آب حیات - مولانا محمد حسین آزاد (مرحوم)

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۵۸۰

زہے نشاط کہ گر کیجئے اسے تحریر
عیاں ہو خامہ سے تحریر نغمہ جائے سریر​

اس کے آگے شعر سناتے جاتے تھے، میں تعریف کرتا جاتا تھا وہ مسکراتے جاتے تھے اور پڑھتے جاتے تھے۔

ہوا پہ دوڑتا ہے اس طرح سے ابرِ سیاہ
کہ جیسے جائے کوئی فیلِ مست بے زنجیر​

بے اختیار میری زبان سے نکلا کہ سبحان اللہ، رنگینی اور یہ زور ظہوری کا ساقی نامہ ہو گیا۔ چپ ہو گئے اور کہا کہ اس میں زور آتا جاتا ہے۔ اس کی جوانی ہے اور میرا بڑھاپا ہے۔ حافظ ویران سلمہ اللہ نے بیان کیا، اشعار بہاریہ کے سے ہیں۔ دو تین دفعہ فرمایا خواجہ حافظ کا شعر بھی اس میں موقع سے تضمین کریں گے۔

مے دو سالہ و محبوب چاردہ سالہ
ہمیں بس است مرا صحبتِ صغیر و کبیر​

ایک دن جو میں گیا تو جو شعر پرچوں پر پریشان تھے، انھیں ترتیب دیا تھا، چنانچہ سناتے سناتے پھر شعر مذکور پڑھا۔ بعد اس کے قطعہ پڑھا کہ خود کہا تھا۔

ہوا ہے مدرسہ بھی درسگاہِ عیش و نشاط
کہ شمس بازغہ کی جا پڑھیں ہیں بدر منیر

اگر پیالہ ہے صغرا تو ہے سبُو کبرا
نتیجہ یہ ہے کہ سرمست ہیں صغیر و کبیر​

میری طرف دیکھ کر فرمایا، اب بھی! میں نے عرض کی، سبحان اللہ اب اس کی کیا ضرورت رہی، آنکھیں بند کر کے فرمایا، ادھر ہی فیضان ہے۔

دلی میں نواب زینت محل کا مکان لال کنوئیں کے پاس اب بھی موجود ہے۔ بادشاہ نے وہیں دربار کر کے یہ قصیدہ سنا تھا، اس برس ایک شادی کی تقریب میں مجھے دلی جانا ہوا، اسی مکان میں برات ٹھہری تھی، فتح دہلی
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۵۸۱

کے بعد گورنمنٹ نے وہ سرکار پٹیالہ کو دے دیا ہے، بند پڑا رہتا ہے۔ اب اتنے ہی کام کا ہے کہ ادھر کے ضلع میں کوئی برات یا شادی کا جلسہ ہوتا ہے تو داروغہ سے اجازت لے کر وہاں آن بیٹھتے ہیں، واہ

کشتوں کا تیری چشم سیہ مست کے مزار
ہو گا خراب بھی تو خرابات ہوئے گا​

وہ زمانہ اور آج کی حالت دیکھ کر خدا یاد آتا ہے۔ ان کی طبیعت کو خدا تعالٰی نے شعر سے ایسی مناسبت دی تھی کہ رات دن اس کے سوا کچھ خیال نہ تھا اور اسی میں خوش تھے۔ ایک تنگ و تاریک مکان تھا جس کی انگنائی اس قدر تھی کہ ایک چھوٹی سے چارپائی ایک طرف بچھتی تھے، دو طرف اتنا راستہ رہتا تھا کہ ایک آدمی چل سکے، حقہ منھ میں لگا رہتا تھا، کھّری چارپائی پر بیٹھے رہتے تھے۔ لکھے جاتے تھے یا کتاب دیکھے جاتے تھے۔ گرمی جاڑہ برسات تینوں موسموں کی بہاریں وہیں بیٹھے گزر جاتی تھیں۔ انھیں کچھ خبر نہ ہوتی تھی، کوئی میلہ، کوئی عید اور کوئی موسم بلکہ دنیا کے شادی و غم سے انھیں سروکار نہ تھا، جہاں اول روز بیٹھے وہیں بیٹھے اور جبھی اٹھے کہ دنیا سے اٹھے۔

نماز عصر کے وقت میں ہمیشہ حاضر خدمت ہوتا تھا۔ نہا کر وضو کرتے تھے اور ایک لوٹے سے برابر کلیاں کئے جاتے تھے، ایک دن میں نے سبب پوچھا۔ متاسفانہ طور سے بولے کہ خدا جانے کہ کیا ہزلیات زبان سے نکلتے ہیں، خیر یہ بھی ایک ہے، پھر ذرا تامل کر کے ایک ٹھنڈی سانس بھری
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۵۸۲

اور یہ مطلع اسی وقت کہہ کر پڑھا۔

پاک رکھ اپنا وہاں ذکر خدائے پاک سے
کم نہیں ہرگز زباں منھ میں ترے مسواک ہے​

ان کا معمول تھا کہ رات کو کھانے سے فارغ ہو کر بادشاہ کی غزل کہتے تھے، آدھی بجے تک اس سے فراغت ہوتی تھی، پھر وضو کرتے اور وہی ایک لوٹے پانی سے کلّیاں کر کے نماز پڑھتے، پھر وظیفہ شروع ہوتا۔ زیر آسمان کبھی ٹہلتے جاتے کبھی قبلہ رو ٹھہر جاتے، اگرچہ آہستہ آہستہ پڑھتے تھے، مگر اکثر اوقات اس جوشِ دل سے پڑھتے تھے کہ معلوم ہوتا گویا سینہ پھٹ جائے گا۔

