آب حیات - مولانا محمد حسین آزاد (مرحوم)

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۸۲

چھوٹی چھوٹی کہانیاں ہیں صاف صاف باتیں ہیں اس پر آج تک اس کا جواب نہیں، مینا بازار اور پنج رقعہ کے انداز میں صدہا کتابیں موجود ہیں۔ اس معاملہ میں غور کے بعد یہ معلوم ہوا کہ جو بزرگ خیال بندی اور نازک خیالی کے چمن میں ہوا کھاتے ہیں اول ان کا مطلب ہوتا ہے کہ ایسے نئے مضمون نکالیں جو اب تک کسی نے نہ باندھے ہوں لیکن جب متقدمین کے اشعار سے کوئی بات بچی ہوئی نہیں دیکھتے تو ناچار انہی کے مضامین میں باریکیاں نکال کر موشگافیاں کرتے ہیں، اور ایسی ایسی لطافتیں اور نزاکتیں نکالتے ہیں کہ غور سے خیال کریں تو نہایت لطف حاصل ہوتا ہے۔ پھولوں کو پھینک کر فقط رنگِ بے گل سے کام لیتے ہیں۔ آئینہ سے صفائی اتار لیتے ہیں۔ تصویر آئینہ میں سے حیرت نکال لیتے ہیں اور آئینہ پھینک دیتے ہیں۔ نگاہ سرمگیں سے عرف بے آواز کے ساتھ گفتگو کرتے ہیں۔ فی الحقیقت اِن مضامین سے کلاموں میں خیالی نزاکت اور لطافت سے تازگی پیدا ہو جاتی ہے اور لوگ بھی تحسین اور آفرین کے لئے مستعد ہو جاتے ہیں مگر مشکل یہ ہے کہ ان کے ادا کرنے کو الفاظ ایسے نہیں بہم پہنچتے کہ کہنے والا کہے اور سمجھنے والا صاف سمجھ جائے۔ اس لئے ایسے کلام پر اثر اور ناخن برجگہ نہیں ہوتے۔ بڑا افسوس یہ ہے کہ اس انداز میں عمومی مطالب ادا نہیں ہو سکتے۔ بے شک بہت مشکل کام ہے۔ مگر اس کی مثال ایسی ہے گویا چنے کی دال پر مصّور نے ایک شکار گاہ کی تصویر کھینچ دی یا چاول پر خوشنویس نے قل ھو اللہ لکھ دیا۔ فائدہ دیکھو تو کچھ بھی نہیں، اسی
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۸۳

واسطے جو فہمیدہ لوگ ہیں وہ ادائے مطلب اور طرز کلام میں صفائی پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس میں کوئی نئی بات نکل آئی تو ایسے اونچے نہ جائیں گے کہ بالکل غائب ہو جائیں اور سننے والے منھ دیکھتے رہ جائیں۔ البتہ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ان ترکیبوں کی پیچیدگی اور لفظوں کی باریکی و تاریکی میں جواہرات معنی کا بھرم ہوتا ہے اور اندر سے دیکھتے ہیں تو سیدھی سی بات ہوتی ہے جسے ان کے حریف کوہ کندن اور کاہ بر آوردن کہتے ہیں مگر انصاف یہ ہے کہ دونوں لطف سے خالی نہیں۔

گلہائے رنگ رنگ سے ہے زینت چمن
اے ذوقؔ اس جہاں کو ہے زیب اختلاف سے​

شیخ صاحب کے معتقد خواجہ صاحب کے بعض الفاظ پر بھی گفتگو کرتے ہیں، چنانچہ کہتے ہیں کہ جب انہوں نے یہ شعر پڑھا۔

دختر رز مری مونس ہے مری ہمدم ہے
میں جہانگیر ہوں وہ نور جہاں بیگم ہے​

لوگوں نے کہا، حضور! بیگم ترکی لفظ ہے، اہل زبان گاف پر پیش بولتے ہیں اور زبان فارسی کا قاعدہ بھی یہی چاہتا ہے۔ یہ اس وقت بھنگیائے ہوئے بیٹھے تھے کہا کہ ہونہہ ہم ترکی نہیں بولتے۔ ترکی بولیں گے تو بیگم کہیں گے۔ اسی طرح جب انہوں نے یہ مصرع کہا۔

مصرعہ : اس خوان کی نمش کفِ مار سیاہ ہے​

لوگوں نے کہا، قبلہ! یہ لفظ فارسی اور اصل میں نمشک ہے۔ انہوں نے کہا
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۸۴

کہ جب فارس جائیں گے تو ہم بھی نمشک کہیں گے، یہاں سب نمش کہتے ہیں تو نمش ہی شعر میں باندھنا چاہیے۔

پیشگی دل کو جو دے لے وہ اسے تحصیلے
ساری سرکاروں سے ہی عشق کی سرکار جدا​

حریفوں نے کہا کہ پیشگی ترکیب فارسی سے ہے۔ مگر فارسی والوں کے استعمال میں نہیں، انھوں نے کہا کہ یہ ہمارا محاورہ ہے۔

یہاں تک تو درست ہے مگر بعض مواقع پر جوان کے حریف کہتے ہیں تو ہمیں بھی لاجواب ہونا پڑتا ہے چنانچہ دیوان میں ایک غزل ہے، صاف ہوا۔ معاف ہوا، غلاف ہوا۔ اس میں فرماتے ہیں۔

