شمشاد
لائبریرین
صفحہ ۱۰۲
میر انیس اور مرزا دبیر خاتمہ شعرائے اُردو کا ہیں اور چونکہ اِس فن کے صاحبِ کمال کا پیدا ہونا نہایت درجہ کی آسودگی اور زمانہ کی قدردانی اور متعدد سامانوں پر منحصر ہے اور اب زمانہ کا رنگ اس کے برخلاف ہے، اس لئے ہندوستان کو اس شاعری کی ترقی اور ایسے شعراء کے پیدا ہونے سے بالکل مایوس ہو جانا چاہیے، البتہ کوئی نیا فیشن نکلے، پھر اُس میں خدا جانے کیا کیا کمال ہوں، اور کون کون اہلِ کمال ہوں۔
خاتمہ کلام میں عقل کے نجومی سے سوال ہوا کہ اس شاعری کا ستارہ جو نحوستِ زوال میں آ گیا ہے، کبھی اوجِ اقبال پر بھی طلوع کرے گا یا نہیں؟ جواب ملا کہ نہیں۔ پوچھا گیا کہ سبب؟ جواب ملا کہ حکامِ وقت کی یہ زبان نہیں، نہ اُن کے کارآمد ہے۔ اسی لئے وہ اس کے قدردان نہیں نہ وہ اسے جانتے ہیں، نہ ان کے جاننے کو کچھ فخر جانتے ہیں، وہاں سے ہمارے شعراء کو جھوٹے خوشامدی کا خطاب ملاہوا ہے۔ اچھا یا قسمت یا نصیب، جس لوگوں کے کلام ہماری زبان کے لئے سند سمجھے جانے تھے، اُن کی تو یہ عزت ہوئی، اب اس نیم جان مُردہ کے رونے والے چند بڈھے رہے جن کی درد ناک آوازیں کبھی کبھی آہِ سرد کے سُروں میں بلند ہو کر سینوں میں رہجاتی ہیں، کبھی وہ دل آسودہ ہوتے ہیں تو ایک مشاعرہ کر کے مل بیٹھتے ہیں اور آپس ہی میں ایک دوسرے کی تعریفیں کر کے جی خوش کر لیتے ہیں، شاعر غریب اپنے بزرگوں کی قبریں قائم رکھنے کو اتنی ہی تعریف پر قناعت کر لیں مگر پیٹ کو کیا کریں؟ یہ دوزخ تو بہت سی تعریف سے بھی نہیں بھرتا۔
پھر سوال ہوا کہ کوئی ایسی تدبیر ہے، جس سے اس کے دن پھریں، اور پھر ہماری
میر انیس اور مرزا دبیر خاتمہ شعرائے اُردو کا ہیں اور چونکہ اِس فن کے صاحبِ کمال کا پیدا ہونا نہایت درجہ کی آسودگی اور زمانہ کی قدردانی اور متعدد سامانوں پر منحصر ہے اور اب زمانہ کا رنگ اس کے برخلاف ہے، اس لئے ہندوستان کو اس شاعری کی ترقی اور ایسے شعراء کے پیدا ہونے سے بالکل مایوس ہو جانا چاہیے، البتہ کوئی نیا فیشن نکلے، پھر اُس میں خدا جانے کیا کیا کمال ہوں، اور کون کون اہلِ کمال ہوں۔
خاتمہ کلام میں عقل کے نجومی سے سوال ہوا کہ اس شاعری کا ستارہ جو نحوستِ زوال میں آ گیا ہے، کبھی اوجِ اقبال پر بھی طلوع کرے گا یا نہیں؟ جواب ملا کہ نہیں۔ پوچھا گیا کہ سبب؟ جواب ملا کہ حکامِ وقت کی یہ زبان نہیں، نہ اُن کے کارآمد ہے۔ اسی لئے وہ اس کے قدردان نہیں نہ وہ اسے جانتے ہیں، نہ ان کے جاننے کو کچھ فخر جانتے ہیں، وہاں سے ہمارے شعراء کو جھوٹے خوشامدی کا خطاب ملاہوا ہے۔ اچھا یا قسمت یا نصیب، جس لوگوں کے کلام ہماری زبان کے لئے سند سمجھے جانے تھے، اُن کی تو یہ عزت ہوئی، اب اس نیم جان مُردہ کے رونے والے چند بڈھے رہے جن کی درد ناک آوازیں کبھی کبھی آہِ سرد کے سُروں میں بلند ہو کر سینوں میں رہجاتی ہیں، کبھی وہ دل آسودہ ہوتے ہیں تو ایک مشاعرہ کر کے مل بیٹھتے ہیں اور آپس ہی میں ایک دوسرے کی تعریفیں کر کے جی خوش کر لیتے ہیں، شاعر غریب اپنے بزرگوں کی قبریں قائم رکھنے کو اتنی ہی تعریف پر قناعت کر لیں مگر پیٹ کو کیا کریں؟ یہ دوزخ تو بہت سی تعریف سے بھی نہیں بھرتا۔
پھر سوال ہوا کہ کوئی ایسی تدبیر ہے، جس سے اس کے دن پھریں، اور پھر ہماری