آب حیات - مولانا محمد حسین آزاد (مرحوم)

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۵۶۲

نے کہا نہیں حضرت یہ اہل فرنگ ہیں، ان کا قانون عام ہوتا ہے جو سب کے لئے ہے وہی میرے لئے ہو گا۔ فرمایا کہ بھلا تو جاؤ، تم ابھی جاؤ، دیکھو تو کیا ہوتا ہے۔ انھوں نے کہا، بہت خوب جاؤں گا، فرمایا کہ جاؤں گا، نہیں اُٹھئے بس اب جائیے، نواب نے کہا کہ نہیں، میں نے عرض کیا، ضرور جاؤں گا، بگڑ کر بولے کہ عرض ورض نہیں، بس شرط یہ ہے کہ اسی وقت جائیے اور سیدھے وہیں جائیے گا۔ احمد بخش خاں بھی انداز دیکھ کر خاموش ہوئے اور اُٹھ کر چلے۔ انھوں نے فرمایا کہ وہیں جانا اور مجھے پریشان تو کیا ہے، ذرا پھرتے ہوئے ادھر ہی کو آنا۔ اُستاد کہتے تھے کہ وہ تو گئے مگر ان کو دیکھتا ہوں کہ چپ اور چہرہ پر اضطراب، کوئی دو گھڑی ہوئی تھی ابھی میں بیٹھا غزل بنا رہا ہوں کہ دیکھتا ہوں۔ نواب سامنے سے چلے اے ہیں۔ خوش خوش، لبوں پر تبسم، آ کر سلام کیا اور بیٹھ گئے۔ انھوں نے دیکھتے ہی کہا، کیوں صاحب؟ نواب بولے گیا تھا، وہ اطلاع ہوتے ہی خود نکل آئے اور پوچھا ہیں نواب! اس وقت خلاف عادت؟ میں نے کہا بھئی میں نے سنا تم نے حکم دیا ہے کہ جو ہم سے ملے بدھ کو ملے۔ ابھی میں تقریر تمام بھی نہ کی تھی کہ وہ بولے نہیں نہیں نواب صاحب! آپ کے واسطے یہ حکم نہیں۔ آپ ان لوگوں میں نہیں ہیں۔ آپ جس وقت چاہے چلے آئیں۔ میں نے کہا، بھائی تم جانتے ہو، ریاست کے جھگڑے ہیں حفقانی دیوانہ کوئی بات کہنی ہے، کوئی سننی ہے، بس میرے کام تو بند ہوئے۔ بھائی میں تو رخصت کو آیا تھا کہ فیروز پور چلا جاؤں گا، اب یہاں رہ کر کیا کروں۔ انھوں نے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۵۶۳

پھر وہی کلمات ادا کئے اور کہا، دن رات میں جب جی چاہے، میں نے کہا، خیر تو خاطر جمع ہو گئی۔ اب میں جاتا ہوں۔ الہٰی بخش خاں مرحوم بھی شگفتہ ہو گئے اور کہا بس اب جائیے آرا م کیجئے۔ آزاد جو خدا کے لئے دنیا کو چھوڑ بیٹھے ہیں، خدا بھی انھیں نہیں چھوڑتا۔

ساتھ ہی اُستاد مرحوم یہ بھی کہتے تھے اور یہ بات بھی لکھنے کے قابل ہے کہ زبان سے الہٰی بخش خاں مرحوم نے کبھی نہیں کہا۔ مگر میں جانتا ہوں انھیں آرزو بھی کہ علی بخش خاں (ایک ہی بیٹا تھا) بذات خود صاحب منصب اور صاحب امارت ہو، چچا کا اور اس کی اولاد کا دستِ نگر نہ ہو، ساز و سامان کر کے ریاستوں میں بھی بھیجا۔ صاحب لوگوں کے ہاں بھی بندوبست گئے، ظاہری و باطنی ساری کوششیں کیں، یہی بات نصیب نہ ہوئی، مشیت اللہ مشیت اللہ اور وہ خود بھی اخیر میں سمجھ گئے تھے۔ ایک دن انھیں باتوں میں اُستاد نے فرمایا کہ علی بخش خاں بھی خوبصورت اور شاندار امیر زادہ تھا، میں نے عرض کی کہ حضرت کئی دفعہ بعض مجلسوں میں، بعض درباروں میں میں نے دیکھا ایسے تو نہیں، افسردہ ہو کر کہا، کیا کہتے ہو ذکر جوانی اور پیری اور ذکر امیری اور فقری کس کو یقین آیا ہے۔

لطیفہ : استاد مرحوم نے فرمایا کہ اُن دنوں مرزا خاں کوتوال تھے۔ مرزا قتیل کے شاگرد، فارسی نگاری اور انشاء پردازی کے ساتھ سخن فہمی کے دعوے رکھتے تھے۔ منشی محمد منین خاں میر منشی تھے اور فی الحقیقیت نہایت خوش صحت خوش اخلاق بامروت لوگ تھے۔ ایک روز دونوں صاحب
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۵۶۴

