آب حیات - مولانا محمد حسین آزاد (مرحوم)

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۴۲

کیا ہی حسد ہے فلک جس نے کہ نوبت پائی
دم میں مانندِ ھباب اس نے نقارہ توڑا​

اِن کے حریفوں کو اس لفظ پر بھی اعتراض ہے کیونکہ نقّارہ مشدّد ہے تخفیف کے ساتھ نہیں آیا، اور جب ان سے کہا گیا کہ نظّارہ بھی بہ تشدید ہے مگر تخفیف کے ساتھ فارسی اور ریختہ میں آیا ہے تو انھوں نے کہا کہ غیر زبان کے لفظ میں قیاس نہیں چل سکتا۔ اہل زبان کی سند دینی چاہیے۔ مُنصفوں کے نزدیک یہ بھی ان کی سینہ زوری ہے۔ نظامیؔ ۔

بذوقِ جشنِ نوروزی نقارہ
گلوئے خویش کردو پارہ پارہ

مجھ سے رہتا ہے رسیدہ وہ غزالِ شہری
صاف سیکھا ہے چلن آہوئے صحرائی کا​

غزال شہری کے لیے فارسی کی سند چاہیے۔ کیونکہ وحشی کے مقابل میں اہلی بولتے ہیں شہری نہیں بولتے۔ مگر اسے فارسی کے کوچہ میں نہیں ڈالنا چاہیے بلکہ اردو کے قادر الکلام کا تصرف سمجھنا چاہیے۔

ذبح وہ کرتا تو ہے پر چاہیے اے مرغِ دل
دم پھڑک جائے تڑپنا دیکھ کر صیّاد کا​

یہ تعقید نہایت بے طور واقع ہوئی ہے۔ ان کے حریف اس قسم کے اشعار اور بھی بہت پڑھتے ہیں۔ مگر اِن جزوی باتوں پر توجہ بے حاصل ہے۔ اسلئے اشعار مذکور قلم انداز کئے گئے۔

اِن کے کلام میں تصوف بھی ہے۔ مگر اس کا رستہ کچھ اور ہے۔ جس سے وہ واقف نہیں۔

تو بھی اغوشِ تصّور سے جدا ہوتا نہیں
اے صنم جس طرح دُور اک دم خدا ہوتا نہیں

بحر وحدت میں ہوں میں، گو سر گیا مثلِ حباب
چوب کیا تلوار سے پانی جدا ہوتا نہیں​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۴۳

نشہ عرفاں نہیں جبتک دلاہے قیل و قال
تا نہ ہو لبریز ساغر بے صدا ہوتا نہیں

اسرار نہاں آتے ہیں سینہ سے زباں پر
اب سدِّ سکندر کروں تعمیر گلے میں

ہے یہ وہ راہ کہ تا عرش پہنچتا ہے بشر
دل میں دروازہ ہے اس گنبدِ مینائی کا

عارفوں کو ہر در و دیوار ادب آموز ہے
مانع گردن کشی ہے انحنا محراب کا

مظہر وہ بُت ہے نور خدا کے ظہور کا
نقشِ قدم سے سنگ کو رُتبہ ہے در کا​

حریف یہ بھی حرف رکھتے ہیں کہ شیخ ناسخؔ مخلوق فارسی کو تناسخ دے کر اُردو کی زندگی دیتے تھے۔

مسی آلودہ لب پر رنگِ پاں ہے
تماشا ہے تہِ آتش دھواں ہے

مسی آلودہ برلب رنگ پان است
تماشا کن تہِ آتش دخاں است
(بیدلؔ)

ناتوانی سے گراں سُرمہ ہے چشم یار کو
جسطرح ہو رات بھاری مردمِ بیمار کو
(شیخ صاحب)

گویند کہ شب بر سر بیمار گراں است
گر سرمہ بچشم تو گراں است ازاں است
(ناصر علی)

سیہ بختی میں کب کوئی کسی کا ساتھ دیتا ہے
کہ تاریکی میں سایہ بھی جدا ہوتا ہے انساں سے

کسی اُستاد کا شعر فارسی میں ہے۔

بروز بیکسی کس نیست غیر از سایہ یار من
مگر آنہم ندارد طاقتِ شبہائے تارِ من

فرق ہے شاہ و گدا میں قول شاعر سے یہی
شیرِ قالیں اور ہے شیر نیستاں اور ہے
(ناسخؔ)

بوریا جائے من دجائے تونگر قالیں
شیر قالیں دگر و شیر نیستاں دگر است
(حزیں)​

میر تقی مرحوم اور بقاؔ میں دوآبے کے مضمون پر جو دو دو لطیفے ہوئے، میر صاحب کے حال میں لکھے گئے۔ میں سمجھتا تھا کہ شیخ ناسخؔ نے الہ آباد میں بیٹھ کر اس میں سے یہ مضمون تراشا ہو گا۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۴۴

ایک تربینی ہے دو آنکھیں مری
اب الہ آباد بھی پنجاب ہے​

لیکن غیاث الدین بلبن بادشاہ دہلی کا بیٹا یعنی محمد سلطان جب لاہور کے باہر راوی کے کنارے پر ترکان تاتاری کی لڑائی میں مارا گیا تو امیر خسروؔ نے اِس کا مرثیہ ترکیب بند میں لکھا ہے۔ اس میں کہتے ہیں۔

بسکہ آب چشم حلقے شد رواں در چار سو
پنچ آبے دیگر اندر مولتاں آمد پدید​

کہتے ہیں کہ خواجہ صاحب نے انہیں باتوں پر چوٹ کر کے کہا ہے :