وٖظیفہ پڑھ کر دعائیں شروع ہوتی تھیں، یہ گویا ایک نمونہ تھا ان کی طبیعت کی نیکی اور عام نیک خواہی کا۔ اس میں سب سے پہلے یہ دعا تھی الہٰی ایمان کی سلامتی، بدن کی صحت، دنیا کی عزت و حرمت، پھر الہٰی میرے بادشاہ کو بادولت، بااقبال، صحیح و سالم رکھ، اس کے دشمن رد ہوں وغیرہ وغیرہ، پھر میاں اسمٰعیل یعنی اپنے بیٹھے کے لئے پھر اپنے عیال اور خاص خاص دوستوں کے لئے یا جو کسی دوست کے لئے خاص مشکل درپیش ہو، وغیرہ وغیرہ، ایک شب اس موقع پر میرے والد مرحوم انہی کے ہاں تھے۔ ساری دعائیں سنا کئے۔ چنانچہ ان کے دروازے کے سامنے محلہ کا حلال خور رہتا تھا۔ ان دنوں میں اس کا بیل بیمار تھا۔ دعائیں مانگتے مانگتے وہ بھی یاد آ گیا، کہا کہ الہٰی جمّا حلال کور کا بیل بیمار ہے،
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۵۸۳

اسے بھی شفا دے، بیچارہ بڑا غریب ہے، بیل مر جائے گا تو یہ بھی مر جائے گا۔ والد نے جب یہ سنا تو بے اختیار ہنس پڑے، فقرا اور بزرگان دین کے ساتھ انھیں ایسا دلی اعتقاد تھا کہ اس کی کیفیت بیان نہیں ہو سکتی۔ علماء اور اساتذہ سلف کو ہمیشہ باادب یاد کرتے تھے اور کبھی ان پر طعن و تشنیع نہ کرتے تھے اس واسطے ان کے مذہب کا حال کسی پر نہ کھلا۔

اس میں کسی کو کلام نہیں کہ انھوں نے فکر سخن اور کثرت مشق میں فنا فی الشعر کا مرتبہ حاسل کیا ور انشاپردازی ہند کی روح کو شگفتہ کیا مگر فصاحت کا دل کمھلا جاتا ہو گا جب ان کے دیوان مختصر پر نگاہ پڑتی ہو گی، اس کے سبب کا بیان کرنا ایک سخت مصیبت کا افسانہ ہے، اور اس کی مرثیہ خوانی کرنی میرا فرض ہے۔ ان کی وفات کے چند روز بعد میں نے اور خلیفہ اسمٰعیل مرحوم نے کہ وہ بھی باپ کی طرح اکلوتے بیٹے تھے چاہا کہ کلام کو ترتیب دیں۔ متفرق غزلوں کے بستے اور بڑی بڑی پوٹیں تھیں۔ بہت سی تھیلیاں اور مٹکے تھے کہ جو کچھ کہتے تھے، گویا بڑی احتیاط سے ان میں بھرتے جاتے تھے، ترتیب اس کی پسینہ کی جگہ خون بہاتی تھی، کیونکہ بچپن سے لے کر دم واپسیں تک کا کلام انھیں میں تھا، بہت سی متفرق غزلیں بادشاہ کی بہتیری غزلیں شاگردوں کی بھی ملی تھیں۔

چنانچہ اول ان کی غزلیں اور قصائد انتخاب کر لیے۔ یہ کام کئی مہینے میں ختم ہوا، غزض پہلے غزلیں صاف کرنی شروع کیں، اس خطا کا مجھے اقرار ہے کہ کام میں نے جاری کیا مگر بااطمینان کیا۔ مجھے کیا معلوم
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۵۸۴

تھا کہ اس طرح یکایک زمانہ کا ورق الٹ جائے گا، عالم تہ و بالا ہو جائے گا۔ حسرتوں کے خون بہہ جائیں گے، دل کے ارمان دل ہی میں رہ جائیں گے۔ دفعتہً ۱۸۵۷ء کا غدر ہو گیا۔ کسی کو کسی کا ہوش نہ رہا۔ چنانچہ افسوس ہے کہ خلیفہ محمد اسمٰعیل ان کے فرزند جسمانی کے ساتھ ہی ان کے فرزند روحانی بھی دنیا سے رحلت کر گئے۔ میرا یہ حال ہوا کہ فتحیاب لشکر کے بہادر دفعتہً گھر میں گھس آئے اور بندوقیں دکھائیں کہ جلد یہاں سے نکلو، دنیا آنکھوں میں اندھیر تھی، بھرا ہوا گھر سامنے تھا اور میں حیران کھڑا تھا کہ کیا کیا کچھ اٹھا کر لے چلوں۔ ان کی غزلوں کی چُنگ پر نظر پڑی۔ یہی خیال آیا کہ محمد حسین! اگر خدا نے کرم کیا اور زندگی باقی ہے تو سب کچھ ہو جائے گا مگر استاد کہاں سے پیدا ہوں گے جو یہ غزلیں پھر آ کر کہیں گے۔ اب ان کے نام کی زندگی ہے اور ہے تو ان پر منحصر ہے۔ یہ ہیں تو وہ مر کر بھی زندہ ہیں، یہ گئیں تو نام بھی نہ رہے گا، وہی چُنگ اٹھا بغل میں مارا، سجے سجائے گھر کو چھوڑ بائیس نیم جانوں کے ساتھ گھر سے بلکہ شہر سے نکلا، ساتھ ہی زبان سے نکلا کہ حضرت آدم بہشت سے نکلے تھے۔ دلّی بھی ایک بہشت ہے، انہی کا پوتا ہوں، دہلی سے کیوں نہ نکلوں، غرض میں تو آوارہ ہو کر خدا جانے کہاں کا کہاں نکل ایا، مگر حافظ غلام رسول ویرانؔ کہ محبت کے لحاظ سے میری شفیق دوست اور حضرت مرحوم کی شاگردی کے رشتہ سے روحانی بھائی ہیں، انھوں نے شیخ مرحوم کے بعض اور درد خواہ دوستوں سے ذکر کیا کہ سودوں کا سَرمایہ تو سب دلی کے ساتھ برباد ہوا
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۵۸۵