زہر پرہیز ہو گیا مجھکو
درہ درماں سے المضاف ہوا​

اس ٹھوکر کھانے کا سبب یہ معلوم ہوتا ہے کہ عوام کے تلفظ میں المضاعف جو المضاف بولا جاتا ہے وہ اس کی اصلیت کے دھوکے ہیں رہی۔

خواجہ صاحب شاید حلوا کو حلوہ سمجھتے تھے جو فرماتے ہیں۔

لعلِ شکر بار کا بوسہ میں کیوں کر نہ لوں
کوئی نہیں چھوڑتا حلوہ بے دود کو​

کفار کو بھی عوام بےتشدید بولتے ہیں چنانچہ خواجہ صاحب نے بھی کہہ دیا۔

رنگ زرد و لب خشک و مثرہ خوں آلود
کشتہ عشق ہیں ہم، ہے یہ کفارہ اپنا

لکھے ہیں سرگذشتِ دل کے مضموں بکقلم اسمیں
تماشہ قتل گہ کا ہے مطالعہ میرے دیواں کا

کشاکس دم کی مارِ آستیں کا کام کرتی ہے
دل بیتاب کو پہلو میں اک گرگِ بغل پایا​

مخالف کہتے ہیں کہ بغلی گھونسہ اردو کا محاورہ ہے۔ مار آستیں فارسی کا
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۸۵

محاورہ گرگ بغل کے لئے فارسی کی سند چاہیے۔ بے سند صحیح نہیں۔

چار ابرو میں تری حیراں ہیں سارے خوشنویس
کس قلم کا قطعہ ہے یہ کاتب تقدیر کا​

یہاں چار ابرو بمعنی چہرہ لیا ہے، محاورہ میں چار ابرو کا لفظ بغیر صفائی کے نہیں آتا جس سے مراد یہ ہے کہ ابرو اور ریش و بروت کو چٹ کر دیں۔ وہ بے نواؤں اور قلندروں کے لئے خاص ہے نہ کہ معشوق کے لئے۔ سید انشاء نے کیا خوب کہا ہے۔

اک نے نواکے لڑکے پہ مرتے ہیں شیخ جی
عاشق ہوئے ہیں واہ عجب لنڈمنڈ پر

بہار گلستاں کی ہے آمد آمد
خوشی پھرتے ہیں باغباں کیسے کیسے​

خوش پھرتے ہیں، چاہیے۔

لعب بازی کی حسرت نہ رہے اے آتش
میرے اللہ نے بازیچہ، تن مجھ کو دیا

بھلا دیکھیں تو گو بازی میں سبقت کون کرتا ہے
اِدھر ہم بھی ہیں تو سن پر اُدھر تم بھی ہو تو سن پر

ابروئے یار کا ہے سر میں جنھوں کے سودا
رقص وہ لوگ کیا کرتے ہیں تلواروں پر

نہیں غم تیغ ابروئے صنم سے قتل ہونے کا
شہادت بھی بمنزل فتح کے ہے مرد غازی کو

سودائی جان کر تری چشم سیاہ کا
ڈھیلے لگاتے ہیں مجھے دیدے غزال کے​

اس صنعت مراعات النظیر کو تکلیف زائد سمجھتے ہیں۔

حریف بعض اور قسم کے جزئیات پر بھی اعتراض کرتے ہیں۔ مثلاً خواجہ صاحب فرماتے ہیں۔

قدرت حق ہے صباحت سے تماشا ہے وہ رُخ
خالِ مشکیں دل فرعون یدبیضا ہے وہ رُخ​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۸۶

کانپتا ہے آہ سے میری رقیت روسیاہ
اژدہا فرعون کو موسٰے کا عصا معلوم ہو

چکھ کے یاقوتی لب کو تری بیخود ہوئے ہم
نشہ معجوں میں مئے ہوش ربا کا نکا

حال مستقبل نجومی اس سے کرتے ہیں بیاں
زائچہ بھی نقل ہے پیشانی تحریر کا

جو کہ قسمت میں لکھا ہے جان ہوویگا وہی
پھر عبث کاہے کو طالع آزمائی کیجیے

رات بھر آنکھوں کو اس امید پر رکھتا ہوں بند
خواب میں شاید کہ دیکھوں طالع بیدار کو
(آتشؔ)

بند آنکھیں کئے رہتا ہوں پڑا
خواب میں آئےنظر تا کوئی
(جراتؔ)

دولت عشق کا گنجینہ وہی سینہ ہے
داغ دل زخم جگر مہر و نشاں ہے کہ جو تھا
(آتشؔ)

گوہر مخزن اسرار ہما نست کہ بود
حصہ مہربداں مہر و نشانست کہ بود
(خواجہ حافظؔ)

آنکھیں نہیں ہیں چہرہ پہ تیرے فقیر کے
دو ٹھیکرے ہیں بھیک کے دیدار کے لئے
(میرؔ صاحب)

کاسہ چشم لے کے جوں نرگس
ہم نے دیدار کی گدائی کی​

ان کے کلام میں بھی بعض الفاظ ایسے ہیں جو دلّی اور لکھنؤ کی زبان میں یورپ پچھم کا فرق دکھاتے ہیں۔ دلّی والے اندھیری کہتے ہیں اور انہوں نے اندھیاری باندھا ہے چنانچہ کئی شعر ناسخ کے حال میں لکھے گئے۔

