آب حیات - مولانا محمد حسین آزاد (مرحوم)

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۴۲

یا متحرک را ساکن را متحرک، مَرض را مرض و نیز الفاظِ ہندی مثل نین، و جگ دست وغیرہ و لفظ مرا، و میرا، و ازیں قبیل کہ براں قباحت لازم آید، یا بجائے سی ستی، اُدھر را، اودھر، و کدھررا، کیدھر کہ زیادتی حرف باشد، یا بجائے پر، پہ یا، یہاں را، یاں، و، وہاں را واں، کہ در مخرج تنگ بود، یا قافیہ، را، با، ڑا، ہندی، مثل گھوڑا و بورا، دھڑ و سر، و مانند آں، مگر ہائے ہنوز را بدل کردن با الف کہ از عام تا خاص محاورہ دارند، بندہ دریں امر متابعت جمہور مجبوراست، چنانچہ بندہ رابندا، و پردہ را پردہ و انچہ ازیں قبیل باشد دایں قاعدہ را تاکہ شرح و ہد، مختصر کہ لفظے غیر فصیح انشاء اللہ نخواہد بود۔

مضمون ان کے صاف عاشقانہ و عارفانہ ہیں، شعر آپس کی باتیں اور زبان شُستہ و رُفتہ ہے لیکن لفظ اَب، اور یہاں وغیرہ زائد اکثر ہوتے ہیں، غرض اسی دیوان کے دیباچہ میں اپنے شاگردوں کی ذیل میں ۴۵ آدمیوں کے نام درج کرتے ہیں، انھی میں مرزا رفیع بھی ہیں، میاں ہدایت (اُردو کے ایک فصیح اور باکمال شاعر تھے، خواجہ میر درد کے ہمعصر تھے اور ان سے بھی اصلاح لیتے تھے، چنانچہ انہی کا شعر ہے :

ہدایت کہا ریختہ جب سے ہم نے
رواج اُٹھ گیا ہند سے فارسی کا​

سودا کے ذکر میں ایک لطیفہ اِن کے حال سے متعلق ہے (دیکھو صفحہ ۲۵۸)) کی زبانی ہدایت ہے کہ شاہ حاتم جب سودا کی غزل کو اصلاح دیتے تھے تو اکثر یہ اشعار پڑھا کرتے تھے :

از ادب صائب خموشم ورنہ در ہردا دیئے
رتبہ شاگردیِ من نیست اُستادِ مرا​

اور احباب سے کہتے تھے کہ یہ شعر صائب نے میری اُستادی اور مرزا رفیع کی
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۴۳

شاگردی کے حق میں کہا ہے، لکھنؤ سے مرزا کے قصیدے اور غزلیں آتیں تو آپ دوستوں کو پڑھ پڑھ کر سُناتے اور خوش ہوتے۔

سعادت یار خاں رنگین ان کے شاگرد اپنی مجالسِ رنگیں میں لکھتے ہیں کہ تیسرے پہر کو بھی اکثر شاہ صاحب کے پاس شاہ تسلیم کے تکیہ میں حاضر ہوا کرتا تھا، ایک دن میاں محمد امان نثار، لالہ مکند رائے فارغ، مِروہے اکبر علی اکبر وغیرہ، چند شاگرد خدمت میں موجود تھے اور میری نومشقی کے دن تھے کہ حسبِ معمول وہاں حاضر ہوا۔ شاہ صاحب نے فرمایا کہ آج رات کو مطلع کہا ہے :

سَر کو پٹکا ہے کبھو، سینہ کبھو کوٹا ہے
رات ہم ہجر کی دوست سے مزا لوٹا ہے​

میاں رنگین لکھتے ہیں، ابتدا سے میرے مزاج میں چالاکی بہت تھی اور شعور کم تھا، اپنی نادانی سے گستاخانہ بول اٹھا کہ اگر مصرع ثانی میں اس طرح ارشاد ہو تو اچھا ہے :

سر کو پٹکا ہے کبھو، سینہ کبھو کوٹا ہے
ہم نے شب ہجر کی دوست سے مزا لوٹا ہے​

شاہ صاحب بہت خوش ہوئے، میرا ہاتھ پکڑ کر اپنی طرف کھینچا اور فرمایا آفریں، آفریں، ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات، انشاء اللہ تمھاری طبیعت بہت ترقی کرے گی، مشق نہ چھوڑنا، ان کی دوستوں میں سے ایک شخص بولے کہ صاحبزادے اُستاد کے سامنے یہ گستاخی زیبا نہ تھی، حضرت نے پھر فرمایا کہ مضائقہ کیا ہے، واللہ میں اسی طرح لکھوں گا۔ بعد اسکے یہ قطعہ پڑھا :

من و آں سادہ دل کہ عیب مرا
ہمچو آئینہ روبرد گوید

نہ چو شانہ بصد زبان و دو رُو
پس سر رفتہ مو بمو گوید
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۴۴

اس میں شک نہیں کہ یہ نیک نیتی اور دریا دلی شاہ حاتم کی قابلِ رشک ہے کیونکہ شعراء میں اپنے لئے خودپسندی اور دوسرے کے لئے ناتواں بینی ایک ایسی عادت ہے کہ اگر اُسے قدرتی عیب کہیں تو کچھ مبالغہ نہیں۔ بلکہ شاگردوں کو استادوں سے دست و گریباں ہوتے دیکھا تو اکثر اِسی فن میں دیکھا، یہ وصف یا اس فرشتہ سیرت میں پایا، یا مرزا محمد علی ماہر میں کہ مرزا محمد افصل سرخوش کے اُستاد تھے۔