مضمون کا چور ہوتا ہے رسوا جہان میں
چکھی خراب کرتی ہے مالِ حرام کی​

اگرچہ اس طرح کے چند اشعار اور بھی سُنے جاتے ہیں۔ مگر ایسا صاحب کمال جس کی تصنیفات کمال نازک خیالی اور مضامین حالی کے ساتھ ایک مجلّد ضخیم موجود ہے۔ اس پر سرقہ کا الزام لگانا انصاف کی آنکھوں میں خاک ڈالنی ہے۔ سوداؔ اور میرؔ کے اشعار جن استادوں کے اشعار سے لڑ گئے ہیں وہ لکھے گئے ہیں، جو اُن کی طرف سے جواب ہے۔ وہی ان کی طرف سے سمجھیں۔ میری رائے میں یہ دونوں حریف اور اُن کے طرف دار کوئی ملزم نہیں۔ کیونکہ دونوں طرفوں میں کوئی کمال سے خالی نہیں تھا، البتہ طبیعتیں مکتلف ہوتی ہیں۔ اس لئے پسند میں اختلاف ہے، کہنے والے جو چاہیں سو کہے جائیں۔

انہی نازک خیالیوں میں جو صاف شعر بھی زبان سے نکل گیا ہے ایک تیر ہے کہ نشانہ کے پار جا کر اڑا ہے، اٹک کر ترازو بھی نہیں ہوا۔

سیکڑوں آہیں کروں پر دخل کیا آواز کا
تیر جو دیوے صدا ہے نقص تیر انداز کا

ترچھی نظروں سے نہ دیکھو عاشقِ دلگیر کو
کیسے تیر انداز ہو سیدھا تو کر لو تیر کو​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۴۵

اس انداز کے شعر بھی ان کے دیوانوں میں ڈھونڈو تو بہت ہوں گے۔

شیخ صاحب کے کلام میں نمک ظرافت کا چٹخارا کم ہے، چنانچہ زاہد اور ناصح جو شعرائے اردو فارسی کیلئے ہر جگہ رونق محفل ہیں، یہ اُن سے بھی ہنس کر دل نہیں بہلاتے اور اگر اتفاقاً ہے تو ایسا ہے کہ وہ ہنسنا زہرخند معلوم ہوتا ہے۔

حرص سے زاہد یہ کہتا ہے جو گر جائیں گے دانت
کیا کشادہ بہر رزق اپنا وہاں ہو جائے گا

دیکھیو ناسخؔ سر شیخ معمر کی طرف
کیا کلس مسواک کا ہے گنبدِ دستار کا​

سوداؔ کی غزل ہے، جرس ہوسے اگر ہوسے – قفس ہووے اگر ہووے

اُس کا شعر دیکھو کہ وہ اسی بات کو کس چوچلے سے کہتا ہے۔

نہیں شایان زیب گنبدِ دستار کچھ زاہد
مگر مسواک ہی اسپر کلس ہوسے اگر ہووے
(سوداؔ)

زاہد ابکی رمضان میں میں پڑھوں خاک نماز
سوئے قبلہ توخنا زیر کھڑے رہتے ہیں
(ناسخؔ)

واہ کیا پیر مغاں کا ہے تصرف مے کشو
محتسب کا اب سخن تکیہ ہے مُل مل ہو گیا

عابد و زاہد چلے جاتے ہیں پیتا ہے شراب
اب تو ناسخؔ زور رندلا اُبالی ہو گیا

اہل تزوید سے اس درجہ ہے نفرت مجھ کو
کہ مجھے قافیہ زور ہے کچھ کام نہیں​

شیخ صاحب کا مذہب پہلے سنت جماعت تھا، پھر مذہب شیعہ اختیار کیا۔ وہ اکثر غزلوں میں مذہبی تعریفیں کرتے تھے اور یہ شاعر یا عام مصنف کے لئے نازیبا ہیں۔ ہاں کوئی اپنے تائید مذہب میں کتاب لکھے تو اس میں دلائل و براہین کے قبیل سے جو چاہے کہے مضائقہ نہیں۔

وہ بہت خوش اخلاق تھے، مگر اپنے خیالات میں ایسے محو رہتے تھے کہ ناواقف شخص خشک مزاج یا بد دماغ سمجھتا تھا، سید مہدی حسن فراغؔ
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۴۶

مرحوم (دیکھو صفحہ ۲۲۳) میاں بے تاب کے شاگرد تھے، اور زبان ریختہ کے کہن سال مشاق تھے، نقل فرماتے تھے کہ ایک دن میں شیخ صاحب کی خدمت میں گیا، دیکھا کہ چوکی پر بیٹھے نہا رہے ہیں، آس پاس چند احباب موڈھوں پر بیٹھے ہیں۔ میں سامنے جا کر کھڑا ہوا، اور سلام کیا، انھوں نے ایک آواز سے کہ جو ان کے بدن سے بھی فربہ تھی۔ فرمایا کہ کیوں صاحب کس طرح تشریف لانا ہوا۔ میں نے کہا کہ ایک فارسی کا شعر کسی استاد کا ہے۔ اس کے معنی سمجھ میں نہیں آتے۔ فرمایا میں فارسی کا شاعر نہیں۔ اتنا کہہ کر اور شخص سے باتیں کرنے لگے۔ میں اپنے جانے پر بہت پچھتایا اور اپنے تئیں ملامت کرتا چلا آیا۔

ایک دن کوئی شخص ملاقات کو آئے، یہ اس وقت چند دوستوں کو لیے انگنائی میں کرسیوں پر بیٹھے تھے۔ شیخ مذکور کے ہاتھ میں چھڑی تھی اور اتفاقاً پاؤں کے آگے مٹی کا ایک ڈھیلا پڑا تھا۔ وہ شغل بے کاری کے طور پر جیسے کہ اکثر اشخاص کو عادت ہوتی ہے، آہستہ آہستہ لکڑی کی نوک سے ڈھیلے کو توڑنے لگے، شیخ صاحب نے نوکر کو آواز دی، سامنے حاضر ہوا، فرمایا کہ میاں ایک ٹوکری مٹی کے ڈھیلوں کی بھر کر ان کے سامنے رکھ دو، دل لگا کر شوق پورا کریں۔

