آب حیات - مولانا محمد حسین آزاد (مرحوم)

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۵۴۲

شبنم ہو کر برسا کہ شادابی کو کمہلاہٹ کا اثر نہ پہنچے۔ ملک الشعرانی کا سِکہ اس کے نام سے موزوں ہوا اور اس کے طغرائے شاہی میں یہ نقش ہوا کہ اس پہ نظم اردو کا خاتمہ کیا گیا۔ چناں چہ اب ہرگز امید نہیں کہ ایسا قادر الکلام پھر ہندوستان میں پیدا ہو۔ سبب اس کا یہ ہے کہ جس باغ کا بلبل تھا وہ باغ برباد ہو گیا نہ ہمصفیر رہے نہ ہم دوستاں رہے، نہ اس بولی کے سمجھنے والے رہے جو خراب آباد اس زبان کے لئے ٹکسال تھے وہاں بھانت بھانت کا جانور بولتا ہے، شہر چھاونی سے بدتر ہو گیا۔ امراء کے گھرانے تباہ ہو گئے، گھرانوں کے وارث علم و کمال کے ساتھ روٹی سے محروم ہو کر حواس کھو بیٹھے، وہ جادو کار طبیعتیں کہاں سے آئیں جو بات بات میں دل پسند انداز اور عمدہ تراشیں نکالتی تھیں، آج جن لوگوں کو زمانہ کی فارغ البالی نے اس قسم کے ایجاد و اختراع کی فرصتیں دی ہیں وہ اور اصل کی شاخیں۔ انھوں نے اور پانی سے نشو و نما پائی ہے۔ وہ اور ہی ہواؤں میں اڑ رہے ہیں۔ پھر اس زبان کی ترقی کا کیا بھروسہ۔ کیسا مبارک زمانہ ہو گا جب کہ شیخ مرحوم اور میرے والد مغفور ہم عمر ہونگے۔ تحصیل علمی ان کی عمروں کی طرح حالت طفولیت میں ہو گی۔ صرف و نحو کی کتابیں ہاتھوں میں ہوں گی اور ایک استاد کے دامن شفقت میں تعلیم پاتے ہوں گے۔ ان نیک نیت لوگوں کی ہر ایک بات استقلال کی بنیاد پر قائم ہوتی تھی، وہ رابطہ ان کا عمروں کے ساتھ ساتھ بڑھتا گیا اور اخیر وقت تک ایسا نبھ گیا کہ قرابت سے بھی زیادہ تھا۔ ان کے تحریر حالات
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۵۴۳

بعض باتوں کے لکھنے کو لوگ فضول سمجھیں گے مگر کیا کروں جی یہی چاہتا ہے کہ کوئی حرف اس گراں بہاں داستان کا نہ چھوڑوں۔ پہ اس سبب سے کہ اپنے پیارے اور پیار کرنے والے بزرگ کی ہر بات پیاری ہوتی ہے، ۔۔۔۔ نہیں! اس شعر کے تیلے کا ایک رونگٹا بھی بیکار نہ تھا۔ ایک صنعت کاری ۔۔۔۔ کل میں کون سے پرزے کہ کہہ سکتے ہیں کہ نکال ڈالو۔ یہ کام کا نہیں اور کون سی حرکت اس کی ہے جس سے حکمت زنگیز فائدہ نہیں پہنچتا ہے۔ اسی واسطے میں لکھوں گا اور سب کچھ لکھوں گا، جو بات ان کے سلسلہ حالات میں مسلسل ہو سکے گی ایک حرف نہ چھوڑوں گا۔ شیخ مرحوم کے والد شیخ محمد رمضان ایک غریب سپاہی تھے، مگر زمانہ کے تجربہ اور بزرگوں کی صحبت نے انھیں حالات زمانہ سے ایسا باخبر کیا تھا کہ ان کی زبانی باتیں کتب تاریخ کے قیمتی سرمائے تھے۔ وہ دلّی میں کابلی دروازہ کے پاس رہتے تھے اور نواب لطف علی خاں نے انھیں معتبر اور بالیاقت شخص سمجھ کر اپنی حرم سرا کے کاروبار سپرد کر رکھے تھے۔ شیخ علیہ الرحمۃ ان کے اکلوتے بیٹے تھے کہ ۱۲۰۴ ہجری میں پیدا ہوئے۔ اس وقت کسے خبر ہو گی کہ اس رمضان سے وہ چاند نکلے گا جو آسمانِ سخن پر عید کا چاند ہو کر چمکے گا۔ جب پڑھنے کے قابل ہوئے تو حافظ غلام رسول نامی ایک شخص بادشاہی حافط ان کے گھر کے پاس رہتے تھے۔ محلے کے اکثر لڑکے انہی کے پاس پڑھتے تھے۔ انھیں بھی وہیں بٹھا دیا۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۵۴۴

حافظ غلام رسول شاعر بھی تھے، شوق تخلص کرتے تھے۔ نمونہ کلام یہ ہے :

مزا انگور کا ہے رنگترے میں
عسل زنبور کا ہے رنگترے میں

ہیں اثماء ہلالی اس کی پھانکیں
یہ مضموں دور کا ہے رنگترے میں

نہیں ہے اس کی پھانکوں میں یہ زیرا
یہ لشکر مور کا ہے رنگترے میں

ہے گلگونِ مجسم یا بھرا خون
کسی مہجور کا ہے رنگترے میں

مزاج اب جس کا صفراوی ہے اے شوقؔ
دل اس رنجور کا ہے رنگترے میں
*-*-*-*-*-*-*

لکھا ہوا ہے تھا یہ اس مہ جبیں کے پردے پر
نہیں ہے کوئی اب ایسا زمیں کے پردے پر

کزلکِ مژگاں چشم ستمگر آ کے جگر میں کُھوپ چلی
آہ کی ہمدم ساتھ ادھر سے جنگ کو اپنے دھوپ چلی

وعدہ کیا تھا شام کا مجھسے شوقؔ جنہوں نے کل دن کا
آج وہ آئے پاس مرے جب ڈیڑھ پہر کی توپ چلی

