شمشاد
لائبریرین
صفحہ ۳۸۲
وے دانتوں کو رنگین کیا تھا۔ چنانچہ سید انشاء نے ان کی ہجو میں سب اشارے کئے ہیں۔ غزض جب تک زندہ رہے لکھنؤ میں رہے، اور وہیں ۱۲۴۰ھ میں فوت ہوئے۔ سید انشاء، جرات، میر حسن وغیرہ شعراء اور ان کے ہمعصروں کے۔
عام تذکرے گواہی دیتے ہیں کہ ان کی تصنیفات میں چھ دیوان اُردو کے تمام و کمال ہیں، جن میں ہزاروں غزلیں اور بہت سے قصیدے اور بیات اور رباعیاں اور معمولی قضمیتیں ہیں، چنانچہ ایک قصیدے کے دعائیہ میں کہتے ہیں۔
دو (۲) تذکرے شعرائے اردو کے، ایک تذکرہ فارسی کا، اور ایک دیوان فارسی لکھا مگر راقم کے پاس جو ان کے دیوان ہیں، ان میں سے ایک پر دیوان ہفتم لکھا ہے۔ اور ایک دیوان اور ہے۔ اس میں سید انشاء کے جھگڑے بھی ہیں۔ یہ آٹھواں ہو گا کہ سب سے اخیر ہے۔
دیوان ان کی استادی کو مسلم الثبوت کرتے ہیں۔ انواع و اقسام کی صدہا غزلیں نہایت سنگلاخ زمینوں میں لکھی ہیں۔ ان سے معلوم ہوتا ہے۔ کہ کثرت مشق سے کلام پر قدرت کامل پائی ہے۔ الفاظ کو پس و پیش اور مضمون کو کم و بیش کر کے اس دردبست کے ساتھ شعر میں کھپایا ہے کہ جو حق اُستادی کا ہے ادا ہو گیا ہے۔ ساتھ اس کے اصلی محاورہ کو بھی ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ ایسے موقع پر کچھ کچھ سوداؔ کا سایہ پڑتا ہے۔ جہاں سادگی ہے۔ وہاں ایسا
وے دانتوں کو رنگین کیا تھا۔ چنانچہ سید انشاء نے ان کی ہجو میں سب اشارے کئے ہیں۔ غزض جب تک زندہ رہے لکھنؤ میں رہے، اور وہیں ۱۲۴۰ھ میں فوت ہوئے۔ سید انشاء، جرات، میر حسن وغیرہ شعراء اور ان کے ہمعصروں کے۔
عام تذکرے گواہی دیتے ہیں کہ ان کی تصنیفات میں چھ دیوان اُردو کے تمام و کمال ہیں، جن میں ہزاروں غزلیں اور بہت سے قصیدے اور بیات اور رباعیاں اور معمولی قضمیتیں ہیں، چنانچہ ایک قصیدے کے دعائیہ میں کہتے ہیں۔
مصحفی آج دُعا مانگے ہے تجھ سے یارب
ایکہ ہے ذات تری سب پہ غفور اور رحیم
یہ جو دیوان چھیوں اس کے ہیں مانند سہیل
بزم شاہاں میں لباس ان کا رہے جلد ادیم
ایکہ ہے ذات تری سب پہ غفور اور رحیم
یہ جو دیوان چھیوں اس کے ہیں مانند سہیل
بزم شاہاں میں لباس ان کا رہے جلد ادیم
دو (۲) تذکرے شعرائے اردو کے، ایک تذکرہ فارسی کا، اور ایک دیوان فارسی لکھا مگر راقم کے پاس جو ان کے دیوان ہیں، ان میں سے ایک پر دیوان ہفتم لکھا ہے۔ اور ایک دیوان اور ہے۔ اس میں سید انشاء کے جھگڑے بھی ہیں۔ یہ آٹھواں ہو گا کہ سب سے اخیر ہے۔
دیوان ان کی استادی کو مسلم الثبوت کرتے ہیں۔ انواع و اقسام کی صدہا غزلیں نہایت سنگلاخ زمینوں میں لکھی ہیں۔ ان سے معلوم ہوتا ہے۔ کہ کثرت مشق سے کلام پر قدرت کامل پائی ہے۔ الفاظ کو پس و پیش اور مضمون کو کم و بیش کر کے اس دردبست کے ساتھ شعر میں کھپایا ہے کہ جو حق اُستادی کا ہے ادا ہو گیا ہے۔ ساتھ اس کے اصلی محاورہ کو بھی ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ ایسے موقع پر کچھ کچھ سوداؔ کا سایہ پڑتا ہے۔ جہاں سادگی ہے۔ وہاں ایسا