لطیفہ : شاہ غلام اعظم افصل (شاہ محمد اجمل کے پوتے شاہ ابو العالی تھے، انکے بیٹے شاہ غلام اعظم افضل تخلص ہوئے۔) ان کے شاگرد اکثر حاضر خدمت ہوتے تھے۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۴۷

ایک دن آپ تخت پر بیٹھے تھے اس پر سیتل پاٹی کا بوریا بچھا تھا۔ افضل آئے، وہ بھی اسی پر بیٹھ گئے۔ اس پر سیتل پاٹی کا ایک تنکا توڑ کر چٹکی سے توڑنے اور مڑوڑنے لگے۔ شیخ صاحب نے آدمی کو بلا کر کہا کہ بھائی وہ جو آج نئی جھاڑو تم بازار سے لائے ہو ذرا لے آؤ۔ اس نے حاضر کی، خود لیکر شاہ صاحب کے سامنے رکھ دی اور کہا، صاحبزادے! اس سے شغل فرمائیے، فقیر کا بوریا آپ کے تھوڑے سے التفات میں برباد ہو جائے گا، پھر اور سیتل پاٹی اس شہر میں کہاں ڈھونڈتا پھرے گا۔ وہ بیچارے شرمندہ ہو کر رہ گئے۔

لطیفہ : آغا کلب عابد خاں صاحب فرماتے ہیں، کہ ایک دفعہ شیخ صاحب کے واسطے کسی شخص نے دو تین چمچے بطریق تحفہ بھیجے جو شیشے کے تھے۔اِن دنوں میں نیا ایجاد سمجھے جاتے تھے، ایک امیر صاحبزادے آئے، اس طرف دیکھا، پوچھا کہ حضرت یہ چمچے کہاں سے خریدے اور کس قیمت کو خریدے۔ شیخ صاحب نے حال بیان کیا، انھوں نے ہاتھ بڑھا کر ایک چمچہ اٹھا لیا۔ دیکھ کر تعریف کی، پھر باتیں چیتیں کرتے رہے اور چمچہ سے زمین پر کھٹکا دے کر شغلِ بے شغلی فرماتے رہے۔ شیشہ کی بساط کیا تھی، ٹھیس زیادہ لگی جھٹ سے دو ٹکڑے۔ شیخ صاحب نے دوسرا چمچہ اتھا کر سامنے رکھ دیا اور کہا اب اس سے شغل فرمائیے۔

لطیفہ : ایک دن اپنے خانہ باغ کے بنگلہ میں بیٹھے تھے اور فکرِ مضمون میں
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۴۸

غرق تھے، ایک شخص آ کر بیٹھے، ان کی طبیعت پریشان ہوئی، اٹھ کر ٹہلنے لگے کہ یہ اٹھ جائیں، ناچار پھر آ بیٹھے، مگر وہ نہ اُٹھے، کسی ضرورت کے بہانے سے پھر گئے کہ یہ سمجھ جائیں گے، وہ پھر بھی نہ سمجھے، انھوں نے چلم میں سے چنگاری اُٹھا کر بنگلہ کی ٹٹی میں رکھ دی اور آپ لکھنے لگے۔ ٹٹی جلنی شروع ہوئی، وہ شخص گھبرا کر اُٹھے اور کہا کہ شیخ صاحب آپ دیکھتے ہیں؟ یہ کیا ہو رہا ہے، انھوں نے ان کا ہاتھ پکڑ لیا کہ جاتے کہاں ہو، اب تو مجھے اور تمہیں مل کر راکھ کا ڈھیر ہونا ہے۔ تم نے میرے مضامین کو خاک میں ملایا ہے، میرے دل کو جلا کر خاک کیا ہے، اب کیا تمھیں جانے دوں گا۔

لطیفہ : اسی طرح ایک شخص نے بیٹھ کر انھیں تنگ کیا۔ نوکر کو بلا کر صندوقچہ منگایا، اس میں سے مکان کے قبالے نکال کر ان کے سامنے دھر دیئے اور نوکر سے کہا کہ بھائی مزدوروں کو بلاؤ اور اسباب اٹھا کر لے چلو، ادھر وہ شخص حیران ان کا منھ دیکھے، اُدھر نوکر حیران، آپ نے کہا دیکھتے کیا ہو، مکان پر تو یہ قبضہ کر چکے، ایسا نہ ہو کہ اسباب بھی ہاتھ سے جاتا رہے۔

شیخ صاحب کے مزاج میں یہ صفتیں تھیں مگر بنیاد ان کی فقط نازک مزاجی پر تھی۔ نہ غرور یا بدنیتی پر جس کا انجام بدی تک پہونچے۔ نازک مقام آ پڑتا تو اس طرح تحمل کر کے ٹال جاتے تھے کہ اوروں سے ہونا مشکل ہے۔

نقل : ایک نواب صاحب کے ہاں مشاعرہ تھا وہ ان کے معتقد تھے، انھوں نے ارادہ کیا کہ شیخ صاحب جب غزل پڑھ چکیں تو انھیں سرِ مشاعرہ خلعت دین، یار لوگوں نے خواجہ صاحب کے پاس مصرعہ طرح نہ
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۴۹