الہی بخش خاں مرحوم کی ملاقات کو آئے اور تعارف رسمی کے بعد شعر کی فرمائش کی، انھیں اور لوگوں کی طرح یہ عادت نہ تھی، کہ خواہ مخواہ جو آئے اُسے اپنے شعر سنانے لگیں، اگر کوئی فرمائش کرتا تھا تو بات کو ٹال کر پہلے اُس کا کلام سُن لیتے تھے۔ شاعر نہ ہوتا تو کہتے کہ کسی اور اُستاد کے دو چار شعر پڑھئے جو آپ کو پسند ہوں، جب اس کی طبیعت معلوم کر لیتے، تو اسی رنگ کا شعر اپنے اشعار میں سُناتے، اسی بنیاد پر ان سے کہا کہ آپ دونوں صاحب کُچھ کچھ اشعار سنائیے۔ انھوں نے کچھ شعر پڑھے، بعد اس کے الہٰی بخش خاں مرحوم نے دو تین شعر وہ بھی ان کے اصرار سے پڑھے اور اِدھر اُدھر کی باتوں میں ٹال گئے۔ جب وہ چلے گئے تو مجھ سے کہنے لگے۔ میاں ابراہیم! تم نے دیکھا؟ اور ان کے شعر بھی سُنے! عجیب مجہول الکیفیت ہیں، کچھ حال ہی نہیں کُھلتا کہ ہیں کیا؟ یہی مرزا خاں اور منشی صاحب ہیں جن کی سخن پردازی کاور نکتہ یابی کی اتنی دھوم ہے اور اس پر تماش بینی کے بھی دعوے ہیں۔ رنڈی تو ان کے منھ پر دو جوتیاں بھی نہ مارتی ہو گی۔ بھلا یہ کیا کہیں گے اور کیا سمجھیں گے، آزاد ملک سخن اور شاعری کا عالم، عالم گوناگوں ہے، ہمہ گیر ذہن اور کیفیت سے لطف اُٹھانے والی طبیعت اس کے لئے لازم ہے، الہٰی بخش خاں مرحوم صاحبِ دل، پاکیزہ نفس، روشن ضمیر تھے، مگر ہر بات کو جانتے تھے اور جاننے والے جانتے ہیں کہ بات کا جاننا اور چیز ہے اور کرنا اور چیز ہے۔ طبیعتیں ہیں کہ نہیں کرتیں اور سب کچھ جانتی ہیں اور ایسی بھی ہیں کہ سب کچھ کرتی ہیں اور کچھ نہیں جانتیں، خوشا نصیب اُن لوگوں
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۵۶۵

جنھیں خدا اثر پذیر دل اور کیفیت کے پانے والی طبیعت عنایت کرے کہ عجب دولت ہے۔

اِدھر ولی عہد بہادر کی فرمائشیں اُدھر نواب مرحوم کی غزلوں پر طبیعت کی آزمائشیں تھیں کہ کئی برس کے بعد شاہ نصیر مرحوم دکن سے پھرے اور اپنا معمولی مشاعرہ جاری کیا۔ شیخ علیہ الرحمۃ کی مشقیں خوب زوروں پر چڑھ گئی تھیں، انھوں نے بھی مشاعرہ میں جا کر غزل پڑھی، شاہ صاحب نے دکن میں کسی کی فرمائش سے ۹ شعر کی ایک غزل کہی تھی، جس کی ردیف تھی آتش و آب و خاک و باد، وہ غزل مشاعرہ میں سنائی اور کہا اِس طرح جو غزل لکھے، اُسے میں اُستاد مانتا ہوں (یہ طنز ہے شیخ مرحوم پر کہ ولیعہد بہادر اور نواب الہٰی بخش خاں کی غزل بناتے تھے اور اُستاد کہلاتے تھے)۔ دوسرے مشاعرہ میں انھوں نے اس پر غزل پڑھی، شاہ صاحب کی طرف سے بجائے خود اس پر کچھ اعتراض ہوئے۔ جشن قریب تھا شیخ علیہ الرحمۃ نے بادشاہ کی تعریف میں ایک قصیدہ اسی طرح میں لکھا۔ مگر پہلے مولوی شاہ عبد العزیز صاحب کے پاس لے گئے کہ اس کے صحت و سقم سے آگاہ فرمائیں۔ انھوں نے سُن کر پڑھنے کی اجازت دی کہ ولی عہد بہادر نے اپنے شقہ کے ساتھ اُسے پھر شاہ صاحب کے پاس بھیجا، انھوں نے جو کچھ کہا تھا وہی جواب میں لکھ دیا اور یہ شعر بھی لکھ دیا۔

بود بگفتہ من ھرف اعتراض چناں
کسے بدیدہ بینا فرد برو انگشت​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۵۶۶

شیخ صاحب کا دل اور بھی قوی ہو گیا اور دربار شاہی نیں جا کر قصیدہ سُنایا، اس کے بڑے بڑے چرچے ہوئے اور کئی دن کے بعد سُنا کہ اس پر اعتراض لکھے گئے ہیں۔

شیخ مرحوم قصیدہ مذکور کو مشاعرہ میں لے گئے کہ وہاں پڑھیں اور روبرو برسر معرکہ فیصلہ ہو جائے، چنانچہ قصیدہ پڑھا گیا، شاہ نصیر مرحوم نے ایک مستعد طالب علم کو کہ کتب تحصیلی اُسے خوب رواں تھیں، جلسہ میں پیش کر کے فرمایا کہ انھوں نے اس پر کچھ اعتراض لکھے ہیں، شیخ علیہ الرحمۃ نے عرض کی کہ میں آپ کا شاگرد ہوں اور اپنے تئیں اس قابل نہیں سمجھتا کہ آپ کے اعتراضوں کے لئے قابل خطاب ہوں، انھوں نے کہا مجھ سے کچھ تعلق نہیں، انھوں نے کچھ لکھا ہے، شیخ مرحوم نے کہا خیر تحریر تو اسی وقت تک ہے کہ فاصلہ دوری درمیان ہو، جب آمنے سامنے موجود ہیں تو تقریر فرمائیے، قصیدہ کا مطلع تھا :

کوہ اور آندھی میں ہوں گر آتش و آب و خاک و باد
آج نہ چل سکیں گے پر آتش و آب و خاک و باد​

معترض نے اعتراض کیا کہ سنگ میں آتش کے چلنے کا ثبوت چاہیے انھوں نے کہا کہ جب پہاڑ کو بڑھنے کے سبب سے حرکت ہے تو اس میں آگ کو بھی حرکت ہو گی، معترض نے کہا کہ سنگ میں آتش کا ثبوت چاہیے، انھوں نے کہا کہ مشاہدہ! اس نے کہا کتابی سند دو، انھوں نے کہا تاریخ سے ثابت ہے کہ ہوشنگ کے وقت میں آگ نکلی۔ اس نے کہا کہ شاعری میں شعر کی سند درکار ہے۔ تاریخ
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۵۶۷

شعر میں نہیں چلتی، حاضرین مشاعرہ اِن جواب و سوال کی اُلٹ پلٹ کے تماشے دیکھ رہے تھے اور اعتراض پر حیران تھے کہ دفعتہً شیخ علیہ الرحمۃ نے یہ شعر محسن تاثیر کا پڑھا :