خواجہ صاحب فرماتے ہیں۔

بلند و پست عالم کا بیاں تحریر کرتا ہے
قلم ہے شاعروں کا یا کوئی رہرو ہے بیہڑ کا​

بہیڑ کا لفظ دلی میں مستعمل نہیں۔ بل بے دلّی کے شعرا باندھتے تھے۔ آج کل کے لوگ اس کو بھی متروک سمجھتے ہیں، مگر خواجہ صاحب فرماتے ہیں۔

خانہ خراب نالوں کی بل بے شرارتیں
بہتی ہیں پانی ہو ہو کے سنگیں عمارتیں​

متاخرین لکھنؤ اور دہلی کے فارسی جمع کہ بے اضافت یا صفت کے نہیں
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۸۷

لاتے۔ مگر یہ اکثر باندھتے ہیں۔ دیکھو اشعار مفصلہ ذیل :

رفتگاں کا بھی خیال اے اہل عالم چاہیے
عالم ارواح سے صحبت کوئی دم چاہیے

رہگذر میں دفن کرنا اے عزیزاں تم مجھے
شاید آ جائے کسی کے مرا مدفن زیر پا

بھاگو نہ مجھ کو دیکھ کے بے اختیار دور
اے کو دکاں ابھی تو ہے فصل بہار دور

کیا نفاق انگیز ہمہنباں ہوائے دہر ہے
نیند اڑ جاتی ہے سننے سے جو نفیر خواب کو

روز و شب رویا میں آتشؔ رفتگاں کی یاد میں
عمر بھر آنکھیں نہ بھولیں صورت احباب کو

عہد طفلی میں بھی تھا میں بسکہ سودائی مزاج
بیڑیاں منت کی بھی پہنیں تو میں نے بھاریاں

اے خط اس کے گورے گالوں پر یہ تو نے کیا کیا
چاندنی راتیں یکایک ہو گئیں اندھیاریاں​

صفت کو اس طرح موصوف کی مطابقت کے لئے جمع کرنا اب خلاف فصاحت سمجھتے ہیں۔ ایک دفعہ میر تقی کے ہاں مشاعرہ میں خواجہ صاحب نے غزل پڑھی کہ شکم کے مضمون میں موج بحر کافور، باندھا تھا طالب علی خاں عیشیؔ نے وہیں ٹوکا، انہوں نے جواب دیا کہ میاں ابھی مدت چاہیے۔ دیکھو تو سہی جامیؔ کیا کہتا ہے۔

ووپتانش بہم چوں قبر نور
حبابے خواستہ از بحر کافور​

ساتھ ہی میر مشاعرہ سے کہا کہ اب کی دفعہ یہی طرح ہو

یہ بزم وہ ہے کہ لا خیر کا مقام نہیں
ہمارے گنجفہ میں بازی غلام نہیں​

وہ بچارے بھی کسی کے متنبےٰ تھے۔ اسی مطلع کو یار لوگوں نے شیخ ناسخ کے گلے باندھا۔ کتب تواریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ شعرا جو شاگردان الہٰی ہیں، مجازی استادوں کے ساتھ ان کی بگڑتی چلی آئی ہے۔ چنانچہ
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۹۰

بھی سنے گئے جو کلیات مروجہ میں نہیں ہیں۔ سبب یہ معلوم ہوا کہ ایک صاحب اس زمانہ میں نہایت خوش مذاق اور صاحب فہم تھے، جو خود شاعر تھے اور ان کے ہاں بڑی دھوم دھام سے مشاعرہ ہوتا تھا۔ خواجہ صاحب بھی جاتے تھے اور مشاعرہ میں غزل پڑھ کر وہیں دے آتے تھے۔ بعد انتقال کے جب شاگرد دیوان مرتب کرنے لگے تو بہت سی غزلیں انھیں میر مشاعرہ سے حاصل ہوئیں۔ خدا جانے عمداً یا ان کی بے اعتنائی سے بعض اشعار دیوان میں نہ آئے۔ لیکن چونکہ وہ شاگرد شیخ ناسخؔ کے تھے اس لیئے بدگمانی لوگوں کو گنہگار کرتی ہے۔

جب شیخ ناسخؔ کا انتقال ہوا تو خواجہ صاحب نے ان کی تاریخ کہی اور اس دن سے شعر کہنا چھوڑ دیا کہ کہنے کا لطف سننے اور سنانے کے ساتھ ہے۔ جس شخص سے سنانے کا لطف تھا جب وہ نہ رہا تو اب شعر کہنا نہیں بکواس ہے۔

حالات سے معلوم ہوتا ہے کہ طبیعت کی آزادی اور کلام کے کمال نے ظاہر آرائی کے ذوق و شوق سے بے پرواہ کر دیا تھا مگر مزاج میں ظرافت ایسی تھی کہ ہر قسم کا خیال لطائف و ظرائف ہی میں ادا ہوتا تھا۔