اس وقت یہ زخم تازہ ہے، اگر اب دیوان مرتب نہ ہوا تو کبھی نہ ہو گا، حافظ موصوف کو خود بھی حضرت مرحوم کا کلام بہت کچھ یاد ہے، اور خدا نے ان کی بصیرت کی آنکھیں ایسی روشن کی ہیں کہ بصارت کی آنکھوں کے محتاج نہیں، ان لئے لکھنے کی سخت مشکل ہوئی، غرض کہ ایک مشکل میں کئی کئی مشکلیں تھیں، انھوں نے اس مہم کو سر انجام کیا اور اپنی یاد کے علاوہ نزدیک بلکہ دور دور سے بہت کچھ بہم پہونچایا۔ سب کو سمیٹ کر ۱۲۷۹؁ھ میں ایک مجموعہ جس میں اکثر غزلیں تمام اور اکثر ناتمام، بہت سے متفرق اشعار اور چند قصیدے ہیں، چھاپ کر نکالا مگر دردمندی کا دل پانی پانی ہو گیا اور عبرت کی آنکھوں سے لہو ٹپکا کیونکہ جس شخص نے دنیا کی لذتیں، عمر کے مختلف موسم، اور موسموں کی بہاریں، دن کی عیدیں، رات کی شب براتیں، بدن کے آرام، دل کی خوشیاں، طبیعت کی امنگیں سب چھوڑ دیں اور ایک شعر کو لیا، جس کی انتہائے تمنا یہی ہو گی کہ اس کی بدولت نام نیک باقی رہے گا۔ تباہ کار زمانہ کے ہاتھوں آج اس عمر بھر کی محنت نے یہ سرمایہ دیا اور جس نے ادنےٰ ادنےٰ شاگردوں کو صاحبِ دیوان کر دیا، اس کو یہ دیوان نصیب ہوا۔ خیر ع

یوں ہی خدا جو چاہے تو بندہ کی کیا چلے​

میرے پاس بعض قصیدے ہیں، اکثر غزلیں ہیں، داخل ہو جائیں گی یا ناتمام غزلیں پوری ہو جائیں گی، مگر تصنیف کے دریا میں سے پیاس بھر پانی بھی نہیں۔ چنانچہ یہ تذکرہ چھپ لے تو اس پر توجہ کروں۔ مسبب الاسباب
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۵۸۶

سر انجام کے اسباب عنایت فرمائے۔

جو غزلیں اپنے تخلص سے کہی تھیں اگر جمع کی جاتیں تو بادشاہ کے چاروں دیوانوں کے برابر ہوتیں، غزلوں کے دیوان دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ عام جوہر ان کے کلام کی تازگی، مضمون، صفائی کلام، چستی ترکیب، خوبی محاورہ اور عام فہمی ہے۔ مگر حقیقت میں رنگ مختلف وقتوں میں مختلف رہا۔ ابتدا میں مرزا رفیعؔ کا انداز تھا، شاہ نصیر سے ان دنوں معرکے ہو رہے تھے، ان کا ڈھنگ وہی تھا، اس لئے انھوں نے بھی وہی اختیار کیا۔ اس کے علاوہ مرزا کی طرز پر جلسہ کو گرمانے میں اور لوگوں کے لب و دہن سے واہ وا کے نکال لینے میں ایک عجیب جادو کا اثر ہے، چنانچہ وہی مشکل طرحیں، چست بندشیں، برجستہ ترکیبیں، معانی کی بلندی، الفاظ کی شکوہیں، ان کے ہاں بھی پائی جاتی ہیں، چند روز کے بعد الہٰی بخش خاں معروفؔ کی خدمت میں اور ولیعہد کے دربار میں پہنچے، معروفؔ ایک دیرینہ سال مشاق اور فقیر مزاج شخص تھے۔ ان کی پسند طبع کے بموجب انھیں بھی تصوف اور عرفان اور درد دلی کی طرف خیالات کو مائل کرنا پڑا۔ نوجوان ولی عہد طبیعت کے بادشاہ تھے۔ ادھر یہ بھی جوان اور ان کی طبیعت بھی جوان تھی، وہ جرأءتؔ کے انداز کو پسند کرتے تھے اور جراءتؔ سیّد انشاءؔ و مصحفیؔ کے مطلع اور اشعار بھی لکھنؤ سے اکثر آتے رہتے تھے۔ ان کی غزلیں ان ہی کے انداز میں بناتے تھے۔ نتیجہ اس کا یہ ہوا کہ ان کی غزلیں اخیر
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۵۸۷

