شمشاد
لائبریرین
صفحہ ۴۰۲
تو کوتوال ہی بس ان سے اب سمجھ لے گا
یہ دمبدم کی شکایت کی ہے عبث تحریر
یہ وہ مثل ہے کہ جس طرح سارے شہر کے بیچ
بلند قامتی اپنی سے مہتم ہو بعیر
سو مُہتم مجھے ناداں نے ہجو شہ سے کیا
قباحت اس کی جو شہ سمجھے اس کو دے تعزیر
ولے مزاج مقدس جو لااُبالی ہے
نہیں خیال میں آتا خیال حرف حقیر
جو کچھ ہوا سو ہوا مصحفیؔ بس اب چپ رہ
زیادہ کر نہ صداقت کا ماجرا تحریر
خدا پہ چھوڑ دے اس بات کو وہ مالک ہے
کرے جو چاہے، جو چاہا کیا بہ حکم قدیر
سیّد انشاء پھرتے چلتے دلّی میں آئے تھے اور کچھ عرصہ رہے تھے اور جو لوگ ان معرکوں میں ان کے فریق تھے ان میں سے اکثروں نے دلّی کی شکل بھی نہیں دیکھی تھی۔ چنانچہ ایک موقع پر شیخ مصحفی نے یہ قطعہ کہا جس کے چند شعر ساتویں دیوان میں ہیں۔
بعضوں کا گماں یہ ہے کہ ہم اہل زباں ہیں
دلّی نہیں دیکھی ہے زباں داں یہ کہاں ہیں
پھر تسپہ ستم اور یہ دیکھو کہ عروضی
کہتے ہیں سدا آپکو اور لاف زناں ہیں
سیفی کے رسالہ پہ بنا انکی ہے ساری
سو اس کے بھی گھر بیٹھے وہ آپ ہی نگراں ہیں
اک ڈیڑھ ورق پڑھ کے وہ جامی کا رسالہ
کرتے ہیں گھمنڈ اپنا کہ ہم قافیہ داں ہیں
نہ (۹) حرف جو وہ قافیہ کے لکھتے ہیں اس میں
دانا جو انھیں سُنتے ہیں یہ کہتے ہیں ہاں ہیں
تعقید سے واقف نہ تنافر سے ہیں آگاہ
نہ (۹) حرف یہی قافیہ کے در و زباں ہیں
کرتے ہیں کبھی ذکر وہ ایطائے خفی کا
ایطائے جلی سے کبھی پھر حرف زناں ہیں
اوّل تو ہے کیا شعر میں ان باتوں سے حاصل
بالفرض جو کچھ ہو بھی تو یہ سب پہ عیاں ہیں
یہ دمبدم کی شکایت کی ہے عبث تحریر
یہ وہ مثل ہے کہ جس طرح سارے شہر کے بیچ
بلند قامتی اپنی سے مہتم ہو بعیر
سو مُہتم مجھے ناداں نے ہجو شہ سے کیا
قباحت اس کی جو شہ سمجھے اس کو دے تعزیر
ولے مزاج مقدس جو لااُبالی ہے
نہیں خیال میں آتا خیال حرف حقیر
جو کچھ ہوا سو ہوا مصحفیؔ بس اب چپ رہ
زیادہ کر نہ صداقت کا ماجرا تحریر
خدا پہ چھوڑ دے اس بات کو وہ مالک ہے
کرے جو چاہے، جو چاہا کیا بہ حکم قدیر
سیّد انشاء پھرتے چلتے دلّی میں آئے تھے اور کچھ عرصہ رہے تھے اور جو لوگ ان معرکوں میں ان کے فریق تھے ان میں سے اکثروں نے دلّی کی شکل بھی نہیں دیکھی تھی۔ چنانچہ ایک موقع پر شیخ مصحفی نے یہ قطعہ کہا جس کے چند شعر ساتویں دیوان میں ہیں۔
بعضوں کا گماں یہ ہے کہ ہم اہل زباں ہیں
دلّی نہیں دیکھی ہے زباں داں یہ کہاں ہیں
پھر تسپہ ستم اور یہ دیکھو کہ عروضی
کہتے ہیں سدا آپکو اور لاف زناں ہیں
سیفی کے رسالہ پہ بنا انکی ہے ساری
سو اس کے بھی گھر بیٹھے وہ آپ ہی نگراں ہیں
اک ڈیڑھ ورق پڑھ کے وہ جامی کا رسالہ
کرتے ہیں گھمنڈ اپنا کہ ہم قافیہ داں ہیں
نہ (۹) حرف جو وہ قافیہ کے لکھتے ہیں اس میں
دانا جو انھیں سُنتے ہیں یہ کہتے ہیں ہاں ہیں
تعقید سے واقف نہ تنافر سے ہیں آگاہ
نہ (۹) حرف یہی قافیہ کے در و زباں ہیں
کرتے ہیں کبھی ذکر وہ ایطائے خفی کا
ایطائے جلی سے کبھی پھر حرف زناں ہیں
اوّل تو ہے کیا شعر میں ان باتوں سے حاصل
بالفرض جو کچھ ہو بھی تو یہ سب پہ عیاں ہیں