آب حیات - مولانا محمد حسین آزاد (مرحوم)

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۲۲

تم نے بجاؤ نے کو جب ہاتھ بیچ نَے لی
مجنوں ہو گئے سب یہ اس طرح کے نَے لی

سجا ہے نرگسی بوٹے کا جامہ
کرے کیونکر نہ مجھ سے چشم پوشی

آبرو کے قتل کو حاضر ہوئے کس کر کمر
خون کرنے کو چلے عاشق کو تہمت باندھکر

وہ بھواں سے لگے ہیں جس کے نین
وہ کہاتا ہے حاجی الحرمین

عزت ہے جوہری کی، جو قیمتی ہو جوہر
ہے آبرو ہمن کو، جگ میں سخن ہمارا

جہاں اس خو کی گرمی تھی نہ تھی واں آگ کو عزت
مقابل اس کے ہو جاتی تو آتش لکڑیاں کھاتی​

اسی انداز میں حافظ عبد الرحمن خاں احسان نے ایک شعر کہا ہے، اور کیا خوب کہا ہے :

دختِ رز سے کہا میخانےمیں شب رندوں نے
آج تو خوب ہی خنکے تری سوکن کو لگے​

یعنی بھنگڑ خانے میں بھنگڑوں نے خوب سبزیاں بھونٹیں اور طرے اُڑائے۔ تم بھی یاروں پر نظرِ عنایت کرو۔

مبارک نام تیرے آبرو کا کیوں نہ ہو جگ میں
اثر ہے یو ترے دیدار کی ٖفرخندہ حالی کا

نالہ ہمارے دل کا، غم کو گواہ بس ہے
اپنے تئیں شہادت انگشت آہ بس ہے

تمھارہے لوگ کہتے ہیں کمر ہے
کہاں ہے، کسطرح کی ہے، کدھر ہے؟

تخلص آبرو برجا ہے میرا
ہمیشہ اشکِ غم سے چشم تر ہے

اس ناتواں کی حالت واں جا کہے ہے اڑ کر
میرا یہ رنگِ رُو ہے گویا مکھی کبوتر

میاں خفا ہیں فقیروں کے حال پر
آتا ہے اُن کو جوش جمالی کمال (۱) پر​

(۱) جلالی اور جمالی دو قسم کے اسمائے الٰہی ہیں اور شیخ کمال بخاری ان کے دادا کا نام ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۲۳

پھرتے تھے دشت دشت دوانے کدھر گئے
وے عاشقی کے ہائے زمانے کدھر گئے​

خدمتگار خاں بادشاہی خواجہ سرا تھا اور سرکار شاہی میں بڑا صاحبِ اختیار تھا۔ اکثر بادشاہی نوکر اس کی سخت گیری اور بدمزاجی سے دق رہتے تھے، اُنھیں بھی اس سے کام پڑتا تھا، کبھی آسانی سے مطلب نکل آتا تھا کبھی دشواری سے، چنانچہ ایک موقعہ پر یہ شعر کہا :

یاروں خدمتگار خاں خو جوں کے بیچ
ہے تو مستثنٰے و لیکن منقطع
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

شیخ شرف الدین مضمون

مضمون تخلص، شیخ شرف الدین نام، شیخ فرید الدین شکر گنج کی اولاد میں تھے۔ جاجمئو علاقہ اکبر آباد وظن اسلی تھا۔ دلی میں آ رہے تھے۔ اصل پیشہ سپاہ گری تھا۔ تباہی سلطنت سے ہتھیار کھول کر مضمون باندھنے پر قناعت کی اور زینت المساجد میں ایسے بیٹھے کہ مر کر اُٹھے، اس عالم میں بھی ایک خوش مزاج، بااخلاق، یارباش آدمی تھے، دورِ اول کے استادوں میں شمار ہوتے تھے اور انہی کا انداز تھا کیونکہ رواج یہی تھا اور خاص و عام اسی کو پسند کرتے تھے۔

اس زمانہ کے لوگ کسی قدر منصف اور بے تکلف تھے، باوجودیکہ مضمون سن رسیدہ تھے، اور خان آرزو سے عمر میں بڑے تھے، مگر انھیں غزل دکھاتے اور اصلاح لیتے تھے، نزلہ سے دانت ٹوٹ گئے تھے، اس لئے خان موصوف
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۲۴

اُنھیں شاعرِ بیدانہ کہتے تھے۔

مرزا رفیع نے بھی اِن کا عہد پایا تھا، چنانچہ جب انتقال ہوا تو مرزا نے غزل کہی جس کا مطلع و مقطع بھی لکھتا ہوں۔

لئے مے اُٹھ گیا ساقی، مرا بھی پر ہو پیمانہ
الہٰی کس طرح دیکھوں میں اِن آنکھوں سے میخانہ

بنائیں اُٹھ گئیں یارو غزل کے خوب کہنے کی
گیا مضمون دنیا سے رہا سودا سو مستانہ​

اور اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ اس صاحبِ کمال نے زمانہ کے دل میں کیا اثر پیدا کیا تھا۔

ہائے ولی خدا تجھے بہشت نصیب کرے، کیسے کیسے لوگ تیری خاک سے اُٹھے اور خاک میں مل گئے، استاد مرحوم نے ایک دن فرمایا کہ شیخ مضمون کے زمانہ میں کوئی امیر باہر سے محل میں آئے اور پلنگ پر لیٹ گئے، ایک بڑھیا ماما نئی نوکر ہوئی تھی وہ حقہ بھر کر لائی اور سامنے رکھا، نواب صاحب کی زبان پر اُس وقت مضمون کا یہ شعر تھا :

