شمشاد
لائبریرین
صفحہ ۴۴۲
اِن کے حریفوں کو اس لفظ پر بھی اعتراض ہے کیونکہ نقّارہ مشدّد ہے تخفیف کے ساتھ نہیں آیا، اور جب ان سے کہا گیا کہ نظّارہ بھی بہ تشدید ہے مگر تخفیف کے ساتھ فارسی اور ریختہ میں آیا ہے تو انھوں نے کہا کہ غیر زبان کے لفظ میں قیاس نہیں چل سکتا۔ اہل زبان کی سند دینی چاہیے۔ مُنصفوں کے نزدیک یہ بھی ان کی سینہ زوری ہے۔ نظامیؔ ۔
غزال شہری کے لیے فارسی کی سند چاہیے۔ کیونکہ وحشی کے مقابل میں اہلی بولتے ہیں شہری نہیں بولتے۔ مگر اسے فارسی کے کوچہ میں نہیں ڈالنا چاہیے بلکہ اردو کے قادر الکلام کا تصرف سمجھنا چاہیے۔
یہ تعقید نہایت بے طور واقع ہوئی ہے۔ ان کے حریف اس قسم کے اشعار اور بھی بہت پڑھتے ہیں۔ مگر اِن جزوی باتوں پر توجہ بے حاصل ہے۔ اسلئے اشعار مذکور قلم انداز کئے گئے۔
اِن کے کلام میں تصوف بھی ہے۔ مگر اس کا رستہ کچھ اور ہے۔ جس سے وہ واقف نہیں۔
کیا ہی حسد ہے فلک جس نے کہ نوبت پائی
دم میں مانندِ ھباب اس نے نقارہ توڑا
دم میں مانندِ ھباب اس نے نقارہ توڑا
اِن کے حریفوں کو اس لفظ پر بھی اعتراض ہے کیونکہ نقّارہ مشدّد ہے تخفیف کے ساتھ نہیں آیا، اور جب ان سے کہا گیا کہ نظّارہ بھی بہ تشدید ہے مگر تخفیف کے ساتھ فارسی اور ریختہ میں آیا ہے تو انھوں نے کہا کہ غیر زبان کے لفظ میں قیاس نہیں چل سکتا۔ اہل زبان کی سند دینی چاہیے۔ مُنصفوں کے نزدیک یہ بھی ان کی سینہ زوری ہے۔ نظامیؔ ۔
بذوقِ جشنِ نوروزی نقارہ
گلوئے خویش کردو پارہ پارہ
مجھ سے رہتا ہے رسیدہ وہ غزالِ شہری
صاف سیکھا ہے چلن آہوئے صحرائی کا
گلوئے خویش کردو پارہ پارہ
مجھ سے رہتا ہے رسیدہ وہ غزالِ شہری
صاف سیکھا ہے چلن آہوئے صحرائی کا
غزال شہری کے لیے فارسی کی سند چاہیے۔ کیونکہ وحشی کے مقابل میں اہلی بولتے ہیں شہری نہیں بولتے۔ مگر اسے فارسی کے کوچہ میں نہیں ڈالنا چاہیے بلکہ اردو کے قادر الکلام کا تصرف سمجھنا چاہیے۔
ذبح وہ کرتا تو ہے پر چاہیے اے مرغِ دل
دم پھڑک جائے تڑپنا دیکھ کر صیّاد کا
دم پھڑک جائے تڑپنا دیکھ کر صیّاد کا
یہ تعقید نہایت بے طور واقع ہوئی ہے۔ ان کے حریف اس قسم کے اشعار اور بھی بہت پڑھتے ہیں۔ مگر اِن جزوی باتوں پر توجہ بے حاصل ہے۔ اسلئے اشعار مذکور قلم انداز کئے گئے۔
اِن کے کلام میں تصوف بھی ہے۔ مگر اس کا رستہ کچھ اور ہے۔ جس سے وہ واقف نہیں۔
تو بھی اغوشِ تصّور سے جدا ہوتا نہیں
اے صنم جس طرح دُور اک دم خدا ہوتا نہیں
بحر وحدت میں ہوں میں، گو سر گیا مثلِ حباب
چوب کیا تلوار سے پانی جدا ہوتا نہیں
اے صنم جس طرح دُور اک دم خدا ہوتا نہیں
بحر وحدت میں ہوں میں، گو سر گیا مثلِ حباب
چوب کیا تلوار سے پانی جدا ہوتا نہیں