رنگ ہو یا خشت و سنگ، چنگ ہو یا حرف و صوت
معجزہ ِ فن کی ہے خون ِ جگر سے نمود
(اقبال)
آخرِ شب کے ہم سفر فیض نجانے کیا ہوئے
رہ گئی کس جگہ صبا، صبح کدھر نکل گئی
صاحبِ ساز کو لازم ھے کہ غافل نہ رھے
گاہے گاہے غلط آہنگ بھی ہوتا ھے سروش
(اقبال)
دشتِ نادیدہ کی تحقیق ضروری ھے مگر
پہلے جو آگ لگی ھے وہ بجھا دی جائے
صرف سورج کا نکلنا ھے اگر صبح تو پھر
اک شب اور میری شب سے ملا دی جائے