لطیفہ : ایک شاگرد اکثر بے روزگاری کی شکایت سے سفر کا ارادہ ظاہر کیا کرتے تھے اور خواجہ صاحب اپنی آزاد مزاجی سے کہا کرتے تھے کہ میاں کہاں جاؤ گے؟ دو گھڑی مل بیٹھنے کو غنیمت سمجھو، اور جو خدا دیتا ہے اس پر صبر کرو، ایک دن وہ آئے اور کہا کہ حضرت! رخصت کو آیا ہوں۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۹۱

فرمایا خیر باشد کہاں؟ انھوں نے کہا کل بنارس کو روانہ ہوں گا۔ کچھ فرمائش ہو تو فرما دیجیے۔ آپ ہنس کر بولے اتنا کام کرنا کہ وہاں کے خدا کو ہمارا سلام کہدینا۔ وہ حیران ہو کر بولے کہ حضرت! یہاں اور وہاں کا خدا کوئی جدا ہے؟ فرمایا کہ شاید یہاں کا خدا بخیل ہے وہاں کا کچھ سخی ہو۔ انھوں نے کہا معاذ اللہ آپ کے فرمانے کی یہ بات ہے؛ خواجہ صاحب نے کہا بھلا سنو تو سہی، جب خدا وہاں یہاں ایک ہے تو پھر ہمیں کیوں چھوڑتے ہو۔ جس طرح اس سے وہاں جا کر مانگو گے اسی طرح یہاں مانگو۔ جو وہاں دے گا تو یہاں بھی دے گا۔ اس بات نے ان کے دل پر ایسا اثر کیا کہ سفر کا ارادہ موقوف کیا اور خاطر جمعی سے بیٹھ گئے۔

خواجہ صاحب کی سیدھی سادی طبیعت اور بھولی بھالی باتوں کے ذکر میں میر انیسؔ مرحوم نے فرمایا کہ ایک دن آپ کو نماز کا خیال آیا، کسی شاگرد سے کہا بھئی ہمیں نماز تو سکھاؤ، وہ اتفاقاً فرقہ سنت جماعت سے تھا۔ اس نے ویسی ہی نماز سکھا دی اور یہ کہہ دیا کہ استاد! عباد الہٰی جتنی پوشیدہ ہو اتنی ہی اچھی ہوتی ہے جب نماز کا وقت ہوتا تو حجرہ میں جاتے یا گھر کا دروازہ بند کر کے اسی طرح نماز پڑھا کرتے۔ میر دوست علی خلیل ان کے شاگرد خاص اور جلوت و خلوت کے حاضر باش تھے ایک دن انھوں نے بھی دیکھ لیا، بہت حیران ہوئے۔ یہ نماز پڑھ چکے تو انھوں نے کہا کہ استاد! آپ کا مذہب کیا ہے؟ فرمایا شیعہ ہیں! یہ کیا پوچھتے ہو، انھوں نے کہا کہ نماز سنیوں کی؟ فرمایا بھئی میں کیا جانوں، فلاں شخص
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۹۲

سے میں نے کہا تھا، اس نے جو سکھا دی سو پڑھتا ہوں مجھے کیا خبر کہ ایک خدا کی دو دو نمازیں ہیں۔ اس دن سے شیعوں کی طرح نماز پڑھنے لگے۔ جتنے شاگرد، انھوںنے پائے کسی استاد کو نصیب نہیں ہوئے۔ ان میں سے سید محمد خاں زندؔ، میر وزیر علی صبا، میر دوست علی خلیلؔ، ہدایت علی جلیلؔ، صاحب مرزا ثناورؔ، مرزا عنایت علی بسملؔ، نادر مرزا فیض آبادی نامور شاگرد تھے کہ رتبہ استادی رکھتے تھے۔

غزل

سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا
کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا

کیا کیا الجھتا ہے تیری زلفوں کے تار سے
بخیہ طلب ہے سینہ صد چاک شانہ کیا

زیر زمیں سے آتا ہے جو گل سوز بکف
قاعدوں نے راستہ میں لٹایا خزانہ کیا

اڑتا ہے شوقِ راحت منزل سے اسپ عمر
مہمیز کس کو کہتے ہیں اور تازیانہ کیا

زینہ صبا کو ڈھونڈتی ہے اپنی مشت خاک
بام بلند یار کا ہے آستانہ کیا

چاروں طرف سے صورت جاناں ہو جلوہ گر
دل صاف ہو ترا تو ہے آئینہ خانہ کیا

صیاد اسیرِ دام رگ گل ہے عندلیب
دکھلا رہا ہے چھپ کے اسے آب و دانہ کیا

طبل و علم ہی پاس ہے اپنے نہ ملک و مال
ہم سے خلاف ہو کے کرے گا زمانہ کیا

آتی ہے کس طرح سے مری قبض روح کو
دیکھوں تو موت ڈھونڈ رہی ہے بہانہ کیا

ہوتا ہے زر و سن کے جو نا مرد مدعی
رستم کی داستاں ہے ہمارا فسانہ کیا

بے یار ساز گار نہ ہو گا وہ گوش کو
مطرب ہمیں سناتا ہے اپنا ترانہ کیا

صیاد گل غدار دکھاتا ہے سیرِ باغ
بلبل قفس میں یاد کرے آشیانہ کیا
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۹۳