ہم نے کیا کیا نہ ترے عشق میں محبوب کیا
صبر ایوب کیا، گریہ یعقوب کیا​

ماما سُن کر بولی، الٰہی تیری امان، اس گھر میں تو آپ ہی پیغمبری وقت پڑ رہا ہے، بیچارے نوکروں پر کیا گزرے گی۔ چلو بابا یہاں سے۔ (دلی میں غریب مفلس فقیر کسی سے سوال کیا کرتے تھے تو کہا کرتے تھے عیالدار ہیں مفلس ہیں، ہم پہ پیغمبری وقت پڑا ہے۔ لللہ کچھ دو اور اصل اس کی یہ تھی کہ جسپر سخت مصیبت پڑتی ہے وہ زیادہ خدا کا پیارا ہوتا ہے اور چونکہ پیغمبر سب سے زیادہ خدا کے پیارے ہیں اس لئے انپر زیادہ مصیبتیں پڑتی ہیں۔ جو مصیبتیں پیغمبروں پر پڑی ہیں وہ دوسرے پر نہیں پڑیں۔ رفتہ رفتہ پیغمبری وقت اور پیغمبری مصیبت کے معنی سخت مصیبت کے ہو گئے۔ دیکھو ایسی ایسی باتیں اس زمانہ میں کس قدر عام تھیں کہ بڑھیا اور مامائیں اُن سے نکتے اور لطیفے پیدا کرتی تھیں۔ اب اللہ اللہ ہے۔)
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۲۵

تعجب یہ ہے کہ اس مضمون کو مخلص کاشی نے بھی باندھا ہے :

در فراقِ توچہا اے بُتِ خبوب کنم
صبر ایوب کنم گریہ یعقوب کنم

کرے ہے دار کو کامل بھی سرتاج
ہوا منصور سے نکتہ یہ حل آج
(حل اور علاج میں صنعت تجنیس مرکب رکھی ہے۔)

خط آ گیا ہے اس کے، مری ہے سفید ریش
کرتا ہے اب تلک بھی وہ ملنے میں شام صبح

کریں کیوں نہ شکر لبوں کو مرید
کہ دادا ہمارا ہے بابا فرید​

(شاہ ۔۔۔۔ کی ریت رسموں میں بابا فرید کا پڑا، عورتوں کی شرع کا ایک واجب مسئلہ ہے، مزا یہ ہے کہ اس میں شکر ہی ہو اور مٹھائی جائز نہیں۔)

ہنسی تیری پیارے پھلجڑی ہے
یہی غنچہ کے دل میں گلجھڑی ہے

میکدہ میں گر سراپا فعلِ نامعقول ہے
مدرسہ دیکھا تو واں بھی فاعل و مفعول ہے

تیرِ مژگاں برستے ہیں مجھ پر
آبِ پیکاں کا اس طرف ہے نڈھال
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

محمد شاکر ناجی

ناجی تخلص، سید محمد شاکر نام، شرافت اور سعادت کے ساتھ کمالِ شاعری سے اپنے زمانہ میں نامور تھے، اہلِ سخن نے انھیں طبقہ اول کے اراکان میں تسلیم کیا ہے۔ عمدۃ الملک امیر خاں جو محمد شاہی دربار کے رکنِ اعظم تھے، یہ اُن کے نعمت خانہ کے داروغہ تھے، شاہ مبارک آبرو نے جہاں اُن کے کمال کی تعریف کی ہے، وہاں
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۲۶

اس امر کا بھی اشارہ کیا ہے :

سخن سنجاں میں ہے گا آبرو آج
نہیں شیریں زباں شاکر سریکا​

مگر تیز مزاج اور شوخ طبع بہت تھے، راہ چلتے سے اُلجھتے تھے اور جس کے گرد ہوتے تھے اُسے پیچھا چھڑانا مشکل ہو جاتا تھا۔

زلف کے حلقہ میں دیکھا جب سے دانہ خال کا
مرغ دل عاشق کا تب سے صید ہے اس جال کا

گندمی چہرہ کو اپنے زلف میں پنہاں نہ کر
ہندواں سن کر مبادا شور ڈالیں کال کا

بینواؤں سے نہ مل اے موکمر مت پیچ کھا
مونڈ سر لڑکوں کو کرتے ہیں وہ اپنا بال کا

مہر کی بیجا ہے چرخ بے مروت سے اُمید
پیر زالوں سے نہیں احسان کر اک بال کا

ایک دم ناجی کے تئیں آ کر جلا لے پیار سے
جاں بلب ہوں اے سجن یہ وقت نئیں اہمال کا
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

نہ تھا آزردہ دل کنعاں سے یوسف
ڈرا تھا خواب میں اخواں سے یوسف

نہ ہوتا راہ میں گلبانگ شہرت
جو روتا راہ میں خاراں سے یوسف

کوئیں میں جا پڑا یعقوب کا دِل
چلا جب نالہ و افغاں سے یوسف

زلیخا نے بہائے شیر کے نیل
جو رویا درد کے انجھواں سے یوسف

جو ناجی ڈر نہ ہوتا معصیت کا
نہ گردن پھیرتا فرماں سے یوسف
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

دیکھ موہن تری کمر کی طرف
پھر گیا مانی اپنے گھر کی طرف

جن نے دیکھے ترے لبِ شیریں
نظر اُن کی نہیں شکر کی طرف

ہے محال ان کا دام میں آنا
دل ہے ان سب بتاں کا زر کی طرف
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۲۷