فاقے مست عدوے بد ایسا ہی چھٹی کا راجا ہے
نانی جس کی آئی چھٹی میں دھوم سے لیکر گھی کھچڑی

شیخ بگھارے شیخی اپنی مفت کے لقمے کھاتا ہے
دودھ ملیدا کھاتے ہیں یا مست قلندر گھی کھچڑی​

اگلے وقتوں کے لوگ جیسے شعر کہتے ہیں ویسے شعر کہتے تھے، محلہ کے شوقین نوجوان دلوں کی امنگ میں ان سے کچھ نہ کچھ کہلوا لے جایا کرتے تھے۔ اکثر اصلاح بھی لیا کرتے تھے۔ غرض ہر وقت ان کے ہاں یہی چرچا رہتا تھا، شیخ مرحوم خود فرماتے تھے کہ وہاں سنتے سنتے مجھے بہت شعر یاد ہو گئے۔ نظم کے پرھنے اور سننے میں دل کو ایک روحانی لذت حاسل ہوتی تھی اور ہمیشہ اشعار پڑھتا پھرا کرتا تھا، دل میں شوق تھا اور خدا سے دعائیں مانگتا تھا کہ الہٰی مجھے شعر کہنا آ جائے۔ ایک دن خوشی میں آ کر خود بخود میری زبان سے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۵۴۵

دو شعر نکلے اور یہ فقط حسن اتفاق تھا کہ ایک حمد میں تھا، ایک نعت میں۔ اس عمر میں مجھے اتنا ہوش تو کہاں تھا کہ اس مبارک مہم کو خود اس طرح سمجھ کر مشروع کرتا کہ پہلا حمد میں ہو، دوسرا نعت میں ہو۔ جب یہ بھی خیال نہ تھا کہ اس قدرتی اتفاق کو مبارک فال سمجھوں۔ مگر اُن دو شعروں کے موزوں ہو جانے سے جو خوشی دل کو ہوئی، اُس کا مزہ ابتک نہیں بھولتا۔ انھیں کہیں اپنی کتاب میں کہیں جابجا کاغذوں پر رنگ برنگ کی روشنائیوں سے لکھتا تھا۔ ایک ایک کو سُناتا تھا اور خوشی کے مارے پھولوں نہ سماتا تھا، غرض کہ اسی عالم میں کچھ نہ کچھ کہتا رہا اور حافظ جی سے اصلاح لیتا رہا۔

اسی محلہ میں میر کاطم حسین نامی ایک ان کے ہم سن ہم سبق تھے کہ نواب سید رضی خاں مرحوم کے بھانجے تھے۔ بے قرارؔ تخلص کرتے تھے اور حافظ غلام رسول ہی سے اصلاح لیتے تھے، مگر ذہن کے جودت اور طبیعت کی براقی کا یہ عالم تھا کہ کبھی برق تھے اور کبھی باد و باراں، انھیں اپنے بزرگوں کی صحبت میں تحصیل کمال کے لئے اچھے اچھے موقع ملتے تھے۔ شیخ مرحوم اور وہ اتحاد طبعی کے سبب سے اکثر ساتھ رہتے تھے اور مشق کے میدان میں ساتھ ہی گھوڑے دوڑاتے تھے، انھیں دنوں کا شیخ مرحوم کا ایک مطلع ہے کہ نمونہ تیزی طبع کا دکھاتا ہے :

ماتھے پہ تیرے جھمکے ہے جھومر کا بڑا چاند
لا بوسہ چڑھے چاند کا وعدہ تھا چڑھا چاند​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۵۴۶

ایک دن میر کاظم حسین نے غزل لا کر سُنائی، شیخ مرحوم نے پوچھا، یہ غزل کب کہی، خوب گرم شعر نکالے ہیں، انھوں نے کہا ہم تو شاہ نصیرؔ کے شاگرد ہو گئے، انھیں سے یہ اصلاح لی ہے۔ شیخ مرحوم کو بھی شوق پیدا ہوا، اور ان کے ساتھ جا کر شاگرد ہو گئے۔

سلسلے اصلاح کے جاری تھے، مشاعروں میں غزلیں پڑھی جاتی تھیں۔ لوگوں کی واہ وا طبیعتوں کو بلند پروازیوں کے پر لگاتی تھی کہ رشک جو تلامیذ الرحمٰن کے آئینوں کا جوہر ہے، استاد شاگردوں کو چمکانے لگا۔ بعض موقعوں پر ایسا ہوا کہ شاہ صاحب نے ان کی غزل کو بے اصلاح پھیر دیا اور کہا طبیعت پر زور ڈال کر کہو، کبھی کہہ دیا کہ یہ کچھ نہیں، پھر سوچ کر کہو، بعض غزلوں کو جو اصلاح دی تو اس سے بے پروائی پائی گئی۔ ادھر انھیں کچھ تو یاروں نے چمکا دیا، کچھ اپنی غریب حالت نے یہ آزردگی پیدا کی کہ شاہ صاحب اصلاح میں بے توجہی یا پہلو تہی کرتے ہیں چنانچہ اس طرح کئ دفعہ غزلیں پھیریں، بہت سے شعر کٹ گئے، زیادہ تر قباحت نہ ہوئی کہ شاہ صاحب کے صاحب زادے شاہ وحید الدین منیرؔ تھے، جو براقی طبع میں اپنے والد کے خلف الرشید تھے، ان کی غزلوں میں توارد سے یا خدا جانے کسی اتفاق سے وہی مضمون پائے گئے، اس لئے انھیں زیادہ رنج ہوا۔

منیرؔ مرحوم کو جس قدر دعوےٰ تھے اُس سے زیادہ طبیعت میں نوجوانی کے زور بھرے ہوئے تھے، وہ کسی شاعر کو خاطر میں نہ لاتے تھے، اور کہتے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۵۴۷