نقل :- مرزا محمد علی ماہر عہدِ عالمگیر میں ایک مشاق اور مسلم الثبوت شاعر اپنے زمانہ کے تھے اور مرزا سر خوش اس نے قدیمی شاگرد تھے، مگر طبع مناسب اور کثرتِ مشق سے یہ بھی درجہ کمال کو پہنچ گئے، مرزا ماہر اکثر فرمائش کر کے اِن سے شعر کہوایا کرتے تھے اور یہ سعادت سمجھکر کہہ دیا کرتے تھے، سرخوش لکھتے ہیں کہ انھوں نے ایک مثنوی بہاریہ تحفتہ العراقین کے ڈھنگ میں لکھی تھی، چنانچہ مطلع میں نے کہہ کر دیا کہ :

اےبرسر نامہ گل زملامت
۔۔۔۔۔ بہار شیخ جامت​

اور میرے ساقی نامہ کے لئے اُنھوں نے مطلع کہہ دیا :

بود نامہ نشہ بخش ادا
کہ بر سر کشد جامِ حمدِ خدا​

پھر لکھتے ہیں کہ ایک شب قطب الدین مائل کے ہاں شعراء کا جلسہ تھا۔ چاندنی رات تھی، سب مہتابی پر بیٹھے تھے، مجھ سے شعر کی فرمائش کی، میں نے اسی دن مطلع کہا تھا وہ پڑھا :

کے توانم دید زاہد جامِ صہبا بشکند
مے پرور نگم حبابے گر یہ دریا بشکند​

سب نے تعریف کی اور آدھی رات تک اس کے مصرعے لوگوں کی زبان پر تھے، حکیم محمد کاظم صاحب تخلص کہ اپنے تئیں مسیح البیان بھی کہتے تھے، بار بار یہ شعر
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۴۵

پڑھتے تھے اور کہتے تھے کہ خدا کی قدرت، ہندوستان میں ایک شخص پیدا ہو، اور فارس کی زبان میں ایسے شعر کہے، دوسرے دن دانشمند خاں کے مکان پر جلسہ ہوا، وہاں میں نہ تھا مگر مرزا ماہر موجود تھے۔ سب نے پھر اس مطلع کا ذکر کیا اور کہا کہ تمھارا شاگرد کتنا خوش فکر نکلا ہے، اُس کے شعر کی کیفیت میں عجب لطف سے کل رات کٹی، آفرین ہے آپ کی محنت پر خوب تربیت کیا، انھوں نے کہا کہ وہ میرے شاگرد نہیں، باہم اتحاد ہے، وہ مجھے شعر دکھاتے ہیں، میں انھیں شعر دکھاتا ہوں۔ حکیم نے کہا، سرخوش سے بارہا گفتگو آئی وہ باصرار کہتے تھے کہ میں شاگرد ہوں۔ ماہر نے کہا کہ بزرگ زادہ ہے جو چاہا کہہ دیا، مجھے اُس کی اُستادی کی لیاقت کب سے ہے، دوسرے دن میں خدمت میں حاضر ہوا، فرمایا کہ تم نے اپنے تئیں میرا شاگرد کیوں کہا۔ مجھے تو فخر ہے کہ تم جیسا میرا شاگرد ہو، مگر دنیا میں ایسے بلند فکر لوگ بھی ہیں کہ وہ مجھ کو اور میرے شعر کو خاطر میں نہیں لاتے، اُن کی نظر میں میرے شاگرد کی کیا قدر و منزلت ہو گی۔ شعراء خدا کے شاگرد ہیں۔ ان کو کسی کی شاگردی کی پرواہ نہیں، شاہ حاتم کا ایک دیوان فارسی میں بھی ہے مگر بہت مختصر میں نے دیکھا وہ 1179ھ کا خود اُن کے قلم کا لکھا ہوا تھا۔ غزل 90 صفحے، رباعی و فرد وغیرہ ۶۵ صفحے، ولادت ان کی 1111ہجری ہے اور ۹۶ برس کی عمر میں ماہ رمضان 1207ھ میں دہلی میں فوت ہوئے اور وہیں دلی دروازہ کے باہر دفن ہوئے۔ مگر مصحفی نے تذکرہ فارسی میں لکھا ہے کہ ۱۱۹۶ھ میں فوت ہوئے اور ۸۳ برس کی عمر پائی۔

یار کا مجھ کو اس سبب سے ڈر ہے
شوخ ظالم ہے اور سِتمگر ہے​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۴۶

دیکھ سرو چمن ترے قدکوں
خجل ہے پا بگل ہے بے بر ہے

حق میں عاشق کے تجھ لباں کا بچن
قند ہے نیشکر ہے، شکر ہے

کیوں کہ سب سے تجھے چھپا نہ رکھوں
جان ہے دل ہے دل کا انتر ہے

مارنے کو رقیب کے حاتم
شیر ہے، ببر ہے، دھنتر ہے
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

یہاں طالعوں سے ملتا ہے پیارا
عبث دیکھے ہے زاہد استخارا

میں پایا ہوں ولے تجھ چشم کا بھید
نہ مانگوں کا کبھی ان کا اشارا

نہالِ دوستی کو کاٹ ڈالا
دکھا کر شوخ نے اَبرو کا آرا

لیا اس گلبدن کا ہم نے بوسہ
تو کیا چوما رقیبوں نے ہمارا

کئی عالم کئے ہیں قتل اِن نے
کرے کیا ایکلا ھاتم بچارا
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