پیش از ظہور جلوہ جانانہ سوختیم
آتش بہ سنگ بود کہ ماخانہ سوختیم​

سُنتے ہیں کہ مشاعرہ میں غل سے ایک ولولہ پیدا ہوا اور ساتھ ہی سوداؔ کا مصرع گزرانا :

مصرعہ "ہر سنگ میں شرار ہے تیرے ظہور کا"​

اسی طرح اکثر سوال و جواب ہوئے، شاہ صاحب بھی بیچ میں کچھ دخل دیتے جاتے تھے، اخیر میں ایک شعر پر انھوں نے یہ اعتراض کیا کہ اس میں ثبوت روانی کا نہیں ہے، شیخ علیہ الرحمۃ نے کہا یہاں تغلیب ہے، اس وقت خود شاہ صاحب نے فرمایا کہ یہ تغلیب کہیں آئی نہیں۔ انھوں نے کہا کہ تغلیب کا قاعدہ ہے، انھوں نے کہا کہ جب تک کسی اُستاد کے کلام میں نہ ہو جائز نہیں ہو سکتی۔ شیخ علیہ الرحمۃ نے کہا کہ اپ نے نو شعر کی غزل پڑھ کر فرمایا تھا کہ اس طرح میں کوئی غزل کہے تو ہم اسے استاد جانیں، میں نے تو ایک غزل اور تین قصیدے لکھے اب بھی اُستاد نہ ہوا، معترض نے کہا کہ اس وقت مجھ سے اعتراضوں کا پورا سر انجام نہیں ہو سکتا، کل پر منحصر رکھنا چاہیے اور جلسہ برخاست ہوا۔

اُسی دن سے اُنھیں تکمیل علوم اور سیر کتب کا شغل واجب ہوا،
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۵۶۸

قدرتی سامان اس کا یہ ہوا کہ راجہ صاحب رام جو املاک شاہ اودھ کے مختار تھے، انھیں یہ شوق ہوا کہ اپنے بیٹے کو کتب علمی کی تحصیل تمام کروائیں۔ مولوی عبد الرزاق کہ شیخ مرحوم کے قدیمی اُستاد تھے، وہی ان کے پڑھانے پر مقرر ہوئے، اتفاقاً ایک دن یہ بھی مولوی صاحب کے ساتھ گئے، چونکہ اِن کی تیزیِ طبع کا شہرہ ہو گیا تھا، راجہ صاحب رام نے اُن سے کہا کہ میاں ابراہیم! تم ہمیشہ درس میں شریک رہو، چنانچہ نوبت یہ ہو گئی کہ اگر یہ کبھی شغل یا ضرورت کے سبب وہاں نہ جاتے تو راجہ صاحب رام کا آدمی انھیں ڈھونڈھکر لاتا اور نہیں تو ان کا سبق ملتوی رہتا۔

کہا کرتے تھے کہ جب بادشاہ عالم ولی عہدی میں تھے تو مرزا سلیم کے بیاہ کی تہنیت میں ایک مثنوی ہم نے لکھی، اس کی بحر، مثنوی کی بحروں سے الگ تھی، لوگوں نے چرچا کیا کہ جائز نہیں، میر نجات کی گل کشتی ہماری دیکھی ہوئی تھی، مگر حکیم مرزا محمد صاحب رحمۃ اللہ (حکیم مرزا محمد صاحب علم و فضل کے خاندان سے ایک فاضل کامل اور جامع الکمالات تھے، طب میں حکیم محمد شریف خاں مرھوم کے شاگرد تھے جو حکیم محمود خاں کے دادا تھے۔ حکیم مرزا محمد صاحب خود بھی شاعر تھے اور ان کے والد بھی صاحب علم و فضل شاعر تھے۔ کاملؔ تخلص کرتے تھے اور میر شمس الدین فقیرؔ مصنف حدائق البلاغت کے شاگرد تھے۔ ان کا ایک ھبوط رسالہ "علم قوافی" میں نے دیکھا ہےہ۔ انھوں نے تحفہ اثنا عشریہ کا جواب لکھا تھا، اخیر کے تین باب باقی تھے جو دنیا سے انتقال کیا۔ اکثر علما نے کتاب مذکورہ کے جواب لکھے ہیں مگر متانت اور جامعیت اور اختصار کے ساتھ انھوں نے لکھا ہے کسی نے نہیں لکھا۔) زندہ تھے اور میرے والد مرحوم انھیں کا علاج کرتے تھے۔ وسعتِ معلومات اور حصولِ تحقیقات
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۵۶۹

کی نظر سے ہم نے ان سے جا کر پوچھا، انھوں نے فرمایا کہ رواج انفاقی ہے جو مثنوی انہی آٹھ بحروں میں منحصر ہو گئی ہے ورنہ طبع سلیم پر کون حاکم ہے جو روکے، جس بحر میں چاہو لکھو۔ اُستاد کے مسودوں میں ایک پرچہ پر چند شعر اس کے نکلے تھے۔ ان میں ساچق کا مضمون تھا۔ دو شعر اب تک یاد ہیں :

ٹھلیاں تو نہ تھیں وہ مئے عشرت کے سُبو تھے
یا قُلزم مستی کے حبابِ لبِ جو تھے

لازم تھا کہ لکھ باندھتے یہ اُن کے گلو میں
ہے بند کیا عیش کے دریا کو سُبو میں​

چند سال کے بعد انھوں نے ایک قصیدہ اکبر شاہ کے دربار میں کہکر سُنایا کہ جس کے مختلف شعروں میں انواع و اقسام کے صنائع و بدائع صرف کئے تھے، اس کے علاوہ ایک ایک زبان میں جو ایک ایک شعر تھا ان کی تعداد اٹھارہ تھی۔ مطلع اس کا یہ ہے :

جبکہ سرطان و اسد مہر کا ٹھہرا مسکن
آب و ایلولہ ہوئے نشو نمائے گلشن​

اس پر بادشاہ نے خاقانی ہند کا خطاب عطا کیا۔ اسوقت شیخ مرحوم کی عمر ۱۹ برس کی تھی۔