تیرے رخسار کی صفائی دیکھ
چشمِ دانا نہیں ہُنر کی طرف

حشر میں پاک باز ہے ناجی
بدعمل جائیں گے سفر کی طرف
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

اے صبا کہہ بہار کی باتیں
اُس بتِ گلعذار کی باتیں

کس پہ چھوڑے نگاہ کا شہباز
کیا کرے ہے شکار کی باتیں

چھوڑتے کب ہیں نقد دل کو صنم
جب یہ کرتے ہیں پیار کی باتیں
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

معشوق مل کر آپ سے گر دلبری کرے
گر دیو ہو تو چاہیے آدم گری کرے

شیشہ اسی کے آگے بجا ہے کہ رُخ ستی
پیالے کو جب لے ہاتھ میں رشکِ پری کرے

اِس قد سے جب چمن میں خراماں ہو تو اے جاں
شمشاد و سرو آگے تری چاکری کرے

دشمن ہے دیں کا خالِ سیہ مُکھ اوپر ترے
ہندو سے کیا عجب ہے اگر کافری کرے

ناجی جو کوئی صاف کرے دل کا آئینہ
وہ عاشقی کے ملک میں اسکندری کرے
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

کفن ہے سبز ترے گیسوؤں کے ماروں کا
مکانِ غم ہے ترے در کے بے قراروں کا
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

رکھے اس لالچی لڑکے کو کب تنک بہلا
چلی جاتی ہے فرمائش کبھی یہ لا، کبھی وہ لا
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

موزوں قد اس کا چشم کی میزاں میں جب تُلا
طوبٰی تب اُس سے ایک قدم اوکا ہوا
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

اگر ہو وہ بُت ہندو کبھی اشنان کو ننگا
بھنور میں دیکھ کر جمنا اُسے غوطہ میں جا گنگا
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۲۸

دیکھ ہم صحبت کی دولت سے نہ رکھ چشمِ اُمید
لب صدف کے تر نہیں ہر چند گوہر میں ہے آب
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

۔۔۔۔ سستا ہو یا مہنگا نہیں موقوف غلے پر
یہ سب خرمن اسی کے ہیں خدا ہے جس کے پلے پر

انگوٹھی لعل کی کرتی قیامت، آج گر ہوتی
جنھوں کی آن پہنچی، لڑ موئے وہ ایک چھلے پر
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

روئے روشن کی جو کوئی یاد میں مشغول ہے
مہر اسکے روبرو سورج مکھی کا پھول ہے
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

نہ ٹوکو یار کو کہ خط رکھاتا یا منڈاتا ہے
مرے نشہ کی خاطر لطف سے سبزی بناتا ہے
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

جہاں دل بند ہو ناصح وہاں آوے خلل کرنے
رقیب نا ولد ناجی گویا لڑکوں کا بابا ہے
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*​

نادری چڑھائی اور محمد شاہی لشکر کی تباہی میں خود شامل تھے۔ اس وقت دربار دہلی کا رنگ، شرفا کی خواری، پاجیوں کی گرم بزاری اور اس پر ہندوستانیوں کی آرام طلبی اور نازپروری کو ایک طولانی مخمس میں دکھایا ہے۔ افسوس ہے کہ اس وقت دو ہند اس کے ہاتھ آئے۔

لڑے ہوئے تھے دس بیس اُن کو بیتے تھے
دُعا کے زور سے دائی دوا کے جیتے تھے

شرابیں گھر کی ۔۔۔۔ مزے سے پیتے تھے
نگاہ و نقش میں ظاہر گویا کہ جیتے تھے

گلے میں ،نسئیاں بازو اوپر طلا – کرنال

قضا سے بچ گیا مرنا نہیں تو ٹھانا تھا
کہ میں نشان کے ہاتھی اوپر نشانہ تھا
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۲۹

نہ پانی پینے کو پایا وہاں نہ کھانا تھا
ملے تھے دھان جو لشکر تمام چھانا تھا

نہ ظرف و مطبخ و دکاں نہ غلہ نہ بقال
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

محمد احسن احسنؔ

احسن تخلص، محمد حسن نام، یہ بھی انہی لوگوں کے ہم عصر و ہم زبان ہیں۔ چنانچہ ایک غزل اور دو شعر اُن کے ہاتھ آئے وہی لکھے جاتے ہیں :

صبا کہیو اگر جاوے ہے تو اُس شوخ دلبرسوں
کہ کر کر قول پرسوں کا گیا برسوں (۱) آوے برسوں
(۱) یعنی بغل سے گیا برسوں گزر گئے۔)

عجب نئیں ابر گر جلتوں کو جل کر جلاویگا
کیا ہے یار میرے برسوں کہتا ہے کہ میں برسوں

یو قاصد وعدہ کرتا ہے جو پرسوں کا کہ پھر آوے
کبوتر پھر نہیں آتا گلی اس کی سیتی برسوں

ترس تجھکو نہیں اے شوخ اتنی کیا ہے طیائی
ترے دیدار کو میں دیدہ ترسوں کھڑا ترسوں

ترے تل سوں مجھے نت بیٹھ کا سودا ہے اے ظالم
عجب نئیں ہے اگر تیل نکساوے مرے سَرسوں

زلف تیری معطو ہے عطر فتنے سینتی ظالم
الٰہی آبرو رکھیو پڑا ہے کام ابترسوں

غزل اس طرح سے کہنی بھی احسن تجھ سوں بن آوے
جواب اب آبرو کب کہہ سکے مضمون بہتر سوں
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

لام نستعلیق کا ہے اُس بُتِ خوشخط کی زُلف
ہم تو کافر ہوں، اگر بندے نہ ہوں اسلام کے