ترچھی نظر سے طائرِ دل ہو چکا شکار
جب تیر کج پڑے گا اڑے گا نشانہ کیا

بیتاب ہے کمال ہمارا دل حزیں
مہماں، سرائے جسم کا ہو گا ردانہ کیا

یاں مدعی حسد سے نہ دے داد تو نہ نہ دے
آتشؔ غزل یہ تو نے کہی عاشقانہ کیا

(غزل لاجواب ہے مگر مقطع میں جو کیا کیا پہلو رکھا ہے اس کی جگہ یہ نہیں۔ انصاف اس کا میر انیسؔ مرحوم کے خاندان کی زبان پر ہے۔)
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

خانہ خراب نالوں کی بل بے شرارتیں
بہتی ہیں پانی ہو ہو کے سنگیں عمارتیں

سر کونسا ہے جس میں کہ سودا ترا نہیں
ہوتی ہیں تیرے نقش قدم کی زیارتیں

خانہ ہے گنجفہ کا ہر اک قصرِ شہر عشق
گھر گھر میں بادشاہیاں گھر گھر وزارتیں

دیدار یار برق تجّلیٰ سے کم نہیں
بند آنکھیں ہوں گی دینگی دعائیں بصارتیں

آنکھوں میں اپنی دولت بیدار ہیں وہ خواب
ہوتی ہیں تیرے وصل کی جن میں بشارتیں

کہتے ہیں مادر و پدر مہرباں کو بد
کرتے ہیں وہ جو ارض و سما کی حقارتیں

گویا زبان ہو تو کرے شکر آدمی
سمجھے جو تو، تو کرتے ہیں یہ گنگ اشارتیں

زیر زمیں بھی یاد ہیں ہفت آسماں کے ظلم
بھولا نہیں میں سنگ دلوں کی شرارتیں

خضر و مسیح کاٹتے ہیں رشک سے گلا
تو بھی تو کر شہیدوں کی اپنے زیارتیں

عالم کو لوٹ کھایا ہے اک پیٹ کے لئے
اس غار میں گئی ہیں ہزاروں ہی غارتیں

باقی رہے گا نام ہمارا نشاں کے ساتھ
اپنی بھی چند بیتیں ہیں اپنی عمارتیں

اہل جہاں کا حال ہے کیا ہم سے کیا کہیں
بدگوئیاں ہیں پیچھے تو منھ پر اشارتیں

نقش و نگار حسنِ بتاں کا نہ کھا فریب
مطلب سے خالی جان لے تو یہ عبارتیں
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۹۴

عاشق ہیں، ہم کو مدنطر کرئے یا رہے
کعبہ کے حاجیوں کو مبارک، زیارتیں

ایسی خلاف ہم سے ہوئی ہے ہوائے دہر
کافور کھائیے تو ہوں پیدا حرارتیں

آتش یہ شش جہت ہے مگر کوچہ یار کا
چاروں طرف سے ہوتی ہیں ہم پر اشارتیں
*-*-*-*-*-*-*

باغباں انصاف پر بلبل سے آیا چاہیے
پنیحنی اس کو زر گل کی پنہایا چاہیے

پاں بھی کھاؤ جمائی ہے جو مسّی کی دھڑی
شام تو دیکھی شفق کو بھی دکھایا چاہیے

آئینے میں خطِ نورس کا نظارہ کیجیے
آہوانِ چشم کو ریحاں چرایا چاہیے

بوسہ اس لب کا ہے قوت بخش روحِ ناتواں
ایسی یاقوتی میسر ہو تو کھایا چاہیے

عشق میں حد ادب سے آگے رہتا ہے قدم
شاخ گلبن پر سے بلبل کو اڑایا چاہیے

دیکھئے کرتا ہے کیونکر یار سے گستاخیاں
شوق کے بھی حوصلے کو آزمایا چاہیے

ہو گیا ہے ایک مدت سے دِل نالاں خموش
باغ میں چل کر اسے بلبل سنایا چاہیے

فصل گل ہے چار دن ساقی تکلف ہے ضرور
پر جواہر کے بط مے کو لگایا چاہیے

فرش گل بلبل کی نیت سے بچھایا چاہیے
شمع پروانوں کی خاطر سے جلایا چاہیے

خم میں جوش مے سے مجھ کو یہ صدا ہے آ رہی
ظرفِ مستی ہو تو کیفیت اٹھایا چاہیے

حال دل کچھ کچھ کہا میں نے تو بولا سن کے یار
بس عبارت ہو چی مطلب پہ آیا چاہیے

شیر سے خالی نہیں رہتا نیستاں زنہیار
بوریائے فقر بچّھا چھوڑ جایا چاہیے

رنگ زرد و چشم تر سے کیجیے دعوائے عشق
دو گواہ حال اس قضیے کے لایا چاہیے

رام ہوتے ہی نہیں وحشی مزاجی ہے سو ہے
ان سیہ چشموں کو چوپہرہ جگایا چاہیے

دیکھ کر خلوت سرائے یار کہتے ہیں فقیر
عود کی مانند یاں دھونی رمانا چاہیے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۹۵

خاطر آتشؔ سے کہیے چند جزو شعر اور بھی
بے نشاں کا نام باقی چھوڑ جایا چاہیے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