بھیجا۔ انھیں اس وقت مصرع پہنچا جب ایک دن مشاعرہ میں باقی تھا۔ خواجہ صاحب بہت خفا ہوئے اور کہا کہ اب لکھنؤ رہنے کا مقام نہیں، ہم نہ رہیں گے۔ شاگرد جمع ہوئے اور کہا کہ آپ کچھ خیال نہ فرمائیں۔ نیاز مند حاضر ہیں، دو (۲) دو (۲) شعر کہیں گے تو صدہا شعر ہو جائیں گے، وہ بہت تند مزاج تھے۔ اُن سے بھی ویسے ہی تقرس کرتے رہے۔ شہر کے باہر چلے گئے۔ پھرتے پھرتے ایک مسجد میں جا بیٹھے، وہاں سے غزل کہہ کر لائے اور مشاعرے میں گئے تو ایک قرابین بھی بھر کر لیتے گئے۔ بیٹھے ایسے موقع پر تھے کہ عین مقابل شیخ صاحب کے تھے۔ اوّل تو آپ کا انداز ہی بانکے سپاہیوں کا تھا، اس پر قرابین بھری سامنے رکھی تھی اور معلوم ہوتا تھا کہ خود بھی بھرے بیٹھے ہیں۔ بار بار قرابین اٹھاتے تھے اور رکھ دیتے تھے، جب سامنے شمع آئی تو سنبھل کر ہو بیٹھے اور شیخ صاحب کی طرف اشارہ کر کے پڑھا۔

سُن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا
کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا​

اس ساری غزل میں کہیں ان کے لے پالک ہونے پر، کہیں ذخیرہ دولت پر، کہیں ان کے سامان امارت پر، غرض کچھ نہ کچھ چوٹ ضرور ہے۔ شیخ صاحب بے چارے دم بخود بیٹھے رہے، نواب صاحب ڈرے کہ خدا جانے یہ ان پر قرابین خالی کریں یا میرے پیٹ میں آگ بھر دیں، اسی وقت دروغہ کو اشارہ کیا کہ دوسرا خلعت خواجہ صاحب کے لئے تیار کرو، غرض دونوں صاحبوں کو برابر خلعت دے کر رخصت کیا۔

رغمی سلمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مدتوں لکھنؤ میں رہنا ہوا، میں نے کبھی چاند
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۵۰

اور سورج کا طلوع ایک مطلع میں سے نہ دیکھا۔ ہمیشہ مشاعرہ میں پہلو بچاتے تھے۔ خواجہ صاحب نواب سید محمد خاں رندؔ اور صاحب مرزا شناورؔ کے مشاعرہ میں جایا کرتے تھے۔ ادھر مرزا محمد رضا برقؔ کے ہاں مشاعرہ ہوتا تھا۔ شیخ صاحب اپنی غزل بھیج دیتے تھے۔ جب جلسہ جمتا، برقؔ کے شاگرد میاں طورؔ سب سے پہلے غزل مذکور کو لے کر کہتے، صاحبو! ہمہ تن گوش باشید، یہ غزل استاد الاستاد شیخ ناسخؔ کی ہے۔ تمام اہل مشاعرہ چپ چاپ ہو کر متوجہ ہو جاتے۔ ان کی غزل کے بعد اور شعراء پڑھتے تھے۔

بر خلاف عادت شعراء کے ان کی طبیعت میں سلامت روی کا جوہر تھا۔ چنانچہ ایک دفعہ سید محمد خاں رندؔ کی اپنے استاد خواجہ حیدر علی آتش سے شکر رنجی ہو گئی، چاہا کہ ناسخؔ کی شاگردی سے استاد سابق کے تعلق کو فسخ کریں۔ مرزا محمد رضا برقؔ کے ساتھ شیخ صاحب کے پاس آئے، مرزا صاحب نے اظہار مطلب کیا۔ شیخ صاحب نے تامل کے بعد کہا کہ نواب صاحب دس برس سے خواجہ صاحب سے اصلاح لیتے ہیں، آج اُن سے یہ حال ہے تو کل مجھے ان سے کیا اُمید ہے۔ علاوہ برآں آپ خواجہ صاحب سے کچھ سلوک بھی کرتے ہیں، وہ سلسلہ قطع ہو جائے گا، اس کا وبال کدھر پڑے گا اور مجھے اُن سے یہ تمنا نہیں، میری دانست میں بہتر ہے کہ آپ ہی دونوں صاحبوں میں صلح کروا دیں، اور اس امر میں اس قدر تاکید کی کہ پھر آپس میں صفائی ہو گئم

اگرچہ ان کے کلاموں اور حکایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ طبیعت میں
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۵۱

شوخی اور رنگینی نہ تھی، مگر شاعری کا وہ نشہ ہے کہ اپنے رنگ پر لے ہی آتا ہے، چنانچہ میر گھسیٹا ایک شخص مر گئے تو شیخ صاحب نے تاریخ فرمائی۔

جب مر گئے ہائے میر گھسیٹا
ہر ایک نے اپنے منھ کو پیٹا

ناسخ نے کہی یہ سن کے تاریخ
افسوس کہ موت نے گھسیٹا​

اِن کے مزاج میں منصفی اور حق شناسی کا اثر ضرور تھا، چنانچہ الہ آباد میں ایک دن مشاعرہ تھا، سب موزوں طبع طرحی غزلیں کہہ کر لائے۔ شیخ صاحب نے غزل پڑھی، مطلع تھا۔

دل اب محوِ ترسا ہوا چاہتا ہے
یہ کعبہ کلیسا ہوا چاہتا ہے​

ایک لڑکے نے صف کے پیچھے سے سر نکالا، بھولی بھالی صورت سے معلوم ہوتا تھا کہ معرکہ میں غزل پڑہتے ہوئے ڈرتا ہے۔ لوگوں کی دلدہی نے اس کی ہمت باندھی، پہلا ہی مطلع تھا۔

دل اس بُت پہ شیدا ہوا چاہتا ہے
خدا جانے اب کیا ہوا چاہتا ہے​

محفل میں دھوم مچ گئی، شیخ ناسخؔ نے بھی تعریف کر کے لڑکے کا دِل بڑھایا اور کہا بھائی یہ فیضانِ الہٰی ہے۔ اس میں استادی کا زور نہیں چلتا۔ تمہارا مطلع مطلع آفتاب ہے۔ میں اپنا پہلا مصرع غزل سے نکال ڈالوں گا۔

