شمشاد
لائبریرین
صفحہ ۱۴۲
یا متحرک را ساکن را متحرک، مَرض را مرض و نیز الفاظِ ہندی مثل نین، و جگ دست وغیرہ و لفظ مرا، و میرا، و ازیں قبیل کہ براں قباحت لازم آید، یا بجائے سی ستی، اُدھر را، اودھر، و کدھررا، کیدھر کہ زیادتی حرف باشد، یا بجائے پر، پہ یا، یہاں را، یاں، و، وہاں را واں، کہ در مخرج تنگ بود، یا قافیہ، را، با، ڑا، ہندی، مثل گھوڑا و بورا، دھڑ و سر، و مانند آں، مگر ہائے ہنوز را بدل کردن با الف کہ از عام تا خاص محاورہ دارند، بندہ دریں امر متابعت جمہور مجبوراست، چنانچہ بندہ رابندا، و پردہ را پردہ و انچہ ازیں قبیل باشد دایں قاعدہ را تاکہ شرح و ہد، مختصر کہ لفظے غیر فصیح انشاء اللہ نخواہد بود۔
مضمون ان کے صاف عاشقانہ و عارفانہ ہیں، شعر آپس کی باتیں اور زبان شُستہ و رُفتہ ہے لیکن لفظ اَب، اور یہاں وغیرہ زائد اکثر ہوتے ہیں، غرض اسی دیوان کے دیباچہ میں اپنے شاگردوں کی ذیل میں ۴۵ آدمیوں کے نام درج کرتے ہیں، انھی میں مرزا رفیع بھی ہیں، میاں ہدایت (اُردو کے ایک فصیح اور باکمال شاعر تھے، خواجہ میر درد کے ہمعصر تھے اور ان سے بھی اصلاح لیتے تھے، چنانچہ انہی کا شعر ہے :
سودا کے ذکر میں ایک لطیفہ اِن کے حال سے متعلق ہے (دیکھو صفحہ ۲۵۸)) کی زبانی ہدایت ہے کہ شاہ حاتم جب سودا کی غزل کو اصلاح دیتے تھے تو اکثر یہ اشعار پڑھا کرتے تھے :
اور احباب سے کہتے تھے کہ یہ شعر صائب نے میری اُستادی اور مرزا رفیع کی
یا متحرک را ساکن را متحرک، مَرض را مرض و نیز الفاظِ ہندی مثل نین، و جگ دست وغیرہ و لفظ مرا، و میرا، و ازیں قبیل کہ براں قباحت لازم آید، یا بجائے سی ستی، اُدھر را، اودھر، و کدھررا، کیدھر کہ زیادتی حرف باشد، یا بجائے پر، پہ یا، یہاں را، یاں، و، وہاں را واں، کہ در مخرج تنگ بود، یا قافیہ، را، با، ڑا، ہندی، مثل گھوڑا و بورا، دھڑ و سر، و مانند آں، مگر ہائے ہنوز را بدل کردن با الف کہ از عام تا خاص محاورہ دارند، بندہ دریں امر متابعت جمہور مجبوراست، چنانچہ بندہ رابندا، و پردہ را پردہ و انچہ ازیں قبیل باشد دایں قاعدہ را تاکہ شرح و ہد، مختصر کہ لفظے غیر فصیح انشاء اللہ نخواہد بود۔
مضمون ان کے صاف عاشقانہ و عارفانہ ہیں، شعر آپس کی باتیں اور زبان شُستہ و رُفتہ ہے لیکن لفظ اَب، اور یہاں وغیرہ زائد اکثر ہوتے ہیں، غرض اسی دیوان کے دیباچہ میں اپنے شاگردوں کی ذیل میں ۴۵ آدمیوں کے نام درج کرتے ہیں، انھی میں مرزا رفیع بھی ہیں، میاں ہدایت (اُردو کے ایک فصیح اور باکمال شاعر تھے، خواجہ میر درد کے ہمعصر تھے اور ان سے بھی اصلاح لیتے تھے، چنانچہ انہی کا شعر ہے :
ہدایت کہا ریختہ جب سے ہم نے
رواج اُٹھ گیا ہند سے فارسی کا
رواج اُٹھ گیا ہند سے فارسی کا
سودا کے ذکر میں ایک لطیفہ اِن کے حال سے متعلق ہے (دیکھو صفحہ ۲۵۸)) کی زبانی ہدایت ہے کہ شاہ حاتم جب سودا کی غزل کو اصلاح دیتے تھے تو اکثر یہ اشعار پڑھا کرتے تھے :
از ادب صائب خموشم ورنہ در ہردا دیئے
رتبہ شاگردیِ من نیست اُستادِ مرا
رتبہ شاگردیِ من نیست اُستادِ مرا
اور احباب سے کہتے تھے کہ یہ شعر صائب نے میری اُستادی اور مرزا رفیع کی