کو ایک گلدستہ گلہائے رنگا رنگ کا ہوتی تھی، دو تین شعر بلند خیالی کے، ایک دو تصوف کے، دو تین معاملہ کے اور پیچ اس میں یہ ہوتا تھا کہ ہر قافیہ بھی ایک خاص انداز کے ساتھ خصوصیت رکھتا ہے کہ اسی میں بندھے تو لفط دے، نہیں تو پھیکا رہے، پس وہ مشاق باکمال اس بات کو پورا پورا سمجھے ہوئے تھا، اور جس قافیہ کو جس پہلو سے مناسب دیکھتا تھا اسی میں باندھ دیتا تھا اور اس طرح باندھتا تھا کہ اور پہلو نظر نہ آتا تھا۔ ساتھ اسکے صفائی اور محاورہ کو ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے اور انہی اصول کے لحاظ سے میرؔ، مرزاؔ، دردؔ، مصحفیؔ، سید انشاءؔ، جراتؔ بلکہ تمام شعرائے متقدمین کو اس ادب سے یاد کرتے تھے۔ گویا انھیں کے شاگرد ہیں، ایک ایک کے چیدہ اشعار اس مھبت سے پڑھتے تھے گویا اسی دستور العمل سے انہوں نے تہذیب پائی ہے اور فی الحقیقت سب کے انداز کو اپنے اپنے موقع پر پورا پورا کام میں لاتے تھے، پھر بھی جاننے والے جانتے ہیں کہ اصلی میلان ان کی طبیعت کا سوداؔ کے انداز پر زیادہ تھا۔ نظم اردو کی نقاشی میں مرزائے موصوف نے قصیدہ پر دستکاری کا حق ادا کر دیا ہے۔ ان کے بعد شیخ مرحوم کے سوا کسی نے اس پر قلم نہیں اتھایا اور انھوں نے مرقع کو ایسی اونچی محراب پر سجایا کہ جہاں کسی کا ہاتھ نہیں پہنچا۔ انوریؔ، ظہیرؔ، ظہوریؔ، نظیریؔ، عرفیؔ فارسی کے آسمان پر بجلی ہو کر چمکے ہیں، لیکن ان کے قصیدوں نے اپنی کڑک دمک سے ہند کی زمین کو آسمان کر دکھایا۔ ہر جشن میں ایک قصیدہ کہتے تھے اور خاص خاص تقریبیں جو پیش آتی تھیں، وہ الگ تھیں۔ اس لئے اگر
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۵۸۸

جمع ہوتے تو خاقانیِ ہند کے قصائد خاقانی شروانی سے دوچند تک ہوتے جب تک اکبر شاہ زندہ تھے تب تک ان کا دستور تھا کہ قصیدہ کہکر لے جاتے اور اپنے آقا یعنی ولیعہد بہادر کو سناتے۔ دوسرے دن ولی عہد ممدوح اس میں اپنی جگہ بادشاہ کا نام ڈلوا کر لے جاتے اور دربار شاہی میں سنواتے، افسوس یہ ہے کہ عالم جوانی کی طبع آزمائی سب برباد ہوئی۔ جو کچھ ہیں وہ چند قصیدے ہیں کہ بڑھاپے کی ہمت کی برکت ہے۔

نواب حامد علی خاں مرحوم نے نہایت شوق سے ایک عاشقانہ خط لکھنے کی انھیں فرمائش کی تھی، بادشاہ کی متواتر فرمائشیں یہاں ایسے کاموں کے لئے کب فرصت دیتی تھیں، مگر اتفاق کہ انہی دنوں میں رمضان آ گیا اور اتفاق پر اتفاق یہ کہ بادشاہ نے روزے رکھنے شروع کر دیے، اس سبب سے غزل کہنی موقوف کر دی۔ خیر ان کی زبان کب رک سکتی تھی۔ اس کے علاوہ اس نئے چمن کی ہوا کھانے کو اپنا بھی جی چاہتا تھا۔ انھوں نے وہ نامہ لکھنا شروع کیا۔ اس نے ایسا طول کھینچا کہ تخمیناً تین سو شعر اس کے ہو گئے۔ اس عرصہ میں تین تختیاں سیاہ ہوئی تھیں، مگر ادھر رمضان ہو چکا، بادشاہ کی غزلیں بھی شروع ہو گئیں۔ مثنوی وہیں رہ گئی، بیچ میں کبھی کبھی پھر بھی طبیعت میں امنگ اٹھی، مگر کبھی ایک دن کبھی دو دن ۲۰، ۲۵ شعر ہوئے پھر رہ گئے۔ میں نے جب ہوش سنبھالا اور ہر وقت پاس رہنے لگا تو کئی دفعہ اس کے مختلف ذکر کرتے اور جا بجا کے شعر پڑھا کرتے تھے۔ ایک دن وہ تختیاں اور کاغذی سودے نکلوائے، بہت
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۵۸۹

کم تھا جو کچھ کہ پڑھا جاتا تھا، آخر فرصت نکال نکال کر ان سے پڑھواتا گیا اور آپ لکھتا گیا۔ کل ۵۰۰ شعر سے زیادہ نہ ہوئے، اگرچہ نامہ ناتمام تھا، مگر ایک ایک مصرع سونے کے پانی سے لکھنے کے لائق تھا، میرے صاف کئے ہوئے مسودے بھی انہی متفرق غزلوں میں تھے، جو میں خلیفہ صاحب کے پاس جا کر صاف کیا کرتا تھا چنانچہ ان کے ساتھ ہی وہ بھی گئے، اس کا نام نامہ جانسوز تھا، اول حمد و نعت تھی، پھر ساقی نامہ پھر القاب معشوق، اسی میں اس کا سراپا، اس کے بعد یاد ایام، اس میں چاروں موسموں کی بہار، مگر اس کے معنوں کی نزاکت لفظوں کی لطافت ترکیبوں کی خوبیاں، اندازوں کی شوخیاں، کیا کہوں! سامری کے جادو اور جادو کے طلسم اس کے آگے دھواں ہو کر اڑ جاتے۔

کئی مخمس تھے، کئی رباعیاں تھیں صدہا تاریخیں تھیں مگر تاریخوں کی کمائی بادشاہ کے حصہ میں آئی، کیونکہ بہت بلکہ کل تاریخیں انہی کی فرمائش سے ہوئیں اور انہی کے نام سے ہوئیں۔ مرثیہ سلام کہنے کا انھیں موقع نہ ملا۔ بادشاہ کا قاعدہ تھا کہ شاہ عالم اور اکبر شاہ کی طرح محرم میں کم سے کم ایک سلام ضرور کہتے تھے۔ شیخ مرحوم بھی اسی کو اپنی سعادت اور عبادت سمجھتے تھے، ہزاروں گیت، ٹپّے، ٹھمریاں ہولیاں کہیں، وہ بادشاہ کے نام سے عالم میں مشہور ہوئیں اور ان باتوں میں اپنی شہرت چاہتے بھی نہ تھے۔ میرے نزدیک ان کے اور ان کے دیکھنے والوں کے لئے بڑے فخر کی بات یہ ہے کہ خدا نے کمال شاعری اور
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۵۹۰