شاہ نصیر کا مطلع ہمیشہ پڑھا کرتے تھے اور کہتے تھے نصیرؔ تخلص نہ ہوتا تو یہ مطلع نصیب نہ ہوتا۔

خیال زلفِ دوتا میں نصیر پیٹا کر
گیا ہے سانپ نِکل اب لکیر پیٹا کر​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۵۲

ایک دن کسی سوداگر کی کوٹھی میں گئے۔ سوداگر بچّہ کہ دولتِ حسن کا بھی سرمایہ دار تھا، سامنے لیٹا تھا مگر کچھ سوتا کچھ جاگتا تھا، آپ نے دیکھ کر فرمایا۔

مصرعہ : ہے چشم نیم باز عجب خواب ناز ہے​

یہ مصرع تو ہو گیا مگر دوسرا مصرع جیسا جی چاہتا تھا ویسا نہ ہوتا تھا۔ گھر آئے اسی فکر میں غرق تھے کہ خواجہ وزیر آ گئے، انھوں نے خاموشی کا سبب پوچھا، شیخ صاحب نے بیان فرمایا، اتفاق ہے کہ اُن کی طبیعت لڑ گئی۔

ہے چشم نیم باز عجب خواب ناز ہے
فتنہ تو سو رہا ہے در فتنہ باز ہے​

شیخ صاحب بہت خوش ہوئے۔

ایک دن وزیر اپنے شاہِ سخن کی خدمت میں حاضر ہوئے، مزاج پُرسی فرما کر عنایت و محبّت کی باتیں کرنےلگے اور کہا کہ آج کل کچھ فکر کیا؟ عرض کی کہ درود وظیفہ سے فرصت نہیں ہوئی، آپ نے پھر ارشاد فرمایا، انھوں نے یہ مطلع پڑھا۔

وہ زلف لیتی ہے تاب دل و تواں اپنا
اندھیری رات میں لٹتا ہے کارواں اپنا​

بہت خوش ہوئے، اس وقت ایک عمدہ تسبیح عقیق البحر کی ہاتھ میں تھی وہ عنایت فرمائی، خواجہ وزیر پر بری عنایت تھی اور قدر و منزلت فرماتے تھے۔ سب شاگردوں میں ان کا نمبر اول تھا، پھر برقؔ، رشک وغیرہ وغیرہ۔ تاریخ کلیات سے معلوم ہوتا ہے کہ آٹھ پہر اسی فکر میں غلطاں و پیچاں رہتے تھے، چنانچہ جن دنوں شاہ اجمل کے دائرہ میں تشریف رکھتے تھے تو وہاں تین گھرانے بابرکت اور صاحب دستگاہ تھے۔ تینوں جگہ سے وقت معمول پر
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۵۳

کھانا آتا تھا، ایک کوان بلکہ دسترخوان شاہ ابو المعالی کی سرکار سے آتا تھا۔ اس میں ہر قسم کے امیرانہ اور عمدہ کھانے موجود ہوتے تھے، ایک خوان سید علی جعفر کے ہاں سے آتا تھا کہ شاہ ابو المعالی کی بہن اِن سے منسوب تھیں، ایک خوان شاہ غلام حیدر صاحب کے ہاں سے آتا تھا، اس پر بھی اپنا باورچی خانہ الگ گرم ہوتا تھا، جس چیز کو جی چاہتا تھا پکواتے تھے، دسترخوان پر وہ بھی شامل ہو جاتا تھا، ایک دن باورچی سے خاگینہ کی فرمائش فرمائی تھی، اس میں کوئی سنپولیا گرا ہو گا۔ چونکہ دوبارہ یہ حرکت کی تھی۔ آپ نے تاریخ کہہ دی۔

جاں بلب آمد مرا از غفلتِ طباخ آہ
مے پزد خاگینہ با مار کریہہ از ہرمن

چوں دگر بارہ خطا بنمو و سال عیسوی
گفت دل مارِ سیہ پخت ایں سفینہ از بہر من​

۱۸۳۱؁ء میں معتمد الدولہ آغا میر نے جو سوا لاکھ روپیہ قصیدہ کا صلہ دیا تھا انھوں نے مرزائی صاحب کے حوالہ کر دیا تھا۔ لوگوں نے جانا کہ ان کے گھر ہی میں ہے، چور نے یہ جان کر رات میں نقب لگائی اور ناکام رہ گیا۔ آپ نے فرمایا۔

دزد درخانہ راسخ چو زدہ نقب امشب
نہ زر و سیم نہ بُد مس، خجل آمد بیرون

بہر تاریخ مسیحی چو بریدم سر دزد
ذر دا زخانہ مفلس، خجل امد بیرون​

بات بات پر تاریخ کہتے تھے۔ بخار سے صحت پائی تاریخ کہی، رفت تپ توبہ مَن (۱۲۳۵ھ) غسل صحت کیا تو کہا۔ مصرعہ "شود صحت ہمایوں و مبارک" (۱۲۳۵ھ)، ایک موقع پر قتل ہوتے ہوتے بچ گئے۔ کہا۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۵۴

"کنم شکرِ خدا" (۱۲۳۵ھ، الہ آباد میں دائرہ کے پھاٹک میں بیٹھے تھے، چھت میں سے سانپ گرا، اس کی تاریخ کہی، مصرعہ "سیہ مار از فلک برمن نفیتاد")، حریفوں نے نظر بند کروا دیا تو کہا۔ مصرعہ "ہے ہے افسوس خانہ زنداں گردید"۔ جس بزرگ کی سفارش سے چھوٹے، اس کا تاریخی شکریہ کہا۔ مصرعہ " رہانیدی مراز دستِ گرگے"۔ کسی نے خطوط چُرا لئے تو کہا، مصرعہ "سیاہ ہمچو قلم باد روئے حاسد من۔" پھر چار خط جاتے رہے تاریخ کہی۔ ع "صد حیف تلف چہار نامہ" پیارے شاگرد خواجہ وزیرؔ کا بیا ہوا تو فرمایا۔ ع "شدہ نوشہ وزیر من امروز"، پھر ان کے ہاں لڑکا پیدا ہوا تو صبح کا وقت تھا، فرمایا۔ ع "صبح طالع شد بر آمد آفتاب"۔

