔ اوَّل
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۳۶۱

تو یہ کہ اگرچہ اپنی ہمہ رنگ طبیعت کے زور سے انھوں نے انھیں پرچا لیا تھا۔ مگر درحقیقت ان کے اور ان کے معاملہ کا مصداق اِن کا مطلع تھا۔

رات وہ بولے مجھے سے ہنس کر چاہ میاں کچھ کھیل نہیں
میں ہوں ہنسوڑ اور تو ہے مقطع میرا تیرا میل نہیں​

مثلاً اکثر میلوں تماشوں میں چلنے کے لئے کچھ احباب کا تقاضا کچھ ان کی طبیعت اصلی کا تقاضا، غرض انھیں جانا ضرور، اور سعادت علی خاں کی طبع کے بالکل مخالف۔ اکثر ایسا ہوا کہ وہ اپنے کاغذات دیکھ رہے ہیں۔ مصاحبوں کے ساتھ یہ بھی حاضر ہیں۔ اس میں ایک آدھ لطیفہ بھی ہوتا جاتا ہے، انھوں نے عرض کی حضور غلام کو اجازت ہے؟ وہ بولے کہ ہوں! کہاں؟ انھوں نے کہا کہ حضور آج آٹھوں کا میلہ ہے، انھوں نے کہا لاحول ولاقوۃ۔ سید انشاءؔ بولے کہ مناسب تو یہ تھا کہ حضور بھی تشریف لے چلتے۔ نواب نے کہا انشاء ایسے ناروا مقاموں میں جانا تمھیں کس نے بتایا ہے! عرض کی، حضور وہاں تو جانا ایک اعتبار سے فرض عین ہے۔ اور ایک نظر سے واجب کفائی ہے۔ ایک لحاظ سے سنت ہے۔ پھر سب کی توجیہیں الگ الگ بیان کیں۔ آخر اسی عالم مصروفیت میں سنتے سنتے دق ہو کر نواب نے کہہ دیا۔ قصہ مختصر کرو اور جلدی سدھارو۔ اسی وقت مونچھوں پر تاؤ دیکر بولے کون ہے آج سوا سید انشاء کے جو کچھ کہے۔ اُسے عقل سے نقل سے آیت سے روایت سے ثابت کر دے۔ ایسی باتیں بعض موقع
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top