یہی مضمونِ خط ہے احسن اللہ
کہ حُسنِ خوبرو یاں عارضی ہے
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۳۰

نازک بدن پہ اپنے کرتے ہو تم جو غرہ
موسٰی کمر نے تجھ کو فرعون سا بنایا
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

غلام مصطفٰے خان یکرنگؔ

یکرنگ تخلص، غلام مصطفٰے خاں نام، قدیمی تذکروں میں انھیں طبقہ اول کے شاعروں میں لکھا ہے، مگر یہ لوگ باانصاف ہوتے تھے اور ہر کام کے حُسن و قبح کو خوب سمجھتے تھے۔ اُس لئے باوجود کہن سالی اور کہنہ مشاقی کے آخر میں اپنا کلام مرزا جانجاناں مظہر کو بھی دکھاتے تھے، لیکن جو کلام ان کا موجود ہے، بزرگوں سے سنا اور تذکروں میں بھی دیکھا بڑے مشاق تھے اور اپنے وقت میں سب اُنھیں خوش فکر اور باکمال مانتے تھے اور لُطف یہ ہے کہ تخلص کی طرح عالم آشنائی میں یک رنگ دیکتا تھے۔

یکرنگ پاس اور سجن کچھ بساط
رکھتا ہوں میں دو نین کہو تو نذر کروں

زبانِ شکوہ ہے مہدی کی ہر بات
کہ خوباں نے لگائے ہیں مجھ ہات

اس زلف کا یہ دل ہے گرفتار بال بال
یکرنگ کے سخن میں خلاف ایک مُو نہیں

جو کوئی توڑتا ہے غنچہ گل
دلِ بُلبل شکستہ کرتا ہے

یکرنگ نے تلاش کیا ہے بہت ولے
مظہر سا اس جہاں میں کوئی میرزا نہیں

پارسائی اور جوانی کیوں کہ ہو
ایک جاگہ آگ پانی کیونکر ہو

نہ کہو یہ کہ یار جاتا ہے
دل سے صبر و قرار جاتا ہے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۳۱

گر خبر لینی ہو تو لے صیاد
ہاتھ سے یہ شکار جاتا ہے​

مرزا جان جاناں کی اُستادی اور اپنی شاگردی کا اشارہ ہے :

جس کے دردِ دل میں کچھ تاثیر ہے
گر جواں بھی ہے تو میرا پیر ہے

لگے ہیں خوب کانوں میں بتوں کے
سخن یکرنگ کے گویا گہر ہیں

اس کو مت جانو میاں اوروں کی طرح
مصطفٰے خاں آشنا یکرنگ ہے

جدائی سے تری اے صندلی رنگ
مجھے یہ زندگانی درد سر ہے​

خدا جانے اِن باتوں کو سُن کر ہمارے شائستہ زمانہ کے لوگ کیا کہیں گے کچھ تو پرواہ بھی نہ کریں گے اور کچھ واہیات کہہ کر کتاب بند کر دیں گے مگر تم ان باتوں کو ہزل نہ سمجھو، ایک پل کی پل آنکھیں بند کر لو اور تصور کی آنکھیں کھول دو، دیکھو وہی محمد شاہی عہد کے کہن سال درباری لباس پہنے بیٹھے ہیں اور باوجود اس متانت و معقولیت کے مُسکرا مسکرا کر آپس میں اشعار پڑہتے ہیں اور مزے لیتے ہیں۔ کیا اُن نورانی صورتوں پر پیار نہ آئے گا، کلام کی تاثیر بیٹھنے دے گی، محبت کا جوش اُن کے ہاتھ نہ چوم لے گا۔

وہ صورتیں الٰہی کس ملک بستیاں ہیں
اب جن کے دیکھنے کو آنکھیں ترستیاں ہیں​

میرے دوستو! غور کے قابل تو یہ بات ہے کہ آج جو تمھارے سامنے ان کے کلام کا حال ہے کل اوروں کے سامنے یہی تمھارے کلام کا حال ہوتا ہے۔ ایک وقت میں جو بات مطبوعِ خلائق ہو یہ ضرور نہیں کہ دوسرے وقت بھی ہو، خیال کرو انھی بزرگوں کے جلسہ میں آج ہم اپنی وضع اور لباس سے جائیں اور اپنا کلام پڑھیں تو وہ سنجیدہ اور برگزیدہ لوگ کیا کہیں گے۔ ایک دوسرے کو
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۳۲

دیکھیں گے اور مسکرائیں گے، گویا سفلہ اور چھچھورا سمجھیں گے، ان بزرگوں کو کوئی بات ناپسند ہوتی تو اتنا ہی اشارہ کافی ہوتا تھا۔ اس خیال کی تصدیق اور اُس زمانہ کی وضع و لباس دکھانے کو دریائے لطافت کی ایک عبارت نقل کرتا ہوں، سید انشاء جن کی کوئی بات ظرافت سے خالی نہیں، ایک اپنے عہد کے بڈھے میر صاحب کی تقریر ایک کسبی کے ساتھ لکھتے ہیں، یہ دونوں دلی کے رہنے والے ہیں اور لکھنؤ میں باتیں کر رہے ہیں۔