لطیفہ : ایک مشاعرہ میں خواجہ صاحب نے مطلع پڑھا۔

سُرمہ منظورِ نظر ٹھہرا ہے چشم یار میں
نیل کا گنڈا پنہا یا مردمِ بیمار میں​

شیخ صاھب نے کہا، سبحان اللہ، خواجہ صاحب نے کیا خوب فرمایا ہے۔

یوں نزاکت سے گراں ہے سرمہ چشم یار میں
جس طرح ہو رات بھاری مردم بیمار میں​

خواجہ صاحب نے اُٹھ کر سلام کیا اور کہا "جائے استاد خالیست"۔ آزاد کی سمجھ میں نہیں آتا کہ مردم بیمار میں گنڈا کیونکر پہناتے ہیں، گنڈا بیمار کو پنہایا کرتے ہیں۔ اور اس سے زیادہ تعجب شیخ صاحب کے مطلع کا ہے کہ فرماتے ہیں۔

یوں نزاکت سے گراں ہے سُرمہ چشم یار میں
جس طرح ہو رات بھاری مردم بیمار میں​

یہاں بھی مَیں بے معنی ہے، پر ہوؔ تو ٹھیک ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۵۵

لطیفہ : ایک مشاعرہ میں ایسے وقت پہونچے کہ جلسہ ختم ہو چکا تھا مگر خواجہ حیدر علی آتشؔ وغیرہ چند شعراء ابھی موجود تھے، یہ جا کر بیٹھے، تعظیم رسمی اور مزاج پرسی کے بعد کہا کہ جناب خواجہ صاحب مشاعرہ ہو چکا، انھوں نے کہا کہ سب کو آپ کا اشتیاق رہا۔ شیخ صاحب نے یہ مطلع پڑھا :

جو خاص ہیں وہ شریک گروہِ عام نہیں
شمار دانہ تسبیح میں امام نہیں​

چونکہ نام بھی امام بخش تھا، اس لئے تمام اہل جلسہ نے نہایت تعریف کی۔ خواجہ صاحب نے یہ مطلع پڑھا۔

یہ بزم وہ ہے کہ لاخیر کا مقام نہیں
ہمارے گنجفہ میں بازئ غلام نہیں​

بعض اشخاص کی روایت ہے کہ یہ مطلع آتشؔ کے شاگرد کا ہے، ناسخؔ کے شاگردوں کی طرف سے اس کا جواب ہے اور حقیقت یہ ہے کہ لاجواب ہے۔

جو خاص بندہ ہیں وہ بندہ عوام نہیں
ہزار بار جو یوسف بِکے غلام نہیں​

عوام میں یہ روایت اس طرح مشہور ہے مگر دیرینہ سال لوگ جو اس زمانہ کی صحبتوں میں شریک تھے۔ اُن سے یہ تحقیق ہوا کہ پہلا مطلع آتشؔ نے حقیقت میں طالب علی خاں عیشیٰ (طالب علی خاں عیشیؔ ولد علی بخش خاں لکھنؤی ایک عالم فاضل شخص تھے اور کمالات علمی کیساتھ شعر بھی خوب کہا کرتے تھے مگر شاعری پیشہ نہ تھے۔ دیوان فارسی مع قصائد و دیوان ریختہ، مجموعہ نثر، مثنوی سرد چراغاں اور اکثر اقسام سخن ان کے یادگار ہیں۔ سعادت علیخاں جیسے نکتہ شناس کے سامنے بیٹھکر انھوں نے فرمائش ہائے شاعرانہ کا سر انجام کیا تھا اور مورد محسین و آفریں ہوئے تھے۔ خان موصوف خواجہ صاحب کی شاعری کو خاطر میں نہ لاتے تھے۔ اس پر انھوں نے بگڑ کر ان کا ذاتی دھبّہ دکھایا تھا اور مطلع مذکور کہا تھا۔) کے حق میں کہا تھا، یار لوگوں نے صفت مشترک پیدا
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۵۶

کر کے شیخ صاحب کے ذمّہ لگا دیا۔

طبع اوّل کی ترویج میں اس کتاب کو دیکھ کر میرے شفیق ولی سید احمد صاحب ڈکشنیری نے کسی کی زبانی بیان کیا کہ شیخ ناسخؔ ایک دن نواب نصیر الدین حیدر کے حضور میں حاضر تھے، حقہ سامنے تھا، فرمایا کہ شیخ صاحب اس پر کچھ کہیے۔ انھوں نے اسی وقت کہا :-

حقّہ جو ہے حضور معلٰے کے ہاتھ میں
گویا کہ کہکشاں ہے ثریّا کے ہاتھ میں

ناسخؔ یہ سب بجا ہے ولیکن تو عرض کر
بے جان بولتا ہے مسیحا کے ہاتھ میں​

بعض احباب کہتے ہیں کہ ظاہر الفاظ میں حقّہ کہکشاں ہے اور ممدوح ثریّا لیکن ایسے ممدوحوں کو چاند سورج بلکہ باعتبار قدر و منزلت کے فلک بھی کہہ دیا، ثریّا سے آج تک کسی نے تشبیہ نہیں دی، شیخ ناسخؔ کلام کی گرمی، شوخی، چُستی اور ترکیب سے دست بردار ہوئے، مگر اُصولِ فن کو نہیں جانے دیا، ان کی طرف یہ قطعہ منسوب کرنا چاند پر داغ لگانا ہے، لیکن چونکہ فی البدیہہ کہا ہے اس لئے اس قدر سخت گیری بھی جائز نہیں۔

