شمشاد
لائبریرین
صفحہ ۴۸۲
چھوٹی چھوٹی کہانیاں ہیں صاف صاف باتیں ہیں اس پر آج تک اس کا جواب نہیں، مینا بازار اور پنج رقعہ کے انداز میں صدہا کتابیں موجود ہیں۔ اس معاملہ میں غور کے بعد یہ معلوم ہوا کہ جو بزرگ خیال بندی اور نازک خیالی کے چمن میں ہوا کھاتے ہیں اول ان کا مطلب ہوتا ہے کہ ایسے نئے مضمون نکالیں جو اب تک کسی نے نہ باندھے ہوں لیکن جب متقدمین کے اشعار سے کوئی بات بچی ہوئی نہیں دیکھتے تو ناچار انہی کے مضامین میں باریکیاں نکال کر موشگافیاں کرتے ہیں، اور ایسی ایسی لطافتیں اور نزاکتیں نکالتے ہیں کہ غور سے خیال کریں تو نہایت لطف حاصل ہوتا ہے۔ پھولوں کو پھینک کر فقط رنگِ بے گل سے کام لیتے ہیں۔ آئینہ سے صفائی اتار لیتے ہیں۔ تصویر آئینہ میں سے حیرت نکال لیتے ہیں اور آئینہ پھینک دیتے ہیں۔ نگاہ سرمگیں سے عرف بے آواز کے ساتھ گفتگو کرتے ہیں۔ فی الحقیقت اِن مضامین سے کلاموں میں خیالی نزاکت اور لطافت سے تازگی پیدا ہو جاتی ہے اور لوگ بھی تحسین اور آفرین کے لئے مستعد ہو جاتے ہیں مگر مشکل یہ ہے کہ ان کے ادا کرنے کو الفاظ ایسے نہیں بہم پہنچتے کہ کہنے والا کہے اور سمجھنے والا صاف سمجھ جائے۔ اس لئے ایسے کلام پر اثر اور ناخن برجگہ نہیں ہوتے۔ بڑا افسوس یہ ہے کہ اس انداز میں عمومی مطالب ادا نہیں ہو سکتے۔ بے شک بہت مشکل کام ہے۔ مگر اس کی مثال ایسی ہے گویا چنے کی دال پر مصّور نے ایک شکار گاہ کی تصویر کھینچ دی یا چاول پر خوشنویس نے قل ھو اللہ لکھ دیا۔ فائدہ دیکھو تو کچھ بھی نہیں، اسی
چھوٹی چھوٹی کہانیاں ہیں صاف صاف باتیں ہیں اس پر آج تک اس کا جواب نہیں، مینا بازار اور پنج رقعہ کے انداز میں صدہا کتابیں موجود ہیں۔ اس معاملہ میں غور کے بعد یہ معلوم ہوا کہ جو بزرگ خیال بندی اور نازک خیالی کے چمن میں ہوا کھاتے ہیں اول ان کا مطلب ہوتا ہے کہ ایسے نئے مضمون نکالیں جو اب تک کسی نے نہ باندھے ہوں لیکن جب متقدمین کے اشعار سے کوئی بات بچی ہوئی نہیں دیکھتے تو ناچار انہی کے مضامین میں باریکیاں نکال کر موشگافیاں کرتے ہیں، اور ایسی ایسی لطافتیں اور نزاکتیں نکالتے ہیں کہ غور سے خیال کریں تو نہایت لطف حاصل ہوتا ہے۔ پھولوں کو پھینک کر فقط رنگِ بے گل سے کام لیتے ہیں۔ آئینہ سے صفائی اتار لیتے ہیں۔ تصویر آئینہ میں سے حیرت نکال لیتے ہیں اور آئینہ پھینک دیتے ہیں۔ نگاہ سرمگیں سے عرف بے آواز کے ساتھ گفتگو کرتے ہیں۔ فی الحقیقت اِن مضامین سے کلاموں میں خیالی نزاکت اور لطافت سے تازگی پیدا ہو جاتی ہے اور لوگ بھی تحسین اور آفرین کے لئے مستعد ہو جاتے ہیں مگر مشکل یہ ہے کہ ان کے ادا کرنے کو الفاظ ایسے نہیں بہم پہنچتے کہ کہنے والا کہے اور سمجھنے والا صاف سمجھ جائے۔ اس لئے ایسے کلام پر اثر اور ناخن برجگہ نہیں ہوتے۔ بڑا افسوس یہ ہے کہ اس انداز میں عمومی مطالب ادا نہیں ہو سکتے۔ بے شک بہت مشکل کام ہے۔ مگر اس کی مثال ایسی ہے گویا چنے کی دال پر مصّور نے ایک شکار گاہ کی تصویر کھینچ دی یا چاول پر خوشنویس نے قل ھو اللہ لکھ دیا۔ فائدہ دیکھو تو کچھ بھی نہیں، اسی