چھپا نہین جابجا حاضر ہے پیارا
کہاں وہ چشم؟ جو ماریں نظارا

جدا نہیں سب ستی تحقیق کر دیکھ
ملا ہے سب سے اور سب سے ہے نیارا

مسافر اُٹھ تجھے چلنا ہے منزل
بجے ہے کوچ کا ہر دم نقارا

مثالِ بحر موجیں مارتا ہے
کیا ہے جس نے اِس جگ سوں کنارا

سیانے خلق سے یوں بھاگتے ہیں
کہ جوں آتش ستی بھاگے ہے پیارا

سمجھ کر دیکھ سب جگ سیکھ ماہی
کہاں ہیگا سکندر کاں (کہاں) ہے دارا

کہیں ہیں اہلِ عرفاں اس کو جیتا
جو مر کر عشق میں دنیا سوں ہارا

صفا کر دل کے آئینہ کو حاتم
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۴۷

دیکھا چاہے سجن گر آشکارا
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

جب سُنا موتی نے تجھ دانداں کے موتی کا بہا
آب میں شرمندگی سوں ڈوب جوں پانی بہا

مردماں کو دیکھ کر بسمل ترے کوچہ کے بیچ
ڈر گیا اور چشم سے آنسو کے چاہے خونبہا

اب تمھارے سُرخ ہم نے تاڑ کر پوچھا تھا مول
جوہری کہنے لگے یہ لعل ہے گا بے بہا

حاتم اُس بے مہر نے مچھی نہ دی اس غم ستی
جا کنارے بیٹھ کر اس غم ستی دریا بہا
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*
آبِ حیات جا کے کسو نے پیا تو کیا
مانند خضر جگ میں اکیلا جیا تو کیا

شیریں لباں سوں سنگ دلوں کو اثر نہیں
فرہاد کام کوہ کنی کا کیا تو کیا

جلنا لگن میں شمع صفت سخت کام ہے
پروانہ یوں شتاب عبث جی دیا تو کیا

ناسور کی صفت ہے نہ ہو گا کبھی وہ بند
جراح زخم عشق کا آ کر سیا تو کیا

محتاجگی سوں مجھ کو نہیں ایک دم فراغ
حق نے جہاں میں نام کو حاتم کیا تو کیا
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

خال اُس کے نے دل لیا میرا
تِل میں اِن نے لہو پیا میرا

جان بے درد کو ملا کیوں تھا
آگے آیا مرے کیا میرا

اُس کے کوچہ میں مجھ کو پھرتا دیکھ
رشک کھاتی ہے آسیا میرا

نہیں شمع و چراغ کی حاجت
دل ہے مجھ بزم کا دیا میرا

زندگی درد سر ہوئی حاتم
کب ملے گا مجھے پیا میرا
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

کاملوں کا یہ سخن مدت سوں مجھ کو یاد ہے
جگ میں بے محبوب جینا زندگی برباد ہے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۴۸

بندگی سوں سروقد اک قدم باہر نہیں
سرو گلشن بیچ کہتے ہیں مگر آزاد ہے

بے مدد زلفوں کے اُسکے حُسن نے قیدی کیا
صید دل بے دام کرنا صنعتِ استاد ہے

خلق کہتی ہے بڑا تھا عاشقی میں کوہ کن
تجھ لبِ شیریں کی حسرت میں ہر اک فرہاد ہے

دل نہاں پھرتا ہے حاتم کا نجف اشرف کے بیچ
گو وطن ظاہر میں اس کا شاہجہاں آباد ہے
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

اے خرد مندو مبارک ہو تمھیں فرزانگی
ہم ہوں اور صحرا ہو اور وحشت ہو اور دیوانگی

بے مروت، بے وفا، بے دید اے ناآشنا
آشناؤں سے نہ کر بے رحمی اور بیگانگی

ملکِ دل آباد کیوں کرتا ہے حاتم کا خراب
اے مری بستی خوش آتی ہے تجھے ویرانگی
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

سراج الدین علی خان آرزوؔ

خانِ آرزو کو زبانِ اُردو پر وہی دعوای پہنچتا ہے جو کہ ارسطو کو فلسفہ و منطق پر ہے۔ جب تک کہ کل منطقی ارسطو کے عیال کہلائیں گے تب تک اہلِ اُردو خانِ آرزو کے عیال کہلاتے رہیں گے، ان کا دلچسپ حال قابلِ تحریر تھا، لیکن چونکہ فارسی تصنیفات کی مہموں نے اُنھیں کوئی دیوان اُردو میں نہ لکھنے دیا، اس لئے یہاں اُن کے باب میں اس قدر لکھنا کافی ہے کہ خان آرزو وہی شخص ہیں جن کے دامنِ تربیت میں ایسے شائستہ فرزند تربیت پا کر اُٹھے جو زبانِ اُردو کے اصلاح دینے والے کہلائے۔ اور جس شاعری کی بنیاد جگت اور ذومعنی لفظوں پر تھی اسے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۴۹

کھینچ کر فارسی کی طرز اور ادائے مطالب پر لے آئے، یعنی مرزا جان جاناں مظہر، مرزا رفیع، میر تقی میر، خواجہ میر درد، وغیرہ۔

خان آرزو اُردو کے شاعر نہ تھے نہ اُس زمانہ میں اُسے کچھ کمال سمجھتے تھے، البتہ بعض متفرق اشعار کہے تھے، وہ زمانہ کی گردشوں سے اس طرح گِھس پس کر اُڑ گئے کہ آج کل کے لوگوں کو خبر بھی نہیں، میرے دیوانے دل نے جو اُستادوں کی زبان سے لے کر سینہ میں امانت رکھے وہ کاغذ سپرد کرتا ہوں۔ یقین ہے کہ یہ امانتدار ضائع نہ کرے گا۔ خان موصوف نے ۱۱۶۵ھ میں رحلت کی، اصل وطن اُن کے بزرگوں کا اکبر آباد ہے، مگر یہ دلی سے خاص دل لگی رہتے تھے، چنانچہ لکھنؤ میں انتقال کیا، ہڈیوں کی خاک دلی میں آ کر زمین کا پیوند ہوئی۔