تھے کہ جس غزل پر ہم قلم اُٹھائیں اس زمین پر کون قدم رکھ سکتا ہے۔ مشکل سے مشکل طرحیں کرتے تھے اور کہتے تھے کہ کون پہلوان ہے جو اس نال کو اُٹھا سکے۔ غرض اُن سے اور شیخ مرحوم سے بمقتضائے سنِ اکثر تکرار ہو جاتی تھی اور مباحثے ہوتے تھے، ایک دفعہ یہاں تک نوبت پہونچی کہ شیخ علیہ الرحمۃ نے فرمایا کہ گھر کے کہے ہوئے شعر صحیح نہیں۔ شاید آپ اُستاد کہلوا لاتے ہوں گے، ہاں ایک جلسہ میں بیٹھ کر ہم اور آپ غزل کہیں، چنانچہ اس معرکہ کی منیر مرحوم کی غزل نہیں ملی، شیخ علیہ الرحمۃ کی غزل کا مطلع مجھے یاد ہے :

یاں کے آنے کا مقرر قاصد! وہ دن کرے
تو جو مانگے گا وہی دوں گا خدا وہ دن کرے​

اگرچہ اُن کی طبیعت حاضر و فکر رساء بندش چست اس پر کلام میں زور سب کچھ تھا مگر چونکہ یہ ایک غریب سپاہی کے بیٹے تھے نہ دنیا کے معاملات کا تجربہ تھا نہ کوئی ان کا دوست و ہمدرد تھا، اس لئے رنج اور دل شکستگی حد سے زیادہ ہوتی تھی، اسی قیل و قال میں ایک دن سوداؔ کی غزل پر غزل کہی، دوش نقش پا، شاہ صاحب کے پاس لے گئے، انھوں نے خفا ہو کر غزل پھینک دی کہ اُستاد کی غزل پر غزل کہتا ہے؟ اب تو مرزا رفیع سے بھی اونچا اُڑنے لگا۔ ان دنوں ایک جگہ مشاعرہ ہوتا تھا، اشتیاق نے بے قرار ہو کر گھر سے نکالا، مگر غزل بے اصلاح تھی، دل کے ہراس نے روک لیا کہ ابتدائے کار ہے،
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۵۴۸

احتیاط شرط ہے، قریب شام افسردگی اور مایوسی کے عالم میں جامع مسجد میں آ نکلے، آثار شریعت میں فاتحہ پڑھی، حوض پر آئے، وہاں میر کلّو حقیرؔ بیٹھے تھے، چونکہ مشاعرہ کی گرم غزلوں نے روشناس کر دیا تھا، اور سنِ رسیدہ اشخاص شفقت کرنے لگے تھے، میر صاحب نے انھیں پاس بٹھایا اور کہا کہ کیوں میاں ابراہیم؟ آج کچھ مکدّر معلوم ہوتے ہو، خیر ہے؟ جو کچھ ملال دل پر تھا، انھوں نے بیان کیا، میر صاحب نے کہا کہ بھلا وہ غزلیں ہمیں سناؤ؟ انھوں نے غزل سنائی، میر صاحب کو اُن کے معاملہ پر درد آیا کہا کہ جاؤ بے تامل غزل پڑھ دو کوئی اعتراض کرے گا تو جواب ہمارے ذمہ ہے اور ہاتھ اُٹھا کر دیر تک اُن کے لئے دعا کرتے رہے، اگرچہ میر صاحب کا قدیمانہ انداز تھا، مگر وہ ایک کُہن سال شخص تھے، بڑے بڑے باکمال شاعروں کو دیکھا تھا اور مکتب پڑھایا کرتے تھے، اس لئے شیخ مرحوم کی کاطر جمع ہوئی اور مشاعرہ میں جا کر غزل پڑھی۔ وہاں بہت تعریف ہوئی، چنانچہ غزل مذکور یہ ہے :

رکھتا بہر قدم ہے وہ یہ ہوش نقشِ پا
ہو خاکِ عاشقاں نہ ہم آغوش نقشِ پا

اُفتادگاں کو بے سرو ساماں نہ جانیو
دامانِ خاک ہوتا ہے روپوشِ نقشِ پا

اعجاز پا سے تیرے عجب کیا کہ راہ میں
بول اُٹھے منھ سے ہر لب خاموش نقشِ پا

اس رو گذر میں کس کو ہوئی فرصت مقام
بیٹھے ہے نقش و پا یہ سر دوس نقشِ پا

جسمِ نزار خاک نشینان کوئے عشق
یوں ہے زمیں پہ جیسے تن و توشِ نقشِ پا

فیض برہنہ پائی مجنوں سے دشت میں
ہر آبلہ بنے ہے دُرِ گوشِ نقشِ پا​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۵۴۹

پابوس درکنار کہ اپنی تو خاک بھی
پہونچی نہ ذوقؔ اس کے بہ آغوشِ نقشِ پا​

اُس دن سے جرات زیادہ ہوئی اور بے اصلاح مشاعرہ میں غزل پڑھنے لگے۔ اب کلام کا چرچا زیادہ تر ہوا، طبیعت کی شوخی اور شعر کی گرمی سننے والوں کے دلوں میں اثر برقی کی طرح دوڑنے لگی، اس زمانہ کے لوگ منصف ہوتے تھے، بزرگان پاک طینت جو اساتذہ سلف کی یادگار باقی تھے مشاعرہ میں دیکھتے تو شفقت سے تعریفیں کر کے دل بڑھاتے بلکہ غزل پڑھنے کے بعد آتے تو دوبارہ پڑھوا کر سُنتے، غزلیں اربابِ نشاط کی زبانوں سے نکل کر کوچہ و بازار میں رنگ اُڑانے لگیں۔