فریبِ حسن سے گبرو مسلماں کا چلن بگڑا
خدا کی یاد بھولا شیخ بت سے برہمن بگڑا

قائے گل کو پھاڑا جب مرا گل پیرہن بگڑا
بن آئی کچھ نہ غنچے سے جو وہ غنچہ دہن بگڑا

نہیں بے وجہ ہنسنا اس قدر زخم شہیداں کا
تری تلوار کا منھ کچھ نہ کچھ اے تیغزن بگڑا

تکلف کیا جو کھوئی جان شیریں پھوڑ کر سر کو
جو غیرت تھی تو پھر خسرو سے ہوتا کوہکن بگڑا

کسی چشم سیہ کا جب ہوا ثابت میں دیوانہ
تو مجھ سے مست ہاتھی کی طرح جنگلی ہرن بگڑا

اثر اکسیر کا من قدم سے تیرے پایا ہے
جذامی خاک رہ مل کر بناتے ہیں بدن بگڑا

تری تقلید سے کبک دری نے ٹھوکریں کھائیں
چلا جب جانور انساں کی چال اس کا چلن بگڑا

زوال حسن کھلواتا ہے میوے کی قسم مجھ سے
لگایا داغ خط نے آن کر سیب ذقن بگڑا

رخ سادہ نہیں اس شوخ کا نقش عداوت ہے
نظر آتے ہی آپس میں ہر اہل انجمن بگڑا

وہ بد خو طفل اشک اے چشم تر ہیں دیکھنا اک دن
گھروندے کی طرح سے گنبد چرخ کہن بگڑا

صف مژگاں کی جنبش کا کیا اقبال نے کشتہ
شہدون کے ہوئے سالار جب ہم سے تمن بگڑا

کسی کی جب کوئی تقلید کرتا ہے میں روتا ہوں
ہنسا گل کی طرح غنچہ جہاں اس کا دہن بگڑا

کمال دوستی اندیشہ دشمن نہیں رکھتا
کسی بھونرے سے کس دن کوئی رشک یاسمن بگڑا

رہی نفرت ہمیشہ داغ عریانی کو پھاہے سے
ہوا جب قطع جامہ پر ہمارے پیرہن بگڑا

رگڑوائیں یہ مجھ سے ایڑیاں غربت میں وحشت نے
ہوا مسدود رستہ جادہ راہ وطن بگڑا

کہا بلبل نے جو توڑا گل سوسن کو گلچیں نے
الہٰی خیر کیجو نیلِ رخسار چمن بگڑا

ارادہ میرے کھانے کا نہ اے زاغ و زغن کیجیو
وہ کشتہ ہوں جسے سونگھے سے کتوں کا بدن بگڑا
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۹۶

امانت کی طرح رکھا زمین نے روز محشر تک
نہ اک مو کم ہوا اپنا نہ اک تار کفن بگڑا

جہاں خالی نہیں رہتا کبھی ایذا و ہندی سے
ہوانا سورنو پیدا اگر زخم کہن بگڑا

تونگر تھا بنی تھی جب تک اس محبوب عالم سے
میں مفلس ہو گیا جس روز سے وہ سیمتن بگڑا

لگے منھ بھی چڑھانے دیتے دیتے گالیاں صاحب
زبان بگڑی تو بگڑی تھی خبر لیجئے دہن بگڑا

بناوٹ کیف مے سے کھل گئی اس شوخ کی آتشؔ
لگا کر منھ سے پیمانے کو وہ پیماں شکن بگڑا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

شاہ نصیرؔ

نصیرؔ تخلص نصیر الدین نام تھا، مگر چونکہ رنگت کے سیاہ فام تھے، اس لئے گھرانے کے لوگ میاں کلّو کہتے تھے۔ وطن ان کا خاص دھلی تھا۔ والد شاہ غریب نام ایک بزرگ تھے کہ اپنی غربت طبع اور خاکساری مزاج کی بدولت اسم بامسمٰی غریب تھے۔ نیک نیتی کا ثمرہ تھا کہ نام کی غریبی کو امیری میں بسر کرتے تھے۔ شہر کے رئیس اور امیر سب ادب کرتے تھے مگر وہ گوشہ عاطیت میں بیٹھے اپنے معتقد مریدوں کو ہدایت کرتے رہتے تھے، ان بزرگوں کے نام چند گاؤں دربار شاہی سے آل تمغا معاف تھے۔ ملا ماجراؔ اور ہرسانہؔ علاقہ سونی پت میں سلیم پور علاقہ
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۹۷

غازی آباد میں، وزیر آباد، شہر دہلی کے پاس جہاں مخدوم شاہ عالم کی درگاہ ہے اور اب تک 7 جمادی الاول کو وہاں عرس ہوتا ہے۔ اب فقط مولر بن ایک گاؤں بلب گڑھ کے علاقہ میں سید عبد اللہ شادان کے سجادہ نشین کے نام پر واگذاشت ہے غرضکہ شاہ غریب مرحوم نے اس اکلوتے بیٹھے کو بڑی ناز و نعمت سے پالا تھا اور استاد و ادیب نوکر رکھ کر تعلیم کیا تھا۔