ایک غزل شیخ صاحب کی ہے جس کا مطلع ہے :-

دل لیتی ہے وہ زلفِ سیاہ فام ہمارا
بُجھتا ہے چراغ آج سرِ شام ہمارا​

وہی مرزائی صاحب جن کے پاس شیخ صاحب کے روپے امانت رہے تھے، ایک امیر شرفائے لکھنؤ میں سے تھے اور شیخ صاحب کے بہت دوست تھے، انھوں نے ایک عمدہ فیروزہ پر آپ کا نام نامی کھدوا کر انگوٹھی بنوا کر دیا۔ اکثر پہنے رہتے تھے، کبھی اُتار کر رکھ بھی دیتے تھے۔ وہ کسی نے چُرا لی یا
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۵۷

کھو گئی، اس پر فرمایا۔

ہم سا کوئی گم نام زمانہ میں نہ ہو گا
گم ہو وہ نگیں جس پہ کُھدے نام ہمارا​

اس عہد تک لکھنؤ بھی آج کا لکھنؤ نہ تھا، شیخ ابراہیم ذوقؔ کا یہ مطلع جب وہاں پڑھا گیا۔

خبر کر جنگ نوفل کی تو مجنوں اہل ہاموں کو
کبادہ تا صبا کھچوائے شاخ بید مجنوں کو​

سب نے اُسے بے معنی کہا۔ شیخ صاحب نے جنگ نوفل کا واقعہ اور کبادہ کھینچنے کی اصطلاح بتائی، پھر سب نے تسلیم کیا، لیکن یہ امر نہ کچھ دلّی والوں کے لیے موجبِ فخر ہے نہ لکھنؤ والوں کے لیے باعثِ رنجش، آخر دلی بھی ایک دن میں شاہجہاں آباد نہیں ہو گئی تھی۔ میر تقی اور مرزا رفیع پیدا ہوتے ہی میرؔ اور سوداؔ نہیں ہو گئے۔ جب کلام کا سِلسلہ یہاں تک پہنچا تو اس قدر کہنا واجب ہے کہ اس عہد تک شعرائے لکھنؤ ان استادوں کے شاگرد تھے۔ جن کا دریائے کمال دلّی کے سرچشمہ سے نکلا تھا۔ اور فصحائے لکھنؤ بھی ہر محاورہ کے لیے دلّی ہی کو فخر سمجھے تھے، کیوں کہ وہ اکثر انہی بزرگوں کے فرزند تھے جنھیں زمانہ کی گردش نے اُڑا کر وہاں پھینک دیا تھا پس شیخ صاحب اور خواجہ حیدر علی آتشؔ کےکمال نے لکھنؤ کو دلّأ کی قید و پابندی سے آزاد کر کے استقلال کی سند دی اور وہی مستند ہوئی، اب جو چاہیں سو کہیں ہم نہیں روک سکتے۔ چنانچہ شیخ صاحب فرماتے ہیں۔

شہسواری کا جو اس چاند کے ٹکڑے کو ہے شوق
چاندنی نام ہے شبدیز کی اندھیاری کا​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۵۸

اےخط اس کےگورے گالوں پر یہ تو نے کیا کیا
چاندنی راتیں یکایک ہو گئیں اندھیاں ریاں

اللہ رے روشنی مرے سینہ کے داغ کی
اندھیاری رات میں نہیں حاجت چراغ کی

نام سنتا ہوں جو میں گور کی اندھیاری کا
دل دھڑکتا ہے جدائی کی شبِ تار نہ ہو​

اگرچہ دلّی میں بچے سے بوڑھے تک اندھیری رات کہتے ہیں مگر لکھنؤ والوں کو ٹوکنے کا منھ نہیں، کیوں کہ جس خاک سے ایسے ایسے صاحب کمال اُتھیں، وہاں کی زبان کود سند ہے، بکاؤلی میں نسیم کہتے ہیں۔ مصرعہ "گھوما مانند نرد گھر گھر۔" دلّی والوں کی زبان سے گھومتا ممکن نہیں، اہل لکھنؤ ملائی کو بالائی کہتے ہیں۔ پینے کا ہو تو تمباکو، پان میں کھانے کا ہو تو تماکو کہتے ہیں، دلی والے پینے کا ہو تو تمباکو، کھانے کا ہو تو زردہ کہتے ہیں۔

یوں تو شیخ صاحب کا ایک زمانہ معتقد ہوا۔ اور سب نے ان کی شاگردی کو فخر سمجھا مگر چند شاگرد بڑے بڑے دیوانوں کے ایک ہوئے۔

(۱) خواجہ وزیر جو آتشؔ کے شاگرد تھے، پھر ناسخؔ کے شاگرد ہوئے اور اسی پر فخر کرتے کرتے مر گئے۔ جیسے نازک خیال تھے ویسی ہی زبان پر قدرت رکھتے تھے۔ شیخ صاحب بھی ان کی بڑی خاطر کرتے اور اوّل درجہ کی شفقت مبذول فرماتے تھے۔

(۲) مرزا محمد رضا خاں برقؔ بعض بعض غزلوں سے اور واجد علی شاہ بادشاہ کی مصاحبت سے مشہور عالم ہوئے ان کا دیوان چھپا ہوا بِکتا ہے۔

(۳) والا جاہ میر علی اوسط رشکؔ، جن کی طبیعت کی آمد ضحیم اور جسیم دیوانوں میں نہیں سماتی اور شاعری کی سرکار سے تاریخیں کہنے کا ٹھیکہ ملا۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۵۹

(4) شیخ امداد علی بحر ہر چند زمانہ نے غریبی کی خاک سے سر اُٹھانے نہیں دیا مگر طبیعت بڑھاپے میں جوانی کی اکڑ تکڑ دکھاتی رہی۔ آخر میں آ کر اقبال نے رفاقت کی، نواب صاحب رام پور کی سرکار میں آ کر چند سال آرام سے بسر ہوئے۔ حقیقت میں وہی ایک شاگرد تھے، جو اب اُستاد کے لیے باعثِ فخر تھے۔