آتا ہے ہر سحر اُٹھ تیری برابری کو
کیا دن لگے ہیں دیکھو خورشید خاوری کو

اِس تند خو صنم سے جب سے لگا ہوں سننے
ہر کوئی مانتا ہے میری دلاوری کو

تجھ زلف میں لٹک نہ رہے دل تو کیا کرے
بیکار ہے اٹک نہ رہے دل تو کیا کرے

رکھے سیپارہ دل کھول آگے عندلیبوں کے
چمن میں آج گویا پھول ہیں تیرے شہیدوں کے

کھول کر بندِ قبا کو ملکِ دل غارت کیا
کیا حصارِ قلبِ دلبر نے کھلے بندوں کیا

اس زلفِ (۱) سیاہ فام کی کیا دھوم پڑی ہے
آئینہ کے گلشن میں گتا جھوم پڑی ہے​

(۱) سودا نے اپنے تذکرہ میں اس شعر کو خان آرزو کے نام سے اس طرح لکھا ہے اور میر انشاء ۔۔۔۔ نے اپنے دریائے لطافت میں قزلباش خاں امید کے نام پر اسی شعر کو اس طرح لکھا ہے :

از زلف سیاہ تو بدل دوم پری ہے
درخانہ آئینہ گتا جوم پڑی ہے​

اور بعض تذکروں میں اسی شعر کو میر ۔۔۔۔۔ فعات کے نام سے لکھا ہے۔ واللہ اعلم۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۵۰

دریائے اشک اپنا جب سر بہ اوج مارے
طوفان نوح بیٹھا گوشہ میں موج مارے

مرے شوخِ خراباتی کی کیفیت نہ کچھ پوچھو
بہارِ حُسن کو دی آب اُس نے جب چرس کھینچا

مغاں مجھ مست بن پھر خندہ قلقل نہ ہوویگا
مئے گلگوں کا شیشہ ہچکیاں لے لیکے روئے گا​

باوجودیکہ عزتِ خاندان اور نفسِ کمالات کی حیثیت سے خان موصوف کو امرا و غربا سب معزز و محترم سمجھتے اور علم و فضل کے اعتبار سے قاضی القضات کا عہدہ دربارِ شاہی سے حاصل کیا مگر مزاج کی شگفتگی اور طبیعت کی ظرافت نے دماغ میں خود پسندی اور تمکنت کی بو نہیں آنے دی تھی، چنانچہ لطیفہ شاگردوں میں ایک نوجوان بچپن سے حاضر رہتا تھا، حُسنِ اتفاق یہ کہ چہرہ اُس کا نمکِ حسن سے نمکین تھا، وہ کسی سبب سے چند روز نہ آیا، ایک دن یہ کہیں سرِ راہ بیٹھے تھے کہ وہ اِدھر سے گزرا۔ انھوں نے بلایا، شاید اسے ضروری کام تھا کہ وہ عذر کر کے چلا، انھوں نے پھر روکا اور بلا کر یہ شعر پڑھا کہ لطافتِ طبع سے اسی وقت شبنم کی طرح ٹپکا تھا :

یہ ناز یہ غرور لڑکپن میں تو نہ تھا
کیا تم جوان ہو کے بڑے آدمی ہوئے​

ایک دن کہیں مشاعرہ تھا، ایک جانب چند فہمیدہ اور سخن شناس بیٹھے شعر و سخن سے دماغ تر و تازہ کر رہے تھے، ایک شخص نے خان موصوف کی تعریف کی اور اُس میں بہت مبالغہ کیا۔ حکیم اصلح الدین خاں صاحب مُسکرائے اور کہا کہ :

آرزو خوب است!
اینقدرہا خوب نیست​

سب ہنسے اور خود خاں صاحب دیر تک اس مصرعہِ لطیف کی داد دیتے رہے :

پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ
افسوس تم کو میر سے صحبت نہیں رہی​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۵۱

اشرف علی خاں فغاںؔ

فغاں تخلص اشرف خاں نام (گجرات احمد آباد کے سادات عظام کے خاندان سے تھے، سودا کے دیوان پر جو دیباچہ ہے وہ انھیں کا لکھا ہوا ہے۔ خود شاعر تھے اور زین العابدین آشنا ان کا بیٹا بھی شاعر تھا۔ بعض ھالات لطف خاں موصوف کے سودا کے حال میں لکھے گئے۔)، احمد شاہ بادشاہ کے کوکہ تھے، بدلہ سنجی و لطیفہ گوئی کا یہ عالم تھا کہ زبان سے پھلجڑی کی طرح پھول جھڑتے تھے اس لئے ظریف الملک کوکہ خاں خطاب تھا اگرچہ شاعری پیشہ نہ تھے، مگر شعر کا مزہ ایسی بُری بلا ہے کہ اس کے چٹخارے کے سامنے سارے بے مزہ ہو جاتے ہیں، چنانچہ وہ ایسے ہی صاحب کمالوں میں ہیں، ابتدائے عمر میں شعر گوئی کا شوق پیدا ہوا، طبیعت ایسی مناسب واقع ہوئی تھی کہ جبھی سے اس کام میں نام پیدا کیا، مصحفی نے اپنے تذکرہ میں قزلباش خاں امید کا شاگرد لکھا ہے۔ مگر اُن کی اُردو ابھہ سُن چکے، شاید فارسی میں اصلاح لی ہو، گلزار ابراہیمی میں لکھا ہے کہ ندیم کے شاگرد تھے اور خود بھی جابجا کہتے ہیں :