عجیب اتفاق ہے کہ وہ کتابی علم میں کما حقہ کامیاب نہ ہوئے، البتہ نتیجہ اسکا اہل علم سے بہتر حاصل ہے، کیونکہ جو وہ کہتے تھے اسے عالم کان لگا کر سنتے تھے جو لکھتے تھے اس پر فاضل سر دھنتے تھے، ان کی طبیعت شعر سے ایسی مناسب واقع ہوئی تھی کہ بڑے بڑے ذی استعداد اور مشاق شاعر مشاعروں میں منھ دیکھتے رہ جاتے تھے۔ سلسلہ تلمذ دو واسطہ سے سوداؔ اور دردؔ تک پہونچتا ہے کیونکہ یہ شاہ محمدی مائل کے شاگرد تھے اور وہ قیام الدین قائم کے قائم نے سوداؔ سے بھی اصلاح لی اور خواجہ میر دردؔسے بھی انھوں نے انگریزی عملداری میں زندگی بسر کی لیکن شاہ عالم کے زمانہ میں شاعری جوہر دکھانے لگی تھی اور خاندانی عضمت نے ذاتی کمال کی سفارش سے دربار تک پہونچا دیا تھا۔ دربار کے اہل کمال کو عیدوں اور جشنوں کے علاوہ ہر فصل اور موسم پر سامان مناسب انعام ہوتے تھے۔ شعراء کو دیر ہوتی تو تقاضے سے بھی وصول کر لیتے تھے۔ ایک قطعہ بطور حسن طلب جاڑے کے موسم میں انھوں نے کہہ کر دیا تھا، اور صلہ حاصل کیا تھا۔ اس کے دو شعر مجھے یاد ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۹۸

بچا ے گا تو ہی اے میرے اللہ
کہ جاڑے سے پڑا بیڈھپ ہے پالا

پناہ آفتاب اب مجھ کو بس ہے
کہ وہ مجھ کو اڑھا دے گا دوشالا​

اس میں لطف یہ ہے کہ آفتاب شاہ عالم بادشاہ کا تخلص تھا۔

سیاحی کی دولت میں سے جو سرمایہ انھیں حاصل ہوا، وہ بھی شاعری کی برکت سے تھا، جس کی مسافت جنوب میں حیدر آباد تک اور مشرق میں لکھنؤ تک پہونچی۔ اگرچہ دربار کے علاوہ تمام شہر میں بھی ان کی قدر اور عزت ہوتی تھی۔ مگر جن لوگوں کی عادتیں ایسے درباروں میں بگڑی ہوتی ہیں۔ انکے دل تعلیم یافتہ حکومتوں میں نہیں لگتے اسی واسطے جب انگریزی عملداری ہوئی تو انھیں دکن کا سفر کرنا پڑا۔

دکن میں دیوان چند دلال کا دور تھا۔ اگرچہ کمال کی قدرانی اور سخاوت ان کی عام تھی۔ مگر دلی والوں پر نظر پرورش خاص رکھتے تھے۔ اور بہت عزت سے پیش آتے تھے۔ بڑی خوش نصیبی یہ تھی کہ وہ شعر و سخن کی مذاق رکھتے تھے۔ غرض وہاں شاہ صاحب کے ضواہرات نے خاطر خواہ قیمت پائی۔ دلّی کا چٹخارا ابھی ایسا نہیں کہ انسان بھول جائے۔ اس لئے انعام و اکرام سے مالا مال ہو کر پھر دلّی آئے اور تین دفعہ پھر گئے۔

دکن میں ان کے لئے فقط دولت کے فرشتے نے ضیافت نہ کی بلکہ حسن شاعری کی زہرہ آسمان سے اتری، اور شمش دلی کے عہد کا پرتو پھر دلوں پر ڈالا۔ شعر گوئی کے شوق جو برسوں سے بجھے چراغوں کی طرح طاقوں میں پڑے تھے۔ دل دل میں روشن ہو گئے اور ماحول کی محنتیں اس
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۹۹

تیل ٹپکانے لگیں۔ اب بھی کوئ دلی سے دکن جائے تو شاہ صاحب کے شاگردوں کے نام اتنے سنے گا کہ دلّی کی کثرت تلامذہ کو بھول جائے گا۔

شاہ صاحب دو دفعہ لکھنؤ بھی گئے مگر افسوس ہے آج دہلی یا لکھنؤ میں کوئی اتنی بات کا بتانے والا نہ رہا کہ کس کس سنہ میں کہاں کہاں گئے تھے یا یہ کہ کس کس مشاعرہ میں اور کس کےمقابلہ میں کون کون سی غزل ہوئی تھی۔ اس میں شک نے کہ پہلی دفعہ جب گئے ہیں تو سید انشاء اور مصحفیؔ اور جراءتؔ وغیرہ سب موجود تھے اور بعض غزلیں جو ان معرکوں سے منسوب اور مشہور ہیں وہ مصحفیؔ کے دیوان میں بھی موجود ہیں، دیکھو صفحہ 409 دہن سرخ ترا، چمن سرخ ترا۔

یہ وہ زمانہ تھا کہ لکھنؤ میں بزرگان بااخلاق اور امرائے رتبہ شناس موجود تھے۔ وہ جوہر کو پہچانتے تھے اور صاحب جوہر کا حق مانتے تھے۔ جو جاتا تھا عزت پاتا تھا اور شکر گزار آتا لیکن دوسری دفعہ جو گئے تو رنگ پلٹا ہوا تھا۔ شیخ ناسخؔ کے زمانے کے عہد قدیم کو مسخ کر دیا تھا اور خواجہ آتشؔ کے کمال نے دماغوں کو گرما رکھا تھا۔ جوانوں کی طبیعتیں زور پر تھیں۔ نئی نئی شوخیاں انداز دکھاتی تھیں، انوکھی تراشیں پرانے سادہ پن پر مسکراتی تھیں، چنانچہ جس حریف کا افشان منزلوں کے فاصلہ سے دکھائی دیتا تھا، جب پاس آیا تو سب گردنیں ابھار ابھار دیکھنے لگے۔