ایسا اعلٰی درجہ قادر الکلامی انھیں دیا اور ہزاروں آدمیوں سے انھیں ناراضی یا رنج پہنچا ہو گا، مگر انھوں نے تمام عمر میں ایک شعر بھی ہجو میں نہ کہا۔ خدا ہر شخص کو اس کی نیت کا پھل دیتا ہے۔ اس کی شان دیکھو کہ ۶۸ برس کی عمر پائی مگر خدا نے ان کی ہجو بھی کسی کے منھ سے نہ نکلوائی۔

اکثر ایجاد و اختراع ان کے ارادے میں تھے اور بعض بعض ارادے شروع ہوئے مگر ناتمام رہے کیونکہ بادشاہ کی فرمائشیں دم لینے کی مہلت نہ دیتی تھی اور تماشا یہ کہ بادشاہ بھی ایجاد کا بادشا تھا، اتنا تھا کہ بات نکالتا مگر اسے سمیٹ نہ سکتا تھا، اس کا کیا ہوا، انھیں سنبھالنا پڑتا تھا۔

وہ اپنی غزل بادشاہ کو سناتے نہ تھے۔ اگر کسی طرح اس تک پہونچ جاتی تو وہ اسی غزل پر خود غزل کہتا تھا۔ اب اگر نئی غزل کر دیں، اور وہ اپنی غزل سے پست ہو تو بادشاہ بھی بچہ نہ تھا۔ ستّر برس کا سخن فہم تھا، اگر اس سے چست کہیں تو اپنے کہے کو آپ مٹانا بھی کچھ آسان کام نہیں۔ ناچار اپنی غزل میں ان کا تخلص ڈال کر دے دیتے تھے۔ بادشاہ کو بڑا خیال رہتا تھا کہ وہ اپنی کسی چیز پر زور طبع نہ خرچ کریں۔ جب ان کے شوق طبع کو کسی طرف متوجہ دیکھتا تو برابر غزلوں کا تار باندھ دیتا کہ جو کچھ جوش طبع ہو ادھر ہی آ جائے۔

عموماً انداز کلام

کلام کو دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ مضامین کے ستارے آسمان سے اتارے ہیں۔ مگر اپنے لفظوں کی ترکیب سے انھیں ایسی شان و شکوہ کی کرسیوں
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۵۹۱

پر بٹھایا ہے کہ پہلے سے بھی اونچے نظر آتے ہیں۔ انھیں قادر الکلامی کے دربار سے ملک سخن پر حکومت مل گئی ہے کہ ہر قسم کے خیال کو جس رنگ سے چاہتے ہیں کہہ جاتے ہیں، کبھی تشبیہ کے رنگ سے سجا کر استعارہ کی بو سے بساتے ہیں، کبھی بالکل سادے لباس میں جلوہ دکھاتے ہیں، مگر ایسا کچھ کہہ جاتے ہیں کہ دل میں نشتر سا کھٹک جاتا ہے اور منھ سے کبھی واہ نکلتی ہے اور کبھی آہ نکلتی ہے، معلوم ہوتا ہے کہ ان کے ہونٹوں میں شستہ اور برجستہ لفظوں کے خزانے بھرے ہیں اور ترکیب الفاظ کے ہزاروں رنگ ہیں مگر جسے جہاں سجتا دیکھتے ہیں وہ گویا وہیں کے لئے ہوتا ہے، وہ طبیعت کامل کی طرح ہر مضمون کی طبیعت کو پہچانتے کہ کون سا ہے کہ سادگی میں رنگ دے جائے گا، اور کون سا رنگینی میں کامل مصور کی تیزی قلم کو اس کے رنگوں کی شوخی روشن کرتی ہے۔ اس طرح ان کے مضمون کی باریکی کو ان کے الفاظ کی لطافت جلوہ دیتی ہے۔ انھیں اس بات کا کمال تھا کہ باریک سے باریک مطلب اور پیچیدہ سے پیچیدہ مضمون کو اس صفائی سے ادا کر جاتے تھے گویا ایک شربت کا گھونٹ تھا کہ کانوں کے رستے سے پلا دیا، اسی وصف نے نادانوں کو غلطی میں ڈالا ہے جو کہتے ہیں کہ ان کے ہاں حالی مضامین نہیں، بلکہ سیدھی باتیں اور صاف صاف خیالات ہوتے ہیں، وہ نہیں جانتے کہ ان ہونٹوں کو خدا نے عجیب تاثیر دی ہے کہ جو لفظ ان سے ترکیب پا کر نکلے ہیں خود بخود زبانوں پر ڈھلکتے آتے ہیں، جیسے ریشم پر موتی۔ خدا جانے زبان نے کسی آئینہ
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۵۹۲

کی صفائی اڑائی ہے۔ یا انھوں نے الفاظ کے نگینوں پر کیوں کر جلا کی ہے جس سے کلام میں یہ بات پیدا ہو گئی ہے۔ حقیقت میں اس کا سبب یہ ہے کہ قدرت کلام ان کے ہر ایک نازک اور باریک خیال کو محاورہ اور ضرب المثل میں اس طرح ترکیب دیتی ہے جیسے آئینہ گر شیشہ کو قلعی سے ترکیب دے کر آئینہ بناتا ہے، اسی واسطے ہر ایک شخص کی سمجھ میں آتا ہے اور دل پر اثر بھی کرتا ہے۔

