بھنور کے ساتھ اُلجھتی ہوئی صدا کو سُنا
پھر اُس کے بعد سماعت ہی ساتھ چھوڑ گئی
تم ایک شخص کے چھٹنے کے دکھ میں بیٹھے ہو
یہاں تو پوری جماعت ہی ساتھ چھوڑ گئی
یہ نہ کہو کہ شمعیں نہ جلاؤ ہمیں اندھیروں سے محبت ہے
شمعیں کرو روشن ، مگر وہ ! جن سے دل کے اندھیرے چھٹ جائیں گے
کرو ضمیر روشن کہ بدل جاتی ہیں دیوانوں کی تقدیریں
ضمیروں کے روشن ہونے سے ظلم کے بادل چھٹ جائیں گے
قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت
یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلماں
جس سے جگر لالہ میں ہو ٹھنڈک وہ شبنم
دریاؤں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفاں
(علامہ محمد اقبال)
وسلام