یہ زبردست شاعر کہن سال مشاق، جس کا بڑھاپا جوانی کے زوروں کو چٹکیوں میں اڑاتا تھا، جس دن وہاں پہونچا تو مشاعروں میں شاید دو (۲)
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۵۰۰

تین دن باقی تھے ہر استاد نے ایک دو دو مصرع کے بھیجے ادھر انھیں درد گردہ عارض ہوا مگر وہ درد کے ٹھہرتے ہی اٹھ بیٹھے اور آٹھ غزلیں تیار کر کے مشاعرہ میں آ پہنچے، پھر اور مشکل مشکل طرحیں مشاعرہ کے شاعروں نے بھیجیں اور یہ بھی بے تکلف غزلیں لے کر پہونچے، مگر وہاں کے صاحب کمال خود نہ آئے۔ جب دو تین جلسے اور اس طرح گزرے تو ایک شخص نے سر مشاعرہ مصرع طرح دیا وہ مصرع شیخ صاحب کا تھا اسوقت شاہ صاحب سے ضبط نہ ہو سکا۔ مصرع تو لے لیا مگر اتنا کہا کہ ان سے کہنا چکس پر گلدم لڑانے کی صحیح تو نہیں ہے۔ پالی میں آئیے کہ ۔ دیکھنے والوں کو بھی مزا آئے، افسوس ہے کہ اس موقع پر بعض جہلاء نے جن سے کوئی زمانہ اور کوئی جگہ خالی نہیں اپنی یاوہ گوئی سے اہل لکھنؤ کی عالی ہمتی اور مہمان نوازی کو داغ لگایا چنانچہ ایک معرکہ کے مشاعرہ میں شاہ صاحب نے آٹھ غزلیں فرمائش کی کہہ کر پڑھی تھیں۔ ایک غزل اپنی طرح کی کہی ہوئی بھی پڑھی جس کی ردیف و قافیہ عشل کی مکھی اور نحل کی مکھی تھا، اس پر بعض اشخاص نے طنز کی، کسی شعر پر سبحان اللہ کیا خوب مکھی بیٹھی ہے، کسی نے کہا حضور! یہ مکھی تو نہ بیٹھی ایک شخص نے یہ بھی کہا کہ قبلہ! غزل تو خوب ہے مگر ردیف سے جی متلانے لگا۔ شاہ صاحب نے اسی وقت کہا کہ جنھیں چاشنی سخن کا مذاق ہے وہ تو لطف ہی اٹھاتے ہیں، ہاں جنھیں صفرائے حسد کا زور ہے ان کا جی متلائے گا۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۵۰۱

ان جلسوں میں استاد مسلم الثبوت نے علم استادی بے لاگ بلند کر دیا تھا، مگر بعض لغزشوں نے قباحت کی جن سے کوئی بشر خالی نہیں رہ سکتا چنانچہ ایک جگہ تظلم بجائے ظلم باندھ دیا تھا اسی پر سر مشاعرہ گرفت ہوئی اور غضب یہ ہوا کہ انھوں نے سند میں یہ شعر محتشم کاشیؔ کا پڑھا :

آل نبی چو دستِ تظلم بر آورند
ارکانِ عرش را بہ تزلزل در آورند​

ایسی بھول چوک سے کوئی استاد خالی نہیں اور اتنی بات ان کے کمال میں کچھ رخنہ بھی نہیں ڈال سکتی، چنانچہ زور کلامنے وہیں بیسوں اشخاص ان کے شاگرد کر لئے۔ منشی کرامت علی اظہرؔ کہ اول اول لکھنؤ کی تمام کتب مطبوعہ پر انھیں کی تاریخیں ہوتی تھیں۔ ہمیشہ شاہ صاحب کی شاگردی کا دم بھرتے تھے۔

شاہ صاحب چوتھی دفعہ پھر دکن گئے، مگر اس دفعہ ایسے گئے کہ پھر نہ آئے۔ استاد مرحوم کہ شاہ صاحب کی استادی کو ہمیشہ زبان ادب سے یاد کرتےتھے۔ اکثر افسوس سے کہا کرتے تھے کہ چوتھی دفعہ ادھر کا قصد تھا جو ہر ماہ مجھ سے ملاقات ہو گئی۔ میں نے کہا کہ اب آپ کا سن ایسے دور دراز سفر کے قابل نہیں، فرمایا میاں ابراہیم! وہ بہشت ہے، بہشت میں جاتا ہوں، چلو تم بھی چلو، استاد مرحوم عالم تاسف میں اکثر یہ بھی کہا کرتے تھے ان کا ہی مطلع ان کے حسب حال ہوا۔

بیاباں مرگ ہے مجنونِ خاک آلودہ تن کس کا
سنے ہے سوزنِ خار مغیلاں تو کفن کس کا​
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top