ان کے کلام میں یہ بھی خصوصیت ہے کہ شعر کا کوئی لفظ بھول جائے تو جب تک وہی لفظ اس کی جگہ نہ رکھا جائے، شعر مزا نہیں دیتا چناں چہ لکھنؤ میں میر انیسؔ مرحوم کے سامنے سلسلہ تقریر میں ایک دن میں نے ان کا مطلع پڑھا۔

کوئی آوارہ تیرے نیچے اے گردوں نہ ٹھہرے گا
ولیکن تو بھی گر چاہے کہ میں ٹھہروں نہ ٹھہرے گا​

انھوں نے پوچھا کہ یہ شعر کس کا ہے؟ میں نے کہا شیخ مرحوم کا ہے۔ دو چار باتیں کر کے انھوں نے پھر فرمایا کہ ذرا وہ شعر پڑھیئے گا۔ میں نے پھر پڑھا، انھوں نے دوبار خود اپنی زبان سے پڑھا، پھر باتیں ہونے لگیں۔ چلتے ہوئے پھر کہا ذرا وہ شعر پڑھتے جائیے گا اور ساتھ اس کے یہ بھی کہا کہ صاحب کمال کی یہ بات ہے کہ جو لفظ جس مقام پر اس نے بٹھا دیا ہے اسی طرح پڑھا جاوے تو ٹھیک ہوتا ہے نہیں تو شعر رتبہ سے گر جاتا ہے۔

ان کا مضمون جس طرح دل کو بھلا معلوم ہوتا ہے، اسی طرح پڑھنے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۵۹۳

میں زبان کو مزہ آتا ہے۔ ان کے لفظوں کی ترکیب میں ایک خداداد چستی ہے جو کلام میں زور پیدا کرتی ہے۔ وہ لفظ فقط ان کے دل کا جوش ہی نہیں ظاہر کرتا بلکہ سننے والے کے دل میں ایک خروش پیدا کرتا ہے اور یہی قدرتی رنگ ہے جو ان کے کلام پر سوداؔ کی تقلید کا پرتو ڈالتا ہے۔

ان کے دیوان کو جب نظرِ غور سے دیکھا جاتا ہے تو اس سے رنگا رنگ کے زمزمے اور بوقلموں آوازیں آتی ہیں، ہر رنگ کے انداز موجود ہیں۔ یہی سبب ہے کہ ان کے دیکھنے سے دل اکتا نہیں جاتا، وہ لفظ لفظ کی نبض پہچانتے تھے اور مضامین کے طبیب تھے، جس طرح برجستہ بیٹھتا دیکھتے تھے اسی طرح باندھ دیتے تھے، خیال بندی ہو یا عاشقانہ تصوف ان کے سینے میں جو دل تھا گویا ایک آدمی کا دل نہ تھا ہزاروں آدمیوں کے دل تھے۔ اس واسطے کلام ان کا مقناطیس کی طرح قبول عام کھینچتا ہے۔ دل دل کے خیال باندھتے اور اس طرح باندھتے تھے گویا اپنے ہی دل پر گزر رہی ہے۔

اعتراض

ان کے کلام پر لوگ اعتراض بھی کرتے رہے ہیں۔ چنانچہ ایک پرانی غزل کا شعر ہے۔

سر بوقت ذبح اپنا اس کے زیر پائے ہے
یہ نصیب اللہ اکبر! لوٹنے کی جائے ہے​

لوگوں نے کہا کہ بے اضافی یا صفتی ترکیب کے اس میں ی زیادہ کرنی
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۵۹۴

جائز نہیں مگر یہ اعتراض ان کی کم نظری کے سبب سے تھے۔

درختے کہ اکنوں گرفت است پائے
یہ نیروئے مردے بر آید زجائے

اے زوہ برتر از گماں دامن کبریائے را
دست بتو کجا رسد عقلِ شکستہ پائے را​

ایک پرانی غزل شاہ نصیر کے مشاعرہ میں طرح ہوئی تھی۔

دانہ خرمن ہے ہمیں قطرہ ہے دریا ہم کو
آئے ہے جز میں نظر کل کا تماشا ہم کو​

اس پر اعتراض ہوا کہ اصل لفظ جزو مع واؤ کے ہے۔ فقط جز صحیح نہیں۔ اس کا بھی وہی حال تھا۔ امیر خسرو فرماتے ہیں۔

ہر چند کند و رجز و در کل اثر
کلّی و جز ئیش بودزاں خبر​

اور میرؔتقی فرماتے ہیں۔

جز مرتبہ کل کو حاصل کرے ہے آخر
اک قطرہ نہ دیکھا جو دریا نہوا ہو گا​

ایک دن میں اوج سے ملا اور استاد مرحوم کے مطلع کا ذکر کیا۔ (اوجؔ کا حال دیکھو ۶۴۴ پر)

مقابل اس رخِ روشن کے شمع گر ہو جائے
صبا وہ دھول لگائے کہ بس سحر ہو جائے​

کئی دن کے بعد جو راستے میں ملے تو دیکھتے ہی کھڑے ہو گئے اور کہا۔

یاں جو برگِ گل خورشید کا کھڑکا ہو جائے
دھول دستار فلک پر لگے تڑکا ہو جائے​

اور کہا، دیکھا! محاورہ یوں باندھا کرتے ہیں۔ میں سمجھ گیا کہ یہ طنز کرتے ہیں کہ سحر ہو جائے جو استاد نے باندھا ہے یہ جائز نہیں، مگر تجاہل کر کے میں نے کہا کہ وہاں حقیقت میں پات کے کھڑکے کا آپ نے خوب ترجمہ کیا اور استعارہ میں لا کر میری طرف دیکھکر ہنسے اور کہا کہ بھئی واہ آخر شاگرد تھے۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۵۹۵