حافظ احمد یار (دیکھو صفحہ ۳۶۸، حافظ احمد یار سید انشاء کے یار ہیں۔ یہ عجیب شگفتہ مزاج، خوش طبع سخن فہم شخص تھے۔ باوجودیکہ استاد جوان تھے وہ بڈھے تھے مگر یاروں کی طرح ملتے تھے۔ حافظ مرحوم ان ہی مولوی صاحب کے داماد تھے۔ جنھوں نے حلّت زاغ کا فتویٰ دیا تھا اور سوداؔ نے ان کی ہجو کہی تھی۔ ترجیع بند مخمس میں۔ ع

زاغ - " ایک مسخرہ یہ کہتا ہے کوّا حلال ہے"​

نے چند روز پہلے خواب میں دیکھا کہ ایک جنازہ رکھا
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۵۷۰

ہے بہت سے لوگ گرد جمع ہیں، وہاں حافظ عبد الرحیم کہ حافظ احمد یار کے والد تھے، ایک کھیر کا پیالہ لئے کھرے ہیں، اور شیخ علیہ الرحمۃ کو اس میں چمچے بھر بھر دیتے جاتے تھے، حافظ موصوف نے اُن سے پوچھا کہ یہ کیا معرکہ ہے اور جنازہ کس کا ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ یہ مرزا رفیعؔ کا جنازہ ہے اور میاں ابراہیم ان کے قائم مقام مقرر ہوئے ہیں۔ خاقانی ہند کے خطاب پر لوگوں نے بڑے چرچے کئے کہ بادشاہ نے یہ کیا کیا، کہن سال اور نامی شاعروں کے ہوتے ایک نوجوان کو ملک الشعراء بنایا اور ایسا عالی درجہ کا خطاب دیا۔ ایک جلسہ میں یہی گفتگو ہو رہی تھی، کسی نے کہا کہ جس قسیدہ پر یہ خطاب عطا ہوا ہے اُسے بھی تو دیکھنا چاہیے۔ چنانچہ قصیدہ مذکور لا کر پڑھا گیا، میر کلّو حقیر کہ شاعر سن رسیدہ اور شعرائے قدیم کے صحبت یافتہ تھے، سُن کر بولے کہ بھئی انصاف شرط ہے، کلام کو بھی تو دیکھو، ایسے شخص کو بادشاہ نے کاقانیِ ہند کے خطاب سے ملک الشعراء بنایا تو کیا بُرا کیا۔ مجھے یاد ہے جب اُستاد مرحوم نے یہ حال بیان کیا، اس وقت بھی کہا تھا اور جب میں ارباب زمانہ کی بے انصافی یا اُن کی بے خبری اور بے صبری سے دق ہو کر کچھ کہتا تو فرماتے تھے کہ بے انصافوں ہی میں سے باانصاف بھی بول اُٹھتا ہے، بیخبروں میں باخبر بھی نکل آتا ہے۔ اپنا کام کئے جاؤ، ۳۶ برس کی عمر تھی جبکہ جملہ منہیات سے توبہ کی اور اس کی تاریخ کہی۔ ع

"اے ذوقؔ بگو سہ (۳) بار توبہ"​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۵۷۱

مرزا ابو ظفر بادشاہ ہو کر بہادر شاہ ہوئے تو انھوں نے پہلے یہ قصیدہ گزرانا :

روکش ترے رُخ سے ہو کیا نور سحر رنگ شفق
ہر ذرّہ تیرا پرتوِ نور سحر رنگِ شفق​

اگرچہ مرزا ابو ظفر ہمیشہ انھیں دل سے عزیز رکھتے تھے اور دلی رازوں کے لئے مخزن اعتبار سمجھتے تھے، مگر ولی عہدی میں مرزا مغل بیگ مختار تھے، جب کبھی بڑی سے بڑی ترقی یا انعام کے موقعے آئے تو اُستاد کے لئے یہ ہوا کہ ۴ روپیہ مہینہ سے ۵ روپیہ ہو گئے، ۵ روپیہ سے ۷ روپیہ ہو گئے۔ جب جب بادشاہ ہوئے اور مرزا مغل بیگ وزیر ہوئے تو وزیر شاہی کا سارا کُنبہ قلعہ میں بھر گیا، مگر اُستاد شاہی کو ۳۰ روپیہ مہینہ! پھر بھی انھوں نے حضور میں اپنی زبان سے ترقی کے لئے عرض نہیں کی، ان کی عادت تھی کہ فکرِ سخن میں ٹہلا کرتے تھے اور شعر موزوں کیا کرتے تھے، چنانچہ ان دونوں میں جب کوئی عالی مضمون چُستی اور دُرستی کے ساتھ موزوں ہوتا، تو اس کے سرور میں آسمان کی طرف دیکھتے اور کہتے پھرتے :

یوں پھریں اہلِ کمال آشفتہ حال افسوس ہے
اے کمال افسوس ہے تجھ پر کمال افسوس ہے​

یہاں عبد العزیز خاں صاحب (فراش کانہ کی کھڑکی میں رہتے تھے) ایک مرد بزرگ صاحب نسبت فقیر تھے، شیخ مرحوم بھی اُن سے بہت اعتقاد رکھتے تھے، اس عالم میں ایک دن
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۵۷۲

اُن کے پاس گئے اور کہا کہ تخت نشینی سے پہلے حضور کے بڑے بڑے وعدے تھے، لیکن اب یہ عالم ہے کہ الف کے نام ب نہیں جانتے، زبان تک درست نہیں، مگر جو کچھ ہیں مرزا مغل بیگ ہیں۔ انھوں نے کہا کہ خدائی کے کارخانے میں اگرچہ عقل ظاہر میں کام نہیں کرتی، مگر یہ دیکھو کہ جو دولت تم کو دی ہے وہ اس کو بھی تو نہیں دی ہے، جس دعویٰ سے تم دربار میں کھڑے ہو کر اپنا کلام پرھتے ہو، اس دعوے سے وہ اپنی وزارت کے مقام پر کب کھڑا ہو سکتا ہو گا، ادنیٰ ادنیٰ منشی متصدی اس کے لکھتے پڑھتے ہوں گے، وہ کیسا ترستا ہو گا کہ زیادہ کے لکھنے کو سمجھ سکتا ہے، نہ ان کا جھوٹ سچ معلوم کر سکتا ہے، شیخ مرحوم نے اُن کی ہدایت کو تسلیم کیا، اور پھر کبھی شکایت نہ کی۔