(5) سیّد اسمٰعیل حسین منیرؔ شکوہ آبادی کہن سال مشاق تھے، پہلے نواب باندہ کی سرکار میں تھے۔ 1857ٰء کے مفسدہ کے بعد چند روز بہت تکلیف اٹھائی، پھر نواب صاحب رام پور نے قدردانی فرمائی، چند سال عمر کے باقی تھے۔ اچھی طرح بسر کئے اور عالم آخرت کا سفر کیا۔

(6) آغا کلب حسین خان نادرؔ سب سے آخیر میں ہیں۔ مگر افراط شوق اور آمد مضامین اور کثرتِ تصانیف اور پابندی اصول میں سب سے اوّل ہیں۔ تمام عمر انھوں نے ڈپٹی کلکڑی کی اور حکومت کے شغلوں میں گرفتار رہے۔ مگر فکر شعر سے کبھی غافل نہ ہوئے۔ جس ضلع میں گئے مشاعرہ کو اپنے ساتھ لیتے گئے۔ شعراء کے ساتھ خواہ سرکاری نوکریوں سے خواہ اپنے پاس سے ہمیشہ سلوک کرتے رہے اور اسی عالم میں یہ بھی کہا۔

لوگ کہتے ہیں کہ فنِ شاعری منحوس ہے
شعر کہتے کہتے میں ڈپٹی کلکٹر ہو گیا​

ان کے کئی ضخیم دیوان غزلوں، قصیدوں، سلاموں اور مرثیوں کے ہیں۔ کئی کتابیں اور رسائل ہیں جن سے طالب زبان بہت کچھ فائدے حاصل کر سکتا ہے۔ ایک کتاب فن زراعت میں لکھی، اس میں ہندوستان کے میووں
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۶۰

اور ترکاریوں کی مفصل تحقیقات ہے، بسبب دیرینہ سالی کے سرکار سے پنشن لے لی تھی، پھر بھی شاعری کا فرض اسی طرف ادا کئے جاتے تھے، خوش اعتقادی اُن کی قابل رشک تھی۔ یعنی وصیت کی تھی کہ بعد وفات میرے ایک ہاتھ میں سلاموں اور مرثیوں کا دیوان دینا اور دوسرے ہاتھ میں قصائد کا دیوان رکھ دینا جو بزرگان دین کی مدح میں کہے ہیں۔

ان لوگوں نے اور ان کے بعض ہمعصروں نے زبان کے باب میں اکثر قیدیں واجب سمجھیں کہ دلّی کے مستند لوگوں نے بھی ان میں سے بعض بعض باتوں کی رعایت اختیار کی اور بعض میں اختلاف کرتے تھے اور عام لوگ خیال بھی نہ کرتے تھے مگر اصل واضع ان قوانین کے میر علی اوسط رشک تھے۔ چنانچہ کچھ الفاظ نمونے کے طور پر لکھنے ہیں مثلاً فرماتے تھے۔

یہاں، وہاں، بروزن جاں نہ ہو، بروزن جہاں ہو، لیکن تعجب یہ ہے کہ شیخ صاحب اور خواجہ صاحب کوئی اس کے پابند نہ تھے۔

پہ|اور|پر||پر کو وجوباً اختیار کیا|
رکھا||رکھا|میں|رکھا|ایضاً
تلک|اور|تک|میں|تک|"
بٹھانا||پنھانا|میں|بیٹھانا - پہنانا|"
کبھو|اور|کبھی|میں|کبھی|"
ایجاد اور کلام||مذکّر||(بعض مؤنث کہتے ہیں) |"
طرز||مؤنث||مذکّر بولتے ہیں|
صُلح ہو گئی||||صلح ہو گئی|
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۶۱

اس باب میں، اس بارہ میں غدر سے پہلے دلّی میں نہ بولتے تھے۔ اب سب بولنے لگے، آئے ہے، جائے ہے کی جگہ آتا ہے، جاتا ہے، اب دلّی والے بھی یہی کہنے لگے۔ صورت سے جیسے چودھویں کا چاند، جانے چودھویں کا چاند ہے، فسانہ عجائب میں ہے شعلہ، وغیرہ کو دربا اور صحرا کا قافیہ نہیں باندھتے۔

غزلیات

پونچھتا اشک اگر گوشہ داماں ہوتا
چاک کرتا میں جنوں میں جو گریباں ہوتا

مال ملتا جو فلک سے ضرر جاں ہوتا
سر نہ ہوتا جو میسّر مجھے ساماں ہوتا

منھ کو دامن سے چھپا کر جو وہ رقصاں ہوتا
شعلہ حُسن چراغِ تہِ داماں ہوتا

اپنے ہونٹوں سے جو اک بار لگا لتا وہ
ہے یقیں ساغرِ مے چشمہ حیواں ہوتا

اُسترا منھ پہ جو پھرنے نہیں دیتا ہے بجا
محو دیں دار سے کیونکر خط قراں ہوتا

نازک ایسا ہے وہ کافر وہیں ہوتا بدمست
گذر اس کا جو کبھی زیر مغیلاں ہوتا

سنگِ چقماق بھی بنتا تو مرا ضبط یہ ہے
نہ مری قبر کا پتّھر شرر افشاں ہوتا

ہوں وہ وحشی کہ اگر دشت میں پھرتا شب کو
آگے مشعلچی وہی غول بیاباں ہوتا

نگہتِ کاکلِ پیچاں سے جو دیتے تشبیہ
عطر مجموعے کا ہر جزو پریشاں ہوتا

کی مکافاتِ شب وصل خدا نے ورنہ
کس لئے مجھ پر عذابِ شب ہجراں ہوتا
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top