شمشاد
لائبریرین
صفحہ ۵۶۲
نے کہا نہیں حضرت یہ اہل فرنگ ہیں، ان کا قانون عام ہوتا ہے جو سب کے لئے ہے وہی میرے لئے ہو گا۔ فرمایا کہ بھلا تو جاؤ، تم ابھی جاؤ، دیکھو تو کیا ہوتا ہے۔ انھوں نے کہا، بہت خوب جاؤں گا، فرمایا کہ جاؤں گا، نہیں اُٹھئے بس اب جائیے، نواب نے کہا کہ نہیں، میں نے عرض کیا، ضرور جاؤں گا، بگڑ کر بولے کہ عرض ورض نہیں، بس شرط یہ ہے کہ اسی وقت جائیے اور سیدھے وہیں جائیے گا۔ احمد بخش خاں بھی انداز دیکھ کر خاموش ہوئے اور اُٹھ کر چلے۔ انھوں نے فرمایا کہ وہیں جانا اور مجھے پریشان تو کیا ہے، ذرا پھرتے ہوئے ادھر ہی کو آنا۔ اُستاد کہتے تھے کہ وہ تو گئے مگر ان کو دیکھتا ہوں کہ چپ اور چہرہ پر اضطراب، کوئی دو گھڑی ہوئی تھی ابھی میں بیٹھا غزل بنا رہا ہوں کہ دیکھتا ہوں۔ نواب سامنے سے چلے اے ہیں۔ خوش خوش، لبوں پر تبسم، آ کر سلام کیا اور بیٹھ گئے۔ انھوں نے دیکھتے ہی کہا، کیوں صاحب؟ نواب بولے گیا تھا، وہ اطلاع ہوتے ہی خود نکل آئے اور پوچھا ہیں نواب! اس وقت خلاف عادت؟ میں نے کہا بھئی میں نے سنا تم نے حکم دیا ہے کہ جو ہم سے ملے بدھ کو ملے۔ ابھی میں تقریر تمام بھی نہ کی تھی کہ وہ بولے نہیں نہیں نواب صاحب! آپ کے واسطے یہ حکم نہیں۔ آپ ان لوگوں میں نہیں ہیں۔ آپ جس وقت چاہے چلے آئیں۔ میں نے کہا، بھائی تم جانتے ہو، ریاست کے جھگڑے ہیں حفقانی دیوانہ کوئی بات کہنی ہے، کوئی سننی ہے، بس میرے کام تو بند ہوئے۔ بھائی میں تو رخصت کو آیا تھا کہ فیروز پور چلا جاؤں گا، اب یہاں رہ کر کیا کروں۔ انھوں نے
نے کہا نہیں حضرت یہ اہل فرنگ ہیں، ان کا قانون عام ہوتا ہے جو سب کے لئے ہے وہی میرے لئے ہو گا۔ فرمایا کہ بھلا تو جاؤ، تم ابھی جاؤ، دیکھو تو کیا ہوتا ہے۔ انھوں نے کہا، بہت خوب جاؤں گا، فرمایا کہ جاؤں گا، نہیں اُٹھئے بس اب جائیے، نواب نے کہا کہ نہیں، میں نے عرض کیا، ضرور جاؤں گا، بگڑ کر بولے کہ عرض ورض نہیں، بس شرط یہ ہے کہ اسی وقت جائیے اور سیدھے وہیں جائیے گا۔ احمد بخش خاں بھی انداز دیکھ کر خاموش ہوئے اور اُٹھ کر چلے۔ انھوں نے فرمایا کہ وہیں جانا اور مجھے پریشان تو کیا ہے، ذرا پھرتے ہوئے ادھر ہی کو آنا۔ اُستاد کہتے تھے کہ وہ تو گئے مگر ان کو دیکھتا ہوں کہ چپ اور چہرہ پر اضطراب، کوئی دو گھڑی ہوئی تھی ابھی میں بیٹھا غزل بنا رہا ہوں کہ دیکھتا ہوں۔ نواب سامنے سے چلے اے ہیں۔ خوش خوش، لبوں پر تبسم، آ کر سلام کیا اور بیٹھ گئے۔ انھوں نے دیکھتے ہی کہا، کیوں صاحب؟ نواب بولے گیا تھا، وہ اطلاع ہوتے ہی خود نکل آئے اور پوچھا ہیں نواب! اس وقت خلاف عادت؟ میں نے کہا بھئی میں نے سنا تم نے حکم دیا ہے کہ جو ہم سے ملے بدھ کو ملے۔ ابھی میں تقریر تمام بھی نہ کی تھی کہ وہ بولے نہیں نہیں نواب صاحب! آپ کے واسطے یہ حکم نہیں۔ آپ ان لوگوں میں نہیں ہیں۔ آپ جس وقت چاہے چلے آئیں۔ میں نے کہا، بھائی تم جانتے ہو، ریاست کے جھگڑے ہیں حفقانی دیوانہ کوئی بات کہنی ہے، کوئی سننی ہے، بس میرے کام تو بند ہوئے۔ بھائی میں تو رخصت کو آیا تھا کہ فیروز پور چلا جاؤں گا، اب یہاں رہ کر کیا کروں۔ انھوں نے