ہماری بات ہی بگاڑ دی۔

دوسرے دن میں استاد مرحوم کی خدمت میں گیا اور یہ ماجرا بیان کیا۔ فرمایا کہ شمع کو صبح ہوتے ہاتھ مار کر بجھا دیتے ہیں۔ میرا مطلب یہ ہے کہ شمع اگر مقابلہ کرے تو اس گستاخی کی سزا میں صبا اسے ایسی دھول مارے کہ وہ بجھ جائے اور ایسی بجھے کہ وہی اس کے حق میں سحر ہو جائے۔ یعنی روشنی نصیب نہ ہو، کبھی دوسری تیسری رات ہوئی، ہوئی نہ ہوئی نہ ہوئی، وہ اور بات ہے۔ اب یہ ایک حسن اتفاق ہے کہ ہماری زبان میں اس کے مقابل ایک محاورہ بھی موجود ہے کہ ایسی دھول لگی کہ تڑکا ہو گیا۔ خیر اگر ہوا تو کچھ لطف ہی پیدا ہوا بلکہ طرز بیان میں ایک وسعت کا قدم آگے بڑھا۔ قباحت کیا ہوئی اور یہ بھی دیکھو وہ محاورہ تو کیا تھا، مبتذل عامیانہ، اب ثقہ متین اور شریفانہ ہے۔ آزاد، ایک شعر ناسخؔ کا بھی اسی ترکیب کا ہے۔

جو ستمگر ہیں کبھی وہ پھولتے پھلتے نہیں
سبز ہوتے کھیت دیکھا ہے کہیں شمشیر کا​

محاورہ میں تلوار کا کھیت کہتے ہیں، شمشیر کا کھیت نہیں ہے۔

ان کی ایک غزل کا ایک شعر ہے :

منھ اٹھائے ہوئے جاتا ہے کہاں تو کہ تجھے
ہے ترا نقش قدم چشم نمائی کرتا​

نواب کلب حسین خاں نادرؔ، تخلیص معّلٰی میں فرماتے ہیں (تجھے) دوسرے مصرع کا حق ہے۔ پہلے مصرع میں نہیں لانا چاہیے۔ اس کا جواب مجھے نہیں آتا۔

ایک دفعہ طبع موزوں نے نیا گل کھلایا، یہ اصلاح بندہو گئی تھی۔ مگر
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۵۹۶

آمد و رفت جاری تھی۔ شاہ صاحب کو جا کر غزل سنائی، انھوں نے تعریف کی اور کہا کہ مشاعرہ میں ضرور پڑھنا، اتفاقاً مطلع کے سرے ہی پر سبب خفیف کی کمی تھی، جب وہاں غزل پڑھی تو شاہ صاحب نے آواز دی کہ بھئی میاں ابراہیم واہ مطلع تو خوب کہا، شیخ مرحوم فرماتے تھے کہ اسی وقت مجھے کھٹکا ہوا اور ہی لفظ بھی سوجھا۔ دوبارہ میں نے پڑھا۔

جس ہاتھ میں خاتم لعل کی ہے گر اس میں زلفِ سرکش ہو
پھر زلف بنے وہ دستِ موسیٰ جس میں اخگر آتش ہو​

اس پر اس قدر حیرت ہوئی کہ انھوں نے جانا شائد پہلے عمداً یہ لفظ چھوڑ دیا تھا۔ مگر پھر اعتراض ہوا کہ یہ بحر ناجائز ہے۔ کسی استاد نے اس پر غزل نہیں کہی، شیخ مرحوم نے جواب دیا کہ ۱۹ بحریں آسمان سے نازل ہوئیں، طبائع موزوں نے وقت بوقت گل کھلائے ہیں، یہ تقریر مقبول نہ ہوئی مگر پھر منیر مرحوم نے اس پر غزل کہی، ایک دفعہ شیخ مرحوم نے مشاعرہ میں غزل پرھی، مطلع تھا :

نرگس کےپھول بھیجے ہیں بٹوے میں ڈال کر
ایما یہ ہے کہ بھیج دے آنکھیں نکال کر​

شاہ صاحب نے کہا کہ میاں ابراہیم پھول بٹوے میں نہیں ہوتے۔ یہ کہو۔ ع

"نرگس کے پھول بھیجے ہیں دونے میں ڈالکر"​

انہوں نے کہا کہ دونے میں رکھنا ہوتا ہے، ڈالنا نہیں ہوتا۔ یوں کہیے کہ :

بادام یہ جو بھیجے ہیں بٹوے میں ڈال کر
ایما یہ ہے کہ بھیج دے آنکھیں نکال کر​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۵۹۷

نقل : شاہ نصیر مرحوم کے ہاں سال بسال عرس ہوا کرتا تھا، اس مین بعد فاتحہ کے کھچڑی کھلایا کرتے تھے، حسب معمول استاد بھی گئے۔ فاتحہ کے بعد سب کھانا کھانے بیٹھے۔ شاہ صاحب ایک ہاتھ میں چمچہ دوسرے میں ایک بادیہ لئے ہوئے آئے۔ اس میں دہی تھا کہ خاص خاص اشخاص کے سامنے ڈالتے آتے تھے۔ ان کے سامنے آ کر کھڑے ہوئے اور چمچہ بھرا، انھیں ریزش ہو رہی تھی، پرہیز کے خیال سے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ شاہ صاحب نے کہا سنکھیا ہے سنکھیا۔ دیکھو کھاؤ گے تو مر جاؤ گے۔ استاد نے ہنس کر فرمایا۔ کہا ع

بھلا تم زہر دے دیکھو اثر ہووے تو میں جانوں​

اگرچہ یہ مصرع قدیمی میاں مجذوب (دیکھو صفحہ ۲۱۹) کا ہے، مگر چونکہ کھانے کا موقع تھا اس لئے سب کو بہت مزا دیا۔