اکبر بادشاہ بادشاہ تھے، اُنھیں تو شعر سے کچھ رغبت نہ تھی مگر مرزا ابو ظفر ولی عہد کہ بادشاہ ہو کر بہادر شاہ ہوئے، شعر کے عاشق شیدا تھے اور ظفر تخلص سے ملک شہرت کو تسخیر کیا تھا اس لئے دربار شاہی میں جو جو کُہنہ مشق شاعر تھے مثلاً حکیم ثناء اللہ کاں فراقؔ، میر غالب علی خاں سیدؔ عبد الرحمٰن خاں، احسانؔ برہان الدین خاں زارؔ، حکیم قدرت اللہ خاں قاسمؔ، ان کے صاحبزادے حکیم عزت اللہ خاں عشقؔ، میاں شکیباؔ شاگرد میر تقی مرھوم، مرزا عظیم بیگ عظیم شاگرد سوداؔ، میر قمر الدین منتؔ۔ ان کے صاحبزادے میر نظام الدین ممنون وغیرہ سب شاعر ہیں، آ کر جمع ہوتے تھے، اپنے اپنے کلام سُناتے تھے۔ مطلع اور مصرع جلسہ میں ڈالتے تھے۔ ہر شخص مطلع پر مطلع کہتا تھا، مصرع پر مصرع لگا کر طبع آزمائی کرتا تھا، میر کاظم حسین بیقرارؔ، ولی عہد موصوف کے ملازم خاص تھے،
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۵۵۰

اکثر ان صحبتوں میں شامل ہوتے تھے، شیخ مرحوم کو خیال ہوا کہ اس جلسہ میں طبع آزمائی ہوا کرے تو قوت فکر کی خوب بلند پروازی ہو۔ لیکن اس عہد میں کسی امیر کی ضمانت کے بعد بادشاہی اجازت ہوا کرتی تھی جب کوئی قلعہ میں جانے پاتا تھا۔ چنانچہ میر کاظم حسین کی وساطت سے یہ قلعہ میں پہونچے اور اکثر دربار ولی عہدی میں جانے لگے۔

شاہ نصیر مرحوم کہ ولی عہد کی غزل کو اصلاح دیا کرتے تھے۔ میر کاظم حسین ان کی غزل بنانے لگے، انھیں دنوں میں جان الفنسٹن صاحب شکار پور سندھ وغیرہ سرحدات سے لے کر کابل تک عہد نامے کرنے کو چلے، انھیں ایک میر منشی کی ضرورت ہوئی کہ قابلیت و علمیت کے ساتھ امارت خاندانی کا جوہر بھی رکھتا ہو، میر کاظم حسین نے اس عہدہ پر سفارش کے لئے ولی عہد سے شقّہ چاہا۔ مرزا مغل بیگ ان دنوں میں مختار کل تھے اور وہ ہمیشہ اس تاک میں رہتے تھے کہ جس پر ولی عہد کی زیادہ نظر عنایت ہو اُسے کسی طرح سامنے سے سرکاتے رہیں۔ اس قدرتی پیچ سے میر کاظم حسین کو شقّہ سفارش بآسانی حاصل ہو گیا اور وہ چلے گئے۔

چند روز کے بعد ایک دن شیخ مرحوم جو ولی عہد کے یہاں گئے تو دیکھا کہ تیر اندازی کی مشق کر رہے ہیں، انھیں دیکھتے ہی شکایت کرنے لگے میاں ابراہیم اُستاد تو دکن گئے۔ میر کاظم حسین اُدھر چلے گئے۔ تم نے بھی ہمیں چھوڑ دیا؟ غرض اسی وقت ایک غزل جیب سے نکال کر دی کہ ذرا اسے بنا دو، یہ وہیں بیٹھ گئے اور غزل بنا کر سُنائی۔ ولی عہد بہادر بہت خوش ہوئے اور کہا کہ کبھی کبھی تم آ کر
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۵۵۱

ہماری غزل بنا جایا کرو، یہ زمانہ وہ تھا کہ ممتاز محل کی خاطر سے اکبر شاہ کبھی مرزا سلیمؔ کبھی مرزا جہانگیر وغیرہ شاہزادوں کی ولی عہدی کے لئے کوششیں کرتے تھے، اور کہتے تھے کہ مرزا ابو ظفر میرے بیٹے ہی نہیں، مقدمہ اس گورنمنٹ میں دائر تھا اور ولیعہد کو بجائے ۵ ہزار روپیہ کے فقط ۵ سو روپیہ مہینہ ملتا تھا، غرض چند روز اصلاح جاری رہی، اور آخر کار سرکار ولی عہدی سے ۴ روپیہ مہینہ بھی ہو گیا۔ اس وقت لوگوں کے دلوں میں بادشاہ کا رعب و داب کچھ اور تھا چنانچہ کچھ ولی عہدی کے مقدمہ پر خیال کر کے کچھ تنخواہ کی کمی پر نظر کر کے باپ نے اکلوتے بیٹے کو اس نوکری سے روکا، لیکن ادھر تو شاعروں کےے جمگھٹ کی دل لگی نے ادھر کھینچا، اُدھر قسمت نے آواز دی کہ چار روپیہ نہ سمجھنا، یہ ایوانِ ملک الشعرائی کے چار ستون قائم ہوئے ہیں، موقع کو ہاتھ سے نہ جانے دینا، چنانچہ شیخ مرحوم ولیعہد کے استاد ہو گئے۔

