شمشاد
لائبریرین
صفحہ ۳۶۲
پر نواب کو موجب تفریح ہوتی تھیں۔ بعض دفعہ بمقضہائے طبیعت اصلی مکدر ہو جاتے تھے۔ خصوصاً جب کہ رخصت کے وقت خرچ مانگتے تھے۔ کیونکہ وہ شاہ عالم نہ تھا۔ سعادت علی خاں تھا۔
غضب یہ ہوا کہ ایک دن سرور بار بعض شرفائے خاندانی کی شرافت و نجابت کے تذکرے ہو رہے تھے۔ سعادت علی خاں نے کہا کہ کیوں بھئی ہم بھی نجیب الطرفین ہیں۔ اسے اتفاق وقت کہو یا یاوہ گوئی کا ثمرہ سمجھو۔ سیّد انشاء بول اٹھے کہ حضور بلکہ انجب، سعات علی خاں حرم کے شکم سے تھے وہ چپ اور تمام دربار درہم برہم ہو گیا۔ اگرچہ انھوں نے پھر اور (معتبر لوگوں کی زبانی معلوم ہوا کہ جب گُنّا بیگم دختر قزلباش خاں امید کے حسن و جمال، سلیقے، سگھڑاپے، حاضر جوابی اور موزونی طبع کی شہرت ہوئی تو نواب شجاع الدولہ نوجوان تھے، اسی سے شادی کرنی چاہی۔ بزرگوں نے حسبِ آئین بادشاہ سے اجازت مانگی۔ فرمایا کہ اس کے لئے ہماری تجویز کی ہوئی ہے۔ ایک خاندانی سید زادی لڑکی کو حضور نے بہ نظر ثواب خود بیٹی کر کے پالا تھا، اس کے ساتھ شادی کی۔ اور اس دھوم دھام سے کہ شاید کسی شہزادی کی ہوئی ہو، یہی سبب تھا کہ شجاع الدولہ اور تمام خاندان ان کی بڑی عظمت کرتےتھے۔ دلہن بیگم صاحبہ ان کا نام تھا اور آصف الدولہ کی والدہ تھیں۔ سعادت علی خاں کو بچپن میں منگلو کہتے تھے کہ منگل پیدا ہوئے تھے۔ بیگم کے دل میں جو خیالات ان کے باب میں تھے اکثر ظاہر بھی ہو ہی جاتے تھے، مگر زیرکی اور دانائی کے آثار بچپن ہی سے عیاں تھے۔ نواب شجاع الدولہ کہا کرتے تھے کہ بیگم اگر منگلو کے سر پر تم ہاتھ رکھو گی تو تمہارے دوپٹہ کا پھریرا لگائے گا۔ اور نربدا کے اس پار گاڑے گا۔)
پر نواب کو موجب تفریح ہوتی تھیں۔ بعض دفعہ بمقضہائے طبیعت اصلی مکدر ہو جاتے تھے۔ خصوصاً جب کہ رخصت کے وقت خرچ مانگتے تھے۔ کیونکہ وہ شاہ عالم نہ تھا۔ سعادت علی خاں تھا۔
گر جاں طلبی مضائقہ نیست
زر مے طلبی سخن دریں است
زر مے طلبی سخن دریں است
غضب یہ ہوا کہ ایک دن سرور بار بعض شرفائے خاندانی کی شرافت و نجابت کے تذکرے ہو رہے تھے۔ سعادت علی خاں نے کہا کہ کیوں بھئی ہم بھی نجیب الطرفین ہیں۔ اسے اتفاق وقت کہو یا یاوہ گوئی کا ثمرہ سمجھو۔ سیّد انشاء بول اٹھے کہ حضور بلکہ انجب، سعات علی خاں حرم کے شکم سے تھے وہ چپ اور تمام دربار درہم برہم ہو گیا۔ اگرچہ انھوں نے پھر اور (معتبر لوگوں کی زبانی معلوم ہوا کہ جب گُنّا بیگم دختر قزلباش خاں امید کے حسن و جمال، سلیقے، سگھڑاپے، حاضر جوابی اور موزونی طبع کی شہرت ہوئی تو نواب شجاع الدولہ نوجوان تھے، اسی سے شادی کرنی چاہی۔ بزرگوں نے حسبِ آئین بادشاہ سے اجازت مانگی۔ فرمایا کہ اس کے لئے ہماری تجویز کی ہوئی ہے۔ ایک خاندانی سید زادی لڑکی کو حضور نے بہ نظر ثواب خود بیٹی کر کے پالا تھا، اس کے ساتھ شادی کی۔ اور اس دھوم دھام سے کہ شاید کسی شہزادی کی ہوئی ہو، یہی سبب تھا کہ شجاع الدولہ اور تمام خاندان ان کی بڑی عظمت کرتےتھے۔ دلہن بیگم صاحبہ ان کا نام تھا اور آصف الدولہ کی والدہ تھیں۔ سعادت علی خاں کو بچپن میں منگلو کہتے تھے کہ منگل پیدا ہوئے تھے۔ بیگم کے دل میں جو خیالات ان کے باب میں تھے اکثر ظاہر بھی ہو ہی جاتے تھے، مگر زیرکی اور دانائی کے آثار بچپن ہی سے عیاں تھے۔ نواب شجاع الدولہ کہا کرتے تھے کہ بیگم اگر منگلو کے سر پر تم ہاتھ رکھو گی تو تمہارے دوپٹہ کا پھریرا لگائے گا۔ اور نربدا کے اس پار گاڑے گا۔)