بی نورن کہتی ہیں

اجی آؤ میر صاحب، تم عید کا چاند ہو گئے، دلی میں آتے تھے دوپہر رات تک بیٹھتے تھے اور ریختے پڑھتے تھے، لکھنؤ میں تمھیں کیا ہو گیا کہ کبھی صورت بھی نہیں دکھاتے، اب کے کربلا میں کتنا میں نے ڈھونڈا، کہیں تمھارا اثر آثار معلوم نہ ہوا۔ ایسا نہ کیجئو، کہیں آٹھوں (آٹھوں کا میلہ لکھنؤ میں بڑی دھوم دھام کا ہوتا ہے۔) میں نہ چلو، تمھیں علی کی قسم آٹھوں میں مقرر چلیو۔

اب جس رنگ سے سید انشاء میر صاحب موصوف کی تصویر کھینچتے ہیں اسے ملاحظہ فرمائیے اور اتنا خیال اور بھی رہے کہ یہ پیر دیرینہ سال، ایک زمانہ کے خوش طبع رنگین مزاج شخص تھے، کوئی ثقہ متقی پرہیزگار نہ تھے، باوجود اس کے تازہ اوضاع و اطوار اور نئی رفتار و گفتار پر کیا خیالات رکھتے تھے۔

بیان صورت میر موصوف اینکہ، سیاہ رنگ، کوتاہ قد، فربہ گردن، دراز گوش، بندشِ دستار بطورِ بعض کند سازانِ کہنہ، رنگش سبز یا اگرئی، والا اکثر سفید، گاہے گل سرخ ہم در گوشہ دستار مے زنند، دجامہ مصطلح ہندوستان (نہ جامعہ لغوی) دَر
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۳۳

برمبارک بسیار پاکیزہ مے باشد، چوں لباس باریک را ازیں جہت کہ برائے زناں مقرر است نمے پوشند۔ ختِ پوشاکی ملا زمانِ شریف ایشاں اکثر گندہ است لیکن قیمتی دونیم روپیہ رایک تھان تمام دریک جامہ صرف مے شود، چولی زیر پستاں، بالائے آں دوپٹہ پشتولیہ، دامن برزمین جاروب می کشندد سی ہم پر دندانِ مبارک ہیمالندد پاپوس از سقرلاطِ زر و دریاق وسط آں ستارہ اڑتا ہائے طلائی، حالانکہ ہیَیت معلوم شد طرز کلام با کسبی پاید سنید، میر صاحب فرماتے ہیں۔

اجی بی نورن! یہ کیا بات فرماتی ہو، تم اپنے جیوڑے کی چین ہو، پر کیا کہیں جب سے دلی چھوڑی ہے، کچھ جی افسردہ ہو گیا ہے اور شعر پڑھنے کو جو کہو، تو کچھ لطف اس میں بھی نہیں رہا کہ مجھ سے سنئے، ریختے میں استاد ولی وہئے، اُن پر توجہ شاہ گلشن صاحب کی تھی پھر میاں آبرو، میاں ناجی اور میاں حاتم پھر سب سے بہتر مرزا رفیع السودا اور میر تقی صاحب، پھر حضرت خواجہ میر درد صاحب برواللہ مرقدہ جو میرے بھی اُستاد تھے، وہ لوگ تو سب مر گئے اور ان کی قدر کرنے والے بھی جاں بحق تسلیم ہوئے، اب لکھنؤ کے جیسے چھوکرے ہیں ویسے ہی شاعر ہیں اور دلی میں بھی ایسا ہی کچھ چرچا ہے، تخم تاثیر صحبت اثر، سبحان اللہ، یہ کون میاں جراءت بڑے شاعر، پوچھو تو تمھارا کام کس دن شعر کہنا تھا اور رضا بہادر کا کون سا کلام ہے اور دوسرے میاں مصحفی کہ مطلق شعور نہیں رکھتے، اگر پوچئے کہ ضَرب زید عُمراً کی ترکیب تو ذرا بیان کرو تو اپنے شاگردوں کو ہمراہ لے کر لڑنے آتے ہیں اور میاں حسرت کو دیکھو اپنا عرق بادیان اور شربت انارین چھوڑ کے شاعری میں آ کے قدم رکھا ہے، اور میر انشاء اللہ خاں بچارے میر ماشاء اللہ خاں
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۳۴

کے بیٹے آگے پر یزاد تھے، ہم بھی گھورنے کو جاتے تھے اب چند روز سے شاعر بن گئے، مرزا مظہر جان جاناں صاحب کے روز مرہ کو نام رکھتے ہیں اور سب سے زیادہ ایک اور سنئیے کہ سعادت یار طہماسپ کا بیٹا، انوری ریختہ آپ کو جانتا ہے۔ رنگین تخلص ہے، ایک قصہ کہا ہے اس مثنوی کا نام دلپذیر رکھا تھا، رنڈیوں کی بولی اس میں باندھی ہے میر حسن پر زہر کھایا ہے، ہر چند اس مرحوم کو بھی کچھ شعور نہ تھا، بدرمنیر کی مثنوی نہیں کہی، گویا سانڈے کا تیل بیچتے ہیں، بھلا اس کو شعر کیونکر کہیے، سارے لوگ دِلی کے لکھنؤ کے رنڈی سے لیکر مرد تک پڑھتے ہیں :

چلی واں سے دامن اٹھاتی ہوئی
کڑے کو کڑے سے بجاتی ہوئی​

سو اس بچارے رنگین نے بھی اسی طور پر قصہ کہا ہے، کوئی پوچھے کہ بھائی تیرا باپ رسالدار مسلم لیکن بچارا برچھی بھالے کا ہلانے والا تیغے کا چلانے والا تھا، تو ایسا قابل کہاں سے ہوا اور شہد پن جو بہت مزاج میں رنڈی بازی سے آ گیا ہے تو ریختہ کے تئیں چھوڑ کر ایک ریختی ایجاد کی ہے، اس واسطے کہ بھلے آدمیوں کی بہو بیٹیاں پڑھ کر مشتاق ہوں اور ان کے ساتھ اپنا منھ کالا کریں، بھلا یہ کلام کیا ہے :