ہر چند اب ندیم کا شاگرد ہے فغاں
دو دن کے بعد دیکھیو اُستاد ہو گیا

دشتِ جنوں میں کیوں نہ پھروں میں برہنہ پا
اب تو فغاں ندیم مرا رہ نما ہوا​

الغرض جب احمد شاہ درانی کے حملوں نے ہندوستان کو تہ و بالا کر دیا، اور
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۵۲

دِلی میں دربار کا طور بے طور دیکھا تو مرشد آباد میں ایرج خاں اُس کے چچا کا ستارہ اورج پر تھا۔ اِن سے ملنے گئے اور وہاں سے علاقہ اودھ میں پہنچے، اس زمانہ میں دِلی کا آدمی کہیں جاتا تھا تو ایسا سمجھتے تھے گویا پیرزادے آئے بلکہ اس کی نشست و برخاست کو سلیقہ اور امتیاز کا دستور العمل سمجھتے تھے۔ اس وقت شاہِ اودھ بھی نواب وزیر ہی کہلاتے تھے۔ نواب شجاع الدولہ مرحوم حاکم اودھ ان کے ساتھ بہت تعظیم سے پیش آئے اور اعزاز و اکرام کے ساتھ رکھا لیکن معلوم ہوتا ہے کہ یہ نازک مزاج بہت تھا اور زمانہ بھی ایسا تھا کہ ایسے مزاجوں کی نزاکتیں پیش آ جاتی تھیں، چنانچہ ایک دن اختلاط میں ان کا کپڑا نواب کے ہاتھ سے جل گیا، یہ رنجیدہ ہو کر عظیم آباد چلے گئے، وہاں جا کر اس سے زیادہ عزت پائی اور راجہ شتاب رائے کی سرکار میں اختیار اور اقتدار حاصل کیا۔ راجہ صاحب بھی علاوہ خاندانی بزرگی کے اِن کے کمال ذاتی اور شیریں کلامی اور علم مجلسی کے سبب سے نہایت عزیز رکھتے تھے، چنانچہ وہیں رہے اور باقی عمر خوشحالی میں بسر کر کے دنیا سے انتقال کیا۔

ان کے کمال کی سند اس سے زیادہ نہیں ہو سکتی کہ مرزا رفیع جیسے صاحبِ کمال اکثر ان کے اشعار مزے لے لے پڑھا کرتے اور بہت تعریف کیا کرتے تھے۔ حقیقت میں مرزا کا خود بھی یہی انداز تھا، کیونکہ ان کے کلام میں ہندی کے محاورے نے فارسیت کے ساتھ نئے لطف سے پختگی پائی ہے، اور ہر خیال کو لطافت اور چوچلے کے ساتھ ادا کرتے ہیں، ان کے جس ویران سے میری آنکھیں روشن ہوئیں، میرے استاد ظاہر و باطن شیخ ابراہیم ذوق کے لڑکپن کا لکھا ہوا تھا، اگرچہ فغاں کی
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۵۳

زبان اُسی زمانے کی زبان ہے، مگر فنِ شاعری کے اعتبار سے نہایت بااصول اور برجستہ ہے اور الفاظ کی بندش ان کی مشق پر گواہی دیتی ہے، مقدار میں دیوان درد سے کچھ بڑا تھا، مگر فقط غزلوں کا دیوان ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی طبیعت ایشیا کی شاعری کے لئے نہایت مناسب تھی، ان کے حالات سے معلوم ہوتا ہے کہ تیزی اور طراری کو اُن کے مزاج سے وہ لگاؤ تھا جو باردت اور حرارت کو، لطیفہ گوئی اور حاضر جوابی میں ایسی تھی جیسے تلوار میں جوہر۔

ایک دن راجہ صاحب کے دربار میں غزل پڑھی جس کا قافیہ تھا لالیاں اور جالیاں، سب سخن فہموں نے بہت تعریف کی، راجہ صاحب کی صحبت میں جگنو میاں ایک مسخرے تھے، ان کی زبان سے نکلا کہ نواب صاحب سب قافیے آپ نے باندھے مگر تالیاں رہ گئیں، اُنھوں نے ٹال دیا اور کچھ جواب نہ دیا، راجہ صاحب نے خود فرمایا کہ نواب صاحب! سُنتے ہو جگنو میاں کیا کہتے ہیں؟ اُنھوں نے کہا کہ مہاراج اس قافیہ کو مبتذل سمجھ کر چھوڑ دیا تھا اور حضور فرمائیں تو اب بھی ہو سکتا ہے، مہاراج نے کہا کہ ہاں کچھ کہنا تو چاہیے۔ انھوں نے اِسی وقت پڑھا :

جگنو میاں کی دُم جو چمکتی ہے رات کو
سب دیکھ دیکھ اس کو بجاتے ہیں تالیاں

تمام دربار چمک اُٹھا اور میاں جگنو مدھم ہو کر رہ گئے۔

افسوس یہ ہے کہ اس قسم کے لطائف بڑھتے بڑھتے ان سے اور راجہ صاحب سے بھی شکر رنجی ہو گئی، اس کی بنیاد یہ ہوئی کہ احمد شاہ دُرانی نے جو سلطنت پر حملے کئے، ایک دن اس کی دست درازی اور بے اعتدالیوں کا ذکر ہو رہا تھا، خدا جانے طنز سے یا سادہ مزاجی سے راجہ صاحب نے کہا کہ نواب صاحب ! ملکہ
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۵۴