دلی میں نواب الہی بخش خاں معروف (بخارا میں خواجہ عبد الرحمٰن بسویؔ ایک رائیس عالی خاندان خواجہ احمد بسوی کی اولاد میں تھے، اتفاق زمانہ سے وطن چھوڑ کر بلخ میں آئے اور یہیں خانہ دار ہوئے۔ خدا نے تین فرزند رشید عطا کئے۔ قاسم جان، عالم جان، عارف جان، جوانوں کی ہمت مردانہ نے گھر میں بیٹھنا گوارا نہ کیا۔ ایک جمعیت سوار و پیادہ ترکان اذبک وغیرہ کی لیکر ہندوستان آئے۔ پنجاب میں معین الملک عرف میر مُنّو خلف نواب قمرالدین خاں وزیر محمد شاہی حاکم تھے۔ ان رائیس زادوں کو اپنی رفاقت میں۔ خاک پنجاب میں سکھوں کی قوم سبزہ خودرو کی طرح جوش مار رہی تھی، اُنے کے زمانہ میں اِن کی تگ و تاز نے ہمت کے گھوڑے دوڑا کر نام پیدا کیا۔ چند روز میں میر منور مر گئے، بادشاہی زور کو سکھوں نے دبانا شروع کیا، انھوں نے امرائے بادشاہ کی نااہلی اور بے لیاقتی سے شکستہ ہو کر دربار کا رُخ کیا۔ وقت وہ تھا کہ شاہ عالم بادشاہ تھے اور میرن کے مقابلہ پر بنگالہ میں جوج لئے پڑے تھے، یہ بھی وہیں پہونچے اور دلاوری کے ساتھ ایسی جانفشانی دکھائی کہ نواب قاسم جان کو ہفت ہزاری منصب اور شرف الدولہ شہراب جنگ خطاب عطا ہوا۔ جب بادشاہ وہاں سے پھرے تو تینوں بھائی دلی میں آئے اور یہیں سکونت اختیار کی۔ لڑائیوں میں ہمیشہ اپنی ہمت کے ساتھ ذوالفقار الدولہ نواب نجف خاں سپہ سالار کے لئے قوت بازو رہے۔ نواب عارف جان دیہات، جاگیر وغیرہ کا انتظام کرتے تھے۔ انھوں نے وفات میں بھی اپنے برادر ارجمند نواب قاسم جان کا ساتھ دیا اور چار بیٹے چھوڑے، نبی بخش خاں، احمد بخش خاں، محمد علی خاں، الہٰی بخش خاں، نواب احمد بخش خاں راؤ راجہ بختاور سنگھ والی الور کی طرف سے معتمد اور وکیل ہو کر لارڈ لیک صاحب بہادر کے ساتھ ہندوستان کی مہمات میں شامل رہے اور اپنی ذات سے بھی رسالہ رکھ کر خدمت گورنمنٹ بجا لاتے رہے۔ اس کے صلہ میں فیروز پور جھرکہ وغیرہ جاگیر سرکار سے عنایت ہوئی اور بادشاہی سے خطاب فخر الدولہ دلاور الملک رستم جنگ بہ وسیلہ ریزیڈنٹ دہلی عطا ہوا۔ ان کے بڑے بیٹے نواب شمش الدین خاں جانشین ہوئے مگر زمانہ نے اس کا ورق اس طرح اُلٹا کہ نام و نشان تک نہ رہا، فخر الدولہ مرحوم نواب امین الدین خاں و نواب ضیاء الدین خاں کو جدا جاگیر دے گئے تھے کہ لوہارو مشہور ہے۔ نواب امین الدین خاں مسند نشین ریاست رہے، ان کے بعد ان کے بیٹے نواب علاء الدین خاں مسند نشین ہوئے کہ علوم مشرقی کے ساتھ زبان انگریزی مہارت کامل رکھتے تھے۔ علائی تخلص کرتے ہیں اور غالب مرحوم کے شاگرد ہیں، نواب ضیاء الدین خاں بہادرت کو علوم ضروری سے فارغ ہو کر فن شعرا اور مطالعہ کتب کا ایسا شوق ہوا کہ دنیا کی کوئی دولت اور لذت نظر میں نہ آئی۔ اب تک اسی میں محو ہیں۔ غالبؔ مرحوم کے شاگرد ہیں۔ فارسی میں نیّر تخلص کرتے۔ احباب کی فرمائش سے کبھی اُردو میں بھی کہہ دیتے ہیں اور اس میں رخشاںؔ تخلص کرتے ہیں۔ فقیر آزاد کے حال پر شفقت بزرگانہ فرماتے ہیں۔ خدا دونوں کے کمال کا سایہ اہل دہلی کے سر پر رکھے۔ ان ہی لوگوں سے دلّی دلی ہے، ورنہ اینٹ پتھر میں کیا دھرا ہے؟

ہم تبرک ہیں بس اب کر لے زیارت مجنوں
سر پہ پھرتا ہے لئے آبلہ پا ہم کو​

ایک عالی خاندان امیر تھے۔ علوم
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۵۵۲

ضروری سے باخبر تھے اور شاعری کے کہنہ مشاق، مگر اس فن سے ایسا عشق رکھتے تھے کہ فنا فی الشعر کا مرتبہ اسی کو کہتے ہیں، چونکہ لطفِ کلام کے عاشق تھے، اس لئے جہاں متاع نیک دیکھتے تھے نہ چھوڑتے تھے۔ زمانہ کہ درازی نے سات شاعروں کی نظر سے ان کا کلام گزرانا تھا، چنانچہ ابتداء میں شاہ نصیرؔ مرحوم سے اصلاح لیتے رہے اور سید علی خاں غمگینؔ وغیرہ وغیرہ اُستادوں سے بھی مشورہ ہوتا رہا، جب شیخ مرحوم کا شہرہ ہوا تو انھیں بھی اشتیاق ہوا، یہ موقع وہ تھا کہ نواب موصوف نے اہل فقر کی برکت صحبت سے ترک دنیا کر کے گھر سے نکلنا بھی چھوڑ دیا تھا، چنانچہ اُستاد مرحوم فرماتے تھے کہ میری ۱۹ – ۲۰ برس کی عمر تھی۔ گھر کے قریب ایک قدیمی مسجد تھی، ظہر کے بعد وہاں بیٹھ کر میں وظیفہ پڑھ رہا تھا، ایک
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۵۵۳

چوبدار آیا۔ اس نے سلام کیا اور کچھ چیز رومال میں لپٹی ہوئی میرے سامنے رکھ کر الگ بیٹھ گیا، وظیفہ سے فارغ ہو کر اُسے دیکھا تو اس میں ایک خوشہ انگور کا تھا، ساتھ ہی چوبدار نے کہا کہ نواب صاحب نے دعا فرمائی ہے، یہ بھیجا ہے اور فرمایا ہے کہ آپ کا کلام تو پہونچا ہے، مگر آپ کی زبان سے سننے کو جی چاہتا ہے، شیخ مرحوم نے وعدہ کیا اور تیسرے دن تشریف لے گئے۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۵۵۴

وہ بہت اخلاق سے ملے اور بعد گفتگوئے معمولی کے شعر کی فرمائش کی۔ انھوں نے ایک غزل کہنی شروع کی تھی۔ اس کا مطلع پڑھا :

