تری رفاقت کی چھاؤں میری حیات بھی کائنات ھی اور نجات بھی ہے
مگر یہ مجھ میں جو شاعری کی فضائیں ہموار کر رہا ہے وہ تو نہیں ہے
یہ چار شامیں جو معتبر سی فضا میں ہم نے گذار لی ہیں تو یہ غنیمت
اب اس سے آگے جو منتظر ایک چراغ آثار راستہ ہے وہ تو نہیں ہے
میں مانتی ہوں کہ میرے خوابوں میں تیری خوشبو کی چاندنی بھی کہیں کہیں تھی
یہ شعر لیکن میرے حوالے سے جس کو تسلیم کر رہا ہے وہ تو نہیں ہے
وصال موسم کے خواب میں تھی یا ہجر کے بے نشان دکھ کے عذاب میں ہوں
جو سایہ اکٹھا کر کے دکھوں سے مجھ کو نکالتا ہے وہ تو نہیں ہے
نوشی گیلانی