شمشاد
لائبریرین
صفحہ ۵۴۲
شبنم ہو کر برسا کہ شادابی کو کمہلاہٹ کا اثر نہ پہنچے۔ ملک الشعرانی کا سِکہ اس کے نام سے موزوں ہوا اور اس کے طغرائے شاہی میں یہ نقش ہوا کہ اس پہ نظم اردو کا خاتمہ کیا گیا۔ چناں چہ اب ہرگز امید نہیں کہ ایسا قادر الکلام پھر ہندوستان میں پیدا ہو۔ سبب اس کا یہ ہے کہ جس باغ کا بلبل تھا وہ باغ برباد ہو گیا نہ ہمصفیر رہے نہ ہم دوستاں رہے، نہ اس بولی کے سمجھنے والے رہے جو خراب آباد اس زبان کے لئے ٹکسال تھے وہاں بھانت بھانت کا جانور بولتا ہے، شہر چھاونی سے بدتر ہو گیا۔ امراء کے گھرانے تباہ ہو گئے، گھرانوں کے وارث علم و کمال کے ساتھ روٹی سے محروم ہو کر حواس کھو بیٹھے، وہ جادو کار طبیعتیں کہاں سے آئیں جو بات بات میں دل پسند انداز اور عمدہ تراشیں نکالتی تھیں، آج جن لوگوں کو زمانہ کی فارغ البالی نے اس قسم کے ایجاد و اختراع کی فرصتیں دی ہیں وہ اور اصل کی شاخیں۔ انھوں نے اور پانی سے نشو و نما پائی ہے۔ وہ اور ہی ہواؤں میں اڑ رہے ہیں۔ پھر اس زبان کی ترقی کا کیا بھروسہ۔ کیسا مبارک زمانہ ہو گا جب کہ شیخ مرحوم اور میرے والد مغفور ہم عمر ہونگے۔ تحصیل علمی ان کی عمروں کی طرح حالت طفولیت میں ہو گی۔ صرف و نحو کی کتابیں ہاتھوں میں ہوں گی اور ایک استاد کے دامن شفقت میں تعلیم پاتے ہوں گے۔ ان نیک نیت لوگوں کی ہر ایک بات استقلال کی بنیاد پر قائم ہوتی تھی، وہ رابطہ ان کا عمروں کے ساتھ ساتھ بڑھتا گیا اور اخیر وقت تک ایسا نبھ گیا کہ قرابت سے بھی زیادہ تھا۔ ان کے تحریر حالات
شبنم ہو کر برسا کہ شادابی کو کمہلاہٹ کا اثر نہ پہنچے۔ ملک الشعرانی کا سِکہ اس کے نام سے موزوں ہوا اور اس کے طغرائے شاہی میں یہ نقش ہوا کہ اس پہ نظم اردو کا خاتمہ کیا گیا۔ چناں چہ اب ہرگز امید نہیں کہ ایسا قادر الکلام پھر ہندوستان میں پیدا ہو۔ سبب اس کا یہ ہے کہ جس باغ کا بلبل تھا وہ باغ برباد ہو گیا نہ ہمصفیر رہے نہ ہم دوستاں رہے، نہ اس بولی کے سمجھنے والے رہے جو خراب آباد اس زبان کے لئے ٹکسال تھے وہاں بھانت بھانت کا جانور بولتا ہے، شہر چھاونی سے بدتر ہو گیا۔ امراء کے گھرانے تباہ ہو گئے، گھرانوں کے وارث علم و کمال کے ساتھ روٹی سے محروم ہو کر حواس کھو بیٹھے، وہ جادو کار طبیعتیں کہاں سے آئیں جو بات بات میں دل پسند انداز اور عمدہ تراشیں نکالتی تھیں، آج جن لوگوں کو زمانہ کی فارغ البالی نے اس قسم کے ایجاد و اختراع کی فرصتیں دی ہیں وہ اور اصل کی شاخیں۔ انھوں نے اور پانی سے نشو و نما پائی ہے۔ وہ اور ہی ہواؤں میں اڑ رہے ہیں۔ پھر اس زبان کی ترقی کا کیا بھروسہ۔ کیسا مبارک زمانہ ہو گا جب کہ شیخ مرحوم اور میرے والد مغفور ہم عمر ہونگے۔ تحصیل علمی ان کی عمروں کی طرح حالت طفولیت میں ہو گی۔ صرف و نحو کی کتابیں ہاتھوں میں ہوں گی اور ایک استاد کے دامن شفقت میں تعلیم پاتے ہوں گے۔ ان نیک نیت لوگوں کی ہر ایک بات استقلال کی بنیاد پر قائم ہوتی تھی، وہ رابطہ ان کا عمروں کے ساتھ ساتھ بڑھتا گیا اور اخیر وقت تک ایسا نبھ گیا کہ قرابت سے بھی زیادہ تھا۔ ان کے تحریر حالات