شمشاد
لائبریرین
صفحہ ۴۶۲
اپنی صورت کا وہ دیوانہ نہ ہوتا تو کیوں
پاؤں میں سلسلہ گیسوئے پیچاں ہوتا
ایک دم یار کو بوسوں سے نہ ملتی فرصت
گر دہن دیدہ عالم سے نہ پنہاں ہوتا
کیسی پریاں؟ شہِ جنات کو بھی آٹھ پہر
ہے یہ حسرت کہ سگِ کوچہ جاناں ہوتا
خوں رُلاتا وہیں ناسور بنا کر گردوں
زخم بھی گر مرے تن پر کبھی خنداں ہوتا
اب اجل ایک دن آخر تجھے آنا ہے ولے
آج آتی شب فرقت میں تو احساں ہوتا
کون ہے جو نہیں مرتا ہے تری قامت پر
کیوں نہ ہر سروِ چمن قالب بیجاں ہوتا
کیا قوی ہے یہ دلیل اس کی پریزادی کی
ربف انسان سے کرتا جو وہ انساں ہوتا
اے بتو! ہوتی اگر مہر و محبت تم میں
کوئی کافر بھی نہ واللہ مسلماں ہوتا
حسرتِ دل نہیں دیتا ہے نکلنے ناسخؔ
ہاتھ شل ہوتے میسّر جو گریباں ہوتا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
دم بلبل اسیر کا تن سے نکل گیا
جھونکا نسیم کا جو ہیں سَن سے نِکل گیا
لایا وہ ساتھ غیر کو میرے جنازہ پر
شعلہ سا ایک جیبِ کفن سے نکل گیا
ساقی بغیر شب جو پیا آب آتشیں
شعلہ وہ بن کے میرے دہن سے نکل گیا
اب کی بہار میں یہ ہوا جوش اے جنوں
سارا لہو ہمارے بدن سے نکل گیا
اس رشکِ گل کے جاتے ہی بس آ گئی خزاں
ہر گل بھی ساتھ بو کے چمن سے نکل گیا
اہلِ زمیں نے کیا سِتم نو کیا کوئ؟
نالہ جو آسمانِ کہن سے نکل گیا
سنسان مثل وادی غربت ہے لکھنؤ
شاید کہ ناسخؔ آج وطن سے نکل گیا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
واعظا مسجد سے اب جاتے ہیں میخانے کو ہم
پھینک کر ظرفِ وضو لیتے ہیں پیمانے کو ہم
پاؤں میں سلسلہ گیسوئے پیچاں ہوتا
ایک دم یار کو بوسوں سے نہ ملتی فرصت
گر دہن دیدہ عالم سے نہ پنہاں ہوتا
کیسی پریاں؟ شہِ جنات کو بھی آٹھ پہر
ہے یہ حسرت کہ سگِ کوچہ جاناں ہوتا
خوں رُلاتا وہیں ناسور بنا کر گردوں
زخم بھی گر مرے تن پر کبھی خنداں ہوتا
اب اجل ایک دن آخر تجھے آنا ہے ولے
آج آتی شب فرقت میں تو احساں ہوتا
کون ہے جو نہیں مرتا ہے تری قامت پر
کیوں نہ ہر سروِ چمن قالب بیجاں ہوتا
کیا قوی ہے یہ دلیل اس کی پریزادی کی
ربف انسان سے کرتا جو وہ انساں ہوتا
اے بتو! ہوتی اگر مہر و محبت تم میں
کوئی کافر بھی نہ واللہ مسلماں ہوتا
حسرتِ دل نہیں دیتا ہے نکلنے ناسخؔ
ہاتھ شل ہوتے میسّر جو گریباں ہوتا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
دم بلبل اسیر کا تن سے نکل گیا
جھونکا نسیم کا جو ہیں سَن سے نِکل گیا
لایا وہ ساتھ غیر کو میرے جنازہ پر
شعلہ سا ایک جیبِ کفن سے نکل گیا
ساقی بغیر شب جو پیا آب آتشیں
شعلہ وہ بن کے میرے دہن سے نکل گیا
اب کی بہار میں یہ ہوا جوش اے جنوں
سارا لہو ہمارے بدن سے نکل گیا
اس رشکِ گل کے جاتے ہی بس آ گئی خزاں
ہر گل بھی ساتھ بو کے چمن سے نکل گیا
اہلِ زمیں نے کیا سِتم نو کیا کوئ؟
نالہ جو آسمانِ کہن سے نکل گیا
سنسان مثل وادی غربت ہے لکھنؤ
شاید کہ ناسخؔ آج وطن سے نکل گیا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
واعظا مسجد سے اب جاتے ہیں میخانے کو ہم
پھینک کر ظرفِ وضو لیتے ہیں پیمانے کو ہم