نگہ کا وار تھا دل پر پھڑکنے جان لگی
چلی تھی برچھی کسی پر کسی کے آن لگی​

سُن کر بہت خوش ہوئے اور کہا کہ خیر حال تو پہلے ہی معلوم ہو گیا تھا، مگر تمھاری زبان سے سُن کر اور لطف حاصل ہوا۔ اِدھر اُدھر کی باتیں ہونے لگیں، عجیب اتفاق یہ کہ حافظ غلام رسول شوقؔ (حافظ غلام رسول کے سامنے ہی شیخ مرحوم کا انتقال ہو گیا، چنانچہ کئی دفعہ ایسا ہوا کہ گلی میں ٹہل رہے تھے میں بھی ساتھ تھا، حافظ غلام رسول صاحب سامنے آ گئے چنانچہ شیخ مرحوم نے اسی آداب سے جس طرح بچپن میں سلام کرتے تھے انھیں سلام کیا، انھوں نے جواب دیا مگر اس تُرشروئی سے گویا سو ۱۰۰ شیشہ سرکہ کے بہا دیئے۔ جب وہ بازار میں نکلتے تو لوگ آپس میں اشارے کر کے دکھاتے کہ دیکھو میاں وہ اُستاد ذوق کے اُستاد جا رہے ہیں۔) یعنی اُستاد مرحوم کے قدیمی اُستاد اُسی وقت آ نکلے، نواب انھیں دیکھ کر مسکرائے اور شیخ مرحوم نے اُسی طرح سلام کیا جو سعادت مند شاگردوں کا فرض ہے۔ وہ اِن سے خفا رہتے تھے کہ شاگرد میرا اور مجھے غزل نہین دکھاتا اور مشاعروں میں میرے ساتھ نہیں چلتا، غرض اُنھوں نے اپنے شعر پڑھنے شروع کر دیئے۔ شیخ مرحوم نے وہاں ٹھہرنا مناسب نہ سمجھا اور رخصت چاہی، چونکہ نواب مرحوم کے برابر بیٹھے ہوئے تھے، نواب نے چپکے سے کہا، کان بدمزہ ہو گئے۔ کوئی شعر اپنا سناتے جاؤ، اُستاد مرحوم نے اُنھیں دنوں میں ایک غزل کہی تھی۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۵۵۵

دو (۲) مطلع اس کے پڑھے :

جینا نظر اپنا ہمیں اصلا نہیں آتا
گر آج بھی وہ رشکِ مسیحا نہیں آتا

مذکور تری بزم میں کس کا نہیں آتا
پر ذکر ہمارا نہیں آتا، نہیں آتا​

اُس دن سے معمول ہو گیا کہ ہفتہ میں دو دن جایا کرتے اور غزل بنا آیا کرتے تھے۔ چنانچہ جو دیوان معروف اب رائج ہے، وہ تمام و کمال انہی کا اصلاح کیا ہوا ہے، نواب مرحوم اگرچہ صنعف پیری کے سبب سے خود کاوش کر کے مضمون کو لفظوں میں بٹھا نہیں سکتے تھے، مگر اس کے حقائق و دقائق کو ایسا پہونچے تھے کہ جو حق ہے اس عالم میں اُستاد مرحوم کی جوان طبیعت اور ذہن کی کاوش ان کی فرمائش کے نکتے نکتے کا حق ادا کرتی تھی، شیخ مرحوم کہا کرتے تھے کہ اگرچہ بڑی بڑی کاہشیں اُٹھانی پڑیں، مگر اُن کی غزل بنانے میں ہم آپ بن گئے۔

فرماتے تھے کہ اپنی مدت شوق میں وہ بھی کبھی جراءتؔ، کبھی سوداؔ، کبھی میرؔ کے انداز میں غزلیں لکھتے رہے۔ مگر اخیر میں کچھ بمقتضائے سن، کچھ اس سبب سے کہ صاحبِ دل اور صاحبِ نسبت تھے، خواجہ میر دردؔ کی طرز میں آ گئے تھے، یہ بھی آپ ہی کہتے تھے کہ ان دنوں میں ہمارا عالم ہی اور تھا۔ جوانی دوانی، ہم کبھی جراءتؔ کے رنگ میں ، کبھی سوداؔ کے انداز میں، اور وہ روکتے تھے، آج الہٰی بخش خاں مرحوم ہوتے تو ہم کہکر دکھاتے اب ان کا دیوان ویسا ہی بنا دیتے جیسا اُن کا جی چاہتا تھا، ان کی باتیں کرتے اور بار بار افسوس کرتے اور کہتے ہائے الہٰی بخش خاں اُن کا نام ادب سے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۵۵۶

لیتے تھے اور اس طرح ذکر کرتے تھے، جیسے کوئی بااعتقاد اپنے مرشد کا ذکر کرتا ہے، اُن کی سیکڑوں باتیں بیان کیا کرتے تھے، جو دین دنیا کے کاموں کا دستور العمل ہیں۔

یہ بھی فرماتے تھے کہ ایسا سخی میں نے آج تک نہیں دیکھا جو آتا تھا امیر، فقیر، بچہ بوڑھا اسے دیئے نہ رہتے تھے، اور دینا بھی وہی کہ جو اس کے مناسب حال ہو۔ کوئی سوداگر نہ تھا کہ آئے اور خالی پھر جائے۔ انھیں اس بات کی بڑی خوشی تھی کہ ہماری غزل ہمارے پاس بیٹھ کر بناتے جاؤ، سُناتے جاؤ، میں نے اس باب میں پہلو بچایا تھا، مگر ان کی خوشی اسی میں دیکھی تو مجبور ہوا، اور یہی خوب ہوا، ایک دن میں ان کی غزل بنا رہا تھا، اس کا مقطع تھا۔

اک غزل پُردرد سی معروف لکھ اس طرح میں
ذوق ہے دل کو نہایت درد کے اشعار سے

کون روتا ہے یہ لگ کر باغ کی دیوار سے
جانور گرنے لگے جائے ثمر اشجار سے​

سوداگر آیا اور اپنی چیزیں دکھانے لگا۔ ان میں ایک اصفہانی تلوار تھی تھی۔ وہ پسند آئی، خم دم آبدار سی اور جوہر دیکھ کر تعریف کی، اور میری طرف دیکھ کر کہا۔