چند روز کے بعد مرزا مغل بیگ کی تُرکی تمام ہو گئی۔ تمام کُنبہ قلعہ سے نکالا گیا، نواب حامد علی خاں مرحوم مختار ہو گئے، جب اُستاد شاہی کا سو (۱۰۰) روپیہ مہینہ ہوا، ہمیشہ عیدوں اور نوروزوں کے جشنوں میں قصیدے مبارکباد کے پڑھتے تھے اور خلعت سے اعزاز پاتے تھے۔

اواخر ایّام میں ایک دفعہ بادشاہ بیمار ہوئے، جب شفا پائی، اور انھوں نے ایک قصیدہ غرّا کہہ کر گزرانا تو خلعت کے علاوہ خطاب خان بہادر اور ایک ہاتھی معہ حوضہ نقرئی انعام ہوا۔

پھر ایک بڑے زور شور کا قصیدہ کہہ کر گزرانا، جس کا مطلع ہے۔ ع

شب کو میں اپنے سرِ بسترِ خواب رات​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۵۷۳

اس پر ایک گاؤں جاگیر عطا ہوا۔

جس رات کی صبح ہوتے انتقال ہوا، قریب شام میں بھی موجود تھا کہ انھیں پیشاب کی حاجت معلوم ہوئی۔ خلیفہ صاحب نے اُٹھایا، چوکی پائینتی لگی ہوئی تھی، ہاتھ کا سہارا دیا اور انھوں نے کھسک کر آگے بڑھنا چاہا، طاقت نے یاری نہ دی تو کہا، آہ ناتوانی، خلیفہ صاحب نے فرمایا، شاعروں ہی کا ضعف ہو گیا، حافظ ویران بھی بیٹھے تھے، وہ بولے کہ آپ نے بھی ضعف کے بڑے بڑے مضمون باندھے ہیں، مسکرا کر فرمایا کہ اب تو کچھ اس سے بھی زیادہ ہے۔ میں نے کہا سبحان اللہ! اس عالم میں بھی مبالغہ قائم ہے۔ خدا اسی مبالغہ کے ساتھ توانائی دے۔ میں رخصت ہوا۔ رات اسی حالت سے گزری۔ صبح ہوتے کہ ۲۴ صفر ۱۲۷۱ھ جمعرات کا دن تھا، ۱۷ دن بیمار رہ کر وفات پائی، مرنے سے ۳ گھنٹے پہلے یہ شعر کہا تھا۔

کہتے ہیں آج ذوق جہاں سے گذر گیا
کیا خوب آدمی تھی خدا مغفرت کرے​

شعرائے ہند نے جس قدر تاریخیں اُن کی کہیں، آج تک کسی بادشاہ یا صاحب کمال کو نصیب نہیں ہوئیں۔

اُردو اخبار ان دنوں دہلی میں جاری تھے، برس دن تک کوئی اخبارایسا نہ تھا جسمیں ہر ہفتہ کئی کئی تاریخیں نہ چھپی ہوں۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۵۷۴

خاص حالات اوور طبعی عادات

شیخ مرحوم قد و قامت میں متوسط اندام تھے، چنانچہ خود فرماتے ہیں :

آدمیت سے ہے بالا آدمی کا مرتبہ
پست ہمت یہ نہ ہوئے پست قامت ہو تو ہو​

رنگ سانولا، چیچک کے داغ بہت تھے، کہتے تھے کہ ۹ دفعہ چیچک نکلی تھی مگر رنگت اور وہ داغ کچھ ایسے مناسب و موزوں واقع ہوئے تھے کہ چمکتے تھے اور اب بھلے معلوم ہوتے ہیں، آنکھیں روشن اور نگاہیں تیز تھیں، چہرہ کا نقشہ کھڑا تھا اور بدن میں پھرتی پائی جاتی تھی، بہت جلد چلتے تھے، اکثر مفید کپڑے پہنتے تھے اور وہ اُن کو نہایت زیب دیتے تھے، آواز بلند اور خوش آیند، جب مشاعرہ میں پڑھتے تھے تو محفل گونچ اُٹھتی تھی۔ اُن کے پڑھنے کی طرز اُن کے کلام کی تاثیر کو زیادہ زور دیتی تھی، اپنی غزل آپ ہی پڑھتے تھے، کسی اور سے ہرگز نہ پڑھواتے تھے۔

صنائع قدرت جنھیں صاحب کمال کرتا ہے انھیں اکثر صفتیں دیتا ہے۔ جن میں وہ ابنائے جنس سے صاف الگ نظر آتے ہیں، چنانچہ ان کی تیزی ذہن اور براقی طبع کا حال تو اب بھی اُن کے کلام سے ثابت ہے مگر قوت حافظہ کے باب میں ایک ماجرا عالم شیر خواری کا انھوں نے بیان کیا، جسے سُن کر سب تعجب کریں گے۔ کہتے تھے مجھے اب تک یاد ہے کہ اس عالم میں
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۵۷۵

ایک دن مجھے بخار تھا، والدہ نے پلنگ پر لٹا کر لحاف اوڑھا دیا، اور آپ کسی کام کو چلی گئیں، ایک بلی لحاف میں گُھس آئی، مجھے اس سے اور اس کی خُر خُر کی آواز سے نہایت تکلیف معلوم ہونے لگی۔ لیکن نہ ہاتھ سے ہٹا سکتا تھا نہ زبان سے پکار سکتا تھا، گھبراتا تھا اور رہ جاتا تھا۔ تھوڑی دیر میں والدہ آ گئیں، انھوں نے اُسے ہٹایا تو مجھے غنیمت معلوم ہوا اور وہ دونوں کیفیتیں ابتک یاد ہیں۔ چنانچہ میں جب بڑا ہوا تو میں والدہ سے پوچھا انھوں نے یاد کر کے اس واقعہ کی تصدیق کی، اور کہا فی الحقیقت اُس وقت تیری عمر برس دن سے کچھ کم تھی۔