زمانی کو احمد شاہ درانی کیوں کر لے گیا، انھیں بات ناگوار ہوئی، افسردہ ہو کر بولے کہ مہاراج جس طرح سیتا جی کو راون لے گیا تھا، اسی طرح وہ لے گیا۔ اُسی دن سے دربار میں جانا چھوڑ دیا۔

اُن کی لیاقت اور حُسنِ تدبیر کو اس بات سے قیاس کر سکتے ہیں کہ حکام فرنگ سے اس عالم میں اس طرح رسائی پیدا کی کہ باقی عمر فارغ البالی اور خوشحالی میں گزاری، ۱۱۸۶ ہجری میں وفات پائی اور وہیں دفن ہوئے۔

مبتلائے عشق کو اے ہمدماں شادی کہاں
آ گئے اب تو گرفتاری میں آزادی کہاں

کوہ میں مسکن کبھی ہے اور کبھی صحرا کے بیچ
خانہ الفت ہو ویراں ہم کو آبادی کہاں

ایک میں تو قتل سے خوش ہوں و لیکن مجھ سوا
پیش جاوے گی مرے قاتل یہ جلادی کہاں

کاش آ جاوے قیامت اور کہے دیوانِ حشر
وہ فغاں جو ہے گریباں چاک فریادی کہاں
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

خط دیجئیو چھپا کے ملے وہ اگر کہیں
لینا نہ میرے نام کو اے نامہ بر کہیں

بادِ صبا توں عقدہ کشا اس کی ہو جیو
مجھ سا گرفتہ دل اگر آوے نظر کہیں

اتنا وفور خوش نہیں آتا ہے اشک کا
عالم کو مت ڈبوئیو اے چشمِ تر کہیں

میری طرف سے خاطرِ صیاد جمع ہے
کیا اُڑ سکے گا طائرِ بے بال و پَر کہیں

تیری گلی میں خاک بھی چھانی کہ دل ملے
ایسا ہی گم ہوا کہ نہ آیا نظر کہیں

رونا جہاں تلک تھا میری جان رو چکا
مطلق نہیں ہے چشم میں نم کا اثر کہیں

باور اگر تجھے نہیں آتا تو دیکھ لے
آنسو کہیں ڈھلک گئے لختِ جگر کہیں

ایذا فغاں کے حق میں یہاں تک روا نہیں​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۵۵

ظالم یہ کیا ستم ہے خدا سے بھی ڈر کہیں
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

بے فائدہ ہے آرزوئے سیم و زر فغاں
کس زندگی کے واسطے یہ دردِ سر فغاں

جلتے ہیں اس گلی میں فرشتے کے پر فغاں
کیونکر پھرے وہاں سے ترا نامہ بر فغاں

بوئے کبابِ سوختہ آتی ہے خاک سے
دامن سے کیا گرا کوئی لختِ جگر فغاں

یاں تک تو گرم ہے مرے خورشید رو کا حُسن
دیکھے اگر کوئی تو نہ ٹھہرے نظر فغاں
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

کہتے ہیں فصلِ گل تو چمن سے گزر گئی
اے عندلیب تو نہ قفس بیچ مر گئی

شکوہ تو کیوں کرے ہے مرے اشکِ سُرخ کا
تیری کب آستیں مرے لوہو سے ۔۔۔۔۔ گئی

اتنا کہاں رفیق بصارت ہے چشم کی
دل بھی ادھر گیا مری جیدھر نظر گئی

تنہا اگر میں یار کو پاؤں تو یوں کہوں
انصاف کو نہ چھوڑ مروت اگر گئی

آخر فغاں وہی ہے اُسے کیوں بھلا دیا
وہ کیا ہوئے تپاک وہ الفت کدھر گئی

مجھ سے جو پوچھتے ہو تو ہر حال سکر ہے
یوں بھی گزر گئی مری ووں بھی گزر گئی
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

مفت سودا ہے ارے یار کہاں جاتا ہے
آ مرے دل کی خریدار کہاں جاتا ہے

کچ کلہ تیغ بکف چین برابر و بے باک
یا الٰہی یہ ستمگار کہاں جاتا ہے

لئے جاتی ہے اجل جانِ فغاں کو اے یار
لیجٗو تیرا گرفتار کہاں جاتا ہے
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

صنم بنا تو خدائی کا مجھ کو کیا نہ ہوا
ہزار شکر کہ تو بُت ہوا خدا نہ ہوا

کباب ہو گیا آخر کو کچھ بُرا نہ ہوا
عجب یہ دل ہے جلا تو بھی بے مزہ نہ ہوا
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۵۶

شگفتگی سے ہے غنچہ کے تئیں پریشانی
بھلا ہوا کبھی کافر تو مجھ سے وا نہ ہوا

مواد میں جیا آخر کو نیم بسمل جو
غضب ہوا مرے قاتل کا مدعا نہ ہوا

نپٹ ہوا ہوں فضیحت بہت ہوا ہوں خراب
تری طفیل اے خانہ خراب کیسا نہ ہوا

طرف سے اپنی تو نیکی میں ہے مرا صاحب
مری بلا سے فغاں کا اگر بھلا نہ ہوا
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

کھا پیچ و تاب مجھکو ڈسیں اب وہ کالیاں
ظالم اسی لئے تین نے زلفیں تھیں پالیاں

تنہا نہ در کو دیکھ کے گرتے ہیں اشکِ چشم
سوراخ دل میں کرتی ہیں کانوں کی بالیاں

دیکھا کہ یہ تو چھوڑ ناممکن نہیں مجھے
چلنے لگا وہ شوخ مراتب یہ چالیاں

ہر بات بیچ روٹھنا، ہر دم میں ناخوشی
ہر آن ودکھنا مجھے ہر وقت گالیاں

ایذا ہر ایک طرح سیں دینا غرض مجھے
کچھ بس نہ چل سکا تو یہ طرحیں نکالیاں

ہم نے شبِ فراق میں سُنتا ہے اے فغاں
کیا خاک سو کے حسرتیں دل کی نکالیاں

یہ تھا خیال خواب میں ہے گا یہ روزِ وصل
آنکھیں جو کھل گئیں وہی راتیں ہیں کالیاں
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