مصرعہ : "اس ضعیفی میں یہاں تک شوق ہے تلوار سے"​

میں نے اسی وقت دوسرا مصرع لگا کر داخل غزل کیا، بہت خوش ہوئے۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۵۵۷

سر لگا دیں ابروئے خمدار کی قیمت میں آج
اس ضعیفی میں یہاں تک شوق ہے تلوار سے​

خیر اور چیزوں کے ساتھ وہ تلوار بھی لے لی، میں حیران ہوا کہ یہ تو ان کے معاملات و حالات سے کچھ بھی تعلق نہیں رکھتی اسے کیا کریں گے۔ خدا کی قدرت دو تین ہی دن کے بعد بڑے صاحب (فریزیر صاحب ریذیڈنٹ دہلی) ایک اور صاحب کو اپنے ساتھ لیکر نواب احمد بخش خاں مرحوم کی ملاقات کو آئے، وہاں سے ان کے پاس آ بیٹھے، باتیں چیتیں ہوئیں، جو صاحب ساتھ تھے، ان سے ملاقات کروائی۔ جب چلنے لگے تو انھوں نے وہی تلوار منگوا کر صاحب کے ہمراہی کی کمر سے بندھوائی اور کہا :

برگِ سبز است تحفہ درویش
چہ کند بے نوا ہمیں دارد​

اُن کے ساتھ میم صاحب بھی تھیں، ایک ارگن باجا نہایت عمدہ کسی رومی سوداگر سے لیا تھا وہ انھیں دیا۔

اُن کے اشعار کا ایک سلسلہ ہے جس میں ردیف دارا ۱۰ مطلع ہیں اور کوئی سبزی کے مضمون سے خالی نہیں۔ اسی رعایت سے اس کا نام تسبیح زمرد رکھا تھا۔ یہ تسبیح بھی اُستاد مرحوم نے پروئی تھی اور آخر میں ایک تاریخ فارسی زبان میں اپنے نام سے کہکر لگائی تھی۔ جن دنوں ان کے دانے پروئے تھے تو نواب صاحب مرحوم کی سب پر فرمائش تھی کہ کوئی مثل، کوئی محاورہ سبزی کا بتاؤ، انکا بذل و کرم اور حسنِ اخلاق اور علو رتبہ کے سبب سے اکثر شرفاء خصوصاً شعراء آ کر جمع ہوتے تھے اور اشعار سنتے سُناتے تھے، ان دنوں میں اِن کے شوق سے اوروں پر بھی
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۵۵۸

سبز رنگ چھایا ہوا تھا، بھورے خاں آشفتہ ایک پُرانے شاعر شاہ محمدی مائل کے شاگرد اور ان کے مرید تھے اور پانچ روپے وظیفہ بھی پاتے تھے، اُن کے شعر میں ہری چُگ (ہری چُگ، بیوفا ہرجائی کو کہتے ہیں، گویا وہ ایک جانور ہے کہ جہاں ہری گھانس پاتا ہے چرتا ہے، جب وہ نہ رہے تو جہاں اور ہری گھاس دیکھتا ہے آ موجود ہوتا ہے۔) کا لفظ آیا ہے کہ ان کے ہاں ابھی تک نہ بندھا تھا، ان سے وہ شعر لے لیا اور اپنے انداز سے سجایا :

آج یہاں کل وہاں گزرے یوہیں جگ ہمیں
کہتے ہیں سب سبزہ رنگ اس سے ہری چگ ہمیں​

انھیں سو روپے ایک رومال میں باندھ کر دے دیئے کہ تمھاری کاوش کیوں خالی جائے، افسوس ہے کہ اخیر میں کمبخت بھورے خاں نے روسیاہی کمائی اور سب تعلقات پر خاک ڈال کر اُن کی ہجو کہی، لطف یہ کہ دریا دل نواب طبیعت پر اصلا میل نہ لائے، لیکن ان نااہل کو آزردہ ہی کرنا منظور تھا، جب دیکھا کہ انھیں کچھ رنج نہیں تو نواب حسام الدین حیدر خاں نامی کی ہجو کہی۔ نامی مرحوم سے انھیں ایسی محبت تھی کہ وہ خود بھی کہتے تھے اور لوگ بھی کہتے تھے کہ ان دونوں بزرگوں میں محبت نہیں عشق ہے (اگلے زمانہ کی دوستیاں ایسی ہی ہوتی تھیں) ان کی تعریف میں غزلیں کہہ کر داخل دیوان کی تھیں، ایک مطلع یاد ہے :

جو آؤ تم مرے مہمان حسام الدین حیدر خاں
کروں دل نذر، جاں قرباں حسام الدین حیدر خاں​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۵۵۹

جب ان کی ہجو کہی تو انھیں سخت رنج ہوا، اس پر بھی اتنا کہا کہ ہمارے سامنے نہ آیا کرو۔ وہ بھی سمجھ گیا۔ عذر میں کہا کہ لوگ ناحق بدنام کرتے ہیں۔ میں نے تو نہیں کہی، کہا بس آگے نہ بولو۔ اتنی مدت ہم نے زمین سخن کی خاک اُڑائی، کیا تمھاری زبان بھی نہیں پہچانتے؟ میں تو اس سے بدتر ہوں جو کچھ تم نے کہا، مگر میرے لئے تم میرے دوستوں کو خراب کرنے لگے، بھئی مجھ سے نہیں دیکھا جاتا، پھر جیتے جی بھورے خاں کی صورت نہ دیکھی۔ اُستاد مرحوم فرماتے تھے کہ دالان میں ایک جانماز بچھی رہتی تھی، جب میں رخصت ہوتا تو آٹھویں، دسویں دن فرماتے، بھئی میاں ابراہیم! ذرا ہماری جانماز کے نیچے دیکھنا۔ پہلے دن تو تو دیکھ کر حیران ہوا کہ ایک پڑیا میں روپے دھرے تھے۔ آپ نے سامنے سے مسکرا کر فرمایا۔