صلاحیت کے باب میں خدا کا شکر کیا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ ایک دن املی کے درخت میں کنکوا اٹک گیا، میں اُتارنے کو اوپر چڑھ گیا اور ایک ٹہنی کو سہارے کے قابل سمجھ کر پاؤں رکھا، وہ ٹوٹ گئی میں نیچے آ پڑا۔ بہت چوٹ لگی۔ مگر خدا نے ایسی توفیق دی کہ پھر نہ کنکوا اُڑایا نہ درخت پر چڑھا۔

عمر بھر اپنے ہاتھ سے جانور ذبح نہیں کیا، عالم جوانی کا ذکر کرتے تھے کہ یاروں نے ایک مجرب نسخہ قوت باہ کا بڑی کوششوں سے ہاتھ آیا، شریک ہو کر اُس کے بنانے کی صلاح ٹھہری۔ ایک ایک جزو کا بہم پہونچانا ایک ایک شخص کے ذمہ ہوا۔ چنانچہ ۴۰ چڑوں کا مغز ہمارے سر ہوا۔ ہم نے گھر آ کر اُن کے پکڑنے کے سامان پھیلا دیئے اور دو تین چڑے پکڑ کر ایک پنجرے میں ڈالے۔ ان کا پھڑکنا دیکھ کر خیال آیا کہ ابراہیم ایک پل کے مزے کے لئے ۴۰ بے گناہوں کا مارنا کیا انسانیت ہے، یہ بھی تو آخر جان رکھتے ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۵۷۶

اور اپنی پیاری زندگی کے لئے ہر قسم کی لذتیں رکھتے ہیں، اسی وقت اٹھا، انھیں چھوڑ دیا اور سب سامان توڑ پھوڑ کر یاروں میں جا کر کہدیا کہ بھئی ہم اس نسخہ میں شریک نہیں ہوتے۔

ان کی عادت تھی کہ ٹہلتے بہت تھے۔ دروازہ کے آگے لمبی گلی تھی۔ اکثر اس میں پھرا کرتے تھے، رات کے وقت ٹہلتے ٹہلتے آئے اور کہنے لگے کہ میاں ایک سانپ گلی میں چلا جاتا تھا، حافظ غلام رسول ویران شاگرد رشید بھی بیٹھے تھے انھوں نے کہا کہ حضرت آپ نے اسے مارا نہیں؟ کسی کو آواز دی ہوتی، فرمایا کہ خیال تو مجھے بھی آیا تھا۔ مگر پھر میں نے کہا کہ ابراہیم آخر یہ بھی تو جان رکھتا ہے تجھے کَے رکعت کا ثواب ہو گا، پھر یہ قطعہ پڑھا۔

چہ خوش گفت فردوسیِ پاک زاد
کہ رحمت برآں تربتِ پاک داد

میازاء مورے کہ دانہ کش است
کہ جان داردس دو جان شیریں خوش است​

ایک دفعہ برسات کا موسم تھا، بادشاہ قطب میں تھے، یہ ہمیشہ ساتھ ہوتے تھے۔ اس وقت قصیدہ لکھ رہے تھے۔

شب کو میں اپنے سر بستر خواب راحت​

چڑیاں سائبان میں تنکے رکھ کر گھونسلا بنا رہی تھیں اور ان کے تِنکے جو گرتے تھے انھیں لینے کو بار بار ان کے آس پاس آ بیٹھتی تھیں، یہ عالم محویت میں بیٹھے تھے۔ ایک چڑیا سر پر آن بیٹھی۔ انھوں نے ہاتھ سے اُڑا دیا۔ تھوڑی دیر میں پھر آن بیٹھی انھوں نے پھر اُڑا دیا، جب کئی دفعہ ایسا ہوا، تو ہنس کر کہا اس غیبانی نے میرے سر کر کبوتروں کی چھتری بنایا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۵۷۷

ایک طرف میں بیٹھا تھا، ایک طرف حافظ ویرانؔ بیٹھے تھے، وہ نابینا ہیں، انھوں نے پوچھا کہ حضرت کیا؟ میں نے حال بیان کیا۔ ویران بولے کہ ہمارے سر پر تو نہیں بیٹھتی۔ استاد نے کہا کہ بیٹھے کیوں کر جانتی ہے کہ یہ ۔۔۔۔ ہے، عالم ہے، حافظ ہے، ابھی اُحِلَّ لکُما رصَّیدُ کی آیت پڑھ کر کُلوُ وَشربُو بسمِ اللہ اللہ اکبرَ کر دے گا، دیوانی ہے؟ جو تمھارے سر پر آئے۔

فرماتے تھے کہ میں نے ساڑھے تین سو دیوان اساتذہ سلف کے دیکھے اور ان کا خلاصہ کیا، خان آرزو کی تصنیافات اور ٹیک چند بہار کی تحقیقات اور اس قسم کی اور کتابیں گویا ان کی زبان پر تھیں۔ مگر مجھے اس کا تعجب نہیں، اگر شعرائے عجم کے ہزاروں شعر انھیں یاد تھے تو مجھے حیرت نہیں۔ گفتگو کے وقت جس تڑاتے سے وہ شعر سند میں دیتے تھے، مجھے اس کا بھی خیال نہیں کیونکہ جس فن کو وہ لئے بیٹھے تھے یہ سب اس کے لوازمات ہیں، ہاں تعجب یہ ہے کہ تاریخ کا ذکر ائے تو وہ ایک صاحبِ نظر مؤرخ تھے، تفسیر کا ذکر آئے تو ایسا معلوم ہوتا، گویا تفسیر کبیر دیکھ کر اٹھے ہیں، خصوصاً تصوّف میں ایک عالم خاص تھا، جب تقریر کرتے یہ معلوم ہوتا تھا کہ شیخ شبلی ہیں یا بایزید بسطامی بول رہے ہیں، کہ وحدتِ وجود اور وحدت شہود میں علم اشراق کا پرتو دے کر کبھی ابو سعید ابو الخیر تھے، کبھی محی الدین عربی، پھر جو کہتے تھے ایسے کانٹے کی تول کہتے تھے کہ دل پر نقش ہو جاتا تھا اور جو کچھ ان سے لیا ہے، آج تک دل پر نقش ہے، رمل و نجوم کا ذکر آئے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۵۷۷