خاتمہ

دوسرے دَور کے شعراء رخصت ہوتے ہیں، سبحان اللہ اس بڑھاپے پر ایسے زندہ دل، اس کمال پر ایسے بے تکلف سادہ مزاج :

کیا خوب آدمی تھے خدا مغفرت کرے​

نہ استعاروں کے پیچ، نہ تشبیہوں کی رنگا رنگی، اپنے خیالات کو کیسی صاف صاف
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۵۷

زبان اور سیدھے سیدھے محاورہ میں کہہ گئے کہ آج تک جو سُنتا ہے سَر دُھنتا ہے۔ اُن کا کلام قال نہ تھا حال تھا۔ جو خیال شعر میں باندھتے تھے، اس کا عالم اُن کے دل و جان پر چھا جاتا تھا، یہی سبب ہے کہ جس شعر کو دیکھو تاثیر میں ڈوبا ہوا ہے۔ اسی کو آج اہلِ فرنگ ڈھونڈھتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ ہر شے کی اصلی حالت دکھانی داہیے۔ مگر حالت کون دکھائے، کہ اپنی حالت بگڑی ہوئی ہے :

صحبتِ گل ہے فقط بلبل سے کیا بگڑی ہوئی
آج کل سارے چمن کی ہے ہوا بگڑی ہوئی

آدمی کہتے ہیں جس کو ایک پُتلا کل کا ہے
پھر کہاں کل اسکو جب کل ہو ذرا بگڑی ہوئی

دل شکستوں کا سخن ہووے نہ کیونکر درست
ساز بگڑے ہے تو نکلے ہے صدا بگڑی ہوئی
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۵۸

تیسرا دَور

تمہید

اس مشاعرہ میں اُن صاحبِ کمالوں کی آمد آمد ہے جس کے پا انداز میں فصاحت آنکھیں بچھاتی ہے اور بلاغت قدموں میں لوٹے جاتی ہے، زبانِ اُردو ابتداء میں کچا سونا تھی، اِن بزرگوں نے اُسے اکثر کدورتوں سے پاک صاف کیا اور ایسا بنا دیا جس سے ہزاروں ضروری کام اور آرائشوں کے سامان حسینوں کے زیور بلکہ بادشاہوں کے تاج و افسر تیار ہوتے ہیں اگرچہ بہت سے مرصع کار، مینا نگار پیچھے آئے، مگر اِس فخر کا نولکھا ہار انھیں بزرگوں کے گلے میں رہا۔ جب یہ صاحبِ کمال چمن کلام میں آئے تو اپنے بزرگوں کی چمن بندی کی سیر کی، فصاحت کے پھول کو دیکھا کہ قدرتی بہار میں حُسنِ خداداد کا جوبن دکھا رہا ہے۔ چونکہ انھیں بھی ناموری کا تمغہ لینا تھا ، اس لئے بڑوں سے بڑھ کر قدم مارنے چاہے۔ یہ گرد و پیش کے میدانوں میں بہت دوڑے، سب پھول کام میں آئے ہوئے تھے، جب سامنے کچھ نہ پایا تو ناچار اپنی عمارتوں کو اونچا اٹھایا، تم دیکھنا وہ بلندی کے مضمون نہ لائیں گے۔ آسماں سے تارے اُتاریں گے، قدر دانوں سے فقط داد نہ لیں گے، پرستش لیں گے، لیکن وہ پرستش کہ سامری کی طرح عارضی نہ ہو، اُن کے کمال کا دامن قیامت کے دامن سے بندھا پاؤ گے، یہ اپنی صنعت میں کچھ کچھ تکلف بھی کریں گے۔ مگر ایسا جیسے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۵۹

گلاب کے پھول پر شبنم یا تصویر پر آئینہ، اِن کا تکلف بھی اصلی لطافت پر کچھ لطف زیادہ کرے گا، اصل کی کوبی پر پردہ نہ ہو گا، تم میر صاحب اور خواجہ میر درد کو دیکھو گے کہ اثر میں ڈوبے ہوں گے، سودا کا کلام باوجود بلندی مضمون اور چستی بندش کے تاثیر کا طلسم ہو گا۔

اتنی بات کا افسوس ہے کہ اس ترقی میں طبیعت کی بلند پروازی سے اوپر کی طرف رُخ کیا، کاش آگے قدم بڑھاتے تا کہ حُسن و عشق کے محدود صحن سے نکل جاتےاور اِن میدانوں میں گھوڑے دوڑاتے کہ نہ ان کی وسعت کی انتہار ہے نہ عجائب و لطائف کا شمار ہے، اس بات کو نہ بھولنا چاہیے کہ خان آرزو کی فیضِ صحبت نے ان نوجوانوں کے کمال کو اس طرح پرورش کیا جس طرح دایہ اپنے دامن میں ہونہار بچوں کو پالتی (دیکھو صفحہ نمبر ۱۴۸۶) ہے۔ میں نے طبقہ دوم اور سوم کے اکثر استادوں کے حال مجمل طور پر حواشی میں لکھ دیئے ہیں اور اکثر کے نام و کلام سے یہ جام خالی ہے، حقیقت میں اُن سبکو اُردو کی اصلاح کا حق حاصل ہے، لیکن اپنے اُستادوں اور بزرگوں سے یہی سُنا کہ مرزا جانجاناں، سودا، میر، خواجہ میر درد چار شخص تھے جنھوں نے زبان اُردو کو خراد اُتارا ہے۔