ذرا گھر کو رنگیں کے تحقیق کر لو
یہاں سے ہے کے پیسے ڈولی کہارو​

مرد ہو کہتا ہے : مصرعہ "کہیں ایسا نہ ہو کم بخت میں ماری جاؤں" اور ایک کتاب بنائی ہے اس میں رنڈیوں کی بولی لکھی ہے، جس میں اوپر والیاں، چیلیں، اوپر والا، چاند، اُجلی دھوبن وغیرہ وغیرہ۔ ان بزرگوں کو خیال کرو کہ مصحفی اور سید انشاء اور جرات کو اپنی جگہ پر یہ کچھ کہتے تھے، پھر ہم اپنی بولی اور اپنی تراش اور ایجادوں کی قبولیت دوام کا سرٹیفکیٹ دے کر کس طرح نازاں ہوں جو نئی امت
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۳۵

ہمارے بعد آئے گی وہ خدا جانے کیا کچھ میں میکھ نکالے گی، خیر اپنے اپنے وقت پر یوں ہی ہو رہا ہے اور یوں ہی ہوتا رہے گا۔

خاتمہ

پہلا دور برخاست ہوتا ہے، اِن مبارک صدر نشینوں کو شکریہ کے ساتھ رخصت کرنا چاہیے کہ مبارک جانشینوں کے لئے جگہ خالی کر کے اُٹھے، ایجاد کے بانی اور اصلاح کے مالک تھے، ملک کی زبان میں جو کچھ کیا اچھا کیا جو کام باقی ہے اچھے نکتہ پردازیوں کے لئے چھوڑ چلے ہیں، ہر مکان جلسہ کے بعد درہم برہم معلوم ہوتا ہے مگر یہ اس طرح سجا کر چلے ہیں کہ جو اِن کے بعد آئیں گے، آرائش و زیبائش کے انداز سوچ سوچ کر پیدا کریں گے، اب زیادہ گفتگو کا موقع نہیں کہ دور دوم کو زیب دینے والے آن پہنچے۔
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۳۶

دُوسرا دَور

تمہید

دوسرا دور شروع ہوتا ہے، اس فصل میں زبان کے حسن قدرتی کے لئے موسم بہار ہے، یہ وقت ہے کہ مضامین کے پھول گلشنِ فصاحت میں اپنے قدرتی جوبن دکھا رہے ہیں، حُسنِ قدرتی کی شے ہے؟ ایک لطفِ خداداد ہے، جس میں بناؤ سنگار کا نام بھی آ جائے تو تکلف کا داغ سمجھ کر سات سات پانی سے دھوئیں، ان کا گلزار نیچر کی گٹکاری ہے، صنعت کی دستکاری یہاں آ کر قلم لگائے تو ہاتھ کاٹے جائیں۔ اس میں تو کلام نہیں کہ یہ باکمال بھی ایک ہی شہد کی مکھی ہیں، اور معلوم ہوتا ہے کہ دریائے محبت میں ڈوبے ہوئے ہیں مگر اس خوبی کا وصف کسی زبان سے ادا نہیں ہوتا کہ جو کچھ دل میں ہوتا ہے جوں کا توں ادا کر دیتے ہیں۔ خیالی رنگوں کے طوطے مینا نہیں بناتے، ہاں طوطی و بلبل کی طرح صاف زبان اور قدرتی الحان لائے ہیں۔ انھوں نے اپنے نغموں میں گٹگری، اپچ، پلٹی، تان کسی گویے سے لے کر نہیں ڈالی، تم دیکھنا بے تکلف بولی اور سیدھی سادی باتوں سے جو کچھ دل میں آئے گا بے ساختہ کہہ دیں گے کہ سامنے تصویر کھڑی کر دیں گے اور جب تک سننے والے سنیں گے کلیجے پکڑ کر رہ جائیں گے، اس کا سبب کیا؟ وہی بے ساختہ پن جس کے سادہ پن پر ہزار بانکپن قربان ہوتے ہیں۔ مصرعہ :
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۳۷

"ہے حُسن وہی جس میں بے ساختہ پن نکلے"​

ان کی اصلاح نے بہت سے لفظ ولی کے عہد کے نکال ڈالے مگر پھر بھی بھلہ رے اور گھیرے گھیرے اور مرے ہے بجائے مرتا ہے اور دوانہ بجائے دیوانہ اور میاں اور فقط جان کا لفظ بجائے معشوق موجود ہے، متاخرین اس کی جگہ جانِ جاں، یا جانا، یا یار، یا دوست، یا دلبر وغیرہ وغیرہ بولنے لگے، مگر موہن دورِ دوم میں نہ رہا۔ ہجن رہا اور بِل گیا، یعنی جل گیا، یعنی صدقہ گیا اور من بجائے دل بھی ہے۔

سید انشاء ایک جگہ بعض الفاظِ مذکورہ کا ذکر کر کے لکھتے ہیں، کہ اس عہد کی گفتگو میں اس قسم کے الفاظ شرفا بولتے تھے۔ پروٹھا بجائے پراٹھا، اور دھیرا بجائے آہستہ یا متوقف، اُور یعنی طرف، اور بھیچک بمعنی حیران (یہ دو لفظ سودا نے بھی باندھے ہیں) اور تکوں بجائے کوں کویا اپنے تئیں کی اور جانے ہارا بجائے جانے والا، اور فرمائتا ہے بجائے فرماتا ہے اور جائتا ہے بجائے جاتا ہے۔