ایک طرف میں بیٹھا تھا، ایک طرف حافظ ویرانؔ بیٹھے تھے، وہ نابینا ہیں، انھوں نے پوچھا کہ حضرت کیا؟ میں نے حال بیان کیا۔ ویران بولے کہ ہمارے سر پر تو نہیں بیٹھتی۔ استاد نے کہا کہ بیٹھے کیوں کر جانتی ہے کہ یہ ۔۔۔۔ ہے، عالم ہے، حافظ ہے، ابھی اُحِلَّ لکُما رصَّیدُ کی آیت پڑھ کر کُلوُ وَشربُو بسمِ اللہ اللہ اکبرَ کر دے گا، دیوانی ہے؟ جو تمھارے سر پر آئے۔

فرماتے تھے کہ میں نے ساڑھے تین سو دیوان اساتذہ سلف کے دیکھے اور ان کا خلاصہ کیا، خان آرزو کی تصنیافات اور ٹیک چند بہار کی تحقیقات اور اس قسم کی اور کتابیں گویا ان کی زبان پر تھیں۔ مگر مجھے اس کا تعجب نہیں، اگر شعرائے عجم کے ہزاروں شعر انھیں یاد تھے تو مجھے حیرت نہیں۔ گفتگو کے وقت جس تڑاتے سے وہ شعر سند میں دیتے تھے، مجھے اس کا بھی خیال نہیں کیونکہ جس فن کو وہ لئے بیٹھے تھے یہ سب اس کے لوازمات ہیں، ہاں تعجب یہ ہے کہ تاریخ کا ذکر ائے تو وہ ایک صاحبِ نظر مؤرخ تھے، تفسیر کا ذکر آئے تو ایسا معلوم ہوتا، گویا تفسیر کبیر دیکھ کر اٹھے ہیں، خصوصاً تصوّف میں ایک عالم خاص تھا، جب تقریر کرتے یہ معلوم ہوتا تھا کہ شیخ شبلی ہیں یا بایزید بسطامی بول رہے ہیں، کہ وحدتِ وجود اور وحدت شہود میں علم اشراق کا پرتو دے کر کبھی ابو سعید ابو الخیر تھے، کبھی محی الدین عربی، پھر جو کہتے تھے ایسے کانٹے کی تول کہتے تھے کہ دل پر نقش ہو جاتا تھا اور جو کچھ ان سے لیا ہے، آج تک دل پر نقش ہے، رمل و نجوم کا ذکر آئے

صفحہ ۵۷۸

تو وہ نجومی تھے، خواب کی تعبیر میں انھیں خدا نے ایک ملکہ راسخہ دیا تھا اور لطف یہ کہ احکام اکثر مطابق واقع ہوتے تھے۔ اگرچہ مجھے اس قدر وسعت نظر بہم پہنچانے کا تعجب ہے مگر اس سے زیادہ تعجب یہ ہے کہ ان کے حافظہ میں اس قدر مضامین محفوظ کیونکر رہے۔

وہ کہتے تھے کہ اگرچہ شعر کا مجھے بچپن سے عشق ہے مگر ابتدا میں دنیا کی شہرت اور ناموری اور تفریح طبع نے مجھے مختلف کمالوں کے رستے دکھائے۔ چند روز موسیقی کا شوق ہوا اور کچھ حاصل بھی کیا مگر خاندیش سے ایک صاحبِ کمال گوّیا آیا۔ اس سے ملاقات کی۔ باتوں باتوں میں اس نے کہا کہ جو گانے کا شوق کرے اس کے لئے تین سو برس کی عمر چاہیے۔ سو (۱۰۰) برس سیکھے، سو (۱۰۰) برس سنتا پھرے اور جو سیکھا ہے اسے مطابق کرے پھر سو (۱۰۰) برس بیٹھ کر اوروں کو بھی سنائے اور اس کا لطف اٹھائے۔ یہ سن کر دل برداشتہ ہو گیا اور یہ بھی خیال آیا کہ ابراہیم اگر بڑا کمال پیدا کیا تو ایک ڈوم ہو گئے، اس پر بھی جو کلاونت ہو گا وہ ناک چڑھا کر یہی کہے گا کہ اتائی ہیں۔ سپاہی زادے سے ڈوم بننا کیا ضرور۔

نجوم و رمل کا بھی شوق کیا، اس میں دستگاہ پیدا کی، نجوم کا ایک صاحب کمال مغل پورہ میں رہتا تھا، اس سے نجوم کے مسائل حل کیا کرتے تھے۔ ایک دن کسی سوال کا نہایت درست جواب اس نے دیا اور گفتگو ہوتے ہوتے یہ بھی کہا کہ ایک ستارہ کا حال اور اس کے خواص معلوم کرنے کے لئے ۷۷ برس چاہیے ہیں۔ سن کر اس سے بھی دل برداشتہ ہو گئے۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۵۷۷

ایک طرف میں بیٹھا تھا، ایک طرف حافظ ویرانؔ بیٹھے تھے، وہ نابینا ہیں، انھوں نے پوچھا کہ حضرت کیا؟ میں نے حال بیان کیا۔ ویران بولے کہ ہمارے سر پر تو نہیں بیٹھتی۔ استاد نے کہا کہ بیٹھے کیوں کر جانتی ہے کہ یہ ۔۔۔۔ ہے، عالم ہے، حافظ ہے، ابھی اُحِلَّ لکُما رصَّیدُ کی آیت پڑھ کر کُلوُ وَشربُو بسمِ اللہ اللہ اکبرَ کر دے گا، دیوانی ہے؟ جو تمھارے سر پر آئے۔