مصرعہ "خدا دیوے تو بندہ کیوں نہ لیوے"​

اس میں لطیفہ یہ تھا کہ ہم کس قابل ہیں، جو کچھ دیں، جس سے ہم مانگتے ہیں یہ وہی تمھیں دیتا ہے۔

ایک دفعہ اُستاد بیمار ہوئے اور کچھ عرصہ کے بعد گئے۔ ضعف تھا اور کچھ کچھ شکایتیں باقی تھیں، فرمایا کہ حقہ پیا کرو۔ عرض کی بہت خوب، اب وہ حقہ پلوائیں تو خالی حقہ پلوائیں۔ ایک چاندی کی گڑگڑی، چلم اور چنبل، مغرق نیچہ مرصع مہنال تیار کروا کر سامنے رکھ دیا۔

خلیفہ صاحب (میاں محمد اسمٰعیل) چھوٹے سے تھے۔ ایک دن اُستاد
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۵۶۰

کے ساتھ چلے گئے۔ رخصت ہوئے تو ایک چھوٹا سا ٹانگن اصطبل سے منگایا، زین زریں کیا ہوا، اُس پر سوار کر کے رخصت کیا کہ یہ بچہ ہے، کیا جانے گا میں کس کے پاس گیا تھا۔

کسی کھانے کو جی چاہتا تو آپ نے کھاتے، بہت سا پکواتے، لوگوں کو بلاتے، آپ کھڑے رہتے، انھیں کھلواتے، خوش ہوتے اور کہتے کہ دل سیر ہو گیا۔ یہ ساری سخاوتیں اسی سعادت مند بھائی کی بدولت تھیں، جو دن بھر سر انجام مہمام میں جان کھپاتا تھا، راتوں سوچ میں گھلتا تھا اور خاندان کے نام کو زندہ کرتا تھا اور ان سے فقط دعا کی التجا رکھتا تھا۔

اُستاد مرحوم فرماتے تھے کہ ایک دن میں بیٹھا غزل بنا رہا تھا کہ نواب احمد بخش خاں آئے، آداب معمولی کے بعد باتوں باتوں میں کہنے لگے کہ فلاں انگریز کی ضیافت کی اتنا روپیہ اس میں صرف ہوا، فلانی گھوڑ دوڑ میں ایک چائے پانی دیا تھا، یہ خرچ ہو گیا۔ وہ صاحب آئے تھے، اصطبل کی سیر دکھائی۔ کاٹھیاوار کے گھوڑوں کی جوڑی کھڑی تھی، انھوں نے تعریف کی میں نے بگھی میں جڑوائی۔ اور اسی پر سوار کر کے اُنھیں رخصت کیا وغیرہ وغیرہ کیا کروں، خالی ملنا، خالی رخصت کرنا مجھ سے نہیں ہو سکتا۔ یہاں امیروں کو امارت کے بڑے بڑے دعوے ہیں (جس طرح بچے بزرگوں سے بگڑ بگڑ کر باتیں کرتے ہیں، چیں بہ چیں ہوتے تھے اور کہتے تھے) فیل خانہ میں گیا تھا وہاں یہ بندوبست کر آیا ہوں۔ گھوڑیاں آج سب علاقہ بھجوا دیں۔ حضرت کیا کروں۔ شہر ۔۔۔۔ اس گلہ کا گزارہ نہیں، یہ لوگ اس خرچ کا بوجھ اُٹھائیں
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۵۶۱

تو چھاتی تڑق جائے، الہٰی بخش خاں مرحوم بھی ادا شناسی میں کمال ہی رکھتے تھے، تاڑ گئے، چپکے بیٹھے سنتے تھے اور مسکراتے تھے، جب اُن کی زبان سے نکلا کہ چھاتی تڑق جائے، آپ مسکرا کر بولے، بال تو آپ کی چھاتی میں بھی آیا ہو گا، شرما کر آنکھیں نیچی کر لیں، پھر انھوں نے فرمایا، آخر امیر زادے ہو، خاندان کا نام ہے، یہی کرتے ہیں، مگر اس طرح نہیں کہا کرتے، نواب احمد بخش خاں نے کہا، حضرت پھر آپ سے بھی نہ کہوں؟ فرمایا خدا سے کہا، وہ بولے کہ مجھے آپ دکھائی دیتے ہیں۔ آپ ہی سے کہتا ہوں۔ آپ خدا سے کہیے۔ فرمایا کہ اچھا ہم تم مل کر کہیں۔ تمھیں بھی کہنا چاہیے۔ نواب احمد بخش خاں بھی جانتے تھے کہ جو سخاوت ادھر ہوتی ہے عین بجا ہے، اور اسی کی ساری برکت ہے۔

ایک دن نواب احمد بخش خاں آئے، لیکن افسردہ اور برآشفتہ، الہٰی بخش خاں مرحوم سمجھ جاتے تھے کہ کچھ نہ کچھ آج ہے جو اس طرح آئے ہیں۔ پوچھا آج کچھ خفا ہو؟ کہا نہیں حضرت۔ فیروز پور جھرکے جاتا ہوں، پوچھا کیوں؟ کہا بڑے صاحب (صاحب ریذیڈنٹ) نے حکم دیا ہے کہ جس کو ملنا ہو بدھ کو ملاقات کرے، حضرت آپ جانتے ہیں مجھے ہفتہ میں دس دفعہ کام پڑتے ہیں، جب جی چاہا گیا، جو ضرورت ہوئی کہہ سُن آیا۔ مجھ سے یہ پابندیاں نہیں اُٹھتیں۔ میں یہاں رہتا ہی نہیں؟ فرمایا کہ تم کہا ہے؟ کہا مجھ سے تو نہیں کہا، سُنا ہے بعض رؤسا گئے بھی تھے۔ اُن سے ملاقات نہ کی۔ یہی کہلا بھیجا کہ بدھ کو ملئے۔ فرمایا کہ تمھارے واسطے نہیں، اوروں کے لئے ہو گا، احمد بخش خاں
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top