*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

شاہ حاتم

دستور دنیا کا یہ ہے کہ بیٹا باپ کے نام سے اور شاگرد اپنے نامی اُستاد کے نشان سے روشناس ہوتا ہے مگر اس حاتم کو نصیبے کا بھی حاتم کہنا چاہیے جو اِس نام سے نشان دیا جائے کہ وہ اُستاد سودا کا تھا، خوشا نصیب اُس باپ کے جس کی نسل کمال سے وہ فرزند پیدا ہوا کہ خانوادہ کمال کے لئے باعثِ فخر شمار کیا جائے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۳۸

ان کا تخلص حاتم اور شیخ ظہور الدین نام تھا، والد کا نام فتح الدین تھا، خود کہا کرتے کہ ظہور میرے تولد کی تاریخ ہے، رہنے والے خاص شاہجہاں آباد کے تھے۔ یہ معلوم نہیں کہ بزرگ ان کے کہاں سے آئے، کسی تذکرہ سے ان کی علمیت تحصیلی کا حال معلوم نہیں ہوتا ہے نہ کچھ اُن کے کلام سے ثابت ہوتا ہے مگر اس قدر استعداد ضرور رکھتے تھے کہ اُن کی انشاء پردازی میں خلل نہیں آنے دیتی، اور یہ جوہر اس عہد کے شریف خاندانوں کے لئے عام تھا، اصل حال یہ ہے کہ بعد عالمگیر کے جب اولاد میں کشا کشی ہوئی اور سلطنت تباہ ہو گئی تو جو شرفاء منصب دار عہدہ دار تھے، روز کے فسادوں سے دل شکستہ ہو گئے، خصوصاً جبکہ اُدھر مرہٹہ نے ادھر سکھ نے زور پکڑا اور قیامِ سلطنت کی طرف سے بالکل مایوس ہوئے تو اکثروں نے نوکری چھوڑ کر بسبب بے علمی کے مختلف حرفے اور پیشے اختیار کر لئے اور بعض لوگ باوجودیکہ صاحبِ علم تھے مگر دُنیا سے دل برداشتہ ہو کر چھوڑ ہی بیٹھے۔

شاہ حاتم پہلے ہی سپاہی پیشہ تھے، عمدۃ الملک امیر خاں کی مصاحبت میں عزت اور فارغ البالی بلکہ عیش و عشرت سے بسر کرتے تھے اور چونکہ محمد شاہی دَور تھا اِس لئے آئین زمانہ کے بموجب جو جو اِس وقت کے نوجوانوں کے شوق تھے سب پورے کرتے تھے، دلی میں قدم شریف کے پاس میر بادل علی شاہ کا تکیہ ایسے رند مشرب لوگوں کا ٹھکانا تھا، یہ بھی وہیں جایا کرتے تھے، چنانچہ فقیر کی صحبت نے ایسا اثر کیا کہ انھی کے مرید ہو گئے، رفتہ رفتہ سب گناہوں سے توبہ کی بلکہ دانہ کی گردش نے دنیا کے تعلقات سے بھی توبہ کروا دی، توکل پر گزارہ
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۳۹

کیا اور فقط ایک رومال اور ایک پتلی سی چھڑی جو کہ ہندوستان کے فقرائے آزاد منش کا تمغہ ہے، وہ پاس رہ گئی۔

شاہ موصوف باوجودیکہ نہایت مہذب اور متین تھے اور عمر میں بھی سن رسیدہ ہو گئے تھے، مگر بہت خوش مزاج اور نہایت خلیق اور ظریف تھے۔

فقیری اختیار کر لی تھی مگر بانکوں (لفظ بانکہ اگرچہ آج کل ہر ایک شخص بولتا ہے مگر اس کی اسلیت سے بہت کم لوگ واقف ہیں، یہ دلی میں ایک خاص فرزہ تھا، چنانچہ سید انشاء اللہ خاں مرحوم ایک مقام پر ان کی تصویر کھینچتے ہیں، بانکہ، بانکہ بادر شہرے باشند، خواہ در دہلی خواہ در بلادِ دکن، خواہ در بلادِ بنگار، خواہ در شہرہائے پنجاب ہمہ رایک وضع دیک لباس می باشد، کج ادا کج راہ رفتن و خودرا بسیار دیدن، دہر مؤنث را مذکر ادا کردن شعارِ ایشاں است، چنانچہ ہمارے بکری را ہمارا بکرا گویند، مثل افغاناں در شہر دستار و زلف و خلیل دا وچہ گفتن ایشاں مبدل نمی شود۔) کی طرح دوپٹہ سر پر ٹیرھا ہی باندھتے تھے، راج گھاٹ کے رستہ میں قلعہ کے نیچے شاہ تسلیم (شاہ تسلیم ایک نیک مرد فقیر تھے اور خود شاعر تھے۔ چونکہ ان کا تکیہ بھی ایک دلکشا اور بافضا مقام پر تھا اس لئے اکثر شعر و سخن کے شائق تھی صبح شام وہاں جا کر بیٹھا کرتے تھے، سعادت یار خان رنگین، محمد امان نثار جنکا ذکر میر کے حال میں ہے اور اکثر شعراء حاتم کے شاگرد تھے۔) کا تکیہ تھا، وہاں کچھ چمن تھے، کچھ درختوں کا سایہ تھا، سامنے فضا کا میدان تھا، شام کو روز وہاں جا کر بیٹھا کرتے تھے اور چند احباب اور شاگردوں کے ساتھ شعر و سخن کا چرچا رکھتے تھے، چنانچہ ۵۰ برس تک
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۴۰