فرماتے تھے کہ میں نے ساڑھے تین سو دیوان اساتذہ سلف کے دیکھے اور ان کا خلاصہ کیا، خان آرزو کی تصنیافات اور ٹیک چند بہار کی تحقیقات اور اس قسم کی اور کتابیں گویا ان کی زبان پر تھیں۔ مگر مجھے اس کا تعجب نہیں، اگر شعرائے عجم کے ہزاروں شعر انھیں یاد تھے تو مجھے حیرت نہیں۔ گفتگو کے وقت جس تڑاتے سے وہ شعر سند میں دیتے تھے، مجھے اس کا بھی خیال نہیں کیونکہ جس فن کو وہ لئے بیٹھے تھے یہ سب اس کے لوازمات ہیں، ہاں تعجب یہ ہے کہ تاریخ کا ذکر ائے تو وہ ایک صاحبِ نظر مؤرخ تھے، تفسیر کا ذکر آئے تو ایسا معلوم ہوتا، گویا تفسیر کبیر دیکھ کر اٹھے ہیں، خصوصاً تصوّف میں ایک عالم خاص تھا، جب تقریر کرتے یہ معلوم ہوتا تھا کہ شیخ شبلی ہیں یا بایزید بسطامی بول رہے ہیں، کہ وحدتِ وجود اور وحدت شہود میں علم اشراق کا پرتو دے کر کبھی ابو سعید ابو الخیر تھے، کبھی محی الدین عربی، پھر جو کہتے تھے ایسے کانٹے کی تول کہتے تھے کہ دل پر نقش ہو جاتا تھا اور جو کچھ ان سے لیا ہے، آج تک دل پر نقش ہے، رمل و نجوم کا ذکر آئے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۵۷۸

تو وہ نجومی تھے، خواب کی تعبیر میں انھیں خدا نے ایک ملکہ راسخہ دیا تھا اور لطف یہ کہ احکام اکثر مطابق واقع ہوتے تھے۔ اگرچہ مجھے اس قدر وسعت نظر بہم پہنچانے کا تعجب ہے مگر اس سے زیادہ تعجب یہ ہے کہ ان کے حافظہ میں اس قدر مضامین محفوظ کیونکر رہے۔

وہ کہتے تھے کہ اگرچہ شعر کا مجھے بچپن سے عشق ہے مگر ابتدا میں دنیا کی شہرت اور ناموری اور تفریح طبع نے مجھے مختلف کمالوں کے رستے دکھائے۔ چند روز موسیقی کا شوق ہوا اور کچھ حاصل بھی کیا مگر خاندیش سے ایک صاحبِ کمال گوّیا آیا۔ اس سے ملاقات کی۔ باتوں باتوں میں اس نے کہا کہ جو گانے کا شوق کرے اس کے لئے تین سو برس کی عمر چاہیے۔ سو (۱۰۰) برس سیکھے، سو (۱۰۰) برس سنتا پھرے اور جو سیکھا ہے اسے مطابق کرے پھر سو (۱۰۰) برس بیٹھ کر اوروں کو بھی سنائے اور اس کا لطف اٹھائے۔ یہ سن کر دل برداشتہ ہو گیا اور یہ بھی خیال آیا کہ ابراہیم اگر بڑا کمال پیدا کیا تو ایک ڈوم ہو گئے، اس پر بھی جو کلاونت ہو گا وہ ناک چڑھا کر یہی کہے گا کہ اتائی ہیں۔ سپاہی زادے سے ڈوم بننا کیا ضرور۔

نجوم و رمل کا بھی شوق کیا، اس میں دستگاہ پیدا کی، نجوم کا ایک صاحب کمال مغل پورہ میں رہتا تھا، اس سے نجوم کے مسائل حل کیا کرتے تھے۔ ایک دن کسی سوال کا نہایت درست جواب اس نے دیا اور گفتگو ہوتے ہوتے یہ بھی کہا کہ ایک ستارہ کا حال اور اس کے خواص معلوم کرنے کے لئے ۷۷ برس چاہیے ہیں۔ سن کر اس سے بھی دل برداشتہ ہو گئے۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۵۷۹

طب کو چند روز کیا، اس میں خونِ ناحق نظر آنے لگے، آخر جو طبیعت خدا نے دی تھی، وہی خوبی قسمت کا سامان بنی۔

مکھن لال کے گنج میں ایک جوتشی پنڈت تلسی رام نابینا تھے، ایک مرد دیرینہ سال منشی درگا پرشاد کہ شیخ مرحوم کے قدیمی دوست تھے اور جوتشی صاحب کے پاس بھی جایا کرتے تھے، انھوں نے جوتشی صاحب کی بہت تعریف کی، اور ایک دن قرار پا کر یہ بھی ان کے پاس گئے۔ کئی دل چسپ سلسلے گفتگوؤں کے ہوئے، بعد اذاں انھوں نے بے اظہار نام اپنے زائچہ کی صورت حال بیان کی۔ جوتشی صاحب نے کہا وہ شخص صاحب کمال ہو اور غالباً کمال اس کا کسی ایسے فن میں ہو کہ باعث تفریح ہو۔ اس کا کمال رواج خوب پاوے، اس کے حریف بھی بہت ہوں مگر کوئی سامنے نہ ہو سکے۔ وہ اسی قسم کی باتیں کہتے جاتے تھے، جو شیخ مرحوم نے پوچھا کہ اس کی عمر کیا ہو۔ انھوں نے کہا کہ ۶۷، ۶۸ حد ۶۹۔ یہ سن کر شیخ مرحوم کے چہرہ پر آثار ملال ظاہر ہوئے اور خدا کی قدرت ۶۸ برس کی عمر میں انتقال ہوا۔ اگرچہ عقلاً اور نقلاً احکام نجوم پر اعتقاد نہ کرنا چاہیے، لیکن واقعہ پیش نظر گذرا تھا، اس لئے واقعہ نگاری کا حق ادا کیا۔ میں بھی دیکھتا تھا کہ انھیں آخر عمر میں مرنے کا خیال اکثر رہتا تھا، ایک دفعہ بادشاہ بیمار ہو کر اچھے ہوئے، غسل صحت کا جشن قریب تھا، انھوں نے مبارکباد کا قصیدہ کہا، میں حسبِ معمول خدمت میں حاضر ہوا، اور وہ اس وقت قصیدہ ہی لکھ رہے تھے، چنانچہ کچھ اشعار اس کے سنانے لگے، مطلع تھا۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top