جن دنوں شاہ صاحب سے معرکے ہو رہے تھے، منشی فیض پارساؔ دہلی کالج میں مدرس حساب تھے، اور ان دنوں جوانی کے عالم میں شاعری کے جوش و خروش میں تھے، انھوں نے مدرسہ میں بڑی دھوم دھام سے مشاعرہ قائم کیا اور اسے انشاء اردو کی ترقی کا جزو اعظم ٹھہرا کر صاحب پرنسپل سے مدد لی۔ ان دنوں میں مدرسہ اجمیری دروازہ کے باہر تھا، شہر کے دروازے ۹ بجے بند ہو جاتے تھے، گڑھ کپتان نے اجازت لی کہ مشاعرہ کے دن ۲ بجے تک اجمیری دروازہ کھلا رہا کرے۔ غرض مشاعرہ مذکور میں
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۵۹۸

رؤسا اور تمام نامی شاعر موجود ہوتے تھے مگر سب کی نگاہیں شاہ صاحب اور شیخ صاحب کی طرف ہوتی تھیں۔ چنانچہ ایک مشاعرہ میں شاہ صاحب نے غزل قفس کی تیلیاں، خس کی تیلیاں پڑھی، دوسرے مشاعرہ میں یہی طرح ہو گئی، سب غزلیں کہہ کر لائے، شیخ مرحوم نے دو غزلہ لکھا اور اس پر کچھ تکرار ہوئی۔ اس پر جوش میں آ کر فرمایا کہ برس دن تک جو مشاعرہ ہو اس میں سوائے غزل طرحی کے ایک غزل اس زمین میں ہوا کرے چنانچہ دو مشاعروں میں ایسا ہوا۔ ایسے معرکوں میں عوام الناس بھی شامل ہوتے ہیں۔ تیسرے جلسہ میں جب انھوں نے غزل پڑھی تو بعض شخصوں نے کچھ کچھ چوٹیں کیں۔ جنھیں شیخ صاحب کے طرفدار سمجھے کہ شاہ صاحب کے اشارے سے ہوئیں۔ زیادہ تر یہ کہ شاہ وجیہ الدین منیر (بعض بزرگوں سے سنا کہ لالہ گھنشیام داس عاصیؔ نے پڑھا تھا۔ وہ بھی شاہ نصیر کے شاگرد تھے اور ان دنوں میں نوجوان لڑکے تھے۔ میں نے انھیں دلّی میں حکیم سکھا نند مرحوم کے مکان پر دیکھا تھا۔ بڈھے ہو گئے تھے مگر طبیعت میں نوجوانوں کی سی شوخی تھی۔ اس وقت کی باتیں اس طرح سناتے تھے جیسے کوئی کہانیاں کہتا ہے۔) یعنی شاہ صاحب کے صاحبزادے نے یہ شعر بھی پڑھ دیا۔

گرچہ قندیل سخن کو منڈھ لیا تو کیا ہوا
ڈھانچ میں تو ہیں وہی اگلے برس کی تیلیاں​

اس پر تکرار زیادہ ہوئی اور مشاعرہ بند کر دیا گیا کہ مبادہ زیادہ بے لطفی ہو جائے۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۵۹۹

انہی دنوں میں ایک دفعہ محمد خاں اعظم الدولہ (نواب اصغر علی خاں اصغرؔ، شاگرد مومنؔ، جنھوں نے پھر فیم تخلص کیا، یہ ان کے والد تھے۔) نے کہا کہ سرورؔ تخلص کرتے تھے اور پرانے شاعر تھے، ایک تذکرہ شعرائے اردو کا لکھا، استاد مرحوم اتفاقاً ان کے بالا خانے کے سامنے سے گزرے۔ انھوں نے بلایا اور مزاج پرسی کے بعد کہا کہ ہمارا تذکرہ تمام ہو گیا، اس کی تاریخ تو کہہ دو۔ انھوں نے کہا کہ اچھا فکر کروں گا۔ انھوں نے کہا کہ فکر کی سہی نہیں، ابھی کہہ دو۔ فرماتے تھے کہ خدا کی قدرت ان کے خطاب اور تخلص کے لحاظ سے خیال گزرا، دریائے اعظم دل میں حساب کیا تو عدد برابر تھے، میں نے جھٹ کہہ دیا۔ حاضرین جلسہ حیران رہ گئے۔

شہیدی مرحوم دلی میں آئے، امرائے شہر سے ملاقاتیں ہوئیں، نواب عبد اللہ خاں صدر الصدور شعر کے عاشق تھے، ان میں سے ایک جلسہ میں میاں شہیدی نے کہا کہ آج ہندوستان میں تین شخص ہیں، لکھنؤ میں ناسخؔ، دلّی میں ذوقؔ دکن میں حفیظ، انھوں نے کہا کہ ناسخؔ کی اولیت کا سبب میاں شہیدی نے چمن کی شاخ یاسمن کی شاخ کی غزل پڑھی، خان موصوف نے استاد مرحوم سے کہا انھوں نے اس غزل پر ایک بڑی سیر قوافی غزل کہی اور یہ بھی کہا کہ اب جو کوئی اس طرح میں غزل کہے گا، ہر ایک قافیہ کو جس جس پہلو سے میں نے باندھ دیا ہے اسے الگ کر کر کے نہ باندھ سکے گا۔ نواب عبد اللہ خاں کی فرمائش سے غزل اور انھیں کی وساطت سے یہ گفتگوئیں ہوئی تھیں، انھوں نے تجویز کی کہ مشاعرہ میں برسر معرکہ غزلیں پڑھی جائیں مگر شہیدی مرحوم بے اطلاع چلے گئے۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top