اس معمول کو نباہ دیا، گرمی، جاڑا، برسات، آندھی آئے، مینھ ائے، وہاں کی نشست قضا نہ ہوتی تھی، اہلِ دہلی کے قدیمی بزرگوں کا دستور تھا کہ جو بات ایک دفعہ اختیار کر لیتے تھے، پھر اُسے مرتے دم تک نباہ دیتے تھے اور اسے وضعداری یا پاس وضع کہتے تھے، یہ ایک قانون تھا کہ آئین شریعت کے برابر پہلو مارتا ہوا جاتا تھا۔ ایسی پابندیاں بعض معاملات میں استقلال بن کر ملک اور اہلِ ملک کے لئے قابل فخر ہوتی ہیں اور بعض جزئیات میں تکلیف بیجا ہو کر خاندانوں اور گھرانوں کو بلکہ عام ہو کر ملک کو برباد کر دیتی ہیں۔

شیخ غلام ہمدانی مصحفی اپنے تذکرہ میں اِن کی شاعری کی ابتدا یہ لکھتے ہیں کہ سنہ ۳ محمد شاہی عہد میں دلی کا دیوان دکن سے دہلی میں آیا۔ اس زمانہ کے حال بموجب وہی غنیمت تھا، اس واسطے خاص و عام میں اس کا بہت چرچا ہوا۔

شاہ حاتم کی طبیعت ِ موزوں نے بھی جوش مارا، شعر کہنا شروع کیا اور ہمت و لیاقت سے اُسے انتہا کو پہنچایا، پہلے رمز تخلص کرتے تھے پھر حاتم ہو گئے۔یہ پہلے شعرائے طبقہ اول کے منتخت شاعروں میں تھے، اس وقت بھی زبان ان کی فصیح اور کلام بے تکلف تھا، مگر پھر طبقہ دوم میں داخل ہو گئے، کلیات اِن کا بہت بڑا ہے جو اکثر زبانِ قدیم کی غزل اور قصائد اور رباعیات و مثنوی وغیرہ پر مشتمل ہے، کتبخانہ ہائے قدیم لکھنؤ اور دہلی میں دیکھا، وہ شاہ آبرو اور ناجی کی طرز میں ہے لیکن آخر عمر میں کلیات مذکور سے خود انتخاب کر کے ایک چھوٹا سا دیوان مرتب کیا، اس کا نام "دیوان زادہ" رکھا کیونکہ پہلے دیوان سے پیدا ہوا تھا، وہ صاحبزادہ بھی پانچ ہزار سے زیادہ کا مال بغل میں دبائے بیٹھاہے، بہر حال یہ کارنامہ ان کا استحقاق پیدا کرتا
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۴۱

ہے، کہ طبقہ دوم سے نکال کر طبقہ سوم کی اولیت کا طرہ ان کی زیب دستار کیا جائے یا اس کا ایک رکنِ اعظم قرار دیا جائے، اُنھوں نے دیوان زادہ پر ایک دیباچہ بہت مفید لکھا ہے۔ خلاصہ اُس کا یہ ہے "خوشہ چینِ خرمنِ سخنوارانِ عالم، بصورتِ محتاج و بمعنی حاتم کہ از 1139ھ تا 1169ھ کہ چہل سال باشد، عمر دریں فن صرف کردہ در شعر فارسی پیر و مرزا صائب و در ریختہ ولی را استادمے واند، اول کسیکہ دریں فن دیوانِ ترتیب نمودہ اور بود فقیر دیوان قدیم پیش از نادر شاہی در بلادِ ہند مشہور دا ۔۔۔۔ بعد ترتیب آں تا امروز کہ سنہ 3 عزیز الدین عالمگیر ثانی باشد، ہر رطب و یا بس کہ از زبانِ این بے زباں برآمدہ، داخل دیوانِ قدیم نمودہ کلیات مرتب ساختہ، از ہر ردیف دو سہ غزلے دا زہر غزل دوسہ بیتے ورائے مناقب و مرثیہ و چند مخمس و مثنوی از دیوانِ قدیم نیز داخل نمودہ بہ دیوان زادہ مخاطب ساختہ و سرخی غزلیات بسہ قسم منقسم ساختہ یکے طرحی، دوم فرمائشی سوم جوابی، تا تفریقِ آں معلوم گردو، و معاصران فقیر، شاہ مبارک آبرو، و شرف الدین مضمون و مرزا جان جاناں مظہر و شیخ احسن اللہ احسن و میر شاکر ناجی و غلام مصطفے، یکرنگ است و لفظ در، و برواز و الفاظ و افعال دیگر کہ در دیوان قدیم خود تقید دارو، ور نیولا از دہ دو از دہ سال اکثر الفاظ را از نظر انداختہ و الفاظ عربی و فارسی کہ قریب الفہم و کثیر الاستعمال باشند و روزمرہ دہلی کہ میرزایانِ ہند و فصیحانِ رند، در محاورہ آرند منظور دارد" پھر ایک جگہ کہتے ہیں زبانِ ہندی بھاکا را موقوف کردہ محض روزمرہ کہ عام فہم و خاص پسند باشد اکتیار نمود، وشمہ ازاں الفاظ کہ تقید دارد، بہ بیان مے آرد، چنانچہ عربی و فارسی مثلاً راتسبی و صحیح را صحی و بیگانہ رابگانہ و یوانہ را دوانہ و مانند آن،
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top