ہمارے زبان دانوں کا قول ہے کہ ۶۰ برس کے بعد ہر زبان میں ایک واضح فرق پیدا ہو جاتا ہے، طبقہ سوم کے اشخاص جو حقیقت میں عمارت اُردو کے معمار ہیں انھوں نے بہت سے الفاظ پُرانے سمجھ کر چھوڑ دیئے، اور بہت سی فارسی کی ترکیبیں جو مصری
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۶۰

کی ڈلیوں کی طرح دودھ کے ساتھ منہ میں آتی تھیں انھیں گُھلایا، پھر بھی بہ نسبت حال کے بہت سی باتیں اُن کے کلام میں ایسی تھیں کہ اب متروک ہیں، چنانچہ فارسیت کی ترکیبوں کے اشعار دیباچہ میں لکھے گئے۔ (دیکھو صفحہ ۵۹، ۶۰)

لیکن پُرانے الفاظ جو اب متروک ہیں ان کی مثال کے چند اشعار میر اور مرزا اور خواجہ میر درد کے کلام سے لکھتا ہوں پھر بھی انصاف سے نہیں گزرا جاتا، ان میں اپنی اپنی جگہ ایک ایک لفظ ایسا جڑا ہوا ہے، جسے اٹھانا مشکل ہے۔

ہوتا تھا مجلس آرا گر غیر کا تو مجھ کو
مانند شمع مجلس کاہے کو تیں جلایا

نقاش دیکھ تو میں کیا نقش یار کھینچا
اس شوخ کم نما کا نِت انتظار کھینچا

دیر و حرم میں کیونکہ قدم رکھ سکے گا میر
ایدھر تو اس سے بُت پھرا ادھر خدا پھرا

ٹک بھی نہ مڑ کے میری طرف تو نے کی نگاہ
ایک عمر تیرے پیچھے میں ظالم لگا پھرا

گل و آئینہ کیا؟ خورشید و مہ کیا
جدھر دیکھا تدھر تیرا ہی رو تھا

فقیرانہ آئے صدا کر چلے
میاں خوش رہو ہم دُعا کر چلے

رسم قلمرو عشق مت پوچھ تو کہ ناحق
ایکوں کی کھال کھینچی ایکوں کا وار کھینچا

لوہو لگتا ہے ٹپکنے جو پلک ماروں ہوں
اب تو یہ رنگ ہی اس دیدہ اشک افشاں کا

کیونکر تمھاری بات کرے کوئی اعتبار
ظاہر میں کیا کہو ہو سخن زیر لب ہے کیا

سیمیں تنوں کا ملنا چاہے ہے کچھ تمول
شاہد پرستیوں کا ہم پاس زر کہاں ہے

تابمقدور انتظار کیا
دل نے اب زور بے قرار کیا

خونِ جگر ہو بہنے لاگا
پلکوں ہی پر رہنے لاگا​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۶۱

پی پی کے اپنا لوہو رہیں گو کہ ہم ضعیف
جُوں رینگتی نہیں ہے انھوں کے تو کان پر

کیفیتیں ہزار ہیں اس کام جاں کے بیچ
دیتے ہیں لوگ جان تو ایک ایک آن پر

تازہ جھمک تھی شب کو تارونمیں آسمانکی
اِس آسیا کو شاید پھر ہے کنہو نے ہارا

زمانہ نے مجھ جرعہ کش کو ندان
کیا خاک و خشت سر خم کیا

دِل لے کے میری جان کا دشمن ہوا ندان
جس بیوفا سے اپنے تئیں پیار ہو گیا

گہے خونِ جگر گہ اشک گاہے لختِ دل یارو
کسی نے بھی کہیں دیکھا ہے یہ بستار رونیکا

کہا تھا میں نہ دیکھو غیر کی اور
سو اُس نے آمجھ مجھ سے ہی چھپائی

آنکھوں نے میر صاحب قبلہ سِتم کیا
حضرت بُکا کیا نہ کرو رات کے تئیں

باہر نہ آتا چاہ سے یوسف جو جانتا
لے کارواں مرے تئیں بازار جائے گا

ہز ذرہ خاک تیری گلی کی ہے بے قرار
یاں کونسا ستم زدہ ماٹی میں رُل گیا

آتشِ تیر جدائی سے یکایک اس بن
یوں جلا دِل کہ تنک جی بھی جلایا نہ گیا

رہے خیال تنک ہم بھی رُوسیاہوں کا
لگے ہو خون بہت کرنے بے گناہوں کا

ہو اس سے جہاں سیاہ تد بھی
نالہ میں مرے اثر نہ ہو گا

مت رنج کر کسی کو کہ اپنے تو اعتقاد
دل ڈھائے کر جو کعبہ بنایا تو کیا ہوا

بس طبیب اُٹھ جا مرے بالیں سے مت دے دردِ سر
کامِ جاں آخر ہوا اب فائدہ تدبیر کا؟

دل کی ویرانی کا کیا مذکور ہے
یہ نگر سو ۱۰۰ مرتبہ لوٹا گیا

حیف دے اُن کنے اسوقت میں پہنچا جس وقت
اُن کنے حال اشاروں سے بتایا نہ گیا

لگوائے پتھرے اور پُرا بھی کہا کئے
تم نے حقوق دوستی کے سب ادا کئے

ایسے وحشی کہاں ہیں اے خوباں
میر کو تم عبث اُداس کیا​
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top